انڈیا اتحاد اور مسلم نمائندگی

Spread the love

انڈیا اتحاد اور مسلم نمائندگی !

تحریر: جاوید اختر بھارتی

لگتا ہے کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات کی ہوا چلنے لگی ہے بی جے پی کچھ زیادہ ہی سرگرمیاں دیکھا رہی ہے رام مندر کی افتتاحی تقریب سے متعلق بھی سیاست ہی نظر آئی اور انتخابی حکمت عملی کی ہی جھلک آئی دوسری طرف اپوزیشن پارٹیاں بھی کہیں اتحاد کی بات کرتی ہیں تو کہیں مختلف قسم کے پروگرام کرتی ہیں۔

اور مختلف قسم کا نام دیتی ہیں ،، دیکھا جائے تو ایک طرف حکومت بچانے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسری طرف حکومت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ایک پارٹی کا نظریہ ہے کہ مسلمان ووٹ دیں تو واہ واہ اور نہ دیں تو بھی واہ واہ باقی پارٹیاں مسلمانوں کو لبھانے کی کوششیں کررہی ہیں مگر کچھ دینے کے لیے تیار نہیں ہے بس مسلمانوں کا ووٹ چاہیے اور سچائی بھی

یہی ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک سبھی سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو تیز پتہ کے ہی طور پر استعمال کیا ہے کبھی مسلم قیادت کو ابھارنے کی کوشش نہیں کی اور ابھرنے بھی نہیں دیا چاہے مرکزی و صوبائی کسی کی بھی حکومت رہی ہو اگر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں تو قصور وار مسلمانوں کو ہی ٹھہرایا گیا ہے اندھا دھند گرفتاریاں مسلمانوں کی ہی ہوئی ہیں جانی اور مالی نقصان بھی زیادہ مسلمانوں کا ہی ہوا ہے۔

2024 کے پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر ہونے والی سیاسی صف بندی پر ہی نظر ڈالئے تو اس میں بھی کسی مسلم قیادت کو جگہ نہیں دی گئی اس کے باوجود بھی یہ پارٹیاں اپنے آپ کو سیکولر کہلاتی ہیں

حالاں کہ نئی سیاسی صف بندی میں بھی کوئی طاقت نظر نہیں آتی ابھی تک تو مان منول کا ہی سلسلہ چل رہاہے بیانات بھی ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے اور نظریات بھی ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے لیکن ایک بات پر سب متفق نظر آتی ہیں کہ مسلمانوں کا صرف ووٹ لینا ہے انہیں سیاسی صف بندی میں شامل نہیں کرنا ہے،، ہمارے ملک جمہوریہ ہند میں اسی سال پارلیمانی انتخابات ہونا ہے

اور اس انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تمام سیاسی پارٹیاں حکمت عملی مرتب کرنے میں سرگرم ہیں یہاں تک کہ موجودہ بی جے پی حکومت کے خاتمے کے لئے اور نئی حکومت کے قیام کے لئے تمام اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد بھی قائم ہوچکاہے لیکن روزانہ ڈگمگا بھی رہا ہے اور کیوں نہ ڈگمگائے کہ اس اتحاد نے ملک کے مسلمانوں کو اور مسلم قیادت کو نظر انداز کیا ہے بہت سی پارٹیاں جن کے پاس دو دو چار چار سیٹیں ہیں تو ان کی سفارش کی جارہی ہے۔

لیکن انہیں پارٹیوں میں ایم آئی ایم اور پیس پارٹی کو شامل نہیں کیا گیا تو اس اتحاد میں شامل سیاسی پارٹیاں بھی تو مسلمانوں کو ویسا ہی سمجھ رہی ہیں جیسا بی جے پی سمجھتی ہے لیکن ہاں بی جے پی برسراقتدار پارٹی ہے اس کا عروج ہے اس کے پاس طاقت بھی ہے اور پاور بھی ہے

مگر اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد تو ایک ایسا غبارہ ہے کہ ابھی اس میں ہوا بھی نہیں رکتی ہے یعنی ہوا بھرنے کا بھی سلسلہ جاری ہے تو سوراخ ہونے کا بھی سلسلہ جاری ہے کانگریس کو کبھی سماجوادی پارٹی آنکھ دیکھاتی ہے تو کبھی ممتا بنرجی آنکھ دیکھاتی ہیں اور ادھر تازہ ترین جو منظر سامنے آیا اس سے تو انڈیا اتحاد پوری طرح بکھر گیا

نتیش اور لالو کا اتحاد ٹوٹ گیا کیونکہ نتیش کمار کا دل پھر بی جے پی کے لیے دھڑک گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کچھ کا کچھ ہوگیا جبکہ نتیش کمار کو انڈیا اتحاد میں وزیر اعظم کے طور پر دیکھا جارہا تھا پٹنہ سے دہلی ممبئی سب کو جمع کرنے کی ذمہ داری نتیش کمار اپنے کاندھوں پہ لیے تھے لیکن ایک جھٹکے میں انہوں نے وہی کام کیا جس کا اکثر و بیشتر اندیشہ رہاکرتا تھا ،،

یہاں ایک بات نہیں سمجھ میں آتی ہے کہ آخر اپوزیشن پارٹیاں بھی کانگریس سے کیوں بھڑکتی ہیں کیا بی جے پی کی طرح اپوزیشن پارٹیاں بھی کانگریس مکت بھارت ہیں ؟

یہ سوال تو پیدا ہوتا ہی ہے یا پھر ان پارٹیوں کے لیڈروں کے ذہن میں یہ بات آتی ہو کہ کہیں کانگریس کے پھر پرانے دن واپس نہ آجائیں اور ہمارا سیاسی وجوہ خطرے میں نہ پڑجائے یاکہ پھر راہل گاندھی پیدل مارچ کے باوجود بھی حال ہی میں ہوئے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتحابات سے مایوسی کا شکار ہوتے ہوں بہر حال کچھ نہ کچھ وجہ تو ہے جس کی وجہ سے تمام پارٹیاں کانگریس کے ساتھ چلنے سے کتراتی ہیں

اس کے بعد بھی نہ کانگریس کو مسلم قیادت کو ساتھ لینے کی فکر ہے اور نہ دوسری سیاسی پارٹیوں کو فکر ہے اب ایسی صورت میں مسلمانوں کو نمایندگی نہ دے کر اور مسلم قیادت کو شامل نہ کرکے تو اس اتحاد کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا ،،

اور مسلمانوں کو بھی آنے والے پارلیمانی انتخابات میں واضح کرنا ہوگا کہ ہمیں نظر انداز کرکے کوئی بھی سیاسی اتحاد کامیاب نہیں ہوسکتا اور اب تو مسلمانوں کو ان پارٹیوں کا ساتھ چھوڑ ہی دینا چائیے جو کبھی ٹوپی لگالیتے ہیں 

کبھی رومال ڈال لیتے ہیں یعنی آئے دن بہروپیہ کا رول ادا کرتے ہیں بلکہ اب کسی نہ کسی کو قائد تسلیم کرنا ہوگا اور اس قائد کے سیاسی قد کو بلند کرنا ہوگا تبھی مسلمانوں کے لئے عافیت کا ماحول قائم ہوگا ،، دوسروں کو مسلمانوں نے رفیق الملک کا خطاب دے کر دیکھ لیا، مسیحا کہہ کر مان کر دیکھ لیا، ہم درد مان کر دیکھ لیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ نہ مدارس محفوظ ہیں اور نہ مساجد محفوظ ہیں

اب تو خانقاہوں اور مقبروں کو بھی نشانے پر لینے کی کوشش کی جانے لگی کوئی اشتعال انگیزی کرتاہے اکساتا ہے مسلم علاقوں اور مساجد کے قریب میں بھدے بھدے الفاظ میں نعرے لگاتا ہے تو منع کرنے کی صورت میں بھی قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،، رام مندر کے افتتاح کے بعد ماحول بہت تیزی سے بدلا ہے خوشی بھی منائی جاتی ہے تو اس موقع پر بھی ایک بہت بڑے طبقے کو تکلیف پہنچانے کی بے انتہا کوشش کی جاتی ہے،،

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات سے کیسے نمٹا جائے آئے دن قومی یکجہتی کے نام کا اسٹیج لگایا جائے، اپنی بے بسی کا رونا رویا جائے ، ان کی ٹوپی ان کے سر اور ان کی ٹوپی ان کے سر پر رکھنے والوں اور خود کو سیکولر کہنے والی سیاسی پارٹیوں پر بھروسہ کیا جائے؟؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ آئین کا سہارا لیا جائے جمہوری نظام کا فائدہ اٹھایا جائے اور ووٹوں کی طاقت کو سمجھا جائے اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے جتنی مسلم سیاسی پارٹیاں اور رہنما ہیں

ان میں جو مضبوط ہو جس کی کچھ سیاسی شناخت ہو اسی کو اپنا ووٹ دیکر مزید اس کی طاقت کو بڑھایا جائے تاکہ جھوٹے سیکولر ازم کا دھڈورا پیٹنے والوں کا چہرہ بے نقاب ہو جائے مسلمانوں کو ووٹ بنک کے طور پر استعمال کرنے والی پارٹیوں کی کشتی میں سوراخ ہوجائے اور آئین و جمہوریت کی روشنی میں مسلمانوں کی سیاسی شناخت قائم ہوجائے دنیاوی مسائل کا یہی ایک واحد حل ہے اور دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے ،،

سیاست سے دوری کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو کرکٹ کے میدان کا بارہواں کھلاڑی سمجھا جاتاہے،، اس لیے مسلمان بھی اب سنجیدگی کے ساتھ غور کرے کہ 75 سال میں سیاسی پارٹیوں نے کتنا وعدہ کیا اور کتنا نبھایا اور آج ہم کس مقام پر ہیں اس کے بعد عزم و حوصلے کے ساتھ فیصلہ لے کہ دینی اعتبار سے اس راہ پر چلنا ہے جو راستہ بارگاہ خداوندی تک جاتاہے اور دنیاوی اعتبار سے اس راستے پر چلنا ہے جو راستہ پارلیمنٹ اور اسمبلی تک جاتاہے اور اسی میں بہتری و بھلائی ہے ۔

جاوید اختر بھارتی

(سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین)

محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

javedbharti508@gmail.com

خدارا اب فرقوں کی نہیں دین کی باتیں کریں

One thought on “انڈیا اتحاد اور مسلم نمائندگی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *