اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں

Spread the love

تحریر: صابررضامحب القادری نعیمی غفرلہ اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں

اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں

سلطنت مغلیہ کے عظیم فرمانروا محی الدین سلطان اورنگ زیب عالمگیرعلیہ الرحمہ المتوفیٰ ۲۸ذیقعدہ۲۱۱۷ھ 20 فروری1707ء جو بلاتفریق مذہب وملت اپنے رعایا کے ساتھ یکساں عدل وانصاف کرنے والے حکمراں تھے ان کے پچاس سالہ دور اقتدار میں کسی بھی قوم کے ساتھ مذہب ذات پات کے نام پر ظلم و زیادتی کا کوئی تھوس ثبوت نہیں ملتا 

لیکن یہ بھی عجیب ستم ہے ان کو ہندو کش مندر شکن ظالم کے طور پر متعارف کرایا گیا اور یہ Divide and rule پھوٹ ڈالواورحکومت کرو،پالیسی کے تحت بعض متعصب انگریز مورخین کی گندی شاطرانہ ذہنیت کاشاخسانہ ہے

انگریز نے جو نفرت کی تخم ریزی کی تھی آج بھی وہ برگ وبار ہےاور کچھ لوگ انگریز کی پالیسی پر آنکھیں موند کر عامل ہیں، لیکن یہ بھی درست ہے کہ جھوٹ بے نقاب ہوکر رہتے ہیں سچ کا بول بالا ہوتا ہے چاہے کوئی کور چشم مانے نہ مانے غلط تاریخ لکھ کر عارضی شورش انتشار تو برپا کیے جاسکتے ہیں لیکن حقائق سےچشم پوشی نہیں کی جاسکتی آج بھی انصاف پسند مسلم غیر مسلم غیر جانب دار تاریخ نویسوں کے دلائل وشواہد اور انکشافات کا مطالعہ قاری کواس حقیقت کے اعتراف پر مجبور کرتا ہے کہ ان کو جس انداز میں پیش کیا گیا درحقیقت یہ ایک مغالطہ اور ہندو مسلم کےمابین نہ پاٹنےوالی خلیج پیداکرنےکی مذموم کوشش تھی، جس پر آج آزادی کے بعد بھی انگریز کی نظریاتی اولاد سختی کے ساتھ عمل کررہی ہیں،

کسی نے عمدہ کہا ہے

تمہیں لے دے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتنا

کہ عالمگیر ہندو کش تھا ظالم تھا ستمگر تھا

 

ایک غیر مسلم انصاف پسند دانش ور ڈاکٹر اوم پرکاش پرشاد شعبہ تاریخ پٹنہ یونیورسٹی پٹنہ نے”اورنگ زیب اور اس کانظریہ“ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا اس کے پیش لفظ میں آپ لکھتے ہیں،  

”اورنگ زیب کے خلاف سب سے زیادہ متعصبانہ رویہ انگریز عہد کے مورخوں نے اپنایا ایلیٹ اور ڈاوسن نامی دو انگریز مورخوں نے اپنی کتابوں میں مسلم سیاحوں کے سفر ناموں اور مسلم مورخین کی لکھی ہوئی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا اپنے ترجمے میں ان مورخوں نے خاص طور پر اس بات کا دھیان رکھا کہ وہی باتیں انگریزی میں ترجمہ کی جائیں جن سے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان معاشرتی معاشی سیاسی اور خاص طور پر مذہبی زاویہ نظر سے اختلاف پیدا ہوں 

ان دونوں کے درمیان بھید بھاو بڑھتا رہے انگریزوں نے اپنی عقل کے بل پر دنیا کے بیشتر علاقوں میں قبضہ کیا اور ہمیشہ پھوٹ ڈالو حکومت کرو کی پالیسی اپنایا“

ڈاکٹر صاحب نے جادو ناتھ سرکار کو بھی انہیں میں سےشمار کیا ہے اور جادو ناتھ سرکار کی بہت سی مثبت باتوں کے نقل کرنے کا اعتراف بھی کیا ہے جیسے جادو ناتھ نے اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ کو شعور و کردار اور حوصلہ میں ایشیا کے سب سے بڑے حکمرانوں میں مانا ہے

یادر ہے اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ ایک سادہ مزاج نیک دل انصاف پسند رعایا پرور بہادر حکمراں تھے،وہ ۱۰۶۸ھ 1658ء میں تخت نشین ہوئے ۴رمضان ۱۰۶۹ھ 1659کو تاج پوشی ہوئی

ان کے دور حکومت میں خوش حالی ارزانی اور ترقیات کا یہ عالم تھا کہ انگیز سیاح کپتان ہملٹن کا بیان ہے”کہ ہندوستان کا ایک تاجر سالانہ بیس بیس جہاز غیر ممالک کو بھیجتا جن میں سے ہر دس ہزار پونڈ سے لیکر پچیس ہزار پونڈ تک کی مالیت کا سامان ہوتا تھا ہزاروں پونڈ سالانہ کی مچھلیاں مالابار سے یورپ روانہ کی جاتی تھی اور لاکھوں پونڈ کا کپڑا ولایت بھیجا جاتا تھا اور سیکڑوں جہاز مال کی برآمد کے لیے ہندوستان کے بندرگاہوں میں مال سے لدے کھڑے رہتے تھے“۔

قارئین!

یہ تو تھا ان کے زمانے کا ہندوستان  آج گرتی gdpاورمعیشت بے روزگاری مہنگائی کسمپرسی کا کیا حال ہےوہ آپ بخوبی جانتے ہیں، روپے پیسے کی قیمت بالکل سطح زمین پر آگئی ہے اور مہنگائی آسمان چھو رہی ہے، خیر آج زیر نظر تحریر میں راقم الحروف کی سلطان اورنگ زیب عالمگیر کی شخصیت اور ان کے ہندو دشمنی اور مندر شکنی سےمتعلق الزامات غیرمسلم تاریخ نویس کی تحقیقات اور چند مثالوں کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش رہے گی کہ ان پر لگائے گیے الزامات اور بہتان تراشی اور کذب بیانی کی کتنی حقیقت ہے، آگےملاحظہ کریں اورفیصلہ کریں:

سلطان کی غیر مسلموں سے ہمدردی اور منادر کا تعاون

ان کا سب سے بڑا فوجی سپہ سالار راجہ جے سنگھ تھااور جب تک راجہ جے سنگھ زندہ رہا جنگی معاملات میں آپ نے اس کے علاوہ کسی کا اعتبار نہیں کیا، راجہ جسونت سنگھ کے پرانے باغی ہونے کے باوجود صوبہ کابل اس کےسپردکر دیا 1661عیسوی میں اپنے بیٹےشہزادہ معظم کی شادی راجہ روپ سنگھ کی بیٹی سے کروایا، ان کے محل میں رانی بائی اودے پور موجود تھی لیکن وہ کبھی بھی ان کے مذہب میں دخیل نہیں ہوئے بلکہ اپنی بہو کو اپنی طرف سے لاکھوں کے زیوارات عطا کیے

ڈاکٹر بی این پانڈے نےبھارت کےاول صدرجمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد کے حوالے سے نقل کیا، وہ لکھتے ہیں ”منشی سبحان رائے جو اورنگ زیب کے زمانےکا تاریخ نگار تھا اپنی کتاب خلاصۃ التواریخ میں لکھتا ہے دیپالوال نامی جو کالا نور کے پاس واقع ہے وہاں شاہ شمس الدین دریائی کا مزار ہے ہندواور مسلمان دونوں کو ان سے عقیدت ہے ان کے زمانہ حیات ہی میں دیپالی نام کے ایک ہندو کو ان سے اس درجہ عقیدت تھی کہ ان کی وفات کے بعد ہندواور مسلمان سب نے ملکر اسی ہندو کو اس مزار کا متولی بنادیا چند سال بعد کچھ مسلمانوں نے مذہب کے آڑ لیکر ہنگامہ کھڑا کیا اور اس ہندو کو نظامت کے عہدہ سے ہٹانا چاہا 

لیکن اورنگ زیب نے کامیاب ہونے نہیں دیا اور آج جبکہ یہ کتاب لکھی جارہی ہے اورنگ زیب کی حکومت کا تیسرا سال ہے اور مزار کی نظامت پہلے کی طرح ہندووں کے ہاتھوں میں ہے، (راجندر پرشاد انڈیاڈوایڈیڈ 1986)

ڈاکٹر اوم پرکاش پرشاد شعبہ تاریخ پٹنہ یونیورسٹی پٹنہ نے ان پر جو کچھ لکھا ہے چند یہ ہیں، 1659میں اس نے سکوں پر کلمہ کھدوانا بند کردیا اس کا خیال تھاکہ جب سکے ہندو اور مسلمان دونوں کے ذریعے استعمال کیے جاتے ہیں تو اس صورت میں سکوں کی بناوٹ عمومی ڈھنگ کی ہونی چاہئے، انہوں نے راب پر کنٹرول کے لیے ایک نیا محکمہ بنایا اور اپنے عدل کی مثال قائم کرتے ہوئے شراب نوشی کی وجہ سے ایک راجپوت منصب دار کو سزاکےطورپرتبادلہ کردیا اور ایک مفتی کو بھی سزادی، 

ستارا کے قلعہ پر دھاوا بولنے والوں میں تیرہ لوگ پکڑے گیے جن میں ہندو اور مسلمان دونوں تھے دربار کے قاضی اکرام سے ان مجرموں کو سزا دینے کے بارے میں پوچھا گیا اس نے ہندووں کو مسلمان بنادینے اورمسلمان مجرموں کو تین سالوں کی قید کی سزا تجویز کی قاضی اکرام کے اس فیصلے کو اورنگ زیب نے غلط بتایا قاضی اور مفتیوں کو دوبارہ شریعت کے مطابق فیصلہ سنانے کا حکم دیا ان نئے منصفوں نے ہندو مسلمان دونوں کے لیے سزائے موت کا فیصلہ سنایا اسی فیصلہ کو آپ نے منظوری دی، ڈاکٹر پرشاد تبصرہ کرتے ہیں اورنگ زیب نے ہمیشہ اولیت اسی بات کو دی کہ ایک جیسی غلطی کے لیے مسلم اور غیر مسلم کے درمیان سزا میں کوئی امتیاز نہ برتا جائے،

اوردیکھیں!جنوبی ہندوستان میں واقع برہم پوری میں تعینات ایک افسر میر حسن نے اورنگ زیب کو اس کے برہم پور پہونچنے سے پہلے خط لکھا اسلام پوری کا قلعہ کمزور ہے اور آپ عنقریب وہاں پہونچنے والے ہیں انہوں نے جواب دیا اسلام پوری لفظ لکھ کر تم نے مناسب نہیں کیا اس کا پرانا نام برہم پوری تھا تمہیں وہی لکھنا چاہئیے تھا جسم کا قلعہ تو اس سے بھی زیادہ کمزور ہے اس کا بھی کچھ علاج سوچا؟

قارئین

آپ غور کریں نام بدلنے پر آپ ناراض ہوگیے اور یہ جملہ کہ تمہارے جسم کا قلعہ تو اس سے زیادہ کمزور ہے اس کا بھی کچھ علاج سوچا کتنی بڑی ہدایت ہے مطلب واضح ہے دین و روحانیت کی تعلیم دے رہے ہیں، لیکن یہ ہے ہمارے عہد کا بھارت ابھی اقتدار پر آئے ہوئے

چند سال کیا ہوئے کہ گاوں شہر محلہ گلی کوچے چوک چوراہے کے نام بدلے جارہے ہیں اور اصل مدعا روزگار سے توجہ ہٹاکر ہندو مسلم مندر مسجد میں لوگوں کو الجھایا جارہا ہے، 

ڈاکٹر بی این پانڈے میموریل اینول لکچرس 1986ء کے بقول اس (اورنگ زیب عالمگیر)کی حکومت کی پالیسی تھی کہ اس نے ہندو مندروں اور مٹھووں کے لیے وظیفے مقرر کیے، الہ آباد میں واقع سو میشور ناتھ مہادیو کے مندر بنارس میں کاشی وشوناتھ کے مندر چتر کوٹ کے بالا جی مندر گوہاٹی میں واقع او مانند مندر اور شمالی ہند میں واقع بے شمار مندروں اور گردواروں کے لیے انہوں نے جاگیریں وقف کیں،

یہی ڈاکٹر پانڈے جب الہ آباد میونسپلٹی کے چیرمین تھے 1948ء اس وقت ان کے سامنے ایک اراضی کا جھگڑا آیا یہ اراضی سو میشور ناتھ مہادیو کو دان میں ملی تھی مہنت کے مرنے کے بعد اس مندر کے دو شخص دعویدار تھے اس میں سے ایک نے ثبوت میں کاغذات پیش کیے یہ وہ کاغذات تھے جو اورنگ زیب نے دیے تھے انہوں نے اراضی کا ایک بڑا حصہ اور کچھ زر نقد اس شرط پر مندر کو دان کیاتھا کہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کااستعمال دیوتا کےچڑھاوے اور پوجا کے لیے کیا جائے  گا،

آسام کی راجدھانی گوہاٹی میں اومانند مندر کے پجاری سدا ما برہمن کو اورنگ زیب نے کچھ زمین اور جنگلات کی آمدنی کا ایک حصہ دان میں دیا، اجین کےمہاکالیشورنامی مشہور شیومندرمیں چوبیس گھنٹے یعنی مسلسل چراغ جلانے کے لیے اورنگ زیب نے ایک بڑی اراضی اس مندر کو وقف کی تھی،

بنگال کے وشال پور شہر میں اورنگ زیب کے عہد میں دو مندروں کی تعمیر ہوئی اورتیسرامندر 1690میں تعمیر ہوا، گیا کے ایک مندر کو انہوں نے زمین وقف کی،

قارئین!

کوئی احمق ہی ہوگا جو اس طرح کی روادارنہ کردار رکھنے والے سلطان کو ہندو دشمن یا پھر مندر شکن کہے گا، ہاں اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے عہد حکومت میں مندر ٹوٹی ہوگی توڑی نہیں گئی ہوگی ٹوٹنے کے اسباب رہے ہونگے جیسے بنارس کے کاشی وشوناتھ مندر کو لے لیں اس کے توڑنے کے سلسلہ میں پی سیتارام نے پس منظر میں اہم ثبوت پیش کیا ہے، ڈاکٹر پانڈے نے ان کے حوالے سے لکھا ہے

کہ کچھ آٹھ مہا رانیاں کاشی وشوناتھ میں درشن کرنے گئیں ان میں سے ایک حسین رانی کو مہنتوں نے اغوا کرلیا کچھ کے راجہ نے اس واقعہ کی اطلاع اورنگ زیب کو پہونچائی پہلے تو اورنگ زیب نے یہ کہ کر ٹال دیا کہ ہندووں کاآپسی معاملہ ہے اس میں اس کی طرف سے کوئی قدم اٹھانا ٹھیک نہیں ہوگا لیکن جب کچھ کے راجہ نے کافی منت وسماجت کی تو اورنگ زیب نے کچھ ہندو سپاہیوں کو واقعہ کی چھان بین اور حقیقت معلوم کرنے کے لیے بھیجا ان سپاہیوں کو مہنت کے آدمیوں نے ڈانٹا ڈپٹا اور مار پیٹ کر بھگادیا   

اورنگ زیب کو سپاہیوں کے ساتھ کیے گیے اس برتاو پر ناگواری ہوئی اس نے دوبارہ کچھ اہل اور بہتر فوجی کو اصل واقعات معلوم کرنے کی غرض سے بھیجا لیکن مندر کے پجاریوں نے اس مرتبہ بھی ڈٹ کر مخالفت کی مغل فوجیوں نے مقابلہ کیا مندر کے اندر فوجیوں اور پجاریوں کے درمیان ہوئی لڑائی کے نتیجے میں مندر تباہ ہوا اورلڑائی کی صورت میں ایسا ہونا امکانی بات ہے…… پھر وہاں مندر کے اندر سرنگ سے عورتوں کی گلی سڑی لاشیں نکلی جو برہنہ تھی اجتماعی آبروریزی کی وجہ سے وہ ختم ہوگئی تھی بڑا پجاری گرفتار کیا گیا اور اسے سخت سزا دی گئی۔

قارئین!

سلطان نے نہ تو مندر توڑا اور نا ہی توڑوایا بلکہ مندر کے مہنت پجاری خود اس کے ذمہ دار ہیں کہ انہوں نے رانیوں کا اغوا کیا اجتماعی آبروریزی کی اور مار کر سرنگ میں ڈال دیا پھر بادشاہ کے سپاہیوں کے ساتھ مزاحمت کی اور مندر کو تباہ کیا، سلطان کی ذمہ داری تھی کہ وہ مجرم کو سزا دے سو انہوں نے دیا،

جہاں تک بات ہے توڑنے کی تو سلطان نے جامع مسجد گولکنڈہ کو بھی منہدم کیا لیکن کیوں؟

پس منظر دیکھیں:گولکنڈہ کے مشہور حاکم تانا شاہ نے یہ حرکت کی کہ شاہی محصول وصول تو کیا لیکن شہنشاہ دہلی کو اس کی ادائیگی نہیں کی چند ہی برسوں میں یہ رقم کروڑوں تک پہونچ گئی تانا شاہ نے یہ خزانہ زمین کے اندر دفن کرکے اس پر جامع مسجد تعمیر کرادی جب ان کو اس کی اطلاع ملی تواس مسجد کے انہدام کا حکم جاری کیا اور مدفون خزانہ ضبط کرکے رفاہ عام کے کاموں میں صرف کیا

ڈاکٹر پانڈے کہتے ہیں مندرجہ بالا باتیں یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ جہاں تک عدالتی تحقیقات کا تعلق تھا اورنگ زیب نے کبھی بھی مندر اور مسجد میں کوئی امتیاز نہیں برتا، لیکن ابھی 2019میں بابری مسجد ہم سے جابرانہ طور پر چھینی گئی اور ایک نعرہ دیا گیا

ایودھیا ابھی جھانکی ہے کاشی متھرا باقی ہے

کاشی متھرا پر تو شور ہے ہی ہے لیکن اب شرپسند گیانی گیان واپی بنارس کی جامع مسجد پر اپنا گیان بانٹنے لگے ہیں صدیوں قدیم جامع مسجد کو وشوناتھ کا مندر بتایا جارہا ہے حوض کے بیچوبیچ فوارہ کو شیولنگ کہا جارہا ہے سلطان اورنگ زیب کو مندر توڑ کر مسجد بنانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے،

جب کہ یہ سب من گھڑت مصنوعی خودساختہ افسانے ہیں دور دور تک اس کا حقیقت سے کوئی علاقہ نہیں،

جب کہ بادشاہ اکبر متوفیٰ ۱۰۱۴ھ کے دور حکومت میں اس مسجد کی تعمیر ہوئی اور شاہجہاں کے دور میں ایوان شریعت نام سے ایک مدرسہ قائم کیا گیا اور ایک روایت کے مطابق اکبر سے پہلےبہت پہلےسلطان ابراہیم شاہ شرقی متوفیٰ ۸۴۴ھ نے اس مسجد کو قائم کیا، اکبر کے زمانے میں یہ مسجد تھی اس کی توثیق کے لیے مندرجہ ذیل واقعہ کو پڑھیں:

 

حضرت مخدوم شاہ طیب بنارسی علیہ الرحمہ متوفیٰ ۱۰۴۲ھ جمعہ کی نماز اکبر بادشاہ کی تعمیر کردہ مسجد گیان واپی میں ادا فرماتے تھے ایک بار خطبہ میں خطیب نے اکبر کا نام لیا حضرت شاہ طیب نے جوش میں آکر خطیب کو منبر سے اتارنا چاہا اور فرمایا خطبہ میں کافر کا نام لیتا ہے

اتفاق وقت سے حضرت مولانا خواجہ کلاں اور شیخ تاج الدین بھی موجود تھے شہر کے قاضی اور حاکم شیخ طیب کی ہیبت سے کچھ کہنے کی جرات نہ کرسکے ان لوگوں نے ان دونوں بزرگوں کی خدمت میں اکر عرض کیا ہم لوگ بادشاہ کے نوکر ہیں اگر بادشاہ کو واقعہ کی اطلاع ہوجائیگی تو ہمارے گھروں کو تاراج کردیگا مولانا خواجہ کلاں نے شیخ طیب کو ہدایت فرمائی موجودہ زمانہ میں بادشاہ کافر ہے جامع مسجد نہ جایا کریں اور منڈواڈیہ ہی میں نماز ادا کریں“

یہ واقعہ تذکرہ مشائخ بنارس اور تذکرہ شاہ طیب بنارسی میں قدیم کتاب گنج ارشدی کے حوالے سے مرقوم ہے

سید محمد یاسین سکریٹری انجمن کمیٹی نے ndtv کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’مسجد میں اس سے پہلے کی کوئی چیز نہیں ہے جس سے واضح ہو سکے کہ اس کی تعمیر کب ہوئی۔ وہ سرکاری دستاویزات ہی سب سے پرانے دستاویز ہیں۔ اسی بنیاد پر 1936 میں دائر ایک مقدمے کا فیصلہ 1937 میں آیا تھا اور عدالت نے اسے مسجد کے طور پر قبول کیا تھا۔   

عدالت نے قبول کیا تھا کہ یہ اوپر سے نیچے تک صرف مسجد اور وقف کی جائیداد ہے۔ بعد میں ہائی کورٹ نے بھی اس فیصلے کو صحیح قرار دیا تھا۔ اس مسجد میں پندرہ اگست 1947 سے پہلے ہی نہیں بلکہ 1669 جب یہ بنی تھی، تب سے نماز ادا کی جا رہی ہے۔

1991میں ایک عبادت گاہ ایکٹ پاس کیا گیا جس میں بابری مسجد کے علاوہ 1947 سے پہلے کی تمام مساجد منادر گردوارے گرجا گھر کو تحفظ فراہم کرنے کا عہد کیا گیا مطلب اس قانون کے تحت پندرہ اگست 1947 سے پہلے وجود میں آنے والی کسی بھی مذہبی عبادت گاہ کو کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے تین برس تک جیل اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔ چوں کہ ایودھیا کا معاملہ آزادی سے پہلے سے عدالت میں زیر سماعت تھا اس لیے ایودھیا معاملے کو اس قانون کے دائرے سے باہر رکھا گیا تھا

لیکن باوجود اس کے آج گیان واپی کے جامع مسجد کو لیکر ایک ہنگامہ کھڑا ہے جب کہ1991ایکٹ کے تحت کسی کو کوئی حق نہیں بنتا کہ وہ جبر کرے لیکن افسوس سنودھان اور بھارت پر جینے مرنے کے جھوٹے دعویدار کھلے بندوں اپنی طاقت و قوت اور بل کے گھمنڈ چور اتہاس کو جھٹلا رہے ہیں۔    

گودی میڈیا اور بعض انتہا پسند لوگ اورنگ زیب کو اکڑنتا نہ جانے کیا کیا بول کر مورد الزام ٹھرا رہے ہیں جبکہ سلطان اورنگ زیب کی چھبی اس قدر صاف اور عادلانہ ہے کہ یہی بنارس ہے ان کے دور حکومت میں کچھ مہنت پجاریوں کے ساتھ جور جفا کی شکایت موصول ہوئی تو انہوں نے ناظم بنارس ابوالحسن کو ایک مکتوب روانہ کیا اور شاہی فرمان جاری کرتے ہوئے ان کے ساتھ مہنتوں پجاریوں کے ساتھ ہمدردی خیرخواہی کا مظاہرہ کیا اور سخت تاکید کی کہ ان کےساتھ ناانصافی نہ ہو کوئی ظلم و جبر نہ ہو،  

خط کا مضمون پڑھیں اور دیکھیں کہ یہ ہندو دشمنی ہے یا پھر دوستی ہے

فرامین ناظم بنارس ابوالحسن!

”عنایت ورحمت کا سزاوار ابوالحسن شاہانہ مہربانیوں کا امیدوار رہے اور یہ سمجھ لے کہ ہمارے ذاتی کرم اور جبلی مکارم حسنہ کایہ تقاضا ہے کہ ہماری توجہ اور ہمت تمام طبقات کی بھلائی میں مصروف ہے، اور شریعت غرا ملت اسلام کا قانون بھی یہی ہے کہ قدیم مندروں کو ہرگز منہدم اور برباد نہ کیا جائے

اور جدید مندر بلااجازت تعمیر نہ ہوں آج کل ہمارے گوش گذار یہ بات ہوئی ہے کہ بعض لوگ از راہ جبر وتعدی قصبہ بنارس اور اس کے نواحی مقامات کے رہنے والے ہندووں اور برہمنوں جو قدیم مندر کے پروت ہیں تشدد اور زیادتی کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ برہمنوں کو ان کی پروہتی سے جو ان کا قدیمی حق ہے الگ کردیں جس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ یہ بے چارے پریشان ہوکر مصیبت میں مبتلا ہو جائیں

اس لیے تم (ابوالحسن) کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس فرمان کے پیونچتے ہی ایسا انتظام کرو کہ کوئی شخص اس علاقہ کے برہمنوں اور دوسرے ہندووں کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہ کرے اور ان کو کسی تشویش میں مبتلا نہ ہونے دے تاکہ یہ جماعت بدستور سابق اپنی اپنی جگہ اور مقام پر قائم رہ کر اطمنان قلب کے ساتھ ہماری دولت خداداد کے حق میں مصروف دعا رہیں اس معاملہ میں تاکید کی جاتی ہے“15جمادی الثانی1059ھ

قارئین

جن لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ گیان واپی کی جامع مسجد وشوناتھ مندر کی جگہ پر ہے وہ کبھی بابو شری کرشن ورما کی کتاب ”کاشی اور وشوناتھ کا تذکرہ“ دیکھیں پڑھیں اور سمجھیں انہوں نے غیر مسلم ہوکر حق لکھا اور اپنی دیانت کا مظاہرہ کیا لیکن افسوس اپنے کو سچے پکے ہندو بتانے والے کیوں اس حق کو قبول کرنے کے بجائے فساد انگیزی کررہے ہیں سوچنے والی بات ہے، ورما جی نے لکھا ہے کہ موجودہ مسجد وشوناتھ مندر کی جگہ پر نہیں ہے 

اگر یہ مسجد مندر کی جگہ پر ہے تو کاشی کھند سچی نہیں اور کاشی کھنڈ معتبر کتاب ہے تو جامع مسجد وشوناتھ مندر کی جگہ پر نہیں آگے لکھتے ہیں 

ہم ہندووں کے یہاں پوران گرنتھ سب سے زیادہ پرانی تاریخ ہے اور پورانوں میں اسکندر پور ان سب سے زیادہ پرانی اور سچی تاریخ ہے افسوس کہ اس پرانی تاریخ کے ہوتے ہوئے ہمیں مندر کا پتہ نہیں لگا اور ہم مسجد گیان واپی کو ہی پرانا مندر سمجھے ہوئے ہیں

(تاریخ جامع مسجد گیان واپی بحوالہ مرقع بنارس)

واقعی آج بھی سیکولر مزاج صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط بتانے والے برادران وطن زندہ ہیں انہیں اس پر ضرور غور کرنا چاہئیے، اور سوچنا چاہئیے کہ ہمارا اور ہمارے ملک کا ان جھگڑوں سے کیا فائدہ ہر آدمی خوش رہے امن وامان سے رہے ان کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ حق کے لیے آواز اٹھائیں،

ایک ضروری بات

سلطان اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ نے اپنے ارشادات و فرامین میں جگہ جگہ پر شریعت کے حوالے دیے ہیں، اور یقیناً وہ شریعت کے پابند تھے اس بات کا اعتراف ان کے معاندین مخالفین کو بھی ہے جو کہتے ہیں وہ کٹر مسلمان تھے واضح رہے جو کٹر شرع کا پابند مسلمان ہوگا وہ کبھی ظالم وجابر نہیں ہوسکتا وہ انصاف پسند اور رعایا پرور ہوگا سب کے حقوق کا خیال رکھے گا

مراعات سب کے لیے ہونگے کسی زمین سے مندر توڑ کر مسجد نہیں بنا سکتا، اس لیے کہ یہ تو ایک بڑا جرم ہے اسلام شریعت میں کسی کی ایک بالشت زمین پر بھی قبضہ کرنا جائز نہیں

حدیث پاک شاہد ہے مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنْ الْأَرْضِ ظُلْمًا فَإِنَّهُ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ  جس نے ایک بالشت زمین پر بھی ناجائز قبضہ کیا، قیامت کے دن اسے ساتوں زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔(صحیح البخاری) 

مَنْ اقْتَطَعَ أَرْضًا ظَالِمًا لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ جس نے ناحق کسی زمین پر قبضہ کیا ، قیامت کے دن جب وہ اللہ سے ملے گا تو اللہ اس پر غضباناک ہونگے، (صحیح مسلم)

اور بخاری ہی کی ایک روایت میں ہے وہ ساتوں زمینوں میں دھنسا دیا جائے گا جب عام حالات میں عام زمینوں کے قبضہ پر یہ سخت وعید ہے تو یہ کب ہوسکتا ہے کہ کسی کا مندر توڑ کر اس میں مسجد بنائی جائے یہ شرعاً اور عقلا ناجائز وحرام ہے، اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اور اورنگ زیب جیسا نیک دل سلطان جو شریعت کی بات کرتے ہوں وہ کبھی ایسا نہیں کرسکتے ہاں انہوں نے ایک بنی بنائی مسجد کی تعمیر نو اور مرمت ضرور کروایا

قارئین

مضمون میں زیادہ تر واقعات وروایات اور تاریخی حقائق سیکولر غیر مسلم مورخین کے مضامین سے و مقالات سے اخذ کیے گیے ہیں اﷲ کریم ملک عزیز کے حالات کو بہتر بنادے آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

مآخذ و مراجع کتب

(1) صحیح بخاری

(2) صحیح مسلم

(3) ہندو مندر اور اورنگ زیب کے فرامین

(4) اورنگ زیب اور اس کا نظریہ

(5) جامع مسجد گیان واپی تاریخ کے آئینے میں

(6) ہندوستان پر مغلیہ حکومت

(7) تذکرہ مشائخ بنارس

(8) تذکرہ شاہ طیب بنارسی

(9) اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر

صابررضامحب القادری نعیمی غفرلہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *