پختہ تر ہے گردش ایام سے جام زندگی
پختہ تر ہے گردش ایام سے جام زندگی
خلیل فیضان
بندہ مومن رب کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتا ہے آج حالات کافی تشویش ناک ہیں کفری عناصر چاہتے ہیں کہ ارض ہند سے اسلام و شعائر اسلام کا صفایا کردیاجاۓ
یہاں کے مسلمانوں پر سناتنی تہذیب مسلط کردی جاۓ اس طرح کے کئی دیگر بنیادی مقاصد ہیں
جن کی تکمیل کی آرزو ہرشدت پسند کے اندر روز انگڑائی لیتی ہے فتنوں کی اس گھڑی میں بھی ہمیں ذہنی اور قلبی طور پر چنداں ہراساں نہیں ہونا چاہیے بلکہ علو ہمتی کے ساتھ اس طرح کے فتنوں کا مقابلہ کیا جانا چاہیے
اور دین قویم پر استقامت کا مظہر بن کر رہنا چاہیے یہ دنیا ہے یہاں کبھی مسرتیں ہیں ،خوشیوں کے موسم ہیں، زندگی کی بہاریں ہیں تو کبھی غم و اندوہ کے ایام ہیں اداسیاں ہیں،اندھیرے ہیں موجودہ حالات میں خاص طور پر ہمیں چاہیے کہ حضور کی مکی زندگی کا بہ کثرت مطالعہ کریں
پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کو مکی دور میں اللہ کی راہ میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور مشرکین کی ہرزہ سرائیوں،عیاریوں اور سازشوں کو سہنا پڑا انہیں بار بار مطالعہ میں لایاجاۓ
اور نسل نو بالخصوص دین سے دور وہ طبقہ جس کی نظر میں مذہب اور مذہبی تعلیمات کی اتنی وقعت نہیں یا پھر جن کی نظر میں مذہب صرف چند مخصوص عبادات یا معاملات ہی کا مجموعہ ہے ان کی ذہن سازی کی جاۓ انہیں اسلام کی حقانیت اور اس اس کی روحانیت کے حوالے سے بالتفصیل بتلایاجاۓ
جس سے جس قدر بن پڑے سو کرے مگر مایوسی کو قریب بھی پھٹکنے نہ دے مشکلے نیست کہ آساں نہ شود مرد مومن باید کہ ہراساں نہ شود آج کفر کا زور ہے ،وہ آج شہروں میں اہلے گہلے گھوم رہے ہیںمسلمانوں کی موروثی جائدادیں ضبط کی جارہی ہیں
ان کے مکانوں کو منہدم کیا جارہا ہے ،فتنہ ارتداد بھی زوروں پر ہے شیر پیشہ اہلسنت عرض کرتے ہیں:کفر کا زور ہے اسلام دباجاتا ہے المدد اے شہ دیں کفر مٹانے والے مگر ہمیں عملی پیش رفت کرنی ہے اخلاص و استقامت کا بھرپور مظاہرہ کرنا ہے دین کی راہ میں رکاوٹیں پیش آئیں تو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کریں یہ دور اس قدر بھیانک نہیں ہے جس قدر مستقبل میں حالات کا دھارا پلٹنے والا ہے تب ایمان پر متمکن رہنا اسی طرح دشوار گزار معاملہ ہوگا
جس طرح دہکتا شعلہ ہتھیلی پر رکھ کر گھومنا آج توحید کے متوالے اور معبود برحق کے پرستار کیا اس قدر بزدل ہوگئے ہیں کہ وہ رواداری کی آڑ میں مداہنت اور اخوت وطنی کے زعم میں دین بیزار بنتے جارہے ہیں
در اصل ہم لوگ ابھی تک اپنی خودی سے آشنا نہیں ہوۓ ہیںجس دن مسلمان کی خودی بیدار ہوگئی اور وہ خودی شناس ہوگیا تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں پسپا نہیں کرسکتی
ہمیں دنیا کی امامت اور اقوام کی زمام سنبھالنے کے لیے بھیجاگیا تھا مگر ہم نے عملی طور متاع رذیل کو رضاے رحمان پر ترجیح دی اور تصلب فی الدین کا سودا دنیا کے چند سکوں کے عوض کرکے عالمی سطح پر رسوا ہوگئےاقبال نے اپنی نظم”خضر راہ”میں ایک اس حوالے اپنے چند جذبات دروں کو نظم کیا ہے لکھتے ہیں:
ساحلِ دریا پہ مَیں اک رات تھا محوِ نظرگوشۂ دل میں چھُپائے اک جہانِ اضطراب شب سکُوت افزا، ہَوا آسودہ، دریا نرم سَیرتھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویرِ آب جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفلِ شِیرخوارموجِ مُضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مستِ خوابرات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیرانجمِ کمضَو گرفتارِ طلسمِ ماہتاب دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیکِ جہاں پیما خضَرجس کی پِیری میں ہے مانندِ سحَر رنگِ شباب کہہ رہا ہے مجھ سے، اے جویائے اسرارِ ازل!چشمِ دل وا ہو تو ہے تقدیرِ عالم بے حجابدل میں یہ سُن کر بَپا ہنگامۂ محشر ہُوامَیں شہیدِ جُستجو تھا، یوں سخن گستر ہُوااے تری چشمِ جہاںبیں پر وہ طوفاں آشکارجن کے ہنگامے ابھی دریا میں سوتے ہیں خموش’کشتیِ مسکین‘ و ’جانِ پاک‘ و ’دیوارِ یتیم‘علمِ مُوسیٰؑ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش چھوڑ کر آبادیاں رہتا ہے تُو صحرا نَوردزندگی تیری ہے بے روز و شب و فردا و دوش زندگی کا راز کیا ہے، سلطنت کیا چیز ہےاور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش ہو رہا ہے ایشیا کا خرقۂ دیرینہ چاکنوجواں اقوامِ نَو دولت کے ہیں پَیرایہ پوش گرچہ اسکندر رہا محرومِ آبِ زندگی فطرتِ اسکندری اب تک ہے گرمِ ناؤنوشبی چتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی خاک و خُوں میں مِل رہا ہے ترکمانِ سخت کوشآگ ہے، اولادِ ابراہیمؑ ہے، نمرُود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصُود ہے!جوابِ خِضرصحرا نَوردیکیوں تعجّب ہے مری صحرا نَوردی پر تجھےیہ تگا پوئے دمادم زندگی کی ہے دلیلاے رہینِ خانہ تُو نے وہ سماں دیکھا نہیں گُونجتی ہے جب فضائے دشت میں بانگِ رحیل ریت کے ٹیلے پہ وہ آہُو کا بے پروا خراموہ حضَر بے برگ و ساماں، وہ سفر بے سنگ و مِیلوہ نمودِ اخترِ سیماب پا ہنگامِ صُبحیا نمایاں بامِ گردُوں سے جبینِ جبرئیل وہ سکُوتِ شامِ صحرا میں غروبِ آفتاب جس سے روشن تر ہُوئی چشمِ جہاں بینِ خلیلؑ اور وہ پانی کے چشمے پر مقامِ کارواں اہلِ ایماں جس طرح جنّت میں گِردِ سلسبیل تازہ ویرانے کی سودائے محبّت کو تلاش اور آبادی میں تُو زنجیریِ کِشت و نخیل پُختہ تر ہے گردشِ پیہم سے جامِ زندگی ہے یہی اے بےخبر رازِ دوامِ زندگی زندگی برتر از اندیشۂ سُود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی تُو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپجاوداں، پیہمدواں، ہر دم جواں ہے زندگی اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زِندوں میں ہےسرِّ آدم ہے، ضمیر کُن فکاں ہے زندگی زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پُوچھ جُوئے شِیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی بندگی میں گھَٹ کے رہ جاتی ہے اک جُوئے کم آباور آزادی میں بحرِ بے کراں ہے زندگیآشکارا ہے یہ اپنی قُوّتِ تسخیر سےگرچہ اک مٹّی کے پیکر میں نہاں ہے زندگیقلزمِ ہستی سے تُو اُبھرا ہے مانندِ حباباس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی خام ہے جب تک تو ہے مٹّی کا اک انبار تُوپُختہ ہو جائے تو ہے شمشیرِ بے زنہار تُوہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرےپھُونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعاراور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرےزندگی کی قُوّتِ پنہاں کو کر دے آشکارتا یہ چنگاری فروغِ جاوداں پیدا کرے خاکِ مشرق پر چمک جائے مثالِ آفتابتا بدخشاں پھر وہی لعلِ گراں پیدا کرے سُوئے گردُوں نالۂ شب گیر کا بھیجے سفیررات کے تاروں میں اپنے رازداں پیدا کرے یہ گھڑی محشر کی ہے، تُو عرصۂ محشر میں ہےپیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!سلطنتآ بتاؤں تُجھ کو رمز آیۂ اِنَّ الْمُلُوْک سلطنت اقوامِ غالب کی ہے اک جادوگری خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگرپھر سُلا دیتی ہے اُس کو حُکمراں کی ساحری جادوئے محمود کی تاثیر سے چشمِ ایازدیکھتی ہے حلقۂ گردن میں سازِ دلبری خُونِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں توڑ دیتا ہے کوئی مُوسیٰ طلسمِ سامری سروَری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہےحُکمراں ہے اک وہی، باقی بُتانِ آزریاز غلامی فطرتِ آزاد را رُسوا مکُنتا تراشی خواجۂ از برہَمن کافر تریہے وہی سازِ کُہن مغرب کا جمہوری نظامجس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصریدیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوبتُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پریمجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوقطِبِّ مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوریگرمیِ گفتارِ اعضائے مجالس، الاماں!یہ بھی اک سرمایہداروں کی ہے جنگِ زرگریاس سرابِ رنگ و بو کو گُلِستاں سمجھا ہے تُوآہ اے ناداں! قفَس کو آشیاں سمجھا ہے تُوسرمایہ و محنتبندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دےخِضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیامِ کائناتاے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہدارِ حیلہ گرشاخِ آہُو پر رہی صدیوں تلک تیری براتدستِ دولت آفریں کو مزد یوں مِلتی رہیاہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات ساحرِ المُوط نے تجھ کو دیا برگِ حشیش اور تُو اے بے خبر سمجھا اسے شاخِ نباتنسل، قومیّت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ خواجگی نے خوب چُن چُن کے بنائے مُسکِرات کَٹ مَرا ناداں خیالی دیوتاؤں کے لیےسُکر کی لذّت میں تُو لُٹوا گیا نقدِ حیات مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہدارانتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہےمشرق و مغرب میں تیرے دَور کا آغاز ہےہمّتِ عالی تو دریا بھی نہیں کرتی قبول غُنچہساں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک نغمۂ بیداریِ جمہور ہے سامانِ عیشقِصّۂ خوابآورِ اسکندر و جم کب تلک آفتابِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہُواآسماں! ڈُوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلکتوڑ ڈالیں فطرتِ انساں نے زنجیریں تمامدُوریِ جنّت سے روتی چشمِ آدم کب تلک باغبانِ چارہ فرما سے یہ کہتی ہے بہارزخمِ گُل کے واسطے تدبیرِ مرہم کب تلک کرمکِ ناداں! طوافِ شمع سے آزاد ہواپنی فطرت کے تجلّی زار میں آباد ہودُنیائے اِسلام کیا سُناتا ہے مجھے تُرک و عرب کی داستاں مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و سازلے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل خشتِ بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجازہوگئی رُسوا زمانے میں کُلاہِ لالہ رنگجو سراپا ناز تھے، ہیں آج مجبورِ نیازلے رہا ہے مے فروشانِ فرنگستاں سے پارسوہ مئے سرکش حرارت جس کی ہے مِینا گدازحکمتِ مغرب سے مِلّت کی یہ کیفیّت ہوئی ٹُکڑے ٹُکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گازہوگیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہُومُضطرب ہے تُو کہ تیرا دل نہیں دانائے رازگُفت رومیؔ “ہر بِناے کُہنہ کآباداں کنند”می ندانی “اوّل آں بنیاد را ویراں کنند”“مُلک ہاتھوں سے گیا مِلّت کی آنکھیں کھُل گئیں”حق ترا چشمے عطا کردست غافل در نگرمومیائی کی گدائی سے تو بہتر ہے شکستمُورِ بے پر! حاجتے پیشِ سلیمانے مبرربط و ضبطِ مِلّتِ بیضا ہے مشرق کی نجاتایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبرپھر سیاست چھوڑ کر داخل حصارِ دیں میں ہومُلک و دولت ہے فقط حِفظِ حرم کا اک ثمرایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیےنِیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغرجو کرے گا امتیازِ رنگ و خُوں، مِٹ جائے گاتُرکِ خرگاہی ہو یا اعرابیِ والا گُہرنسل اگر مسلم کی مذہب پر مُقّدم ہوگئی اُڑ گیا دُنیا سے تُو مانندِ خاکِ رہ گزرتا خلافت کی بِنا دُنیا میں ہو پھر اُستوارلا کہیں سے ڈھُونڈ کر اسلاف کا قلب و جگراے کہ نشناسی خفی را از جلی ہُشیار باشاے گرفتارِ ابُوبکر و علی ہُشیار باش عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چُکی اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ تُو نے دیکھا سطوَتِ رفتارِ دریا کا عروج موجِ مُضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ عام حُریّت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نےاے مسلماں آج تُو اُس خواب کی تعبیر دیکھ اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامانِ وجودمر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہانِ پِیر، دیکھ کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں آنے والے دَور کی دھُندلی سی اک تصویر دیکھ آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردُوں کے پاس سامنے تقدیر کے رُسوائیِ تدبیر دیکھ مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دارہر زماں پیشِ نظر، ’لاَیُخْلِفُ المِیعَاد‘ دار