سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا اجمالی خاکہ

Spread the love

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اجمالی خاکہ !

از۔۔۔۔محمد محفوظ قادری 

مکرمی!حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش انبیا ورسل اللہ کے بندوں کی ہدایت ورہ نمائی کے لیے تشریف لائے ۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واقع رفع الی السماء سے لے کر تقریباً ساڑے پانچ سو برس تک یہ زمینی فرش انبیا ورسولوں سے خالی رہا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تقریباً ساڑے پانچ سو برس بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔

آپ کاپیدائشی وطن:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیدائشی وطن ملک عرب ہے ۔

آپ کا نسب مبارک:

اللہ رب العزت نے آپ کو مبعوث فرمانے کیلئے سب سے پہلے اولاد اسماعیل کو چنااولاد اسماعیل سے کنانہ کو چنا ،کنانہ سے قریش کو چنا ،قریش سے خاندان ہاشم کو چنا اورخاندان ہاشم میں(حضور علیہ السلام نے ارشادفرمایا)مجھے شرف انتخاب سے نوازا(حدیث)۔

آپ کا خاندان:

حضرت ابراہیم کے بیٹے حضرت اسماعیل کی اولاد میں ایک بزرگ فہربن مالک ہو ئے ہیں جن کا لقب ’’قریش‘‘ تھاجن کی اولاد قبیلہ قریش کے نام سے مشہور ہے حضور علیہ السلا م اسی قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے ہیں۔

آپ کے والد:

آپ کے دادا عبدالمطلب کے دس بیٹے تھے ان میں سے ایک حضرت عبداللہ بھی تھے اورچھہ بیٹیاں تھیں۔

آپ کی پیدائش:

حضرت عبداللہ کانکاح چوبیس سال کی عمر میں حضرت آمنہ بنت وہب سے ہوااور ماہِ رجب ،شبِ جمعہ میں نور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آمنہ کے بطن مبارک میں منتقل ہوا ۔حضرت عبد اللہ کے انتقال کے وقت حضرت آمنہ حمل سے تھیں

حضور علیہ السلام ابھی شکم مادر میں ہی تھے کہ یتیم ہو گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والد کی وفات کے دو ماہ بعد 12 ربیع الاول 1میلادی مطابق20اپریل 571ء کو صبح صادق کے وقت طلوع آفتاب سے پہلے پیدا ہوئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب نے ساتویں دن آپ کا عقیقہ کیا اور آپ کا اسم مبارک’’ محمد‘‘ رکھاآپ کے دادا سے معلوم کیا گیا کہ آپ نے ان کا نام محمد کیوں رکھاآپ کے دادا نے جواب دیا اللہ تعالیٰ آسمانوں میں ان کی تعریف فرمائے گااور زمین پر لوگ آپ کی تعریف کریں گے اس لئے انکا نام محمد رکھا۔اور آسمانوں میں آپکا نام’’ احمد‘‘ رکھا گیا۔

آپ کا بچپن:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہایت ہی صحت مندپیدا ہوئے تھے آپ کی عمر کے مقابلہ میں آپ کے جسم میں اللہ نے بڑھنے کی بہت زیادہ قوت عطا فرمائی تھی ۔جب آپ تین مہینے کے ہوئے تو کھڑے ہو نے لگے جب سات مہینے کے ہوئے توآپ خود سے چلنے لگے جب ایک سال کی عمر ہو ئی تو آپ تیر کمان لئے بچوں کے ساتھ خوب دوڑ لگا تے تھے اور اتنی سمجھداری کی باتیں کرتے کہ سن نے والوں کو آپ کی عقلمندی پر حیرت ہواکرتی تھی ۔آپ کی والدہ نے عرب کے دستور کے مطابق آپ کی پیدائش کے چند روز بعد ہی قبیلہ بنی سعد کی ایک خاتون حضرت حلیمہ سعدیہ کے سپرد کر دیا تھا تاکہ وہ آپ کو بطور آیا دودہ پلائیں اور آپ کی پر ورش کریں ۔

سینئہ اقدس کا چاک کیا جانا:

جب آپ حضرت حلیمہ سعدیہ کے پاس تھے آپ کی عمر چھبیس یا ستائیس ماہ کی تھی اس وقت آپ کاپہلی مرتبہ سینئہ مبارک چاک کیا گیااور آپ کا شق صدر کا واقعہ چار مرتبہ پیش آیا۔دوسری مرتبہ دس برس کی عمر میں ۔تیسری مرتبہ اعلان نبوت سے پہلے نزول وحی کے سلسلہ میں جبریل امین علیہ السلام کی آمد کے وقت ۔چوتھی مرتبہ معراج کی رات مسجد حرام میں آپ کے سینئہ مبارک کو چاک کیا گیااور ایمان و حکمت اور علم و معرفت کے خزانون سے آپ کے سینے کو پُرکردیا گیا۔

آپ کی والدہ کا انتقال:

جب آپ کی عمر چارسال کی ہوئی تو والدہ نے آپ کو اپنے پاس ہی رکھ لیا اور آپ والدہ کی زیر نگرانی پر ورش پانے لگے جب آپ کی عمر چھہ سال کی ہوئی تو آپ کی والدہ کامقام ابواء پر 7میلادی 576ء میں انتقال ہو گیا آپ کے سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا۔آپ والدہ کے انتقال کے بعد دادا عبدالمطلب کی زیر نگرانی پرورش پانے لگے جب آپ کی عمر آٹھ سال کی ہو ئی تو آپ کے دادا عبدالمطلب بھی 9 میلادی578ء کووفات پاگئے۔

آپ کے دادا نے وفات سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بیٹے ابو طالب کے سپرد کر دیا تھا آپ چچا کے زیر سایہ پرورش پانے لگے ۔

جب آپ کی عمر بارہ سال کی ہوئی تو ابو طالب معمول کے مطابق تجارتی قافلہ لیکرشام جانے لگے توآپ نے بھی ساتھ چلنے کی ضد کی ابو طالب کو یہ گوارہ نہیں ہوا کہ آپ کا دل توڑیں آپ کو بھی اپنے ساتھ لے لیاراستہ میں بحیرہ نامی عیسائی راہب نے آپ کو بہت زیادہ غور سے دیکھ کر آپ کے چچا ابو طالب سے کہا کہ ’’آپ کابھتیجا نبی آخرالزماں ہے اس میں وہ تمام نشانیاں موجود ہیں جوتوریت اور انجیل میں لکھی ہوئی ہیں ۔یہودی ان کے جانی دشمن ہیں ان کی یہودیوں سے حفاظت کرومناسب تو یہی ہے کہ تم ان کو آگے نہ لیکر جاؤ‘‘ ابوطالب کو راہب کی یہ باتیں سن کر آپ کی بہت زیادہ فکر ہوئی۔ابو طالب نے اپنا مال بہت جلدی فروخت کیاجس میں ان کو امیدسے زیادہ نفع ہوا۔

آپ کی جنگ میں پہلی مرتبہ شرکت:

جس جنگ میں آپ پہلی بار شریک ہوئے وہ عکاظ کی جنگ ہے ’’جوحرب فجار‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔عکاظ کے مقام پر588ء میں ہوئی تھی اُس وقت آپ کی عمر پندرہ سال تھی (بعض کے نزدیک بیس سال تھی)اس جنگ میں آپ نے چچازبیر کوصرف تیر اٹھا کردئے اور آپ کے قبیلہ والوں کو اس جنگ میں بہت شاندار فتح نصیب ہو ئی ۔

آپ کاکاروباری پیشہ:

رسول اللہ کے خاندان کا کاروباری پیشہ تجارت تھااس لئے آپ نے بھی تجارتی پیشے کو اپنایا اور تجارتی قافلوں کے ساتھ قرب وجوار میں مال تجارت لیکر آنے جانے لگے کاروباری معاملات میں آپ کی سچائی اور آپ کے اعلیٰ اخلاق کی مکہ بلکہ پورے ملک عرب میں ایسی شہرت ہو ئی کہ آپ ’’صاد ق القول‘‘اور ’’امین ‘‘کے لقب سے پکارے جانے لگے ۔اسی زمانہ میں ایک بہت مالدار خدیجہ نامی ایک خاتون شام،عراق اور یمن جیسے ممالک سے بہت بڑے پیمانے پر تجارت کیا کرتی تھیں انہوں نے جب آپ کی سچائی،امانت داری،اعلیٰ اخلاق کی شہرت سنی تواپنا سارا کارو بار حضور علیہ السلام کے حوالے کر دیانبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی ودیانت داری کی وجہ سے حضرت خدیجہ کو اس قدر فائدہ ہوا کہ اس سے پہلے اتنا فائدہ کبھی نہیں ہوا تھا۔

آپ کا پہلا نکاح:

آپ کی سچائی ،امانت داری اور اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے حضرت خدیجہ آپ سے بہت زیادہ متائثر ہو گئی تھیں۔اور اس بات کی خواہش ظاہر کی کہ رسول اکرم ان سے نکاح فرمالیں اور نکاح کا پیغام حضور کے پاس بھیجاآپ نے چچاابو طالب سے مشورہ کر کے حضرت خدیجہ کے شادی کے پیغام کو قبول فرمایااور حضرت خدیجہ کے ساتھ پچیس سال کی عمرمیں نبی علیہ السلام کا نکاح ہو گیا۔حضرت خدیجہ کے بطن سے آپ کی چار بیٹیاں زینب،رقیہ،کلثوم اور فاطمہ پیدا ہوئیں۔اور دوبیٹے پیدا ہوئے قاسم ،طاہراور ایک بیٹے ابراہیم ماریہ قبطیہ سے پیدا ہوئے یہ تینوں بیٹے بچپن میں ہی انتقال کر گئے تھے۔

عبادت الٰہی اور منصب نبوت:

جب آپ کی عمر چونتیس یا پینتیس سال کی ہو ئی تو آپ گوشہ نشینی کو پسند کر کے زندگی گزار نے لگے اور آپ کو عبادت الٰہی کا شوق بہت زیادہ بڑھنے لگاچالیس سال کی عمر میں آپ کی عبادت اس مرتبہ ومقام کو پہنچ گئی کہ مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر غار حراء میں چلے جا تے ۔اور وہاں کئی کئی دن تک آپ اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہتے یہاں تک کہ آپ کو ایمان کی روشنی اورچمک کی وجہ سے سچے خواب نظر آنے لگے ساتھ ہی آپ کی عبادت کمال درجہ کو پہنچی اور آپ کے اندر نبوت کی ذمہ داری کو سنبھال نے کی صلاحیت پیدا ہو گئی تو 12ربیع الاول41میلادی مطابق 12فروری 610ء کو پیر کے روز آپ پر اللہ کی طرف سے پہلی وحی نازل ہوئی۔اور سورہ اقراء کی پہلی پانچ آیتیں ’’علم الانسان مالم یعلم‘‘تک نازل ہوئیں ۔ اورنزول قرآن کاآغازہواگیا۔ جس میں تمام انسانوں کیلئے ہدایت اورمکمل دستورالعمل موجود ہے۔

تبلیغ دین کا حکم:

نزول وحی کے بعد آپ نے تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کیا اور دین کی دعوت سب سے پہلے آپ نے اپنے گھروالوں کو دی آزاد عورتوں میں سب سے پہلے آپ کی بیوی حضرت خدیجہ، آزاد مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق ہوشیار بچوں میں حضرت علی اور غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ اور باندیوں میں حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہم سب سے پہلے ایمان لائے۔آپ برابر تین سال تک اسلام کی دعوت خفیہ طریقے سے لوگوں کو دیتے رہے ان تین سال میں مسلمانوں کی تعداد انتالیس تک پہنچ چکی تھی۔

بُت پرستی کے خلاف آپ کا اعلان:

نبوت کے چوتھے سال 44 میلادی 613 ء میں آپ کو اللہ رب العزت کی جانب سے حکم ملاکہ اب آپ لوگوں کو کھلم کھلا اسلام کی دعوت دیں ،آپ نے کفار و مشرکین کی پرواہ کئے بغیر کوہ صفاپر چڑھ کر تو حید باری تعالیٰ کی تعلیم دینا شروع کی ۔کفار مکہ شروع میں تو حضورعلیہ السلام کی تبلیغی سر گرمیوں کو غیر معمولی سمجھ کر نظر انداز کرتے رہے

لیکن جب کفار نے دیکھا کہ حضورصلی علیہ وسلم نے ان کے آباؤاجداد کے مذہب بت پرستی کے خلاف جہاد شروع کر دیا تو ان کے اندر غصہ کی آگ بھڑک اٹھی ایک مرتبہ رسول اکرم نے کعبہ میں رکھے بتوں کی مخالفت کرتے ہوئے نعرئہ توحید بلند کیا تو کفار آپے سے باہر ہوکر حضور کے جانی دشمن بن گئے ۔اور طرح طرح سے آپ کو دولت و حکومت اور شہرت کے لا لچ دئے کہ کسی بھی طرح آپ ہمارے بتو ں کی مخالفت کرنا چھوڑ دیں لیکن آپ نے جواب دیا مجھے دولت و حکومت اور شہرت کی ذرہ برابر ضرورت نہیں ہے کفار مکہ جب اس تدبیر میں بھی ناکام ہو گئے تو ان کا غصہ انتہا کو پہنچ گیا۔رسول اللہ اور آپ کے ماننے والوں پراس قدر خطرناک ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے جس پر انسانیت رہتی دنیا تک شرمشار ہو تی رہے گی۔

پہلی ہجرت حبشہ:

کفار مکہ نے ظلم وستم کی ساری حدوں کو پار کردیا اور مسلمانوں کا مکہ میں رہنادشوار ہو گیاتوحضورنے کہ مسلمانوں کوحکم دیاکہ ہجرت کرکے حبشہ چلے جائیں۔اور ایک چھوٹا سا قافلہ پہلی مرتبہ جس میں گیارہ مرد اور پانچ عورتیں شامل تھیں مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی یہ واقعہ اعلان نبوت کے پانچویں سال 45میلادی614کو پیش آیا۔

اعلان نبوت کا چھٹاسال:

اس سال کچھ ایسی مقدس ہستیاں اسلام کے اندر داخل ہو ئیں کہ جن کے اسلام لانے سے اسلام کا پرچم بلند ہوااور مسلمان اعلانیہ طور پر اپنے مالک حقیقی کی عبادت کر نے لگے اسی سال حضور کے چچا حضرت حمزہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے اسلام قبول کیا تو مکہ میں چاروں طرف تہلکہ مچ گیا ان دونوں حضرات کے اسلام لانے کے بعد مسلمانوں میں نئی زندگی اورنئی روح پیدا ہو گئی جو کام مسلمان اعلانیہ طور پر نہیں کر سکتے تھے اب مسلمان وہ سب مذہبی کا م کھلم کھلا کر نے لگے بغیر کسی خوف و خطرے کے۔

مقاطعہ بنوہاشم اور شعب ابی طالب:

کفار مکہ کے بڑے بڑے بہادروں کے اسلام قبول کرنے اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو نے سے دشمنان اسلام کی راتوں کی نیند ختم ہو گئی تھی اور فکر ہونے لگی کہ مسلمانوں کی تعداد کا یہ سلسلہ کیسے روکا جائے تو سب سرداروں نے ملکر یہ طے کیا کہ رسول اللہ ور بنوہاشم کاسماجی یعنی سوشل بائیکاٹ کر دیا جائے یعنی تمام طرح کے معاملات ،کاروبار،شادی،ساتھ میں کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا اور بات چیت کا سلسلہ سب کچھ بند کردیاجائے لہٰذا انہوں نے ایسا ہی کیا۔

نبوت کے ساتویں سال یہ مکمل بائیکاٹ شروع ہواکفار کے اس فیصلہ کے بعد خاندان بنی ہاشم کیلئے مکہ میں رہنا ناممکن ہو گیا ابو طالب سارے خاندان کو ساتھ لیکر شعب ابی طالب چلے گئے۔ تین سال تک اسی غیر آباد علاقہ میں زندگی گزارنی پڑی ۔ اعلان نبوت کے دسویں سال جب آپ شعب ابی طالب سے باہر تشریف لائے تو آپ کے چچا ابوطالب کاانتقال ہو گیاابھی آپ چچا کا غم نہیں بھولے تھے کہ اسی سال ام المئومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کا وصال ہو گیااور اس سال کا نام ’’عام الحزن‘‘غم کا سال رکھا گیا۔

طائف کاسفر:

مسلسل دس سال کی محنت و کو ششوں کے با وجوداہل مکہ کی عناد و سر کشی اور ہٹ دھرمی ختم نہیں ہو ئی تو آپ نے اسلام کی دعوت دینے کیلئے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیکر طائف کا سفر فرمایا۔ آپ کا خیال تھا کہ طائف میں کچھ سکون مل جا ئے گالیکن وہاں مکہ سے زیادہ مخالفت پا ئی گئی جب آپ طائف میں داخل ہو ئے تو وہاں کے لوگوں نے بُری طرح آپ کو ستایا بہت زیادہ تکالیف و دشواریوں کاآپ کو سامنا کرنا پڑا۔آپ پر پتھر برسائے گئے جس سے آپ کے قدم مبارک لہولہان ہو جاتے اور آپ کی نعلین مبارک خون سے بھر جاتیں اس حالت زار کے بعداللہ کی طرف سے فرشتہ نے حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ !اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے اگر آپ حکم فرمائیں تومیں پہاڑوں کو اٹھا کر ان لو گوں پر الٹ دوں؟لیکن رحمت دوعالم نے ارشاد فرمایانہیں!میں رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں،لعنت کرنے والا بناکر نہیں بھیجا گیا ہوں،رحمت خداوندی سے میں امید رکھتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے لوگ ضرورپیدا فرمائے گا جو اس کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھرائیں گے۔

نبوت کا گیارہواں سال:

اس سال آپ نے حج کیلئے آنے والے قبیلوں کو دین کی دعوت دی تو چھہ یاآٹھ لوگ اسلام میں داخل ہوئے ۔

نبوت کا بارہواں سال:

اس سال بھی حج کے موقع پر بارہ افراد منیٰ کی ایک گھاٹی میں خفیہ طور پرحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت ہو کر اسلام میں داخل ہوئے ۔یہ بیعت منیٰ کی ایک (عقبہ)گھاٹی میں ہوئی تھی اس لیئے اس کانام بیعت عقبہ اولیٰ رکھا گیا۔ نبوت کے اسی بارہویں سال اللہ نے آپ کوسفر معراج کرایااورپنچ وقت کی نماز کا تحفہ مسلمانوں کیلئے آپ کو عطا کیا۔ اسی سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے نکاح کیا۔

نبوت کاتیرہواں سال:

اس سال حج کے موقع پر 73مرداور 2عورتوں نے حضورعلیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی اس کو بیعت عقبہ ثانیہ کہا جاتا ہے۔

واقعہ ہجرت:

بیعت عقبہ ثانیہ کا جب کفار مکہ کو علم ہواتو ان کے غصہ کا کو ئی ٹھکانا نہ رہااب تو انہوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے اور تکالیف پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رضائے پرور دگاراور رسو ل اللہ کی خوشنودی کی خاطر ہر ظلم وستم وتکلیف وکو برداشت کرتے رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ مدینہ میں مسلمان امن وامان کے ساتھ رہ سکتے ہیں توآپ نے صحابہ کرام کومدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیااور سب سے پہلے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے ہجرت فرمائی ان کے بعد رفتہ رفتہ خفیہ طور پر دوسرے مسلمان بھی ہجرت فرماتے رہے۔

کفار مکہ کے ناپاک ارادے:

کفار مکہ نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور ان کی حمایت کرنے والے بڑھتے جا رہے ہیں تو کفار مکہ کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں رسول اللہ بھی مدینہ کو ہجرت نہ فرمالیں کسی طرح آپ کو روکنے کی کوشش کی جائے اس سلسلہ میں دارالندوہ میں ایک میٹنگ بلائی گئی ۔ آپ کے خلاف طرح طرح کے مشورے ہوئے یہاں تک کے آپ کے قتل کا منصوبہ تیار کیا گیااللہ رب العزت نے وحی کے ذریعہ اپنے پیارے محبوب علیہ السلام کو کفار کے ناپاک ارادوں سے مطلع فرمایااور جبریل امین آپ کی بارگاہ میں پیغام الٰہی لیکر حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ !آج کی رات آپ اپنے بستر پر آرام نہ فرمائیں بلکہ مدینہ منورہ کو ہجرت فرمالیں۔

27/26 صفرالمظفر10/9ستمبر622 ء جمعرات و جمعہ کی درمیانی رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکان سے ہجرت کیلئے روانہ ہوئے راستہ میں تین دن غار ثور میں قیام فرمایا اور یکم ربیع الاول 13 ستمبر622 ء پیر کے دن غار ثور سے روانہ ہو ئے اور مکہ سے مدینہ تک کا سفر طے کیا 4 ربیع الاول 16 ستمبرجمعرات کے روز قباء میں قیام فرمایا اور ایک مسجد تعمیر کرائی جس کو(مسجد قباء)کہتےہیں آپ کے ساتھ اس سفر میں حضرت ابو بکر صدیق اورآپ کے غلام عامر بن فہیرہ خادم کی حیثیت سے اور عبد اللہ بن اریقیط راستہ بتانے کیلئے آپ کے ساتھ تھے (یہ حضرات آپ کے سفرہجرت کے ساتھی کہلاتے ہیں)۔

12 ربیع الاول 24 ستمبر622ء بروز جمعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقام قباء سے سوار ہو کر بنی سالم کے مکانوں تک پہنچے جمعہ کی نماز کا وقت ہو چکا تھاآپ نے یہاں 100 لوگوں کے ساتھ جمعہ کی نماز ادا فرمائی ۔اس جگہ ایک مسجد تعمیر ہوئی جس کو(مسجد الجمعتہ)کہتے ہیں۔

مدینہ میں شاندار استقبال:

جب حضور مدینہ میں داخل ہوئے تو عاشقان رسول نے اپنے نبی کا استقبال کیااور خوشی سے نعرے بلند کئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری جس مقام پر بیٹھی وہ ایک میدان تھایہ زمین قبیلہ بنونجار کے دو یتیم بچوں سہل اور سہیل کی تھی حضور علیہ السلام نے زمین خرید نے کے سلسلہ میں ان دونوں بچوں سے بات کی ان دونوں بچوں نے عرض کی کہ ہم یہ زمین بطور ہدیہ آپ کو پیش کرتے ہیں لیکن حضورنے اس کی قیمت دس دینارادا کر کے اس زمین کو خریدااسی مقام پر’’ مسجد نبوی ‘‘کی آپ نے بنیاد رکھی اور تعمیرمیں صحابہ کرام کے ساتھ شریک رہے۔

چنانچہ مسلمانوں کا ہجری سال یہیں سے شروع ہوتا ہے کہ جس سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ کو ہجرت فرمائی یہ سال ہجری مسلمانوں کیلئے ترقی وبلندی کی غیر فانی یاد گار ہے اور یہیں سے اسلامی شریعت کا قرآنی آیات و فرامین مصطفی کے ذریعہ باضابط آغاز ہو جاتا ہے ۔

ہجرت کاپہلاسال :

اسی سال اذان کی ابتداہوئی ۔یہ بات بھی یاد رہے کہ ہجرت کے پہلے سال تک نماز ِبا جماعت کا کو ئی طریقہ نہیں تھالوگ جیسے ایک دوسرے کے بعد مسجد میں آتے اور خود سے نماز ادا کر لیا کرتے تھے حضور کو اپنی امت کا یہ انتشار پسند نہیں تھاحضور اپنی امت کے درمیان جمعیت ووحدت دیکھنا چاہتے تھے اور اذان کا مقصد بھی یہی تھا کہ لوگ ایک ساتھ جمع ہو کر جماعت کا اہتمام کر سکیں چنانچہ اذان کے بعد جماعت کا طریقہ بھی اسی سال اسلام میں جاری ہوا۔

اسی سال یہود یوں کے زبردست عالم دین حضرت عبداللہ بن سلام اور حضرت سلمان فارسی جوآتش پرست تھے مشرف با سلام ہوئے۔

مجاہدین اسلام کاسب سے پہلا سریہ:

اسی سال حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ماہ رمضان 622ء میں ابو جہل کے مقابلہ میں پہلا سریہ بھیجا گیامگر مقابلہ کی نوبت نہیں آئی۔

راہ خدا میں پہلا تیر:

ماہ شوال623ء اپریل میں مسلمانوں کا ایک دستہ حضرت عبیدہ بن حارث کی قیادت میں ابو سفیان کے مقابلہ میں بطن رابغ گیااس دستہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے انہوں نے سب سے پہلا تیر راہ خدا میں چلایا ۔

ہجرت کا دوسراسال : اسی سال پہلی مرتبہ17رمضان المبارک کوحق و باطل کا معرکہ پیش آیا جس کو جنگ بدر کیا جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانو ں کو فتح عطا فرمائی۔ اسی سال روزے فرض کئے گئے۔

اسی سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ آپ کا قبلہ بیت المقدس نہیں ہے بلکہ آپ کا قبلہ اب خانہ کعبہ ہے۔ اسی سال رمضان المبارک کے اختتام پر عید الفطر منانے کا حکم دیا گیااور اسی عید کے موقع پر صاحب نصاب لوگوں پر صدقہ فطر ادا کرنا واجب قرار دیا گیا۔ اسی سال زکوٰۃ فرض کی گئی۔

اسی سال حضور کی صاحبزادی حضرت رقیہ کا انتقال ہو اجو حضرت عثمان کے نکاح میں تھیں۔

اسی سال قربانی کرنے کا حکم ملا۔ اسی سال حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا۔

 

ہجرت کا تیسرا سال:

اسی سال جنگ اُحد ہوئی اسی جنگ میں رسول اللہ کا دندان مبارک شہید ہوا۔اسی جنگ احد میں حضور کے چچا سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی ۔ اسی جنگ میں غسیل الملائکہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے ۔

اسی جنگ میں اسلام کا پرچم حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھادشمن نے اچانک آپ کے دائیں ہاتھ پر وارکیا اور آپکا دایاں ہاتھ شہید ہو گیاآپ نے فوراً پر چم اسلام کو دوسرے ہاتھ میں تھام لیا اس بد بخت نے یہ دیکھ کر آپ کے بائیں ہاتھ پر بھی وار کیا اور آپ کا بایاں ہاتھ بھی جداہو گیا اس کے باوجود آپ نے پر چم اسلام کو اپنے سینے سے لگایا اور بلند آواز میں یہ آیت کریمہ کی تلاوت کی’’ومامحمد الارسول قد خلت من قبلہ الرسل‘‘پھر آپ پر اور تیر سے وار کیا گیا اور آپ نے بھی جام شہادت نوش فرمایا۔ اسی سال غزوئہ غطفان ہوا۔ اسی سال شراب حرام کی گئی۔ اسی سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت حفصہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہماسے نکاح فرمایا۔ اسی سال 15رمضان المبارک کوسیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ کے بطن مبارک سے پیدا ہو ئے۔ اسی سال آیت میراث نازل ہو ئی جس میں ذوی الارحام کے حقوق کا تفصیل سے ذکرہے۔

ہجرت کا چوتھا سال:

اس سال غزوئہ بنونضیر پیش آیا۔ اسی سال واقعہ ’’بیر معونہ ‘‘پیش آیاجس میں سترصحابہ کرام جو حفاظ قرآن تھے ان کو دھوکے سے گھیر کر شہید کیاگیاصرف حضرت کعب بن زید رضی اللہ عنہ باقی بچے تھے۔ اسی سال حضور نے پانچواں نکاح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کیا۔ اسی سال سیدنا حضرت امام حسین پیدا ہوئے۔ (نوٹ)حضرت فاطمہ کے تین بیٹے تھے ایک اور بیٹے حضرت محسن بھی تھے اور آپ کو اللہ نے دوبیٹیاں عطا فرمائی تھیں اور آپ نے دونوں بیٹیوں کے نام اپنی بہنوں کے نام پر رکھے تھے۔

ہجرت کا پانچواں سال :

اس سال غزوئہ خندق کا واقعہ پیش آیا اسی واقعہ کو ’’غزوئہ احزاب ‘‘بھی کہتے ہیں۔

اسی سال بنوقریظہ کا محاصرہ کیا گیاجو پچیس دن تک جاری رہااور حضرت سعدبن معاذ کو حَکم بناکر ان کے فیصلہ کے مطابق بنو قریظہ کو سزا دی گئی۔

اسی سال غزوئہ دات الرقاع پیش آیا۔ اسی سال غزوئہ دومتہ الجندل پیش آیا۔ اسی سال غزوئہ بنی مصطلق پیش آیا۔ اسی سال حضور کے نواسہ حضرت عبد اللہ بن عثمان نے وفات پائی جو حضرت رقیہ کے بطن سے تھے ۔

اسی سال مدینہ میں زلزلہ آیا۔

اسی سال چاند گہن ہوا۔ اسی سال حضورعلیہ السلام نے حضرت زینب بنت جحش سے نکا ح کیا ۔نوٹ :مذکورہ ازواج مطہرات کے علاوہ دوسری ازواج مطہرات کی تفصیل اس طرح ہے۔

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا: آپ کا نام ’’رملہ ‘‘ہے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ ام المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ:

آپ اپنے چچا زاد بھائی سکران بن عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں شوہر کے انتقال کے بعد رسول کریم نے آپ سے نکاح فرمالیا۔ ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا: آپ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اورآپ کنانہ بن ابی الحقیق کے نکاح میں تھیں،پھر آپ کانکاح حضور علیہ السلام سے ہو گیا،پہلے آپ کانام زینب تھا حضورنے آپ کا نام صفیہ رکھا۔

ام المؤمنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا: آپ قبیلہ بنی مصطلق کے سردار حارث بن ضرار کی بیٹی ہیں پہلے آپ کا نام برّہ تھا بعد میں آپ کا نام جویریہ ہوا،غزوئہ مریسیع کی فتوحات کے نتیجہ میں حضرت جویریہ آئیں تھیں۔نبی کریم نے ان کوآزاد فرماکر شرف زوجیت سے نوازا۔ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا:

پہلے آپ ابورہم بن عبد العزی کے نکاح میں تھیں ،7ھ میں عمرۃالقضاء کے بعد سرکار دو عالم نے آپ سے نکاح فرمایا۔ان سے نکاح کے بعد پھر حضور نے کسی سے نکاح نہیں کیا۔

ہجرت کا چھٹاسال:

اس سال حضورصلی اللہ علیہ وسلم 1450 صحابہ کرام کو اپنے ساتھ لیکرعمرہ وزیارت کعبہ کی غرض سے احرام باندھ کر مدینہ سے مکہ کو روانہ ہوئے جب مقام حدیبیہ پر پہنچے تو کفار مکہ نے روک لیا اورآگے بڑھنے کی ممانعت کر دی اورجنگ کا خطرہ لاحق ہو نے لگا حالات کا جائزہ لیکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے عہد لیا کہ اگر لڑائی ہو ئی تو پیٹھ نہ دکھاکر ایک ایک کرکے قربان ہو جاؤ گے اس معاہدہ کو ’’بیعت رضوان‘‘ کہتے ہیں۔

لیکن صورت ایسی پیدا ہوئی کہ صلح کی بات چیت کا سلسلہ شروع ہوااور کسی قدر مسلمانوں کو دبناپڑا حضور اور آپ کے صحابہ بغیر عمرہ اور زیارت کعبہ کے ہی واپس ہو ئے ۔تاریخ میں یہ معاہدہ ’’صلح حدیبیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔اسی چھہ ہجری میں آپ نے اسلام کی اشاعت کیلئے مختلف ممالک میں وفود بھیجے اور دوسری جانب بادشاہو ں کو اسلام قبول کر نے کی دعوت دی۔

جب حبش کے باد شاہ نجاشی کو حضور نے اسلام قبول کرنے کیلئے خط بھیجاتو اس نے اس مبارک خط کو آنکھوں سے لگا یااور کلمہ شہادت پڑھ کے حضور کی رسالت کا اقرار کیا اور مسلمان ہو گیا۔اس کے علاوہ روم کے باد شاہ ہرقل ،ایران کے کسری اورعزیز مصر موقو قس کو بھی دعوت اسلام بھیجی مگر انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا لیکن کھل کر حضور علیہ السلام کی مخالفت بھی نہیں کی۔

ہجرت کا ساتواں سال :

حدیبیہ سے واپسی کے بعد ابھی ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھاخبر پہنچی کہ خیبر کے یہودی دوسرے قبیلوں کے لوگوں کے ساتھ مدینہ پر حملہ کر نا چاہتے ہیں اس خبر کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت رضوان میں شامل صحابہ کرام کو ساتھ لیکر خیبر پر حملہ کر دیااور یہاں یہودیوں کے 8 قلعے جوبہت بڑے بڑے بنے ہو ئے تھے اللہ رب العز ت نے سب قلعوں پر فتح عطا فرمائی سوائے ایک قلعئہ قموص کے یہ قلعہ بھی حضرت علی کے ذریعہ بعد میں فتح ہوگیا تھا ۔

اسی سات ہجری میں خیبر کے بعد فدک کے یہودیوں سے صلح ہو گئی ۔

اسی سات ہجری میں حضور کے ساتھ صحابہ کرام نے عمرہ ادا کیا ۔جو چھہ ہجری میں آپ کو روک دیا گیا تھا عمرہ کرنے سے۔ اسی سات ہجری میں نزول قرآن کے بعد کچھ فقہی احکامات مسلمانو کے لیے جا ری ہوئے جیسے کہ

(۱) عرب کے لوگ پنجہ سے کھانے والے پرندوں کا گوشت بہت شوق سے کھا تے تھے اس سال ان پرندوں کا گوشت حرام قرار دیا گیا۔

(۲)عربوں میں درندوں کا گوشت بھی بہت شوق سے کھا یا جاتا تھاان درندوں کے گوشت کو بھی حرام قرار دیا گیا نیزگدھااورخچر کو بھی حرام قرار دیا گیا۔(۳)عرب میں متعہ کا عام رواج تھا اسی سال متعہ بھی حرام ہو گیا۔

(۴)اسی سال سونے کی سونے کے ساتھ اور چاندی کی چاندی کے ساتھ خرید و فروخت کمی و زیا دتی کے ساتھ حرام قرار دی گئی اور حکم دیا گیا کہ چاندی کو چاندی کے بدلہ اور سونے کو سونے کے بدلہ برابری کے ساتھ ہی بیچنا لازمی ہے ،کمی وزیادتی حرام ہے۔

(۵)باندیوں کے متعلق استبراء کا حکم دیا گیا یعنی ایک ماہواری تک باندی سے صحبت جائز نہیں ہے،اگر حیض آجائے تو پاک ہو نے کے بعد صحبت کی جا سکتی ہے،اور اگر حیض نہ آئے اس کا حاملہ ہو نا ظاہر ہو جا ئے تو بچہ پیدا ہونے تک صحبت نہ کی جائے۔

ہجرت کا آٹھواں سال :

مقام موتہ پر جو شام کے علاقہ میں ہے روم کے عیسائیوں سے جنگ ہو ئی اس جنگ میں اسلامی فوج کے تین جرنیل حضرت زید بن حارثہ ،حضرت جعفر طیاراورعبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کے بعد شہید ہو گئے پھر اسلامی جھنڈاحضرت خالد بن ولید نے سنبھالااور مسلمان مجاہدین کو ڈیڑھ لاکھ کے چنگل سے نکال کر بخیروعافیت واپس لے آئے صرف 12 مسلمان شہید ہوئے۔

فتح مکہ:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم20 رمضان المبارک 11 جنوری30 6ء کوپنچشنبہ کے روز اسلامی لشکرکے ساتھ فاتحانہ انداز میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور زبان مبارک پر سورہ فتح کی تلاوت جاری تھی خانہ کعبہ میں داخل ہوکر رب کے دربار میں دورکعت نماز شکر ادا کی پھر360 بت(باطل معبود) جورکھے ہوئے تھے انہیں چھڑی کے اشارے سے گرادیاگیا۔

پھر باہر تشریف لیکر آئے تو وہ لوگ حاضر تھے کہ جن کی عمر آپ کو ستانے و تکالیف پہچانے اور اسلام کو مٹانے کی کوششوں میں گزری تھی آپ نے ان لوگوںسے کہا بتاؤ آج تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہونا چاہئے ان مجرموں نے برجستہ جواب دیا کہ آج ایک شریف انسان ،اعلیٰ اخلاق کے پیکراور کریم النفس سے جو توقع کی جا سکتی ہے نبی رحمت نے یہ جواب سن کر ارشاد فرمایا کہ آج تم سب آزاد ہو جو ہوا سب کچھ بھلا دیا گیااور ارشاد فرمایا کہ اے جماعت قریش! خدا نے زنانہ جاہلیت کے نسلی و خاندانی تکبر کو ختم کر دیا ہے ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیاتھاارشاد باری تعالیٰ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے،مختلف خاندان اور قبیلوں میں اس لئے تقسیم کر دیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو ،مگر اللہ کا مقرب بندہ وہ ہے جو تقویٰ اور پر ہیز گاری میں بڑہا ہوا ہے۔(قرآن)فتح مکہ کے بعد غزوئہ حنین ہوا۔ اسی سال طائف کا محاصرہ کیا گیا ۔

اسی سال حضور علیہ السلام نے عمرہ کیا۔اسی سال حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے حضور نبی اکرم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے ۔

اسی سال حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب کا انتقال ہوا۔

ہجرت کا نواں سال :

اس سال مسلمانوں پر حج فرض ہوا۔اسی سال عرب کے بڑے بڑے قبیلوں کے وفود آئے یہ سب مسلمان ہو کر دوسرو ں کیلئے مبلغ اسلام بن کر واپس ہو ئے۔

اسی سال حج کا انتظام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذمہ لیا اور اس کام کو انجام دینے کیلئے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کوامیر حج بنا کر صحابہ کرام کو حج ادا کرنے کیلئے بھیجا۔اسی سال مشرکوں کے متعلق اسلامی حکومت کی پا لیسی کا اعلان کیا گیا۔ اسی سال مشرکین مکہ کے کیلئے کعبتہ اللہ میں داخلہ کی پابندی کا اعلان کر دیا گیا۔

اسی سال زکوٰۃ و صدقات کی وصولیابی کیلئے عمال مقرر کئے گئے۔ اسی سال سورہ برأت کی چالیس آیتیں نازل ہو ئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت ودعوت تبلیغ کا یہ اثر ہواکہ لو گ اس سال کثیر تعداد میں مسلمان ہو نا شروع ہو گیے۔ اسی سال واقع تبوک پیش آیا۔

ہجرت کا دسواں سال:

اس سال حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے خود حج ادا فرمایا جس کو’’ حجتہ الوداع‘‘کہا جاتا ہے اور یہی آپ کا آخری حج ہے۔9 ذی الحجہ کو میدان عرفات میں آپ نے اس تاریخی موقع پر ایک تاریخی خطبہ پیش کیاعازمین حج کے سامنے جس میں آپ نے اپنی رحلت کی پیشن گوئی بھی بیان فرمائی جس کا خلاصہ اس طرح ہے

’’لوگوں میری باتوں کو غور سے سنو!مجھ کو یقین نہیں ہے کہ آئندہ سال میں آپ سے اس مقام پر پھر مل سکوں ۔جس طرح اس دن اور اس مہینے میں خونریزی حرام ہے ،اسی طرح تمہارا خون ،تمہارامال اور تمہاری آبروایک دوسرے پر حرام ہے،تم کو چاہئے کہ امانتیں ان کے مالکوں کے سپرد کر دیا کرو،دوسروں پر ظلم نہ کرو تا کہ تم دوسروں کے ظلم سے محفوظ رہ سکو،سود کا لین دین حرام ہے،اب شیطان کی پرستش اس زمین پر نہیں ہوگی،مگر چھوٹے چھوٹے امور میں اس کی اطاعت کی جائے گی

لہٰذا تم اس کی اطاعت سے بچتے رہنا۔مسلمان عورتوں کا تم پراسی طرح حق ہے کہ جس طرح تمہارا عورتوں پر حق ہے ۔

عورتوں کے ساتھ بھلائی کرومیں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب دوسرے نبی کی سنت۔جب تم کتاب اور سنت پر عمل کرتے رہو گے گمراہ نہیں ہو گے ،تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے مال میں تصرف کرے ۔تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔‘‘خطبہ کے دوران ہی آپ نے لوگوں سے پو چھا ’’کہ بتاؤ میں نے احکام الٰہی تم تک پہنچا دئے؟‘‘

سب نے ایک ساتھ مل کر جواب دیا ہاں! آپ نے احکام الٰہی ہم تک پہنچا دئے ۔حضور نے فرمایا تم سب گواہ رہنا نیز ارشاد فرمایا جو لوگ یہاں موجودہیں دوسرے لوگوں تک میری نصیحت کو پہنچا دیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تاریخی خطبہ جاری ہی تھا کہ اس موقعہ پر اللہ رب العزت نے قرآن عظیم کی سب سے آخری آیت کریمہ نازل فرماکر’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا‘‘۔’’یعنی آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور دین کے لحاظ سے تمہارے لئے اسلام کو پسند کیا‘‘(قرآن)۔تکمیل دین اور تکمیل قرآن کا اعلان کر دیاگیا۔

اس کے بعد حضورصلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی باگ ڈور خلافت راشدہ کے حوالے کرکے 12ربیع الاول 11ھ مطابق 8 جون 632ء کوچاشت کے وقت اللھم باالرفیق الاعلیٰ فرماتے ہوئے اس عالم فانی سے اپنے مالک حقیقی اللہ رب العزت سے جاملے اور وصیت کی ”الصلوٰۃ الصلوٰۃ وما ملکت ایمانکم“ نماز کی پابندی کرنا،نماز کی پابندکرنا اپنے مملوکہ غلاموں اور باندیوں کے ساتھ پوری پوری رعایت کرنا۔

نوٹ:یہ اللہ کے رسول کی مبارک زندگی کا اجمالی خاکہ ہے جوآپ کی مکمل سیرت کے مطالعہ سے مستثنیٰ نہیں کرسکتا،مسلمانوں پر لازم ہے کہ بے جاسوشل میڈیا کے استعمال سے اجتناب کرتے ہوئے اپنا وقت رسول اللہ کی سیرت کے مطالعہ میں لگائیں اور سیرت رسول کے مطابق زندگی گزاریں تاکہ دارین کی فلاح حاصل کرسکیں۔

از۔۔۔۔محمد محفوظ قادری 

رام پور یو۔پی 9759824259

Leave a reply

  • Default Comments (0)
  • Facebook Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *