موجودہ سیاست کو مذہب کا رنگ نہ دیا جائے

Spread the love

موجودہ سیاست کو مذہب کا رنگ نہ دیا جائے ، عام طورپر ارباب سیاست کے اقدامات قومی مفاد اور ذاتی مصلحت کے تحت ہوتے ہیں ، مذہب کے آئینے میں نہیں

ڈاکٹر غلام زرقانی

کسی بھی انسان کے اچھے کاموں کی پذیرائی بھی ہونی چاہیے اور حوصلہ افزائی بھی ، خواہ وہ مسلم ہو یا کافر، سفید فام ہویا سیاہ فام، عورت ہو یا مرد ، بچہ ہو یا بوڑھاغرض یہ کہ انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے ہونے والے ہر اقدام کی قدر اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے ۔

اس حوالے سے ہمیں قرآن وحدیث میں کئی ایک مثالیں ملتی ہیں ، جن میں معاشرے کے ہر شخص سے خطاب عام ہے اوراس کے حسن اقدام کی ستائش کی گئی ہے ۔ تاہم ، یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جس طرح غیروں کے اچھے کاموں کی نسبت دین اسلام سے نہیں جوڑی جاسکتی ، ٹھیک اسی طرح مسلمانوں کے بھی ہر کام کی ستائش کرتے ہوئے اسے اسلام سے جوڑنا درست نہیں ہے ۔

دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ تعریف وتوصیف اور تحسین وستائش ہمیشہ اسلامی زاویہ نگاہ سے نہ دیکھی جائے ، خواہ وہ اپنوں کے ہاتھوں معرض وجود میں آئی ہوں یا غیروں سے وجود پذیر ہوئی ہوں ۔

اور یہ بات میں اس لیے کہہ رہاہوں کہ ارباب سیاست کے اقدامات اگر اسلامی شریعت سے جوڑے جائیں ، تونہ عدل وانصاف کے اعلی پیمانے کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں اور نہ ہی اسلامی شریعت کے غیر جانبدارنہ رنگ کی عکاسی ہوسکتی ہے ۔

لگے ہاتھوں ایک دومثالیں سماعت کرلیں ۔ یہ دیکھیے ترکی کے مرد آہنگ جناب طیب اردگان ہیں ، جو فلسطین اور برما کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم پر نوحہ کناں رہتے ہیں ، جب کہ خود ان کے حکم پر ترکی فوج سرحد کے قریب کرد مسلمانوں کی آبادیوں پر مسلسل بم باری کرتے رہتی ہے ۔

 

ابھی حالیہ ایران دورے کا ایک اہم ہدف یہ بتایا جارہاہے کہ ترکی فوج جلد ہی ملک شام کے اندر تیس کیلومیٹر تک کے علاقے میں کردوں پر زبردست حملہ کرنے کا جو منصوبہ بنارہی ہے ، اس پر ایران کو راضی کیا جاسکے ۔

ٹھیک اسی طرح چند سالوں پیشتر ترکی میں سعودی سفارت خانے کے اندر مشہور ومعروف صحافی جمال خشوگی کے قتل کی بھیانک یاد بھی تازہ کیجیے اور یہ بھی حافظے میں رکھیے کہ جناب طیب اردگان نے ابتدا میں متذکرہ واردات کے حوالے سے سرزمین ترکی میں تحقیق وتفتیش کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھااور سعودی قیادت پر کھلے لفظوں میں تنقید بھی کی تھی

لیکن چند مہینوں پہلے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے کے پیش نظر یہ فائل ہمیشہ کے لیے بند کردی گئی، بلکہ ابھی حال ہی میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ بغل گیر ہوکر وہ سارے شکوے گلے بھی دور کرلیے گئے ، جو سفارت خانے کی چہار دیواری کے اندر دن دہاڑے ایک مظلوم مسلمان کے بے دردی سے قتل ہونے کی وجہ سے پیدا ہوگئے تھے ۔ اسی طرح سعودی عرب کی مثال سامنے رکھیے ۔

فلسطین اور برما میں مسلمانوں پر ہونے والی قیامت خیزیوں پر دبے لہجوںیا دبنگ اسلوب میں آواز بلند کرنے والے ، اپنے پڑوسی ملک یمن کی اینٹ سے اینٹ بجارہے ہیں ۔

یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ آئے دن سعودی لڑاکہ جہازوں کی بمباری سے یہاں بڑی تعداد میں مسلمان شہید ہورہے ہیں اور بستیاں ویران ہورہی ہیں، نیز جنگ کے مضراثرات کی وجہ سے بے روزگاری ، افلاس اور فاقہ کشی کے نتیجے میں تباہی وبربادی اس پر مستزاد ہے۔

اسی طرح مصر کی پالیسیوں پر بھی نگاہ رکھیے ۔ یہ ملک بھی گاہے بگاہے فلسطین اور دوسرے ممالک میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر صدائے احتجاج بلند کرتارہتاہے ، لیکن اپنے ہی ملک میں مذہبی سیاسی جماعت کے ذمہ داروں اور بہی خواہوں پر توپ کے گولے کھولنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔

آج بھی ہزاروں افراد سلاخوں کے پیچھے صرف اس لیے ہیں کہ انھوں نے مصرمیں اسلامی شریعت کی بالادستی کے لیے جد وجہد کی تھی ۔ یہی حال افغانستان کے پس منظر میں بھی دکھائی دیتاہے ۔روئے زمین پر۵۷ ممالک بنام اسلام موجود ہیں ، لیکن کسی نے بھی افغانستان کی موجودہ حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے ۔

اندازہ لگائیے کہ دنیادارفوجی طاقت کے نشے میں کسی ملک پر قابض ہوجائے ،تو دنیا اسے تسلیم کرلیتی ہے ، لیکن اسلامی تشخص رکھنے والے افراد یہی عمل اپنے یہاں دہرائیں توغیرتوغیر سہی ، اپنے بھی اسے تسلیم نہیں کرتے ۔

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جنرل سیسی نے مصر میں عوامی انتخابات کے سہارے معرض وجود میں آئی ہوئی ایک جمہوری حکومت پر دست درازی کی اور اس کے جملہ اعوان وانصار کو سلاخوں کے پیچھے ڈال کر زمام اقتدار سنبھال لی ، لیکن دنیا نے مذمت توجانے دیجیے ، اسے فورا تسلیم کرلیا اور بعض عرب ممالک نے تونصرت وحمایت کے لیے اپنے خزانے تک کھول دیے ۔

اب مجھے بتایا جائے کہ اگربات کسی اقدام کو اسلامی پس منظر میں دیکھنے کی ہو، توپھر ’مسلمان‘ اور ’مسلمان‘ ، نیز’ملک ‘ اور ’ملک ‘ کے درمیان فرق کیوں ہے ؟کسی جگہ مسلمان پر زیادتی ہورہی ہوتواسے اسلامی جذبے کی گرمی سے تعبیر کریں اور خود دوسرے مسلمان پر ظلم وزیادتی کی حکمت عملی ترتیب دیں ، تواسے کس خانے میں رکھا جائے ؟

کیا یہ تقاضائے عدل وانصاف نہیں کہ اگر اسلامی جذبے کی بنیاد پر ہماری کسی سے ہم دردی ہے ، تواُس عظیم اور پاکیزہ بنیاد کی عصمت دوسری جگہ سربازار نیلام نہ کی جائے ؟ ٹھیک اسی طرح سیاسی اجلاس میں قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے مفاد پرستانہ استدلالات بھی افسوسناک ہیں ۔ کبھی انتخابات کے وقت ’نصر من اللہ وفتح قریب ‘ کی بازگشت ، کبھی سیاسی اجتماعات میں ’ وامر بالمعروف وانہ عن المنکر ‘ کی تکرار اور کبھی ’اذا جاء نصر اللہ والفتح ‘ پڑھ کر اپنے خطابات وبیانات کو پرزور اور پراثر بنانے کی ناکام کوششیں ۔

صاحبو! اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اسلام ایک مکمل مذہب ہے ، جو شب وروز کے ہر محاذ پر ہماری کامیاب رہنمائی کرتاہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہماری خواہش بھی یہی ہے کہ مسجد، مدرسہ ، گھر ، تجارت اور ایوان سیاست میں بھی اسلامی شریعت کی برتری محسوس کی جائے ۔

تاہم جائے افسوس یہ ہے کہ موجودہ عہد میں روئے زمین پر کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے ، جسے ہم درست معنوں میں ’اسلامی ملک ‘ سے تعبیر کرسکیں ۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ’ اسلامی شریعت ‘ اور ’مذہبی تعلیمات ‘ کے مقدس چہرے کو سیاسی کیچڑ سے داغدار نہ ہونے دیا جائے ۔

ہاں، اگر مستقبل میں کہیں کوئی ملک اسلامی شریعت کی سچی تصویر بن جائے ، توپھر بلاشبہ ببانگ دہل اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ہر قدم پراسلامی تعلیمات سے استدلال کیا جائے ، تونہایت ہی بہتر ہو۔

ڈاکٹر غلام زرقانی

ghulamzarquani@yahoo.com

17 thoughts on “موجودہ سیاست کو مذہب کا رنگ نہ دیا جائے

Leave a reply

  • Default Comments (17)
  • Facebook Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *