اللہ کی خاطر، ناصرِ دین رحمت بن جاؤ

Spread the love

 كُونُوْا أَنْصَارَ اللّهِ ( اللہ کی خاطر، ناصرِ دین رحمت بن جاؤ  ! )( قسط :۲ ) قسط اول پڑھنے کے لیے کلک کریں 

محمد عبدالحفیظ اسلامی

سینئر کالم نگار حیدرآباد

انصار اللہ بننے کے لیے کارکنان اسلامی کو یہ بات خوب یادرکھنی چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ نفوس قدسیہ

“جماعتِ صحابہ ” یہ ایسے افراد بشر تھے جنہوں نے ناصرِ دین ِ رحمت ہونے کا عملی ثبوت جو فراہم کیا، ان کی عظیم قربانیوں کو سامنے نہ رکھا جائے تو داعیانہ کردار کے عملی نمونہ ہمارے سامنے نہیں آسکتے جو نبیؐ کی سیرت پاک و عملی حیات کے بعد ہمارے لیے مشعل راہ ہے !!!۔

ان سعید روحوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو دنیا میں پھیلانے اور اس کی جدوجہد میں اپنی جسمانی , خاندانی و مالی اور جانی ہرطرح کی قربانیاں پیش فرما دیں۔

ان کے یہ سارے کارنامےخدمت حق کا عظیم کام انجام دینے والوں کیلئے قیامت تک کیلئے نقوش راہ ہیں۔اور یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نبیؐ کو اللہ نے سچے ساتھی (صحابہؓ) عطا فرمائے تھے کہ دنیا کی کسی اور قائد کو حاصل نہ ہوئے۔ہجرت سے لے کر فتح مکہ اور بعد کے ادوار میں بھی جو جو آزمائشیں ان پر گزری ہیں وہ تو انکا ہی جگر تھا کہ اپنے عمل سے دنیا کو یہ دیکھلادیا کہ

دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے

!بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے!

مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ’’کونو انصاراللہ ‘‘ کے ضمن میں یوں تحریر فرمایا کہ ’’صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس حکم کی تکمیل ایسے کی کہ پچھلی اُمتوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد اور دین کی خاطر سب عرب وعجم سے دشمنی خریدی، ان کی ایذائیں سہی، اپنی جان ومال اور اولاد کو اس پر قربان کیا اور بالآخر اللہ تعالیٰ نے اپنی فتح و نصرت سے نوازا۔

اور سب دشمنوں پر اُن کو غالب فرمایا، اُن کے ملک اِن کے ہاتھ آئے اور ان کی فرمانروائی بھی اُن کو نصیب ہوئی۔ (معارف القرآن جلد ہشتم صفحہ :429)

اور اسی طرح مفکر اسلام مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمت اللہ علیہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمین کے دین کی خاطر قربانیاں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی جانثاریاں اور ان کے ’’اخلاص فی الایمان ‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت اور ان کی اجتماعیت میں نظم وضبط کی پابندی اور ان کے اپنے رب سے اٹوٹ وابستگی اور تعلق و دیگر اوصاف حمیدہ کو اپنی تفسیر تفہیم القرآن کی جلد پنجم کے صفحات (4‘7‘34‘35‘37 ‘38‘ 45‘ 46‘61 ‘245‘367 ‘407‘408) میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین کی عظمت وشان کو واضح فرمایا جسے پڑھنے سے قارئین کے دل میں اللہ کی محبت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت واطاعت ‘ پروان چڑھتی ہے۔ دوسری جانب صحابہؓ کی سیرت پر غور کرنے سے ایمان لانے والے بندوں میں ارتقائی و حرکیاتی کیفیت وجود میں آتی ہے۔

درج ذیل اس کا کچھ خلاصہ پیش خدمت ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر ایمان لانے والے اور حق کو حق سمجھ کر قبول کرنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمین کی دین کیلئے سچی جانثاریاں دیکھئے جنہوں نے دنیا کو امن و سلامتی کا پیغام سنانے، دنیا کی ذلت وآخرت کی رسوائی سے بچانے بحیثیت خیر امت اپنا فریضہ انجام دینے اور نبیؐ کی قیادت میں اٹھنے والی اسلامی تحریک کا ساتھ دینے کا کامل ارادہ کرلیا تھا اور اس کے لیے ہر نازک سے نازک موقع پر اپنا صالح و مخلص کردار ادا فرمایا۔

خواہ معاملہ بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا ایمان پر ثابت قدمی کا ہو یا مکہ کے پر خطر حالات میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا حرم کعبہ میں‘ سورۃ رحمن کی آیات کا بلند آواز میں تلاوت کرنا اور جس کے نتیجہ میں باطل پرستوں و شرپسندوں کی طرف سے دی جانے والی اذیت و تکلیف کو خوشی خوشی برداشت کرنا، اس طرح کا کردار ادا کرنے والے صحابہؓ کو اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کواور بھی زیادہ مضبوط فرما دیا یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی سچی محبت نے ان کے ایمان و یقین میں اضافہ ہی اضافہ کردیا۔

حضرت خبابؓ کا ایمان پر صبرواستقلال بھی قیامت تک کے لیے اہل ایمان کو حوصلہ وہمت بخشتا ہے کہ انہوں نے اسلام کی محبت میں اپنے جسم کو جیتے جی جھلسا دینا پسند کیا لیکن اسلام سے منحرف نہ ہوئے۔ یہ تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمین کے کچھ روشن نمونے تھے، جسکی تفصیل تو بڑی طویل ہے۔

مختصر یہ کہ مکہ سے ہجرت سے لے کر معرکہ بدر پھر اس کے بعد کئی ایک معرکوں میں قربانی پیش کرنا یہ ایسے صالح ومخلص اعمال ہیں جس کی وجہ سے اللہ نے ایمان و یقین ہمت وحوصلہ ان کے دلوں میں ثبت فرمادیا جس کی گواہی (سورۃ المجادلہ آیت : 22 میں اس طرح موجود ہے)

اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کے سینے میں ایمان کو ثبت کردیتا اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کرکے ان کو قوت بخشتا ہے تواس روحانی قوت کے تجلیات و برکات کبھی حضرت بلال حبشی تو کبھی خباب بن الارت اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمین کی نیک سیرتوں میں نظر آتے ہیں۔

یہی روحانی قوت کی برکات ہیں کہ معرکہ بدر واُحد کے آزمائش میں انھیں ایمانی رشتہ کو خونی رشتہ پر مقدم رکھنے کیلئے بلا جھجک آمادہ و تیار کیا‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین کی نبیؐ سے عقیدت و محبت بھی بے نظیر تھی۔ دنیا نے ایسے اصحابؓ محمدؐ کو نہیں دیکھا کہ اپنے رہنما ورہبر اور مربی اعظم ورحمت عالمؐ پر فدائیت کا ثبوت فراہم کرچکے ہوں۔

ان کی والہانہ وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ آپؐ جب وضو بناتے ہوتے تو یہ اصحابؓ اس کے پانی کو زمین پر گرنے سے پہلے ہاتھوں ہاتھ لے لیتے، اپنے بدن اور لباس پر مل لیا کرتے، اور حقیقت بھی یہ ہے کہ ’’نحن انصار اللہ‘‘ کا اقرار کرنے اور اس کا عہد کرنے کے بعد اس کا عین تقاضہ یہ ہے کہ اپنے نصب العین کے حصول کے لیے اپنے سردار سے عقیدت و محبت اور الفت وفدائیت بھی انتہائی ضروری ہے۔ جس کے بغیر سمع وطاعت ممکن نہیں، یہی وہ خوبی تھی کہ صحابہؓ کے شب وروز میں ادھر نبی ﷺ کا حکم ہوا ادھر فرمانبرداری بجا لانے کے لے تیار و کوشاں رہتے تھے۔

ذرا ان حضرات صحابہؓ کے نظم وضبط کی پابندی بھی دیکھیے کہ انہوں نے دین سے عداوت رکھنے اور دشمنی کرنے والے لوگوں کی برائی کا برائی سے جواب نہیں دیا بلکہ مخالفین کی ہٹ دھرمی اور زیادتی پر کبھی مشتعل نہ ہوئے اور ایک پابند ڈسپلین اجتماعیت کے افراد کا مظاہرہ کیا‘ اور آپے سے باہر ہوکر انہوں نے انسانیت، شرافت، بردباری اور راستی کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا کیونکہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی اور تربیت فرمائی کہ بڑے سے بڑے مشکل حالات میں بھی صبر و استقامت کی حکمت عملی برتی جائے تاکہ حالات بگڑے نہیں۔

کیوں کہ باطل کی مکروہ حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی طاقت و کثرت ‘ جاہ وجلال کے گھمنڈ وغرور میں مبتلا ہوکر جب چاہے جیسے چاہے حالات کو بگاڑنے کی کوششیں کرتا ہے تاکہ لوگوں پر اپنا رعب طاری کردیا جائے۔ ایسے نازک حالات و موقع پر حق پرستوں کا شیوہ یہ ہونا چاہیے کہ صبر و استقامت‘ جفاکش و مشقت اور سختی جھیلنے کا پیکر بنے رہے جس کے بغیر مومنانہ تحمل ممکن نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بندہ مومن، اپنے بھائیوں (اولاد آدم) کو خواہ وہ کسی مذہب و ملت سے تعلق رکھتے ہوں ان سب کا خیرخواہ ہوتا ہے، اسے جس طرح اپنی آخرت کی فکر ہوتی ہے اسی طرح دیگر بندگانِ خدا کو بھی آخرت کی سختیوں اور خدا کی ناراضگیوں سے بچانے کی فکر کرتا ہے۔

اسی لیے ‘ خدا پر ایمان لا کر یہ دلِ مہربان بندہ ٫،مسلم٫، انسانی اقدار و اخلاق ‘ تحمل مزاجی اور صبر کی خوبی کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتا ہے اور اپنے صالح مقصد میں کامیاب ہوتا ہے۔سورۃ الفتح کی آیت 4 میں اللہ تعالیٰ صبر کرنے، حوصلہ دکھانے اور نظم وضبط کی پابندی کرنے والوں کو کس طرح سے سکینت واطمنان قلب عطا کرتا ہے اس کا ذکر فرمایا:هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَیہ تھے صحابہ کرامؓ کے اوصاف حمیدہ اور رسول برحق کی متبرک قیادت پر بھر پور اعتماد کرنے والے۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر جو معاہدہ ہورہا تھا جو سراسر یکطرفہ تھا اور بظاہر ایسا ہی نظر آرہا تھا، جب یہ معاہدہ تحریر کیا جانے لگا تو یہ لکھا گیا تھا کہ یہ معاہدہ ’’محمد رسول اللہ اور قریش کے مابین ہوا‘‘ اس پر نکتہ اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ ہم (قریش) آپ کو اللہ کا رسول نہیں مانتے، لہٰذا ’’محمد بن عبداللہ اور قریش کے درمیان معاہدہ ہے‘‘ لکھا جائے۔

چناں چہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بھی راضی ہوگئے۔ اس کے علاوہ اس معاہدہ میں جتنی بھی شرائط درج کی جارہی تھیں وہ سب کے سب دب کر صلح کرنے جیسی تھیں، اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمین کی جو کیفیت تھی جس میں ان کے قلوب جذبہ ایمانی سے سرشار ، شدید اضطرابی صورت اختیار کرگئے،دوسری چیز یہ کہ اس معاہدہ میں یہ شرط بھی تھی کہ مسلمان اس سال عمرہ ادا نہ کریں، واپس جائیں، البتہ آئندہ سال وہ عمرہ کرسکتے ہیں۔

اس طرح یہ شرط بھی اللہ کے حبیبؐ کے محبین صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمین کے دل و دماغ پر شاق گذر رہی تھی کہ انہوں نے اپنی دلی تمنا اپنے ساتھ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرہ کرنے میلوں کا سفرطے کرکے آئے اور بغیر عمرہ کیے لوٹنا پڑرہا ہے۔

لیکن قربان جائیں ان نفوس قدسیہ پر کہ انھوں نے اپنی دلی تمنا آرزو اور اپنے جذبات کو اپنے نبی ﷺ کی مرضی اور فیصلوں پر ترجیح نہیں دی اور اسی طرح آپ ﷺ نے سب لوگوں کو حکم دے دیا کہ احرام کھول دیں، اپنی قربانی دے دیں، اس وقت بھی صحابہؓ کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور کعبۃ اللہ کا طواف نہ کرنے کا غم موجود تھا لیکن جب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پہلے اپنا احرام کھول دیا تو سارے صحابہ آپ کی اتباع و پیروی کرتے ہوئے سب نے احرام کھولا، قربانی دی۔

یہ تھے ’’وہ انصار نبیؐ‘‘ جنہوں نے مکہ کے ابتدائی دورمیں اپنی جان ہتھیلی میں لے کر نبیؐ کا ساتھ دیا اور ہجرت سے قبل تک اور ہجرت کے موقع پر اور ہجرت کے بعد بھی اس طرح ایک طرف جماعت مہاجرین دوسری طرف جماعت انصار، انہوں نے آپس میں شیر وشکر ہوکر ہر نازک موڑ پر اپنے نبیؐ و رسولؐ کی خدمت میں عملی ‘ اعتقادی اور جانی ومالی ہر طور پر قربانیاں پیش فرمالی، یہ تھا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمین کا قولی وعملی طور پر یہ کہنا کہ ’’نحن انصار اللہ‘‘ اس پر دم آخر تک قائم رہے۔

مختصر یہ کہ صحابہؓ کرام کی دین حق، دین رحمت کے ساتھ سچی وابستگی اپنے قائد اعظم، رحمت عالم سے عقیدت ومحبت کے علاوہ نظم و اجتماعیت کی پابندی اور اس طرح کے دیگر اوصاف حمیدہ ہیں جس پر اللہ تعالیٰ کی شہادت و گواہی موجود ہے۔ چنانچہ سورۃ الفتح آیت 29 میں ارشاد باری تعالیٰ یوں ہوا: وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا صحابہ کرامؓ میں یہ جو بشارت دی گئی ہے اور مغفرت واجرعظیم کا جو وعدہ کیا جارہا ہے یہ سب کچھ صرف اور صرف حق سے محبت، باطل سے نفرت، اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کی پابجائی، خلوص نیت کے ساتھ حق کی حمایت میں ڈٹ جانا اور منکرین حق کے مقابلہ میں سخت چٹان بن کر ٹھہرجانا وغیرہ۔ یہ ایسے اعمال بے نظیر تھے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کو پورا فرمایا اور آج بھی مسلمانوں سے یہ وعدہ ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّـهَ يَنصُرْكُمْ (سورۃ محمد آیت :7)اے ایمان والو! اگر تم اللہ کے دین کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔

آج اہل ایمان کو عالمگیر سطح پر مصائب و مشکلات کا سامنا ہے، اسلام و اسلام کو ماننے والوں سے بغض و عداوت عروج پر ہے۔ متفرق فکر و نظر کے حامل لوگوں نے اپنے آپسی اختلافات کے باوجود ’’دین حنیف اور دین حق‘‘ کی مخالفت پر اتفاق کرلیا ہے۔ مذہبی ‘ روحانی‘ اخلاقی و تمدنی کے علاوہ مادی و سیاسی اور تعلیمی میدانوں میں حق و باطل کی معرکہ آرائی گرم ہوتے دکھائی دے رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین بے حساب بڑی ہونے کے باوجود اہل ایمان پر تنگ کی جانے لگی ہے۔

ایسے نازک حالات میں گھبرانے و پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور اپنے اسلامی تشخص کے ساتھ جینے مرنے کا ہنر سیکھنا پڑے گا۔ اور یہ ہنر اور حوصلہ اسی وقت ہم میں پیدا ہوسکتا ہے کہ ہم ’’کونو انصار اللہ‘‘ کے جواب میں ’’نحن انصار اللہ‘‘ کہیں اور عملی طور پر اس کے لئے تیار ہوجائیں۔ اس کے لئے کتاب اللہ و سنت رسولؐ اللہ اور روش صحابہؓ کے نہج پر ہمارے درمیان اب جو بھی اجتماعیت پائی جاتی ہے اس کا تعاون کریں اور اس کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں، اللہ تعالیٰ جسے جتنی کچھ صلاحیت عطا فرمایا ہے اسے غلبہ دین کیلئے لگانا چاہیے۔

الحمدللہ آج بھی ہمارے اندر جذبہ ایمانی موجود ہے جس کا مظہر یہ ہے کہ قرآن پاک کے بارے میں ایک شمہ برابر توہین ہمارے لیے ناقابل‘ برداشت ہے۔ شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں رتی برابر گستاخی ہونے پر ہم جان کی بازی لگادینے کمربستہ ہیں، کسی بھی گوشہ سے عظمت صحابہ پر آنچ آتی ہو تو ہم فوری بیدار ہوجاتے ہیں۔

غرض کہ قرآن کا تقدس ہو یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عظمت کا معاملہ ہو یا پھر اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرچکے نفوس قدسیہؓ کی توہین سے تعلق رکھتا ہو ان سب کی محافظت کیلئے ہمارے باعظمت علماے  کرام سے لے کر غیرت مند عوام بھی تیار ہوجاتے ہیں اور یہ سب ایمان کی موجودگی کے مظاہر ہیں۔

’’حاصل کلام‘‘ ’’کونو انصار اللہ ‘‘ ’’من انصاری الی اللہ‘‘’’نحن انصار اللہ ‘‘ ان کلماتِ متبرکہ سے ہم کس طرح درس حاصل کریں، یہ اصل چیز ہے اور ہمارے لئے لمحہ فکر ہے۔ اس سلسلہ کی چند ضروری باتوں کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں، بالخصوص علم والوں کیلئے اس میں دعوت عمل ہے۔

(۱) عوام الناس میں نزول قرآن کے مقصد کو رکھا جائے۔

(۲) بعثت نبیؐ کے مقاصد کو واضح کیا جائے۔ یہ دوکام تو بلاکسی مذہب ملت ہونے چاہیے یعنی ’’هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ‘‘ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ بحیثیتِ خیر امت ،اصلاح ملت اسلامیہ کے ساتھ ساتھ ، ایمان کی لذت٫ مٹھاس وحلاوت سے نا واقف بندوں کو دعوت دین کے لیے منظم ہوکر اسے اپنا اہم فریضہ سمجھ کر اٹھیں اور نبی رحمتؐ کے مقصد بعثت کو پہلے ہم خود اچھی طرح سمجھیں !

کلام الٰہی اور ارشادات نبیؐ سے سبق {تعلیم دین} حاصل کریں !!!

“حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان میں سے ایک رسؐول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت کرے ، انہیں پاک و صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناً کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے” (آل عمران : 164) اس طرح قرآن حکیم کو ساری دنیا کی کتاب ہدایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلم کتاب و ہادی عالم کی حیثیت سے عوام الناس میں اجاگر کیا جانا بیحد ضروری ہے۔

اور تمام انبیاء علیہ السلام کا بنیادی مقصد بھی یہی رہا کہ اللہ کے بندے صرف اُسی کی بندگی کریں ؛ اِن متبرک انبیاء کرام علیہ السلام کے کام کے لیے اللہ تعالی ازوجل ہر دود میں ان کے معاون ومددگار “انصار اللہ” کی حیثیت سے خوش نصیب لوگوں کو اٹھاتارہا

آج ہم سے بھی قرآن یہی مطالبہ کر رہا ہے کہ اللہ کے خاطر، دین حق کی اقامت کے لیے اٹھو اسکے حامی، معاون اور ناصر بن جاو تاکہ اللہ تعالی تمہیں دنیا میں امن سکون اورآخرت میں سرخرو کردے ۔ لیکن جہاں دنیا میں انسان خود خدا بن بیٹھے خداکے بندوں پر اپنی خدائ چلانے لگے تو پھر بند گان خدا کی کثیر تعداد ؛حقیقی رب کا حق ادا کرنے سے رہ جاتی ہیے۔

آج انسانی معاشرے میں جو صورتحال نظر آرہی ہے ظلم و بربریت مشرکانہ عقائد اور حق تلفی و نا انصافی کا بازار گرم ہے یہ سب الہ واحد کی بندگی سے دوری کے عبرت ناک نتائج ہیں ۔

لہذا ، حقیقی مالک کی بندگی اور اسی کی کبرائی وبڑائ ، پورے طور پر قائم کرنے اور قائم رکھنے کی جدوجہد کے لیے کونوا انصار اللہ کے جواب میں ، نحن انصار اللہ کا عزم و قصد لیکر اٹھیں اور اسی کام میں اپنی ساری توانائیاں اللہ کے دین کے خاطر لگادیں۔ورنہ خود ہمارے لیے توحید باری تعالی پر چلنا دشوار ہوتے چلا جاے گا۔شاعر نے چند لفظوں میں بات سمجھاي وہ کہتے ہیں:کیسے کریں بندگی ظفؔر واںبندوں کی جہاں خدائیاں ہیں٭٭٭

ختم شد

محمد عبدالحفیظ اسلامی

سینئر کالم نگار حیدرآباد

Cell:9849099228

2 thoughts on “اللہ کی خاطر، ناصرِ دین رحمت بن جاؤ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *