حضرت غوث اعظم کی حیات و خدمات
حضرت غوث اعظم کی حیات و خدمات !
از۔۔۔ محمد محفوظ قادری
آپ کی پیدائش مبارک :
یکم رمضان 471 ھ مطابق 17 مارچ1078ء کو ایران کے مغربی شہر جیلان میں ہوئی، اسی لیے آپ کوجیلانی کہا جاتا ہے ۔ آپ کا اسم گرامی سیدعبد القادر ہے اورغوث اعظم کے نام سے بھی آپ کو جانا جاتا ہے ۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ک اتعلق حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کے روحانی سلسلے سے ملتا ہے۔ آپ سنی حنبلی طریقہ کے نہایت ہی عظیم بزرگ وشیخ اور سلسلہ عالیہ قادریہ کے بانی ہیں ۔
سلسلہ نسب:
آپ کا شجرہ سید ابو صالح موسیٰ جنگی دوست بن عبد اللہ الجیلی بن سید یحییٰ زاہدبن سید محمد مورث بن سید داؤد بن سید موسیٰ ثانی بن سیدموسیٰ الجون بن سید عبد اللہ ثانی بن سیدعبداللہ المحض بن سید حسن المثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن سیدنا مولیٰ علی مشکل کشا کرم اللہ وجہ سے ملتا ہے۔ اور والدہ کی طرف سے آپ کا نسب حضرت امام حسین سے ہوتا ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جا ملتا ہے۔
اکابرین اسلام کی عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے پیشین گوئیاں :
1 ۔شیخ عبد القادر جیلانی کی ولادت سے چھ سال قبل حضرت شیخ ابواحمد عبداللہ بن علی بن موسیٰ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ عنقریب ایک ایسی ہستی آنے والی ہے جس کا فرمان ہوگاکہ:
قدمی ھذا علی رقبۃ کل ولی اللہ’’کہ میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردنوں پر ہے‘‘۔
2 حضرت شیخ عقیل سنجی سے پوچھا گیا کہ اِس زمانے کے قطب کون ہیں؟
فرمایااس زمانے کا قطب مدینہ منورہ میں پوشیدہ ہے۔سوائے اولیاء اللہ کے اُسے کوئی نہیں جانتا۔ پھر عراق کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اس طرف سے ایک عجمی نوجوان ظاہر ہوگا۔ وہ بغداد میں وعظ کرے گا۔ اس کی کرامتوں کو ہر خاص و عام جانے و پہچانے گا اور وہ فرمائے گا کہ قدمی ھذا علی رقبۃ کل ولی اللہ”کہ میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردنوں پر ہے‘‘۔
سالک السالکین میں ہے کہ جب عبد القادر جیلانی کو مرتبئہ غوثیت و مقام محبوبیت سے نوازا گیا تو ایک دن جمعہ کی نماز کا خطبہ دیتے وقت اچانک آپ پر استغراقی کیفیت طاری ہو گئی اور اُسی وقت زبانِ فیض سے یہ کلمات جاری ہوئے: قدمی ھذا علی رقبۃ کل ولی اللہ’’کہ میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردنوں پر ہے‘‘۔
منادئیے غیب نے تمام عالم میں ندا کردی کہ جمیع اولیاء اللہ اطاعتِ غوثِ پاک کریں۔ یہ سنتے ہی جملہ اولیاء اللہ جو زندہ تھے یا پردہ کر چکے تھے سب نے گردنیں جھکا دیں۔
خواجہ غریب نواز چشتی کاسرجھکانا:
حضرت خواجہ غریب نواز چشتی اجمیری ان دنوں خراسان کے پہاڑوں میں مجاہدات و ریاضات میں مشغول تھے روحانی طورپر غوث اعظمؒ کامندرجہ بالاارشادگرامی سن کراپنی گردن اسقدرجھکائی کہ پیشانی زمین کوچھونے لگی اور عرض کی’’قَد مَاکَ عَلیٰ رَاسِی وَ عَینِی‘‘(آپکے دونوقدم میر ے سروآنکھوں پرہوں) حضرت غوث الاعظمؒ نے اس اظہارنیاز ی سے خوش ہوکرمجلس میں فرمایاکی غیاث الدین کے بیٹے معین الدین نے گر دن جھکانے میں سبقت کی ہے جس کے باعث عنقریب اسکوولایت ہند کاسردار بنایاجائیگا۔
ابتدائی تعلیم :
آپ نے ابھی ہوش بھی نہ سنبھالا تھا کہ والد ماجد حضرت ابو صالح موسیٰ جنگی دوست وصال فرماگئے والد کی رحلت کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داری نانا جان حضرت سید عبداللہ صومعی علیہ الرحمہ نے اپنے ذمہ لے لی۔ابتدائی تعلیم آپ نے ا پنے آبائی وطن جیلان میں رہ کر حاصل کی پھر جب آپ کی عمرمبارک 18سال کی ہوئی تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے بغداد جانے کا ارادہ فرمایاوالدہ سے اجازت چاہی تو انہوں نے باوجود بڑھاپے کے آپ کو تحصیل علم کے لیے بغداد جانے کی اجازت مرحمت فرمائی والد صاحب نے جو کچھ وراثت میں چھوڑا تھا
اس میں سے آدھا یعنی چالیس دینار والدہ نے آپ کو ضروریات پوری کرنے کے لیے دیئے اوران کوحفاظت کے واسطے پیرہن کے بغل کے نیچے سی دیااوراپنے اِس لخت جگرکودعائیں دیکر رخصت کیااوربوقت رخصت فرمایا۔کہ اے ’’عبدالقادر میں تجھے نصیحت کرتی ہوں کہ ہمیشہ سچ بولنا جھوٹ ہرگز نہ بولنا‘‘ والدہ سے رخصت ہوکر آپ بغداد کی جانب جانے والے قافلے میں شامل ہوگئے اور قافلہ بغداد کی طرف چل پڑاجب قافلہ مقام ہمدان کے قریب پہنچا تو اچانک بہت سے ڈاکو حملہ آور ہوگئے اور پورے قافلے کو لوٹ لیاآپ کے بھی پاس ایک ڈاکوآیا اور دریافت کیا کہ تمہارے پاس کچھ ہے تو آپ نے اسے بتادیا کہ آپ کے پاس چالیس دینار ہیں
لیکن اس ڈاکوکو آپ کی بات پریقین نہ ہوااور وہ آپ کو چھوڑ کر آگے چلا گیاجب پورے قافلے کو لوٹ کر ڈاکو فارغ ہوگئے تو سردار نے پوچھاکہ کوئی باقی تو نہیں بچا؟ اِس پر ایک ڈاکونے کہا ایک کم عمربچہ کہہ رہا ہے کہ اُس کے پاس چالیس دینا رہیں لیکن مجھے اُس کی بات پر اعتبار نہ ہوا اِس لیے میں نے اُسے چھوڑ دیا۔
اِس کی تصدیق اُس کے دوسرے ساتھیوں نے بھی اورکہا کہ ہم سے بھی اُس بچے نے یہی کہا ہےسردار نے کہا اُس بچے کو پکڑ کرلاؤ اِس پر ڈاکو آپ کے پاس آئے اور آپ کو لے کر اپنے سردار کے پاس حاضر ہوئے ڈاکوؤں کے سردار نے آپ سے وہی سوال کیا کہ تمہارے پاس کیا ہے؟
آپ نے فرمایا میرے پاس چالیس دینار ہیں اور میں پہلے بھی تمہارے آدمیوں کو بتا چکا ہوں۔سردار نے پوچھا کہاں ہیں؟ آپ نے بھی بتا دیا کہ وہ پیرہن میں بغل کے نیچے سلے ہوئے ہیں ڈاکوؤں کے سردار نے پیرہن چاک کیا اوراُس سے 40 دینار بر آمد ہوئے تو اُس نے آپ سے دریافت کیا یہ دینار تو ہم سے چھپے ہوئے پوشیدہ تھے تم چاہتے تو انہیں ہم سے چھپا لیتے، تم نے سچ سچ کیوں بتا دیا؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم ڈاکو ہیں؟
آپ نے فرمایا میں یہ جانتا ہوں، لیکن میں نے ایسا اس لیئے کیا کہ مجھے میری والدہ نے رخصت کرتے وقت نصیحت کی تھی کہ حالات کچھ بھی ہوں مگر تم ہمیشہ سچ بولنا ہر گزکبھی بھی جھوٹ نہ بولنا۔ بھلا میں ان حقیر سکوّں کے لئے اپنی ماں سے کئے ہوئے وعدے کو کیسے ٹھکرا دیتا اس لئے میں نے بالکل سچ سچ بتادیا،۔
بظاہر یہ معمولی سی بات تھی لیکن ڈاکوؤں کے سردار پر اِس کا بڑا اثر ہوا اور کہنے لگا کہ ایسے نازک قت میں بھی کہ تم اپنی ماں سے کئے وعدے کو نبھارہے ہو او رہم اللہ کے گناہ گار بندے ہیں جو اس فانی اور حقیر دنیا کے لیے ظلم وجبر،لوٹ کھسوٹ اورڈاکہ جیسے عظیم گناہوں میں مبتلا ہیں اور اللہ کے بندوں پر بے جا ظلم وستم کر کے اپنی دنیا وآخرت کو تباہ وبرباد کرنے میں لگے ہو ئے ہیں یہ کہہ کر وہ رونے لگا۔
جب ڈھارس بندھی تو اُس نے آپ کے دست مبارک میں ہاتھ رکھ کر اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرلی جب ڈاکوؤں نے اپنے سردار کو توبہ کرتے ہوئے دیکھا تو اُن لوگوں نے کہا رہ زنی میں تو ہمارا سردار تھا اب توبہ میں بھی تو ہمارا سردار رہے گا یہ کہہ کر تمام ڈاکوؤں نے توبہ کی اور قافلے کا سارا سامان واپس کردیا۔
اسی جھوٹ کاذکرکرتے ہوئے اللہ رب العزت قرآن میں فرماتاہے کہ جھوٹوں پراللہ کی لعنت ہے اور اسی کی تفسیرکرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جھوٹ بولناگناہ ہے اورگناہ دوزخ کاراستہ دکھاتاہے اور ایک دن وہ آتاہے کہ اُسکانام جھوٹوں کی فہرست میں لکھ دیاجاتاہے۔اورحضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جھوٹ کی بد بو سے فرشتہ ایک میل دور ہٹ جاتا ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم کیا گیا کیا مومن بزدل ہوتا ہے ؟آپ نے فرمایا ہاں!(ہوسکتا ہے)پھر عرض کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے ؟آپ نے فرمایا ہاں !(ہو سکتا ہے )پھر معلوم کیا گیا مومن کذاب یعنی جھوٹا ہو سکتا ہے؟آپ نے فرایا نہیں۔اورسچ بولنااُ س پر قائم رہنایہ ایک نیک عمل ہے اور نیک عمل جنت کی طرف لیجاتاہے،اورایک دن وہ آتاہے کہ اُسکانام سچوں کی فہرست میں لکھ دیاجاتاہے۔اور قیامت کے دن سچائی سے زیادہ کسی نیک عمل کاوزن نہیں ہوگا۔
غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے چند اہم ملفوظات وارشادات
شارح بخاری اور مشائخ مارہرہ مطہرہ
مناظر اہل سنت حضرت علامہ مفتی محمد طفیل احمد رضوی نوری
حضورحاجی شاہجی محمد شیر میاں رحمتہ الله علیہ
ممتاز و روحانی شخصیت حضرت حافظ شاہ جمال اللہ نقوش پارینہ
دنیائے فقہ میں سراج الفقہا مفتی نظام الدین صاحب حفظہ اللہ
معزز علماے اہل سنت سے مودبانہ گزارش
مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی
جنگ آزادی 1857ء کا روشن باب : قائد انقلاب علامہ فضل حق خیرآبادی
جنگ آزادی میں علماے کرام کی سرگرمیاں
لہٰذا آپ کی ایک سچائی نے ڈاکوؤں کے پورے قا فلے کوجنت کاراستہ دکھا کربُرے کاموں سے بچادیا۔اور آپکی سچائی نے ہی آپ کوتمام اولیاکاسرداربنادیا۔اللہ رب العزت ہمیں بھی تمام عبادات ومعاملات کوجھوٹ ومکر وفریب سے بچاکرسچائی کیساتھ کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ اور تمام اعمال صالحہ میں اخلاص پیدا فرمائے ۔(آمین)
بہر حال اس واقعہ کے بعد آپ بغداد پہنچ گئے جہاں آپ کو فقہ کے علم میں ابو سید علی مخزمی ،علم حدیث میں ابو بکر بن مظفراور تفسیر کے علم کیلئے ابو محمد جعفر جیسے جلیل القدر اساتذہ میسر آئے۔تحصیل علم کے بعد شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ بغداد شہر کو چھوڑ کر عبادت و ریاضت کی غرض سے عراق کے جنگلوں اور صحراؤں کی طرف نکل گئے اور 25سال سخت عبادت وریاضت کرنے کے بعد پھر دوبارہ بغداد میں آکر سکونت اختیا ر کی اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا ۔
اور بہت جلد ہی آپ کے ولئی کامل،صوفئی باصفا اور شیخ معظم ہو نے کی شہرت چاروں طرف عام ہو گئی اور 40سال تک آپ خدمت دین اور اشاعت اسلام کرتے رہے نتیجتاً ہزار ہا لوگ آپ کے ذریعہ مشرف باسلام ہو ئےاور اسی تبلیغی سلسلہ کو وسیع کرنے کیلئے آپ نے دور دراز وفود بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا ۔اور خود سید نا عبد القادر جیلانی نے اشاعت اسلام کیلئے دور دراز کے سفر طے کئے اور بر صغیر تک تشریف لے گئے اور یہاں تک کہ آپ نے ملتان میں بھی قیام کیا۔
بچپن سے ہی آثار ولایت و بزرگی کا ظاہر ہونا:
اولیاء کرام قیامت تک آتے رہیں گے لیکن اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ علم وفضل ،کشف وکرامات ،مجاہدات و تصرفات اور ساتھ ہی حسب ونسب کی خصوصیات کی وجہ سے حضرت غوث اعظم کو اولیاء کرام کی جماعت میں جوخصوصی امتیاز حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں ہے اسی وجہ سے ہم غوث اعظم کو ولیوں کا تاجدار کہتے ہیں اور جب اللہ رب العزت اپنے بندوں کو مقام ولایت عطافرماتا ہے تو ان کی ولایت کو زائل نہیں فرماتا ہے ۔آپ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ ام الخیر بیان فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ ابر کے باعث 29 شعبان کو چاند کی روئیت نہ ہو سکی اور لو گ شک میں تھے ۔
لیکن جب صبح ہو تی ہے تو اللہ کے اس مادر زاد ولی نے صبح کو دودھ نہیں پیابا لآ خر آپ کے دودھ نہ پینے کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ آج یکم رمضان المبارک ہے۔آپ کی والدہ محترمہ بیان فرماتی ہیں کہ پورے عہدے رضاعت میں آپ کا یہ حال رہتا کہ آپ سال کے تمام مہینوں میں دودھ پیتے رہتے تھے۔
لیکن جیسے ہی رمضان شریف کا مہینہ آتا تو آپ کا یہ معمول ہو جاتا کہ طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک آپ دودھ نہیں پیتے یعنی رمضان شریف کے پورے مہینے آپ دن میں روزے سے رہتے تھے اور جب مغرب کے وقت اذان ہوتی اور لوگ افطارکرتے تو آپ بھی دودھ پیکر افطار کیا کرتے تھے۔
غوث اعظم اپنے لڑکپن کے متعلق خود ارشاد فرماتے ہیں کہ عمر کے ابتدائی دور میں جب کبھی میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنا چاہتا تو غیب سے آواز آتی کہ اے!عبد القادر لہوولعب سے پاک رہوجسے سن کر میں رک جاتا اور اپنے آس پاس دیکھتا تو کوئی آز دینے والا دکھا ئی نہیں دیتا تھاجس سے مجھے دہشت سی معلوم ہو تی اور میں بھاگتا ہوا گھر آتااور اپنی والدہ کی آغوش میں چھپ جاتا تھا۔
اب وہی آواز میں اپنی تنہائیوں میں سنا کرتا ہوں اگر مجھے کبھی نیند آجاتی ہے تو وہ آواز مجھے فوراً آگاہ کر دیتی ہے کہ اے! عبد القادر آپ کو اس لئے پیدا نہیں کیا ہے کہ آپ سویا کروبلکہ آپ جس مقصد کیلئے پیدا کئے گئے ہو اس مقصد کو اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کیلئے پورا کرو۔
روایت ہے کہ جب سرکار غوث اعظم کی عمر چار سال کی ہوئی تواسلامی رسم و رواج کے مطا بق والد محترم شیخ ابو صالح آپ کو اپنے ساتھ مکتب میں پڑھائی کی غرض سے داخل کرنے کے لیے لے کر گئے استاد نے آپ سے کہاپڑھو! بسم اللہ الرحمان الرحیم آپ نے بسم اللہ پڑھنے کے ساتھ الحمد سے لے کر 18 سپارے زبانی سنا دئےاستاد نے حیرت سے معلوم کیا کہ آپ نے یہ سپارے کب پڑھے اور کیسے پڑھے؟
تو آپ نے فرمایا کہ میری والدہ ماجدہ 18 سپاروں کی حافظہ تھیں جن کو وہ روزانہ تلاوت کیا کر تی تھیں جب میں شکم مادر میں تھا تو مجھے یہ18 سپارے سن سن کے یاد ہو گئے۔
حضرت غوث اعظم نے شیخ حماد بن مسلم سے قرآن عظیم حفظ کیا۔سر کار غوث اعظم نے 528ھ میں علوم کی تحصیل سے فراغت پائی اور مختلف اطراف کے لو گ آپ سے شرف تلمذ حاصل کر کے علوم دینیہ سے مالا مال ہو ئے ۔سوانح نگار لکھتے ہیں کہ کسی بھی ولی کی کرامتیں اس قدر تواتر کے ساتھ ہم تک نہیں پہنچیں کہ جس قدر حضرت سیدنا عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی کرامتیں ہم تک پہنچی ہیں۔
اللہ کی مخلوق کے درمیان آپ کی مقبولیت ایسی رہی کہ اکابر واصاغر سبھی عالم استعجاب میں مبتلا ہیں ۔مقبولیت و ہر دل عزیزی کے ساتھ ساتھ آپ کی زبان میں شیریں بیانی اور وعظ میں اثر آفرینی بھی حیران کن تھی بلکہ یون بھی کہہ سکتے ہیں آپ کی حیات مقدسہ کا ایک ایک لمحہ کرامت ہے ۔
غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاعلمی مقام ومرتبہ:
غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشادفرماتے ہیں کہ ایک روزمیں نے ظہرکے وقت سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا’’اے بیٹے تم وعظ کیوں نہیں کہتے‘‘میں نے عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم’’میں ایک عجمی انسان ہوں عرب کے فصحاء کے سامنے کیسے زبان کھولوں‘‘ یہ سن کرحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’منہ کھولو‘‘میں نے اپنامنہ کھولا توخاتم النبین شفیع المذنبین سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے منہ میں سات مرتبہ اپنالعاب دہن ڈالا اورفرمایاجاؤلوگوں کووعظ ونصیحت کرو۔پھرمیں نے ظہرکی نمازپڑھی اوروعظ کرنے کے لئے بیٹھ گیا۔
لوگ میرے اردگردجمع ہوگئے۔میں ابھی دل ہی دل میں کچھ سوچ رہاتھا کہنے کے لیے کہ ایک دم حضرت علی مشکل کشا شیرخداکرم اللہ وجہہ الکریم تشریف لائے اورفرمایا’’عبدالقادر‘‘منہ کھولو۔میں نے منہ کھولا توحضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے میرے منہ میں چھ مرتبہ اپنالعابِ دہن ڈالا۔ میں نے عرض کیا۔کہ اے ولایت کے سردار آپ نے سات مرتبہ لعاب دہن سے مجھے کیوں نہیں نوازا۔ولایت کے سردارحضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاادب کر تے ہوئے میں نے یہ عمل چھہ مرتبہ کیایہ فرماکرحضرت علی رضی اللہ عنہ غائب ہوگئے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وعظ کاآغازکیااورفصاحت وبلاغت کے دریابہاکرحکمت کے وہ موتی چاروں طرف بکھیرے کہ بڑے بڑے فصحائے عرب اپنے آپ کوغوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے کمترسمجھنے لگے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی روحانی طاقت:
جب بغدادمیں آپ کی مجالس وعظ میں ستر، ستر (70,70) ہزار سامعین کا مجمع ہونے لگاتو اللہ نے آپ کویہ خوبی و روحانی طاقت عطافرمائی کہ ستّر ہزار کے مجمع میں آپکے پاس بیٹھنے والا جتنی آواز سنتاتھااُتنی ہی آواز مجمع کے آخرمیں بیٹھنے والاسنتاتھااللہ نے اس درجہ کمال کی آپکوروحانی طاقت عطافرمائی تھی۔
وجہ تسمیہ محی الدین:
اِس لقب کی وجہ آپ سے دریافت کی توآپ نے فرمایا ’’میں ایک دفعہ ایک لمبے سفر سے بغداد کی طرف لوٹ رہاتھا،میر ے پا ؤں ننگے تھے۔مجھے ایک بیمار آدمی ملا جس کا رنگ چہر ے کا اُڑاہوا تھا اور وہ بہت ہی نحیف الجسم نظرآرہا تھا مجھے اُس نے سلام کیامیں نے ’’وعلیکم السلام‘‘ کہا تومجھ سے کہنے لگامیرے قریب ہوجاؤمیں نزدیک ہواتومجھ سے کہا مجھے اُٹھاؤمیں نے اُ سے اُٹھاکربٹھایاتواُس کاجسم اچھا اور توانانظرآنے لگااوراُس کے چہر ے پررونق آگئی مجھ سے اس نے کہاکیاتم مجھے پہچانتے ہو؟
میں نے جواب دیانہیں توکہنے لگامیں تمہارے ناناجان کادین ہوں جواِس قدر کمزورہوگیاتھااب آپنے دیکھ لیا ہے کہ آپ کی وجہ سے اللہ رب العزت نے مجھے ازسرنو زندگی عطاکی ہے آج سے تمہارانام ’’محی الدین‘‘ہوگیاہے۔جب میں جامع مسجد کی طرف واپس آیاتومجھے ایک شخص ملااور مجھے پکارنے لگاسیدمحی الدین۔
اُس کے بعد میں نے نماز ادا کی تولوگ میرے سامنے ا دبًاکھڑے ہوگئے اور میرے سہاتھوں کابوسہ لینے لگے اور زبان سے ’’یاسیدمحی الدین‘‘ پکارتے جا تے تھے حالانکہ اس سے پہلے مجھے کوئی بھی اس لقب سے نہیں پکارتاتھا۔
علمی خدمات:
شیخ عبد القادر جیلانی نے طالبین حق کے لئے گرانقدر کتابیں تحریرکیں ان میں سے ایک کتاب بہت مشور ہوئی ،غنیۃ الطالبین۔
اللہ کے بندوں کی اصلاح:
غوث اعظمؒ نے اطاعت حق تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی واتباع کی عظیم دولت سے لوگوں کوروشناس کرایا حضرت غوث اعظمؒ کامقصد حقیقی بھی یہی تھا۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ سے ملاکرفرمانبردار عبادت گزا ر،پرہیزگار بنا کر ان کو دارین کی سعادتوں کاحقداربنایاجائے اور رسول اللہؐ کی تابعداری اطاعت،سنتوں پر عمل پیرائی کا قلبی ذوق وشوق پیدا کر کے پورے معاشرہ میں صدق و صفا، نیکی و بھلائی پر مبنی انقلاب رونما کیا جائے۔
حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے خالق کائنات کی عبادت کا سچانمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا اور مخلوق خدا کی راحت رسانی،گمراہوں کو راہ راست پر گامزن کرنے،اہل سعادت کی روحانی تربیت،احیاء و تجدید، عقائد و اعمال کی اصلاح، معاشرہ کی ازسر نو تعمیر اور اسلام کا پیغام حق پہنچانے کے لیے اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ وقف کر دیا تھا جس کا فیضان اثر گزشتہ نو صدیوں سے آج تک جاری و ساری ہے اور صبح قیامت تک رہیگا۔
آپ کاوصال:
17 ربیع الثانی 561ھ کو ہوا،اورآپ کا مزارمبارک بغداد معلیٰ (عراق) میں مرجع خلائق بناہواہے۔
اُس دن سے لے کرآج تک آپ کے فیض کا دریاجاری وساری ہے اورصبح قیامت تک جاری رہے گا۔(ان شااللہ) اللہ آپ کے بافیض دامن سے ہم گناہ گاروں کو بھی وابستگی عطافرما کردنیا وآخرت دونوجہان میں آپ کی معیت بھی نصیب فرمائے۔(آمین)
اورآپ نے فرمایاکہ اللہ رب العزت کا مجھ پریہ بھی خاص احسان وکرم ہے کہ جوبھی میرے سلسلہ عالیہ قادریہ میں داخل ہوگیااُسوقت تک اُسکوموت نہیں آئیگی جب تک کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ نہ کرلیگا اللہ کے حکم سے۔
قادری کرقادری رکھ قادریوں میں اُٹھا
قدرِ عبدالقادرقُدرت نما کے واسطے
از۔۔۔ محمد محفوظ قادری
رام پور یو۔پی 9759824259
Pingback: حضرت سراج ملت رحمہ اللہ کی زندگی خدمت دین کے لیے وقف تھی ⋆
Pingback: اعلیٰ حضرت نے ترجمۂ کنز الایمان میں تفاسیر کی روح کو سمیٹ دیا ⋆
Pingback: فتنۂ ارتداد حقیقت یا فسانہ ⋆ غلام مصطفیٰ رضوی
Pingback: میر آزاد بلگرامی کی شاعرانہ عظمت پر شبلی نعمانی کی یلغار ⋆ انصار احمد مصباحی