گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق

Spread the love

تحریر : محمد ہاشم اعظمی مصباحی :: گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات:: قسط ( اول 1)

بھارت کی ریاست اتر پردیش کے تاریخی شہر بنارس/ وارانسی کی گیان واپی جامع مسجد شہر کے قلب میں دریائے گنگا کے کنارے دشا شو میدھ گھاٹ کے شمال میں للتا گھاٹ کے قریب واقع ہے

یہ مسجد جہاں واقع ہے اس محلے کا نام گیان واپی ہے اسی مناسبت سے یہ گیان واپی کے نام سے منسوب ہے غالباً بھارت کی یہ واحد ایسی مسجد ہے جو اپنے سنسکرت نام گیان واپی (علم کا کنواں) کے نام سے موسوم ہے (تاریخ آثارِ بنارس،ص،99)

بنارس شہر سے گزرنے والی ٹرینوں سے بھی اس تاریخی مسجد کا دور سے نظارہ کیا جاسکتا ہے جامع مسجد گیان واپی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسے مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے سترہویں صدی عیسوی میں تعمیر کرایا تھا

لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں ہے۔ کیونکہ بعض مخطوطات اور مستند مصادر کے مطابق مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے عہد حکومت (عہدِ اکبری 1556- 1605) میں بھی یہ مسجد موجود تھی. چنانچہ مخدومِ شاہ طیب بنارسی رحمہ اللہ(متوفی 1042ھ مدفون منڈواڈیہہ، بنارس) کے احوال زندگی میں اس مسجد میں پابندی سے نمازِ جمعہ ادا کرنا مرقوم ہے

اس مسجد کی تاسیس سے متعلق یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ سلطان ابراہیم شاہ شرقی(متوفی 1440ء)جونپور کے صدرالصدور قاضی صدر جہاں اور ان کے ایک متمول شاگرد شیخ سلیمان محدث نے نویں صدی ہجری میں اورنگ زیب عالمگیر کے جد امجد ہمایوں بادشاہ (متوفی 1556ء)کے عالم وجود میں آنے سے بہت پہلے بنوائی ہے

جیسا کہ تذکرۃ المتقین میں مرقوم ہے : قاضی صدر جہاں کے شاگردوں میں شیخ سلیمان محدث اونچے درجے عالم حدیث تھے اکثر شہروں میں بڑی بڑی جامع مسجدیں تعمیر کروائیں

چناں چہ شہر بنارس میں ان کی تعمیر کردہ جامع مسجد(گیان واپی) اب تک موجود ہے اس میں نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے(تذکرۃ المتقین ص 158، مرقع بنارس ص 175 مطبوعہ 1939ء)

لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ گیان واپی مسجد کی تعمیر عہد عالمگیری سے بہت پہلے کی ہے البتہ اورنگ زیب عالمگیر نے سنہ 1658ء میں اس کی تعمیر نو کروائی تھی۔ اس مسجد سے بالکل متصل بھارت کی مشہور و معروف کاشی وشوناتھ مندر بھی قائم ہے جسے سنہری مندر بھی کہا جاتا ہے

جہاں تک کاشی وشوناتھ مندر کی تعمیر کا سوال ہےتو اس کا سہرا اکبر کے درباری راجا ٹوڈرمل کے سر جاتا ہے جس نے برہمن نارائن بھٹ کی مدد سے 1585ء اس مندر کو تعمیر کرایا تھا۔ موجودہ طور پر 1780ء میں اسے اندور کی مہارانی اہلیا بائی ہولکر نے بنوایا تھا اور 1839ء پنجاب کے حکمران مہاراجا رنجیت سنگھ نے اس مندر کے دونوں برجوں کو سنہرا کرنے کے لیے سونا عطیہ کیا تھا۔

28 جنوری، 1983ء میں مندر کے انتظامات کو اتر پردیش حکومت نے اپنی نگرانی میں لے کر ایک ٹرسٹ کے حوالے کردیا جس کے صدر اس وقت کے کاشی نریش ڈویے بھوتی نارائن سنگھ تھے

بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان کے مشہور شہنائی نواز بھارت رتن استاد بسم اللہ خان صبح کی نماز ادا کرنے اسی گیان واپی مسجد میں جاتے تھے اور پھر اپنے ماموں علی بخش کے ساتھ مسجد سے متصل کاشی وشوناتھ مندر میں جاکر ریاض کرتے تھے

مسجد و مندر میں انسانیت سکھائی جاتی ہے ہندو مسلم یکجہتی کی سوغاتیں تقسیم کی جاتی ہیں یہ مقام امن و شانتی کا گہوارہ ہوتے ہیں لیکن پچھلی تین دہائیوں سے شوکت اسلامیہ کا نظارہ پیش کرنے والی اس مسجد کو انتہا پسند فرقہ پرست عناصر کی نظر لگ گئی ہے ہندوتوا کا ناگ اس یادگار شاہکار کو نگل جانا چاہتا ہے

شرپسند ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے دور حکومت میں مندر توڑ کر مسجد بنوائی تھی وہیں پر کچھ انصاف پسند ہندوؤں کا کہنا ہے کہ مندر کو توڑا ہی نہیں گیا تھا اس لئے کہ اورنگ زیب نے 1658ء میں مسجد کی تعمیر جدید کروائی تھی اور اندور کی مہارانی اہلیا بائی نے مسجد کی تعمیر نو کے سو سال بعد 1780ء میں مندر کی تعمیر جدید کروائی تھی

لہٰذا دو دو چار کی طرح حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ مندر نہیں توڑا گیا تھا اس لئے کہ مندر کی تعمیر بعد میں ہوئی ہے مندر توڑ کر مسجد بناۓ جانے کی تردید نہ صرف یہ کہ مسلمان کررہا ہے بلکہ حقیقت پسند ہندو بھی کر رہے ہیں تاریخی اعتبار سے اس مسجد کا قدیم وشوناتھ مندر کی جگہ ہونا ممکن نہیں ہے

چناں چہ بابو سری کرشن ورما نے اپنی مشہور زمانہ کتاب “کاشی اور وشوناتھ کا تذکرہ” میں کاشی کھنڈ کے متعدد حوالوں سے اپنے اس دعوے کو مدلل کیا ہے کہ موجودہ گیان واپی جامع مسجد وشوناتھ مندر کی جگہ نہیں ہے

شری کرشن ورما کی بات کا خلاصہ ان ہی کے الفاظ میں یوں ہے :اگر یہ مسجد قدیم وشوناتھ مندر کی جگہ ہے تو کاشی کھنڈ سچی نہیں اور اگر کاشی کھنڈ معتبر کتاب ہے تو جامع مسجد وشوناتھ جی کے مندر کی جگہ پر نہیں ہے (مرقع بنارس، ص، 175)

واضح رہے کہ مسجد کے مغربی حصے میں نصف صدی قبل تک ایک قناتی مسجد تھی جس کا اب نام و نشان باقی نہیں ہے اس قناتی مسجد کے صحن میں ولی کامل حضرت واسط علی شاہ علیہ الرحمہ کا مزار بھی ہے جن کا اب سے پچاس سال پہلے تک عرس وغیرہ ہوتا تھا لیکن شرپسند عناصر کی کارستانیوں کی وجہ سے اب یہ سلسلہ بھی بند ہے

اسی قناتی مسجد کا وہ فرش ہے جس پر عہد حاضر کے اہل ہنود زبردستی شرنگا گوری کی ادائیگی کرتے ہیں جس کو لے کر آئے دن تنازعہ ہوتا رہتا ہے

حالاں کہ شرنگا گوری کی اصل جگہ گیان واپی مسجد کے مغربی موڑ پر تقریباً 50 قدم کے فاصلے پر واقع پھول منڈی میں ہے (ملخصاً جامع مسجد گیان واپی، ص،6بحوالہ مرقع بنارس)

تحریر : محمد ہاشم اعظمی مصباحی

نوادہ مبارک پور اعظم گڈھ یوپی انڈیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *