لڑکیوں کی شادی کی عمر

Spread the love

از قلم : انصار احمد مصباحی لڑکیوں کی شادی کی عمر !!۔

لڑکیوں کی شادی کی عمر

معمول کے مطابق کئی انتہائی اہم، حساس اور ضروری موضوعات کو صرف نظر کرکے ، سرکار اپنی جگ ہنسائی کے لیے ایک بار پھر ایک غیر ضروری قانون میں الجھ گئی۔ عوتوں کے حقوق کی بات کریں تو اس وقت ان کے لیے علاحدہ کالجیز اور اسکولوں کی ضرورت ہے

بھاری بھرکم جہیز کی مانگ کے ختم کرنے والے کسی قانون کی اشد ضرورت ہے ، ملک میں ہر دن درجنوں کی تعداد میں لڑکیوں کے ساتھ جھیڑ خاانی ہوتی ہیں ، ان کی اجتماعی عصمت دریاں عروج پر ہیں ، بازاروں اور بھیڑ بار والے علاقوں میں پبلک ٹوائلیٹ نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کو کئی پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے 

شوہروں کی شراب نوشی سے لگ بھگ بھارت کی ایک تہائی خواتین پریشان ہیں؛ ان چیزوں سے توجہ ہٹا کر سرکار نے لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر 21 سال کے بل کو منظوری دی ۔ یہاں یہ بتانا دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ لڑکا،لڑکی کی ، اپنی مرضی سے ایک ساتھ رہنے کی کوئی عمر یا حد مقرر نہیں ہے 

لڑکیاں 18 سال کے بعد الیکشن لڑ سکتی ہیں ، ووٹ ڈال سکتی ہیں، نوکری کر سکتی ہیں۔ بس شادی نہیں کر سکتیں ۔ حیرت ہے ، ابھی تک سرکار نے بلوغت کی عمر 18 سال رکھی ہے۔ یعنی 18 سال کی عمر سے پہلے کی عمر نابالغی کی عمر ہے۔

یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ لڑکیاں سرکار کی نظر میں بالغ ہوجانے کے بعد شادی کیوں نہیں کر سکتی!بی جے پی سرکار کا یہ پہلا اقدام ہے ، جس میں کسی خاص طبقے یا فرقے کو نشانہ نہیں بنایا گیا

اس بل سے کسی خاص طبقے کو فائدہ یا نقصان نہیں ہوگا ؛ بلکہ اس قانون کے نفع نقصان میں بھارت کی 136 کرور کی آبادی برابر کی شریک ہے۔ اسلام میں شادی بیاہ میں عمر کی کوئی تفصیل موجود نہیں۔

بالغ ہونے کے بعد ولی کی اجازت کے بغیر بھی نکاح کر سکتی ہے۔ خدا کرے ، مذکورہ قانون میں کچھ خیر کے پہلو بھی نکل کر سامنے آئے؛ لیکن اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد جن خطرناک نتائج کے خدشے ظاہر کیے جا رہے ہیں وہ نہایت ہی قابل تشویش ہیں۔

یہ بل پارلیامینٹ میں ایک ایسے وقت میں پیش کیا گیا تھا ، جب بل سے فقط دو تین روز قبل آر ایس ایس سپریمو موہن بھاگوت نے ایودھیا میں ہزاروں کی بھیڑ میں آبادی کنٹرول موضوع پر نفرت آمیز تقریر کی تھی۔

اس بل کے منظور ہوجانے سے زنا اور چھیڑ خانی کے واردات میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ لڑکیاں بالغ ہونے کے بعد جب تک گھروں میں بیٹھی رہتی ہیں ، گھر کے سارے افراد کو اس کی عصمت کی فکر ستاتی رہتی ہے۔ بھارت روایات کا دیش ہے ، یہاں تہذیب و ثقافت کو مذہب کا درجہ حاصل ہے۔

بھارت کی سنسکرتی ہی ، اس کی پہچان ہے۔ یہاں عورت کی پاک دامنی کی قسمیں کھائی جاتی ہیں ، ان کی عصمت کو معاشرے میں سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

بھارت کی زمین میں وہ انسان سب سے عظیم اور قابل احترام سمجھا جاتا ہے ، جس نے مشکل حالات میں بھی اپنا دامن ، بدکرداری سے بچائے رکھا ؛ جب کہ یہاں کی تہذیب میں کسی عورت کی بد چلنی نہایت ہی گھناونا جرم مانا جاتا ہے۔

اس قانون کے نافذ ہوجانے کے بعد بھارت کی سنسکرتی پر کاری ضرب لگے گی۔ بد قسمتی سے ، بچیو کو ماں کے پیٹ ہی میں قتل کردینے کے واقعات بھی ہو رہے ہیں۔ لڑکیوں کو، لڑکوں کی بہ نسبت وہ پیار نہیں مل پاتا ، جس کے وہ مستحق ہیں۔ شادی کی کم سے کم عمر 21 سال کرکے بچیوں کے قتل کے معاملات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے

۔ 21 سال تک لڑکیوں کی اصل خوب صورتی اور جاذبیت ، بسا اوقات ماند پڑنے لگتی ہے۔ شہروں کی بہ نسبت دیہی علاقوں میں دسویں سے آگے تک کی تعلیم کی معقول سہولیات مہیا نہیں ہیں

جس وجہ سے دسویں پاس کرنے کے بعد، دیہات کی نوے فیصدلڑکیاں گھروں پر ہی بیٹھی رہتی ہیں۔ ایسے میں ان کی جلد شادی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے کئی خرافات جنم لے سکتی ہیں۔

کم از کم اس قانون کے نافذ العمل ہونے سے پہلے سرکار اگر ، 18 سے 21 سال کے بیچ کی لڑکیوں کی سروے کروا کر ایک رپورٹ تیار کرواتی، تو بہتر نتیجہ بر آمد ہو سکتا تھا۔

انصار احمد مصباحی
9860664476
aarmisbahi@gmail.com 

ان مضامین کو بھی پڑھیں

ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی 

 مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر

قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی 

محبت کریں پیار بانٹیں

ایک مظلوم مجاہد آزادی

عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات

سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن

شوسل میڈیا بلیک مینگ 

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

 اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے

خطرے میں کون ہے ؟

افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں 

۔ 1979 سے 2021 تک کی  آسام کے مختصر روداد

کسان بل واپس ہوسکتا ہے تو سی اے اے اور این آر سی بل کیوں نہیں

ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں 

हिन्दी में पढ़ने क्लिक करें

 

23 thoughts on “لڑکیوں کی شادی کی عمر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *