ماہ رجب میں تبارک کی روٹی و کونڈوں کی شرعی حیثیت
ماہ رجب میں تبارک کی روٹی و کونڈوں کی شرعی حیثیت !
از: محمد محفوظ قادری ،رام پور،یوپی
سوئہ ملک کی فضلت کو بیان فرماتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قرآن عظیم میں تیس آیتوں کی ایک سورۃ ہے جو اپنے پڑھنے والوں کی (اللہ )سے سفارش کرتی رہے گی یہاں تک کہ ان کو بخش دیا جائے گا۔وہ سورۃ ’’تبارک الذی بید ہ الملک الخ‘‘ہے۔
اور اس سورۃ کی سفارش کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے پہلے کے ایک شخص کاانتقال ہو گیا جس کے پاس کتاب اللہ میں سے سورئہ تبارک الذی کے سوا کچھ نہ تھا جب اس کو دفن کیا گیا اور فرشتہ اس کے پاس آیا تو یہ سورۃ اس کے پاس آکر کھڑی ہوگئی تو فرشتے نے کہا کہ تو کتاب اللہ ہے تو میں تجھے ناراض نہیں کرنا چاہتا تجھے معلوم ہے کہ تیرے یا اپنے یا اس میت کے نفع نقصان کا مجھے اختیار نہیں ہے ۔
اگر تو یہی چاہتی تو اللہ کے پاس جاکر سفارش کر ،چناں چہ یہ سورۃ اللہ کے دربار میں حاضر ہوگی اور عرض کرے گی اے پروردگار!تیری کتاب میں سے مجھے فلاں شخص نے سیکھا اور پڑھا اب کیا تو اسے آگ میں جلائے گا؟باوجود اس کے کہ میں اس کے سینے میں محفوظ ہو ں کیا تو اسے عذاب میں مبتلا کرے گا؟
مجاہد انقلاب حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمہ
معزز علماے اہل سنت سے مودبانہ گزارش
مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی
جنگ آزادی 1857ء کا روشن باب : قائد انقلاب علامہ فضل حق خیرآبادی
جنگ آزادی میں علماے کرام کی سرگرمیاں
جنگ آزادی میں مسلمانوں کی حصہ داری
شمالی ہندوستان کے خطئہ روہیل کھنڈ کی ممتاز و روحانی
شخصیت حضرت حافظ شاہ جمال اللہ نقوش پارینہ
خطئہ روہیل کھنڈکی ممتاز وروحانی شخصیت حضرت سیدنا فیض بخش شاہ درگاہی محبوب الٰہی
اگر یہی کرنا ہے تو مجھے اپنی کتاب سے مٹا دے (سورۃ کی یہ عرض و گزار سن کر)اللہ رب العزت فرمائے گاتو اس وقت سخت غضب ناک ہے (سورۃ)کہے گی مجھے حق ہے کہ میں اپنی ناراض گی کو ظاہر کروں (یہ سن کر)ارشاد بارہ تعالیٰ ہوگا کہ جا میں نے اسے تجھے دیا اور تیری سفارش کو(اس کے حق)میں قبول کرلیا۔اب یہ سورۃ (اپنے پڑھنے والے)کے پاس آئے گی اور عذاب کے فرشتے کو ہٹا دے گی اور اس کے منھ سے اپنا منھ ملاکر کہے گی اس منھ کو مر حبا ہویہی میری تلاوت کیا کرتا تھا
اس کے سینے کو صد باش ہو کہ اس نے مجھے یاد رکھا تھا،اس کے دونوں قدموں کو مبارکباد ہو یہ کھڑے ہوکر راتوں کومیری تلاوت کے ساتھ قیام کیا کرتے تھے ،ساتھ ہی یہ سورۃ قبر میں اس کی مونس وغمخوار و مدد گار بن جائے گی اور کسی بھی طرح کا ڈر (اپنے پڑھنے والے)کو نہیں پہنچنے دے گی۔
اور یہ سورۃ قبر کے عذاب سے بھی بچاتی ہے اپنے پڑھنے والے کو روایت میں ہے کہ کسی صحابی نے ایک قبر پر خیمہ لگا دیا انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہاں قبر ہے دیکھا کہ اس( قبرمیں )ایک شخص سورئہ ملک کی تلاوت کر ہا تھا یہاں تک کہ اس نے سورئہ ملک کو مکمل کیا وہ صحابی رسول ، رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ واقعہ رسول اللہ کے سامنے بیان کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ (سورئہ ملک)قبر کے عذاب کو روکنے اور اس سے نجات دلانے والی ہے اور اپنے پڑھنے والے کو عذاب سے بچاتی ہے ۔
اور اس سورۃ کو ہرروز رات کو پڑھنے کی بھی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس نے روز رات کو سورئہ ملک کی تلاوت کی تو اللہ رب العزت اس تلاوت کی وجہ سے اس کو قبر کے عذاب سے نجات دے گا،راوی بیان کرتے ہیں کہ ہم اس سورۃ کو حضور علیہ السلام کے دور میں (المانعۃ)یعنی بچاو کرنے والی سورۃ کہتے تھے ۔
کتاب اللہ میں یہ ایسی سورۃ ہے کہ جس نے اسے ہر روز رات کو پڑھا تواس نے بہت اچھا اور زیادہ کام کیا،نیز رسول اللہ کا یہ معمول تھا آپ روز سوتے وقت اس سورۃ کو پڑھا کرتے تھے ۔ اس لئے مغرب کے بعد سے لیکرسونے تک کسی وقت پڑھنے سے قبر کے عذاب سے بچنے کی فضیلت حاصل ہو جائے گی اور پیارے نبی کی سنت پر بھی عمل ہو جائے گا۔لیکن افسوس !جب جب ہمای زندگی میں ماہ رجب آتا ہے تو ہمیں سورئہ ملک کی فضیلت یاد آتی ہے اور وہ بھی مروجہ رسموں کے ساتھ کہ جن رسموں کا قرآن وحدیث سے کوئی ثبوت نہیں ہے اور جن کے کرنے پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے اور نہ کرنے والوں پر لعن و طعن کی جاتی ہے ۔
مثلاً ماہ رجب میں لوگ جمعہ کے دن میٹھی روٹیاں پکا کر ان پر اکتالیس مرتبہ سورۂ ملک کی تلاوت کرتے ہیں اور ان میٹھی روٹیوں کو میت کی جانب سے صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر ایسا نہیں کیا تو ہم مرنے والے کی طرف سے قرض دار رہیں گےاور اس کو عذاب ہوتا رہے گا۔اور بہت سے لوگ اس عمل کو اپنی زندگی میں ہی کر دیا کرتے ہیں اپنے اپر واجب سمجھتے ہوئے۔اور جو اعمال صالحہ ہم پر فرض یا واجب کے دائرے ہیں ان سے ہم کوسوں دور نظر آتے ہیں ۔
جب کہ سورۂ ملک کی فضیلت ماہ رجب میں کچھ سیر آٹے کی روٹیوں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ وہ سورۃ ہے کہ جس کی فضیلت ہر ماہ ،ہردن ،ہر لمحہ اپنی جگہ بر حق ہے اور اس کی تلاوت کرکے ہم کسی بھی ماہ ،کسی بھی دن یازندگی کے ہر دن اپنے مرحومین کیلئے ایصال ثواب و دعائے مغفرت کر سکتے ہیں ۔ہونا تو چاہئے کہ ہم کثرت کے ساتھ روز اس کی تلاوت کرنے کی عادت بنائیں اور جو اس مبارک سورۃ کی فضیلتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہیں ان کے حقدار بنیں ۔
رہا سوال روٹیاں بناکر تقسیم کرنا تو یہ عمل کار خیر ہے اور کار خیر زندگی کے کسی بھی دن ہم کرسکتے ہیں ۔لیکن ماہ رجب میں اس عمل کو سورئہ ملک کے ساتھ خاص کر لینا یہ درست نہیں ہے ۔ہاں !اگر کوئی ایصال ثواب کی نیت سے کرنا چاہے تو کر سکتا ہے مگر ایصال ثواب کے لیے میٹھی روٹیوں کی کوئی شرط نہیں ہے ایصال ثواب کسی بھی پاک وحلال چیز کو سامنے رکھ کر کیا جا سکتا ہے ۔
اسی طرح ماہ رجب میں ایک رسم کونڈوں کی ہے جس کے کرنے پر بہت زیادہ زور دیا جاتاہے اور اس رسم کو حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کہ بائیس رجب کو آپ کی پیدائش ہوئی ہے
جب کہ بائیس رجب کو نہ آپ کی پیدائش ہے اور نہ وصال۔در اصل بائیس رجب کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا یوم وصال ہے رافضیوں نے بطور مسرت اس دن اس تقریب کو ایجاد کیا تھا اور حقیقت پر دہ ڈالتے ہوئے تقریب کے کھانے وغیرہ کو چھپانے کی کوشش کی تاکہ راز عوام کے سامنے نہ آجائے اور دشمن امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ)ایک دوسرے کے یہاں جا کر اس محفل میں شامل ہوتے رہیں اور رفتہ رفتہ ان محافل میں کھانے اور ایک خاص قسم کی ایجاد میٹھی پوریوں و نمکین پوریوں کی بھی ہو گئی جن کے بنا اب یہ محفل ادھوری رہتی ہے ۔
رافضی اپنے مقصد میں کام یاب ہوئے اور یہ رسم اہل سنت والجماعت کے یہاں رائج ہوگئی اور یہ رسم سب سے پہلے ہند میں(1906ء)میں شروع ہوئی ۔اور یہ کونڈوں کی ایک ایسی رسم ہے جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ فرض یا واجب کا مقام لے چکی ہے اگر کسی نے کونڈے نہیں کئے تو گویا وہ مسلمان یا اہل سنت والجماعت میں سے نہیں ہے ۔نماز پڑھے یا نہ پڑھے،روزے رکھے یا نہ رکھے ،گناہوں سے بچے یا نہ بچے ،قرآن کی تلاوت کرے یا نہ کرے اور دیگر امور شرعیہ کو عمل میں لائے یا نہ لائے لیکن تبارک کی روٹی اور کونڈے ضرور کرے ۔
اور اگر کوئی شخص نہ کرے یا کرنے والوں سے منع کرے تو اس پر لعنت و ملامت کی جاتی ہے اور نہ جانے کن کن القاب سے اس کو یاد کیا جاتا ہے ۔ہاں !اگر ہمیں حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی روح کو ایصال ثواب کرنا ہی ہے تو ایصال ثواب کو ہم میٹھی و نمکین پوریوں اور ایک خاص طرح کے مٹی کے بنے ہوئے نئے کونڈوں کے ساتھ خاص نہ کریں ایصال ثواب کے لیے پاک وحلال چیز کا ہونا شرط ہے نہ کہ ان مروجہ چیزوں کا۔
افسوس!اس امت کی نادانی پر کہ جن چیزوں کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے ان کو لازمی سمجھ لیا گیا ہے اور حقیقی چیزوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے نہ جانے کتنے لوگ نا واقفیت کی بنا پر ایسا کرتے ہیں اگر ان کو سمجھایا اور بتایا جائے تو وہ ضرور مان جائیں گے ۔امت مسلمہ کیلئے لازمی ہے کہ دین کو سیکھنے کی پوری کوشش کرے اور جن کاموں کے کرنے کا ہمیں قرآن وحدیث سے حکم ملتا ہے ان کاموں کو انجام دیتے رہیں ۔ جن کاموں سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے ان سے باز(دور) رہیں اور اپنے گھروں میں دینی ماحول بنائیں ۔
اور اپنے بچوں کی قرآن وحدیث کے دائرے میں رہ کر پرورش کریں ،روزے نمازکاپابنداوررسول اللہ کی سنتوں پر عمل کرنے کا عادی بنائیں اور ان کو ان مروجہ رسموں کے بارے میں بتائیں کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ایصال ثواب و صدقات وخیرات کیلئے کوئی خاص ماہ ،خاص دن اور کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے جب چاہے کرسکتا ہے ۔
ماہ رجب کی صرف اتنی فضیلت ثابت ہے کہ یہ ایک حرمت والا مہینہ ہے ،اور اس ماہ میں ظلم وستم سے باز رہنے، توبہ واستغفار،کثرتِ عبادت اور نیک کاموں کے کرنے پر دوگنااجر عظیم ملنے کی بھی فضلت بیان کی گئی ہے ۔اسی مہینے میں اللہ رب العزت نے اپنے پیارے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)کوسفر معراج کرایا اور مسلمانوں کے لیے نماز جیسی عظیم عبادت کا تحفہ عطا کیا ۔
اس مہینے کے ادب واحترام کا تقاضہ یہ ہے کہ اس ماہ میں خصوصی طور پر گناہوں سے معافی مانگیں ،کثرت عبادت کی اللہ سے دعا کریں ،اس ماہ کی برکتوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں ۔اس ماہ رجب میں مروجہ رسموں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کی بھی اصلاح کریں ۔
اللہ اور اس کے رسول نے جو راستہ ہمیں بتایا ہے اور اس کے نیک بندوں نے اس راستہ پر چل کر دکھایا اس کو اپنے لئے نمونئہ عمل بنائیں ۔اللہ رب العزت ہم سب کو دارین کی سعادتیں نصیب فرمائے۔آمین
از۔۔۔۔محمد محفوظ قادری ،رام پور
،یو۔پی9759824259
Pingback: ماہ مقدس رمضان کا استقبال کیسے کریں ⋆ از۔۔۔۔۔محمدمحفوظ قادری