ایسی تقریبات منانے سے کیا فائدہ
ایسی تقریبات منانے سے کیا فائدہ !
تحریر:جاوید اختر بھارتی
کسی چیز کی یاد منائیں تو اس کے مقاصد اس کے معیار اور حصول کو مدنظر رکھنا ضروری ہے ،، ہم کسی کو گالی گلوج سے منع کریں اور منع کرتے وقت خود گالیاں بکیں اور بدزبانی کریں تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی جگہ لکھا ہو کہ یہاں تھوکنا منع ہے۔
اور وہیں پان کی دکان ہو اور ارد گِرد پان ہی پان تھوکا ہو خود میں نے بیرون ملک کے ایک ایرپورٹ کے کاؤنٹر پر لکھا ہوا دیکھا ہے کہ ممنوع التدخین ( نو اسموکنگ) اور کاؤنٹر کے اندر بیٹھ کر ویزا اور پاسپورٹ کی جانچ پڑتال کرنے والا سگریٹ پی رہا تھا نومبر کے مہینے کی 13 اور 14 تاریخ کو یوم اطفال منایا گیا یعنی بچوں کا دن منایا گیا اور منایا جاتا ہے کہیں تقاریر ہوئیں کہیں مٹھایاں تقسیم ہوئیں کہیں چند بچوں کو جمع کرکے حوصلہ افزائی کی گئی
ان کی تربیت سے متعلق بڑی بڑی باتیں کہی گئیں یوں محسوس ہوتا تھا کہ بچوں کے سرپرستوں کی ایک آواز پر یہ آسمان سے تارے توڑ کر لا دیں گے جبکہ اس دن بھی ہوٹلوں اور ڈھابوں پر بچے برتن دھلتے رہے ، اینٹ بھٹوں پر بوجھ اٹھاتے رہے ، گیرجوں میں بوسیدہ کپڑے پہن کر گاڑیوں کی مرمت کرتے رہے کیوں ،، اس لئے کہ شام کو ہاتھوں میں چند سکے آجائیں گے تو گھر کے چولہے میں آگ جل جائے گی ،، کیا یہ بچے قوم کے مستقبل نہیں ہیں اور ملک کے مستقبل نہیں ہیں ؟
اگر ہیں تو پھر ان بچوں کے روشن مستقبل کے لئے ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کئے جاتے یوم اطفال منانے پر جتنی دولت خرچ ہوتی ہے اسی دولت کا استعمال ان کی زندگی سنوارنے کے لئے کیوں نہیں کیا جاتا آخر کب تک یوم مزدور ، یوم خواتین اور یوم اطفال مناکر سستی شہرت اور واہ واہی لوٹی جاتی رہے گی اور وہ باتیں کہی جاتی رہیں گی جو دنیا کے انسانوں کے سروں کے اوپر سے اڑجایا کرتی ہیں۔
رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کی نماز ادا کرنے کے لئے جارہے ہیں راستے میں ایک بچہ رورہا ہے کپڑے بوسیدہ ہیں محسن انسانیت نے رونے کی وجہ پوچھی تو بچے نے جواب دیا کہ میرے ماں باپ دنیا میں نہیں رہے میرے سر پر دست شفقت پھیرنے والا کوئی نہیں
میرے بہتے ہوئے آنسوؤں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ، مجھے نئے کپڑے پہنانے اور سجانے سنوارنے والا کوئی نہیں اتنا سننا تھا کہ نبی کریم نے بچے کا ہاتھ پکڑا اور گھر لے آئے نہلا دھلا کر نئے کپڑے پہنایا اور سجا سنوار کر اس کا ہاتھ پکڑ کر عید گاہ لے گئے ،، آئیے اور آگے بڑھیں جنگ میں بہت سارا مال غنیمت حاصل ہوا ہے اور وہ مال غنیمت تقسیم ہورہا ہے
تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے حصے لگے خود نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حصہ ملا دونوں کاندھوں پر لے کر گھر چلے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا انتظار کررہی ہیں کہ رسول اللہ مال غنیمت میں سے ملا ہوا حصہ لے کر آئیں گے تو ہمارے گھر بھی کھانا بنے گا
ابھی کچھ ہی دور چلے تھے کہ دو بچّوں نے آکر دامن پکڑ لیا ایک کہتا ہے کہ میری ماں نہیں ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ میرا باپ نہیں ہے اور دونوں کہتے ہیں کہ کئی دنوں سے ہمارے گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے اتنا سننا تھا کہ رسول اکرم کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور دونوں بچوں کو ایک ایک تھیلا دیا اور خالی ہاتھ گھر چلے گئے،،
اسے کہتے ہیں یوم اطفال جو آج سے ساڑھے چودہ سوسال پہلے نبی سید الکونین نے یتیم بچوں کے ساتھ عظیم الشان عملی اقدامات کیا اور صبحِ قیامت تک کے لئے پیغام دیا کہ بچوں کے ساتھ اور یتیموں کے ساتھ زبانی خرچ سے کام نہ چلاؤ بلکہ عملی قدم اٹھاؤ –
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب امیر المؤمنین خلیفۃ المسلمین ہوئے تو آپ کی تنخواہ کا مسلہ پیش آیا تو صدیق اکبر نے کہا کہ ایک مزدور کی جتنی تنخواہ ہے اتنی ہی میری بھی تنخواہ مقرر کردیا جاۓ لوگوں نے کہا کہ امیرالمومنین آپ کا خرچ کیسے چلے گا۔
تو فرمایا کہ اگر میرا خرچ نہ چلے تو میں مزدوروں کی تنخواہوں کو بڑ ھادوں گا کیونکہ جب میرا خرچ نہیں چلے گا یا نہیں چل سکتا تو مزدوروں کا بھی نہیں چل سکتا یہ تھا نظام کے نفاذ کا معیار و پیمانہ جو صدیق اکبر نے انجام دیا اور آج حال یہ ہے کہ صرف زبانی خرچ سے کام چلایا جاتاہے-
کل کا خلاصہ یہ ہے کہ جو پھل دے نہ سایہ ایسا درخت لگانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے تو ایسی تقریبات جس کے اہتمام و انعقاد سے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوتا ہو تو پھر کیوں منایا جاتا ہے،، بڑھتی ہوئی بے روزگاری ، کمر توڑ مہنگائی بچوں کے لبوں کی مسکراہٹ چھین رہی ہے پھر بھی ایسی تقریبات منانا سیر وتفریح کے علاوہ کچھ نہیں نہیں کچھ بھی نہیں ہے
جاوید اختر بھارتی
سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
Pingback: امریکا کرے امن کی بات اور و ہی بنے روکاوٹ بھی ⋆ تحریر: جاوید اختر بھارتی