ایام رمضان کے نیک اعمال پر زیادتئ اجر کا وعدہ فہم انسانی کے بھی مطابق ہے

Spread the love

ایام رمضان کے نیک اعمال پر زیادتئ اجر کا وعدہ فہم انسانی کے بھی مطابق ہے۔

ازقلم:مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

اسلام دین فطرت ہے ،اس کے تقاضے فطرت انسانی کے عین مطابق ہیں ،اسلام میں بنی نوعِ انسان کے لیے ابتدا آفرینش سے دم واپسی تک کے تمام آئین و قوانین موجود ہیں ،ان کی روشنی میں اگر انسان ایک متمدن ومہذب زندگی بسر کرنے کا خوگر بننا چاہے تو وہ اسلامی اصول و ضوابط کے تحت زندگی بسر کرنے والا محمدی کچھار کا شیر نظر آۓ گا ،اس کی رگوں میں اسلامی شجاعت کا کرنٹ دوڑے گا

خود کو دشمنان اسلام کے مقابلے میں دین کا سچا مجاہد و خادم باور کرے گا اور اسلام اسے تمام اصول و ضوابط بہم فراہم کر دے گا ،اس لیے احکامات خواہ وہ عبادات کے قبیل سے ہو ۔یا۔ از جہت اخلاقیات ،ان میں بھی مفاد بشریت کارفر ما ہے

لہذا اگر کوئی نماز فجر کے لۓ بیدار ہو کر اپنے چہرے پرپانی ڈالتا ہے تو اس میں صرف اجرو ثواب کا پہلو نہیں بلکہ انسانی صحت کے بہترین اصولوں کاراز بھی پوشیدہ ہے

ض ہونے میں بھی بڑی بڑی حکمتیں مضمر ہیں ،اسی لیے اسلامی سال کے نویں مہینہ، ماہ رمضان کے روزے رکھنے سے جہاں انسان کو اپنی بساط وطاقت کااحساس ہوتاہے

اللہ کی عظمت و جلالت یاد آتی ہے ،وہاں اس کے جسم سے بہت سی بیماریوں کا سد باب ہوتا ہے ، عرفان و صوفیا کے فرمودات سے بہت سے فوائد کا پتہ چلتا ہے ۔

تاہم یہاں ان فوائد کا ارقام میرا مطمح نظر نہیں ہے، بلکہ اس بات کی تفہیم کو عقل انسانی سے ہم آہنگ کرنا ہےکہ “ماہ رمضان کے دنوں میں نیک اعمال کا ثواب عام ایام کی نسبت ستر گنا کیسے بڑھ جاتا ہے ؟”

درحقیقت یہ ثواب کا اضافہ ، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کےاس فرمان عالی شان کے بموجب ہے جس پر تمام خوش عقیدہ لوگوں کا ایمان واذعان ہے ۔

کیا یہ اضافئہ اجر و ثواب انسانی فہم وادراک کے مساعد وموافق بھی ہے ۔یا۔اس سے بعید ہے؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حضورصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا کلام عادل نظام شاہد ہے “من تقرب فیہ بخصلۃ من الخیر کان کمن ادی فریضۃ فی ماسواہ ومن ادی فریضۃ فیہ کان کمن ادی سبعین فریضۃ فی ماسواہ (مشکوۃ المصابیح)

یعنی جو رمضان کےمہینہ میں نیک کام کرے تو وہ ایساہی ہے جیسا دوسرے ماہ میں فرض کام کیا اور جو اس ماہ رمضان میں کوئ فرض کام کرے تووہ ایساہی ہے جیسا دوسرے ماہ میں ستر فرائض ادا کۓ،یعنی اس ماہ میں کسی نفلی کام کا ثواب دوسرے ماہ کے فرض کے برابر ،اور اس ماہ کے کسی فرض کام کا ثواب دوسرے ماہ کے ستر فرائض کے برابر ہے

ظاہر سی بات ہےکہ نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر ہو جاۓ تو یہ صورت ثواب کے اضافہ کی ہے ،یہ حکم فرمان رسول صلی االلہ علیہ وسلم سے مبرہن بھی ہے جس پر ایمان لانا تمام اہل اسلام کے لۓ لازم ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے تمام فرمودات پر اعتقاد ایمان کا لازمی حصہ ہے،خواہ وہ ہماری سمجھ میں آ ۓ ۔یا۔ نہ آۓ

دوسری صورت یہ کہ “ماہ رمضان المبارک”میں کۓ گۓ نیک اعمال پر زیادتئ اجر و ثواب کا مژ دئہ جاںفزاعام عقل انسانی میں پورے طور پر نہیں سماتاکہ معمولی عمل پر بڑے ثواب کا وقوع سرسری نظر میں ناقابل فہم ہے ۔

تاہم نظر عمیق کاسہارالیا جائے تو اس ماہ مبارک کے اعمال صالحہ پرثواب عظیم کا وقوع وورود فہم وادراک کے مکمل مناسب ومطابق ہے ،کیوں کہ اللہ کے ہاں ثواب کا مدار عمل کی مقدار پر نہیں بلکہ ان قلبی کیفیات پر ہوتا ہے جو اس عمل کے پیچھے کارفرما ہوتی ہیں،اور یہ قلبی کیفیات، نیت،خلوص،توجہ الی اللہ کے ساتھ اعمال صالحہ ہیں

اس حوالے سے آقائے کائنات صلی االلہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میرا صحابی (رضی اللہ عنہ)ایک مد جوخرچ کرے اور تم ایک احد پہاڑ سونے کا خرچ کرو تو یہ میرے صحابی کے ایک مد جو کے برابر نہیں ہے ،اب احد پہاڑ سونے کا،اوردوچارکلوجو،ان کا آپس میں کیا موازنہ ہوسکتاہے؟

حضورصلی االلہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ دونوں برابر نہیں کہ صحابی کی تھوڑی سی شئ کے خیرات پر اجر عظیم کاوعدہ،اور غیر صحابی کےاحد پہاڑ جیسے سونے کے خیرات پر نسبتاً کم اجر وثواب کا مژدہ ہے،یہ اس لۓ کہ صحابی کے عمل کے پیچھے جو قلبی کیفیات ہیں وہ دوسروں کے پاس نہیں اب اس توضیح کی روشنی میں “اضافئہ ثواب”کے مسئلہ کو شعورانسانی کے قریب کیجیۓ تو وہ بنیادی امر سامنے آجائے گا جو قلبی کیفیات کی حیثیت سے توارد اجر و ثواب کی مقدار کو واشگاف کر دےگا

قرآن کریم کے اسلوب کو پیش نظر رکھنے سے بھی یہی وضاحت سامنے آتی ہے کہ روزے کی فرضیت کی حکمت چوں کہ تقوی شعاری وحصول پرہیز گاری ہے جو”لعلکم تتقون” کے نظم منور سے ظاہر ہے اس لیے یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تقوی شعاری و پرہیز گاری اس دلی کیفیت کا اثرتام ہے جو نیت صادقہ ، خلوص بالغہ اورتوجہ الی اللہ کے تحت اضافۂ اجر و ثواب کا باعث ہے

رمضان کے روزے کے ضمن میں بندگان خداکے اندر صلاح وفلاح کی کیفیت اوج پر ہو تی ہے ،تمام علائق دنیا سے کٹ کر جب بندے رضاۓ الہی کی خاطر نیک کام کرتے ہیں تو اس پر اجرو ثواب کی زیادتی کا وعدہ فہم انسانی کے عین مطابق بھی ہے ،

یہی وجہ ہے کہ ایام رمضان کے گزرنے کے ساتھ آخری عشرئہ رمضان جس میں قدر کی رات آتی ہے اس میں عبادات کا ثواب ہزار مہینوں کی عبادات سے زیادہ ہے ،یہ مژدئہ جاں فزا مسلمانوں کے اذہان وافکار پر مرتسم ہوکر انہیں زیادتئ ثواب کے حصول کے لیے کثرت عبادات پر بر انگیختہ کرتاہے ،وجہ یہی ہے کہ دلی کیفیات صلاح وفلاح سے بتما م وکمال اس عشرئہ آخر ہ میں مزین ہو جاتے ہیں

بھوک و پیاس کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کی وجہ سے نفس گناہوں سے پاک و صاف ہو کر مزید نیکیوں کا خوگر بن جاتا ہے ، اللہ کی رحمت بندوں کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور یہ نہیں دیکھتی کہ عمل کتنا بڑا کیاہے

بلکہ اللہ کی رحمت عمل کرنیوالے کی نیت دیکھتی ہے ،یہی نیت خالصہ ،توجہ الی اللہ کا سبب بن جاتی ہے اور بندہ معمولی عمل پر بھی اجر عظیم کا مستحق ہو جاتاہے ،

رمضان المبارک اب وسط ایام میں داخل ہونے کو ہے ہمیں مزید اعمال صالحہ کی کوشش میں مشغول ہو جانا چاہیے ،اور دعائیہ کلمات سے اپنے ہونٹوں کو تر رکھنا چاہیے

اللہ تعالی اس رمضان المبارک کو ہمارے لیے دنیا وآخرت دونوں جہتوں سے بابرکت وباعث اجر وثواب بناۓ اور ہمیں اس مہینے ، اوراس موسم سےزیادہ مستفید ہونے اور اپنی رضا کے حصول کی توفیق عطا

فرماۓ آمین ازقلم:مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

استاذ دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی ضلع:مہراج گنج (یوپی)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *