معزز علماے اہل سنت سے مودبانہ گزارش

Spread the love

از:خاک سار محمد قمرالزماں خاں اعظمی مصباحی ،سکریٹری جنرل ورلڈ اسلامک مشن ،لندن :: معزز علماے اہل سنت سے مودبانہ گزارش

الحمد للہ،اللہ رب العزت نے آقاے کریم رئوف ورحیم ﷺ کے صدقے وطفیل اپنے جن بندوں کی علم کی دولت عطافرمائی ،یقیناوہ بہت خوش نصیب ہیں۔اللہ کے رسول ﷺ نے علم اورعلما کی فضیلت جا بجا بیان فرمائی ہے ۔ایک مقام پر فرمایا’’اَلْعُلَمَآءُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَآءِ‘‘۔(رواہ الجامع الصغير، عن أنس بن مالک) یعنی علماانبیائے کرام کے وارث ہیں ۔

ایک مقام پر علماے کرام کی شان بیان کرتے ہوئے حضور تاج مدینہ ارواحنا فداہ ﷺ نے علماکے چہروں کو دیکھنا عبادت قرار دیا ہے ۔سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:اَلْعِلْمُ حَیَاۃُ الْاِسْلَامِ ،(کنزالعمال)یعنی علم اسلام کی زندگی ہے ۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ عالم کون ہے؟ تو قرآن رہ نمائی فرماتا ہے : ترجمہ :اللّٰہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔(کنزالایمان) اب ہم اس آیت کی روشنی میں اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں کہ ہماری زندگی میں خوف وخشیتِ خدا ہے یا نہیں ؟اگر جواب نفی میں ہے تو ہمیں اپنے احتساب اور اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔

اگرہم اسلاف کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لبہائے مبارک سے نکلنے والے الفاط بابِ اجابت تک پہنچتے تھے اور ان کی ہر دعا بارگاہ الٰہی میں قبول ہوجاتی تھی ۔ان کے پاس پریشان حال اپنی پریشانی لے کر جاتا تو اس کی پریشانی دور ہوجاتی تھی ۔وہ اگر کسی کے لیے دعافرمادیتے تو اس کی بگڑی بن جاتی ۔وہ کچھ کہہ دیتے تو مولیٰ ان کی زبان کی لاج رکھ لیتاتھا۔وجہ کیا تھی؟

قرآن فرماتا ہے : ۔(الطلاق : آیت ۲) ترجمہ : اور جو اللّٰہ سے ڈرے، اللّٰہ اس کے لئے نجات کی راہ نکال دے گا ۔(کنزالایمان)

اور ارشاد فرمایا:۔(الطلاق : آیت۴) ترجمہ :اور جو اللّٰہ سے ڈرے اللّٰہ اس کے کام میں آسانی فرمادے گا ۔(کنزالایمان)

 

ہماری محفلوں میں بیٹھنے والے ہر شخص میں خوف وخشیتِ الٰہی کے جلوے نظر آنے چاہیے لیکن نظر نہیں آتے ۔افسوس! ہم عیش پسند اور غافل بنتے جارہے ہیں ۔ہماری عوام راہ حق سے بھٹک کراِرتداد کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے،اس پر ہماری توجہ نہیں ہوتی۔ہمیں جن چیلنجز کا سامنا ہے اُن کا ہمیں ادراک ہوناچاہیے۔آج جس طرح اُمت مسلمہ میں انحراف وارتداد پیداہورہا ہے اگر ہم نے ان مسائل کا وقت پر ادراک نہیں کیا تو ڈر ہے کہ یہ سیلاب کہیں اُمتِ مسلمہ کو بہا نہ لے جائے۔

پہلے کے مقابل اب علماے کرام کی ذمے داریاں بڑھ چکی ہیں ۔ہمیں غفلت کی نیند سے بیدار ہوکر اُمتِ مسلمہ کے ایک ایک فرد کو سمجھانے اور راہ حق پر گامزن کرنے کی ضرورت ہے ۔انھیں علم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا۔اپنی عوام کے مفاد میں کام کرناہوگا۔اپنی عوام کو اللہ رب العزت ،اللہ کے رسول ﷺ اور اللہ کے ولیوں سے قریب کرنا ہوگا۔

اگر ہم ان آبادیوں اور بستیوں کا جائزہ لیں جہاں علمانہیں ہیں ،تو پتہ چلے گا کہ وہاں کے حالات بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔اور بہت سے وہ علاقے جہاں علما موجود ہیں وہاں بھی بیشتر عوام کو صحیح طور پر کلمہ یاد نہیں اور نہ ہی اس کے تقاضوں سے کچھ واقف ہیں ۔وہ آقائے کریم کی سیرت سے ناواقف ہیں ۔انھیں قرآن پڑھنا نہیں آتا۔اس میں جہاں ہماری عوام کا قصور ہے وہیں کہیں نہ کہیں ہم بھی اس سلسلے میں جواب دہ ہوں گے ۔

علماے کرام کی ذمے داری یہ ہے کہ آخرت کی منزل اپنے سامنے رکھیں اوراللہ کی عطاکردہ دولت ِ علم اور میراث نبی کوتقسیم کرنے میں خوب محنت کریں۔ اگر ہم نے عیش وعشرت کی زندگی اپنائی اور مقصد سے غافل رہے،تو عنداللہ وعندالرسول ہم جواب دہ ہوں گے۔اور ہم اپنے رسول کو منھ دکھانے کے بھی قابل نہ رہیں گے۔

ہم نے علم کیوں حاصل کیا ؟اگر حصول علم کا مقصد فروغ علم ،فروغ دین ومذہب اور خدمت خلق نہیں ہے تو پھر اور کیا مقصد ہے ؟

 

جہاں تک روزی روٹی کا مسئلہ ہے توہمیں اس کی کچھ زیادہ فکر کی ضرورت نہیں ہے۔

اللہ کریم کا وعدہ ’یٰآیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوْٓا اِنۡ تَنۡصُرُوا اللہَ یَنۡصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ ‘‘برحق ہے۔اگر ہم اس کے دین کی خدمت اخلاص وللہیت کے ساتھ کرتے رہیں گے تو وہ ہمیں محروم نہیں کرے گا بلکہ ہماری مدد فرمائے گا۔

حدیث پاک کے مطابق علماکے کے لیے سمندر کی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں اور یہ بھی روایتوں میں ملتا ہے کہ اللہ پاک کسی عالم کو فاقہ کے سبب موت نہیں دے گا۔

اگر ہم اپنی ذمے داریاں نبھائیں گے تو اہل دنیا اپنی ذمے داریاں نبھائیں گے ۔ ہمیں دنیا کے لیے دین کا کام نہیں کرنا ہے بلکہ اخلاص کے ساتھ اس لیے دین کا کام کرنا ہے کہ ہم بروزقیامت اللہ ورسول کی بارگاہ میں سرخرو ہوسکیں ۔

اب چنداور باتیں بطور لائحہ عمل آپ حضرات کی خدمت میں پیش ہیں ۔اگر مناسب سمجھیں تو عملی جامہ پہنائیں ۔

  • (۱)جگہ جگہ مکاتب کھولنے کی فکر کریں جن میں تجوید کے ساتھ قرآن پڑھنے پڑھانے کا نظم کریں ۔
  • (۲)آپ دین کی بنیادی باتیں مثلاوضو،غسل،نمازوغیرہ سکھانے میں بھی عار نہ کریں ۔
  • (۳)تضییع اوقات سے بچیں ۔واٹس اپ،فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کااستعمال بقدرے ضرورت کریں۔
  • (۴) اپنی ساری امیدیں اللہ رب العزت سے وابستہ رکھیں ،عوام سے اپنی امیدیں بالکل وابستہ نہ رکھیں ۔
  • (۵)اپناظاہر وباطن درست کرنے کی کوشش کریں ۔انسان ظاہر دیکھتا ہے ،اللہ باطن کو دیکھتاہے۔
  • (۶) اپنے اُن اسلاف کی زندگی کا مطالعہ کریں جن کی زندگی ہمارے لیے حجت ودلیل ہے۔
  • (۷)ہرعالم دین، کتاب وسنت سے اپنا رشتہ مستحکم کرے اورنماز میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔
  • (۸)حضور سید العلماء علیہ الرحمہ کے ارشاد کے مطابق علما روزآنہ دوسوصفحات کا مطالعہ کریں۔
  • (۹)علما آپس میں بیٹھیں تو علمی مذاکرات کریں۔
  • (۱۰)عوام میں بیٹھیں تو ان کو دینی باتیں سکھائیں ۔
  • (۱۱) بچوں اور بچیوں کی عصری و دینی تعلیم کے انگلش میڈیم اسکولس قائم کریں۔
  • (۱۲) اپنے اپنے علاقوں میں چھوٹی چھوٹی لائبریریاں قائم کریں ۔
  • (۱۳)علماے کرام خطاب برائے خطاب نہیں بلکہ خطاب برائے تعمیر وتبلیغ کا مزاج پیدا کریں ۔
  • (۱۳) جہاں بھی خطاب کے لیے مدعو ہوں وہاں کی عوام کی دینی حالت کا جزئزہ لیں ،اور کچھ دیر قیام فرما کر انھیں مشوروں سے نوازیں یا ایسی جماعت تشکیل دیں جو آپ کے چلے آنے کے بعد بھی دینی کاموں میں مصروف رہے اور پھر اس جماعت کی نگرانی کریں ۔ اور جماعت کے افرادکے اندر اخلاص پیداکریں۔
  • (۱۴)انھیں حالات کی خطر ناکیوں کا احساس دلائیں اور ان کے اندر احساسِ زیاں پیداکریں ۔عوام تو عوام ہیں ہم جیسے علماکہلانے والوں کے اندر بھی مستقبل کے خطرات اور حا ل کے چیلنجوں کا ادارک نہیں ہے ۔
  •  

آج پوری دنیا میں اسلام ایک مظلوم ترین صداقت ہے اور دنیا بھر کی تمام قوتیں قوانینِ اسلام کو مٹانے کے درپے ہیں اور ایک منظم منصوبے کے تحت اسلام کے شعائر کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ مسلم نوجوانوں کو اسلام سے دور کرنے اور کفروارتداد کی طرف مائل کرنے کے لیے غیر مسلم قوتیں اپنے تمام مادی وسائل اختیار کررہی ہیں ۔اسلامی عقائد واعمال ،اسلامی اخلاق،اسلامی اقدارسے نفرت پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش ہورہی ہے ۔

باب عقائد میں عقیدہ توحید ورسالت سے منحرف کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور شرکیہ اعمال کی طرف رغبت دلائی جارہی ہے ۔اُمت مسلمہ کو تہذیبوں کے تصادم کا چیلنج بھی درپیش ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جن ملکوں میں مدارس کو ختم کردیا گیا وہاں اسلام مٹ گیا۔ امام بخاری اور بہت سے ائمہ حدیث وفقہ کی سرزمینوں میں صحیح سے کلمہ پڑھنے والے نایاب ہیں ۔وسط ایشیا کی وہ تمام ریاستیں جو اِشتراکیت کی زد میں آئیں، وہاں مدارس کو مٹا کر اسلام کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ۔کچھ اور ملکوں میں اسی طرح کی کوشش ہورہی ہے،اس صورت میں علماے کرام کو تمام مساجد کو جزوقتی درسگاہوں میں تبدیل کرناہوگا۔

مساجد کے تمام ائمہ اپنے گردو پیش کا جائزہ لیں اور کوشش کریں کہ متعلقہ آبادی یا محلے کا کوئی بچہ دینی تعلیم سے محروم نہ رہنے پائےاور سن بلوغ سے پہونچنے سے قبل اس قدر آگاہ ہوجائے کہ وہ در پیش چیلنجوں کا مقابلہ کرسکے۔علماوائمہ مساجد کے لیے تدریس وتبلیغ دین اب فرض کفایہ نہیں بلکہ فرض عین ہے ۔

38 thoughts on “معزز علماے اہل سنت سے مودبانہ گزارش

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *