مسلم سماج کے لیڈر ہمارے ساتھ نہیں
مسلم سماج کے لیڈر ہمارے ساتھ نہیں
تحریر: توصیف القاسمی (مولنواسی)
مشہور وکیل بھانو پرتاب صاحب کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر بہت تیزی سے وائرل ہو رہا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیڈرشپ ہمارے ساتھ نہیں اتی،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، “ وغیرہ وغیرہ ۔
میں سب سے پہلے محترم بھانو پرتاب صاحب کی اور دوسرے نمبر پر عام مسلمانوں کی غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں ، وہ یہ کہ گزشتہ 75 سالوں میں مسلمانوں نے اپنی کوئی سیاسی پارٹی نہیں اٹھائی ہاں ووٹ ضرور دیا ہے ، تو گزشتہ 75 سال کا مسلم ووٹ مکمل طور پر غیر مسلم لیڈرشپ کو ہی گیا ہے خواہ وہ براہِ راست ان کو دیا گیا ہو یا بالواسطہ مسلم لیڈرشپ کے ذریعہ دیا گیا ہو ، تو کیا آپ گزشتہ 75 سالوں کا حساب دیں گے؟ اور آپ کی وفاداری کی کیا گارنٹی ہے ؟
کیا ضمانت ہے اس بات کی کہ آپ مسلمانوں کے حوالے سے کانگریس ملائم سنگھ اور مایاوتی کی ڈگر پر نہیں چلیں گے ؟
اچھی طرح سمجھ لیں مسلمانوں کا مسائل کا حل آپ کا ساتھ دینے یا نہ دینے میں نہیں ہے بلکہ ان کے مسائل کا حل سنجیدہ قسم کی مذہبی و مسلم سیاسی لیڈرشپ میں پنہا ہے ، بھارتی مسلمان انہی دونوں چیزوں سے محروم ہیں ۔
سیاسی بے وقعتی کے لئے عام مسلمان قطعاً مجرم نہیں اور نہ ہی اس کو دوش دیا جاسکتا ہے ، ہمارے دگرگوں حالات کے اصل ذمے دار ہماری مذہبی قیادت ہے جو بے وجہ سیاسی میدان میں اچھل کود کرتی ہے اور اعلان کرتی ہے کہ” ہم خالص مذہبی جماعت ہیں ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے“ دوسری طرف کہتے ہیں کہ ”ہم اویسی کو حیدرآباد سے باہر نہیں نکلنے دیں گے ، الیکشن کے موقع پر ایک اعلان بھی جاری کردیتے ہیں کہ فلاں کو ووٹ دو اور فلاں کو نہیں “۔
عجیب دوغلی پالیسی کے ہوتے ہوئے بھی ”قائد ملت “ ہیں اور ان کے پیچھے لاکھوں کی بھیڑ ، کمال کے مسلمان ہیں اور کمال کی ان کی لیڈرشپ ۔
دوسرے مسلم سماج کے اصل مجرم مسلم سیاسی لیڈران ہیں خواہ وہ کسی بھی پارٹی میں ہوں ، یہ ہی پوری قوم کا سودا کرتے ہیں یہ ہی نالائق ” مسلم سیاسی پارٹی “ کے لیے سب سے خطرناک ہیں یہ ہی طبقہ مسلمانوں کے اندر سیاسی بیداری پیدا نہیں ہونے دیتا اور یہ ہی طبقہ اویسی کا بھی سب سے بڑا مخالف ہے ، کمال دیکھیے کہ یوپی کا کوئی بھی قد آور مسلم لیڈر کانگریس بی جے پی سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی میں تو جا سکتا ہے ، وہ آزادانہ انتخاب بھی لڑسکتا ہے مگر اویسی سے ہاتھ نہیں ملا سکتا ۔ کیوں ؟
اس لیے کہ ان حضرات کو اپنی قوم و مذہب سے ایسی ہمدردی بھی نہیں ہے جیسی بی جے پی آر ایس ایس کے لوگوں کو اپنی قوم و مذہب سے ہے ۔
آخری بات
میں مولانا آزاد مولانا حسین احمد مدنی کی عزت کرتا ہوں ان کے اخلاص پر ہرگز کوئی شک نہیں کیا جاسکتا ۔ مگر ہمارے یہ محترم علماء کرام سیاست کے میدان میں مکمل طور پر ناکام تھے اور ان بزرگوں کی سیاسی ڈگر پر چلنے والے بعد والے حضرات بھی ناکام رہیں گے ، ان حضرات کو سیاست کا میدان سیاسی لوگوں کے لئے چھوڑ دینا چاہیے
اس لیے کہ ہمارے بزرگوں نے جس کانگریس پر بھروسہ کرکے عہد و پیمان کیے تھے کانگریس ہی بدل چکی ، وہ تمام عہد و پیمان کانگریس عملی طور پر بھی اور ملک کے حالات کے دباؤ کے تحت بھی چھوڑ چکی ، اب خود کانگریس یا کوئی بھی پارٹی ہندوتوا کی بات کرے گی تو زندہ رہ پائے گی نہیں تو ختم ہوجائے گی ، ایسے میں مسلم دانشورانِ قوم کو از سرِ نو اقدام کرنے ہونگے اور وہ اقدام ہیں قومی سطح پر مسلم سیاسی پارٹی کا قیام
تحریر: توصیف القاسمی (مولنواسی)
مقصود منزل پیراگپور سہارن پور
موبائل نمبر 8860931450
حماس اور اسرائیل جنگ سے ابھرتے حقائق
Pingback: اسلام ہی غالب آکر رہے گا ⋆ اردو دنیا