حضرت امام ربانی کی حیات و خدمات
حضرت امام ربانی کی حیات و خدمات !
ازقلم۔۔۔۔۔۔محمد محفوظ قادری
مکرمی!دین اسلام کی حفاظت کا وعدہ تاقیامت اللہ رب العزت نے خود فرمایا ہے جیساکہ فرمان باری تعالیٰ ’’بے شک یہ ذکرعظیم(قرآن کریم)ہم نے ہی اتارا ہے اوریقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے‘‘۔(سورئہ حجرآیت9)
دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا تاقیامت وعدئہ الٰہی اور ساتھ ہی نبوت کے فرائض کی ادائیگی امت مسلمہ کے ذریعہ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرورہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اوربھلائی کاحکم دیں،اور برائی سے روکیں اور وہی لوگ بامراد ہیں ‘‘۔(سورئہ عمران آیت104)
مذکورہ آیت کریمہ میں مخصوص جماعت اور گروہ سے مرادامت امسلمہ کے مصلحین،مجتہدین اورمجدددین ہیں۔امت مسلمہ کے ایمان،عقیدے،نظام حکومت اور معاملات میں اگر ہلکی (معمولی)سی خرابی پیدا ہوتی ہے تو اس کی اُس زمانے کےمصلحین اصلاح کرتے ہیں ۔ اوراگریہ معمولی سی خرابی بگاڑ کی شکل اختیار کرلے لوگ دین سے دور ہونے لگیں،دین پرعمل کرنا دشوارہوجائے تو اس کی اصلاح کے لیے مجتہد آئیں گے۔
اور اگر یہی بگاڑ اس قدر بڑھ جائے کہ دین کی قدریں پامال ہونا شروع ہوجائیں،دینی شعارکا مذاق اڑایا جانے لگے،دین پر عمل کرنا ناممکن ہوجائے دین کانام و کام محض دکھاوے وریاکاری کے لیے رہ جائے،دین اسلام کی مخالف طاقتیں بہت طاقتور ہوجائیں،اوردین کاکام کرنے والوں کے لیے کام کرنا دشوار ہوجائے تو ان نازک حالات میں اللہ رب العزت کی طرف سے مجدد کو بھیجا جاتا ہے
جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ’’اللہ جسے چاہتا ہے اپنے حضور میں(قرب خاص اوردین کی خدمت کے لیے )منتخب فرمالیتا ہے اوراپنی طرف راستہ دکھاتا ہے (آنے کا)جو قلبی رجوع کرتا ہے‘‘(سورئہ شوریٰ آیت 13)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس امت کیلئے ہر صدی کے آخر میں کسی ایسے شخص کو پیدا فرمائیگاجو اس امت کیلئے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔(ابوداؤد)
ان نازک حالات میں اللہ تعالیٰ اپنے دین کی بقااورتحفظ کے لیے جن بندوں کاانتخاب فرماتا ہے ان میں یہ چند خصوصیات بچپن سے ہی پائی جاتی ہیں۔ایسے لوگوں کا انتخاب اللہ تعالیٰ ان کے بچپن سے ہی فرمالیتا ہے،یہ بچپن سے ہی بہت ذہین ہوتے ہیں،ان کا بچپن عام بچوں سے مختلف ہوتا ہے
یہ باکردار،باحیا،محنتی اور بہت ذہین ہوتے ہیں،خدادادتخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔
ان کے مرتبہ ومقام سے ان کے والدین کو بچپن سے ہی آگاہ کر دیا جاتا ہے ان تمام خصوصیات کو جمع کیا اللہ رب العزت نے حضرت امام ربانی مجددالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کی ذات بابرکت میں۔
آپ کا اسم گرامی ’’احمد‘‘کنیت’’ابوالبرکات‘‘لقب ’’بدرالدین‘‘اورخطاب’’امام ربانی مجد الف ثانی‘‘ہے۔آپ کی ولادت شب جمعہ14/شوال المکرم 971 ھ۔مطابق 5ْْْْ/جون 1564ء کو سرہندمیں ہوئی۔
آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی حضرت شیخ عبدالاحد فاروقی اور معروف(مخدوم)سے تھے اسی وجہ سے آپ کی اولاد کو’’مخدومی‘‘بھی کہا جاتا ہے ۔
آپ کے والد جلیل القدر علما میں سے تھے اورطریقت میں شیخ عبد القدوس گنگوہی سے بیعت کا شرف حاصل تھا۔آپ کاسلسلہ نسب اکتیس واسطوں سے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچ جاتاہے اس لیے آپ فاروقی کہلاتے ہیں۔بچپن سے ہی آپ سے ولایت کے آثار ظاہر ہوتے تھے چہرئہ مبارک پر بھی عجیب نور ظاہر رہتا تھاجو بھی آپ کودیکھتا تووہ اس آیت مبارک کا مصداق سمجھتا ’’یوں لگے جیسے اس کا تیل خود بخود بھڑک اٹھے اگر چہ اسے آگ نے مس نہیں کیا ہو‘‘۔(سورئہ نورآیت 35)
ایک مرتبہ آپ بچپن میں بیمارہوئے اور کافی کمزور بھی نظر آنے لگے تھے آپ کی والدہ بہت بے چین وپریشان ہوئیں آپ کو حضرت شاہ سید کمال کیتھلی قدس سرہ کی بارگاہ میں لیکر حاضر ہوئیں اور دعا کی درخواست کی حضرت شاہ کمال کیتھلی قادری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ـ
’’مطمئن رہوآپ کے بچے کی عمر دراز ہوگی یہ اپنے وقت کاعالم،عارف،کامل ہوگا۔آپ کے حق میں بہت سی بشارتیں حضرت شاہ کمال کیتھلیؒ نے آپ کے والد کو بھی سنائی تھیں۔
آپ کو مجددالف ثانی اس لئے کہتے ہیں یعنی پرانے کو ’’نیا‘‘ کرنے والا،یا اس طرح سمجھ لیا جائے کہ کسی بھی معاملہ کو اس کی ’’اصل‘‘ کی طرف لانے والا۔
سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہزار سال پورے ہو رہے تھے تو شیخ احمد فاروقی سرہندی علیہ الرحمہ کی ولادت ہوئی۔آپ نے دین اسلام کی تجدیدوحفاظت اوراحیاء شریعت کا جوعظیم کام برصغیر پاک وہند میں سرانجام دیا وہ اسلامی تاریخ میں امتیازی شان رکھتا ہے۔
اسی وجہ سے آپ کا لقب مجددالف ثانی ایسا مشہور ہوا کہ لوگ آپ کو اسی نام سے زیادہ جانتے اور پہچان تے ہیں۔آپ نے ابتدائی تعلیم میں قرآن کچھ درسی وتصوف کی کتب اپنے والد ماجد سے پڑھیں۔اس کے بعدحضرت مولانا کمال کشمیریؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر عضدی وغیرہ جیسی دقیق کتابیں پڑھیں۔
پھر حضرت مولانایعقوب حسن صرفی کشمیریؒ سے آپ نے کتب حدیث پڑھیں اورسلسلہ کبرویہ میں حضرت مجددعلیہ الرحمہ آپ سے بیعت ہوئے۔ان کے بعد حضرت مجدد صاحب نے قاضی بہلول بدخشی سے چودہ یا پندرہ کتب کی روایت و اجازت حاصل کی۔
ان کتب میں تفسیر واحدی اور اس کی مئولفات،تفسیر بیضاوی اوراس کی مصنفات،بخاری اور اس کی مئولفات،مشکوٰۃ تبریزی،شمائل ترمذی،امام سیوطی کی جامع صغیر،قصیدہ بردہ وحدیث مسلسل الراحمون یرحمھم الرحمان ارحموامن فی الارض یرحمکم من فی السماء کے ساتھ مشکوٰۃ المصابیح کی اجازت حاصل کی یہاں تک کہ حضرت مجددصاحب سترہ سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوگئے۔
تحصیل علوم سے فراغت کے بعدآپ آگرہ تشریف لے گئے اس زمانہ میں آگرہ دارالسلطنت اورمرکز اہل فضل وکمال تھا وہاں آپ نے درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔
آگرہ میں آپ کا کافی دن تک قیام رہا آپ کے والدشیخ عبدالاحد بھی آپ کی محبت میں آگرہ تشریف لےآئے ۔ جب آگرہ سے سرہند کیلئے آپ اپنے والد کے ساتھ واپس ہوئے توتھانیسرنامی مقام پر آپ کا نکاح شیخ سلطان کی صاحبزادی سے ہوا۔اللہ نے آپ کو سات صاحبزادے اورتین صاحبزادیاں عطا فرمائیں۔
جب تک آپ کے والد(شیخ عبد الاحد فاروقیؒ) حیات رہے آپ والد کی خدمت میں رہے۔ میدان طریقت میں آپ نے اپنے والد سے سلسلہ چشتیہ،قادریہ میں بیعت وخلافت حاصل کی۔سلسلہ کبرویہ،سہروردیہ،قلندریہ اور مداریہ میں بھی آپ کو آپنے والد سے نسبت حاصل تھی۔
سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت شاہ کمال کیتھل قادریؒ سے ایام طفولیت میں توجہات حاصل ہوئیں لیکن جب شعوری عمر کو پہنچے تو شاہ کمال کیتھلیؒ کے نبیرہ وجانشین سید شاہ سکندر کیتھلیؒ کے دست مبارک سے شاہ کمال کیتھلیؒ کا خرقہ خاص عطا ہوااور ساتھ ہی سلسلہ عالیہ قادریہ میں اجازت و خلافت بھی حاصل ہوئی۔خرقہ مبارک کا عطا ہونا اورخلافت سے نوازنا یہ شاہ کمالؒ کی وصیت کے مطابق ہوا جو آپ نے اپنی حیات میں فرمائی تھی۔
حضرت خواجہ باقی باللہ صاحب سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہو کر انتہائی کمال حاصل کیا۔حضرت خواجہ باقی بااللہ صاحبؒ کے احسانات کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مجددصاحب نے اپنے مخدوم زادوں کی خدمت میں تحریرفرمایا تھا’’حمد و صلاۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد مخدوم زادوں کی جناب میں عرض ہے کہ یہ فقیر سر سے پاؤں تک آپ کے والد بزرگوار کے احسانات میں غرق ہے اورطریقہ نقشبندیہ میں الف،ب کا سبق ان ہی(خواجہ قدس سرہ)سے حاصل کیا ہے اس راہ میں حروف تہجی بھی ان ہی سے سیکھے ہیں
اوراندراج النہایۃفی البدایۃ(ابتداء میں انتہا کا درج ہونا)کی دولت بھی ان ہی کی صحبت کی برکت سے حاصل ہوئی ہے۔ان کی توجہ شریفہ نے ’’ڈھائی ماہ‘‘میں اس ناقابل کو نسبت نقشبندیہ تک پہنچا دیااوران اکابر کا حضور خاص عطا فرمادیا۔ان کی توجہ شریف کی برکت سے معارف توحید،اتحاد،قرب و معیت اوراحاطہ وسریان میں شاید ہی کوئی دقیقہ رہ گیا ہو جو اس فقیر پر نہ کھولا گیا ہو اوراس کی حقیقت کی اطلاع نہ دی گئی ہو‘‘۔
حضرت مجدد صاحب کو خواجہ باقی بااللہ صاحبؒ سے بیعت ہونے کے بعد جوباطنی ترقیاں وکمالات حاصل ہوئے وہ اپنے آپ میں خودایک مثال ہیں حضرت مجدد صاحبؒ اپنی پاکیزہ فطرت کی وجہ سے اپنے باطنی کمالات و روحانی ترقیوں پر ہمیشہ اللہ رب العزت کا شکریہ ادا کیا کرتے تھے
یہاں تک کہ جن کے ذریعہ(مولا ناحسن کشمیریؒ ) آپ کوحضرت خواجہ باقی باللہ صاحب ؒکے دربارتک رسائی حاصل ہوئی ان کا بھی آپ نے منکسرانہ انداز میں شکریہ ادا کیا اورآپ نے ان کو لکھا(مولانا حسن کشمیری ؒ) کو’’فقیر آپ کی عنایت کا شکریہ ادا کرنے سے قاصر ہے اور اس احسان کا بدلہ اتارنے سے عاجز ہے۔یہ تمام روحانی ترقیاں اوریہ تمام مشاہدات و کمالات آپ کے اسی احسان و انعام پر مبنی ہیں اوراسی سے وابستہ ہیں۔آپ کے طفیل وہ کچھ دیا گیا جو شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔آپ کے وسیلہ کی برکت سے وہ لطف وسرورملا ہے جس کا مزہ شاید ہی کسی نے چکھا ہو‘‘۔
آپ کے خلیفہ خواجہ محمد ہاشم کشمی تحریرفرماتے ہیں:’’اس کمترین نے بار ہا حضرت مجددصاحب سے سنا ہے کیا ہم اور کیا ہماراعمل۔جو کچھ بھی ہم کو ملا ہے وہ صرف اللہ کا کرم ہے۔اگر کوئی چیز اس کے کرم کے واسطے بہانہ بنی ہے تو وہ سید الاولین والآخرین کی متابعت ہے ہمارے کام کا مداراسی پرہے۔جزوی یا کلی طورپرجو بھی ملا ہے اتباع سنت کی بدولت ہی ملاہے۔اور جو کچھ نہیں ملا ہے اس وجہ سے نہیں ملا کہ بشریت کی وجہ سے ہم سے اتباع سنت میں کوتاہی ہوئی ہے‘‘۔(مشک مجددی)
الغرض حضرت امام ربانی مجددالف ثانیؒ جب شعوری عمر کو پہنچے تو اکبر باد شاہ کادور حکومت تھااس کےدور کی ابتدا 963ھ۔ 1556ء۔سے ہوئی اورانتہا1014ھ۔1605ء۔میں ہوئی۔اکبر کےمزاج میں جیسے ہی مذہب اسلام کیلئےبےرغبتی پیدا ہونا شروع ہوئی اوراکبر تیزی کے ساتھ دین اسلام کے بنیادی اصولوں سے ہٹ(منحرف ہو) کر بات کرنے لگا یہاں تک کہ 990ھ۔ میں دین اسلام کے بجائے ایک نئے’’دین‘‘یا نئے ’’طریقہ‘‘کا اعلان اکبری دربارسے کیا گیا
اوراس نئے دین یا نئے طریقہ کو ’’دین الٰہی‘‘کے نام سےجانا گیا۔اکبر چونکہ خودتو کم علم تھا۔لیکن اس کے دربارکے علماء سوء میں ابو الفضل و فیضی نے اس کے عقائد کواور زیادہ خراب کردیا تھا۔ اس کےدور حکومت میں مساجدومدارس کو منہدم کیا جانے لگا،حلال جانور ذبح کرنے پر پابندی عائد کی گئی۔
جب کہ حرام خوری اور شراب نوشی پر کو ئی پابندی نہیں تھی۔شعائر اسلام کو مٹایا جانے لگااحکام شریعت کو نظرانداز کر کے باطل نظر یات کو فروغ دیا جانے لگا۔
سجدہ تعظیمی کوواجب قراردیا گیا۔بدعات و خرافات کا چرچہ چاروں طرف عام ہو گیا۔باطل رسومات کی اشاعت ہو نے لگی۔ اُس وقت جوعلماء حق تجدید دین میں مصروف تھے ان ہی میں سے ایک ذات حجتہ الاسلام حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ کی بھی تھی جو تجدیدی اوراصلاحی کاموں میں اپنا تمام وقت اور اپنی عزیز جان کو لگائے ہوئے تھےاوراسلام کی سر بلندی واشاعت کیلئے برابر کو شش کر رہےتھے۔
لیکن یہ حضرات اس طرح کامیاب نہیں ہو سکے اپنے مقصد ومحنت میں کہ جس طرح یہ ہو نا چا ہتے تھے۔ کیونکہ کہ اس کام کی تکمیل کے لیے اللہ رب العزت کوکسی اور ذات گرامی کا انتخاب مقصودتھا۔
چناں چہ اس نازک اور پر فتن دور میں بدعات وخرافات کے سد باب کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ کومنتخب کیا۔1605ء میں جب اکبر کا انتقال ہوااور8/جمادی الثانی 1014ھ۔مطابق 21/اکتوبر1605ء۔کونورالدین جہانگیرتخت پر بیٹھا ۔
آپ جلال الدین اکبرکےدور میں تحصیل علوم میں مشغول تھےاس لیے آپ اس وقت زیادہ کھل کر’’دین الٰہی‘‘ کی مخالفت نہیں کر سکے۔اس وجہ سے آپ نے تجدیددین کا بیڑہ سلطان نور الدین جہانگیر کے دورحکومت میں اٹھایا۔آپ کےاس تجدیددین کے کام کو دیکھ کراورآپ کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ سے مخالفین بہت پریشان ہوگئے۔
اس کے علاوہ دربار شاہی میں نورجہاں(جہانگیر کی اہلیہ) کی وجہ سے رافضیوں کا اثر بہت بڑھ گیا تھا۔رافضیوں کےردمیں اس واقعہ سےچند سال پہلے حضرت مجددصاحب ایک رسالہ تحریر کر چکے تھے اس رسالہ کی وجہ سے بااثر شیعہ حضرات آپ سے بغض رکھتے تھے۔
آپ کے تذکرہ نگاروں نے چند وجوہات آپ کی گرفتاری کی اوربھی بیان کی ہیں ان میں اہل تشیع کا دربار میں اثر ورسوخ کا بڑھنا،جہانگیر کے وزیر اعظم آصف جاہ جو(شیعہ)تھااس نے باد شاہ کے دربار میں آپ کی بڑھتی شہرت سے خطرہ ظاہرکیا۔
اس کے علاوہ آپ کےاسرارومعارف سے متعلق مکتوب پر اعتراضات کئے گئے ان سب باتوں کے ذریعہ بادشاہ نورالدین جہانگیر کے کان بھر دئے گئے۔یہاں تک کہ اس وقت کے علماء سوء اور حاسدین نے آپ کے متعلق بادشاہ سے من گھڑت باتیں بھی بیان کرنا شروع کردیں تاکہ آپ کو اپنے مقصد سے روکا جا سکے۔حاسدین کی باتوں میں آکرنورالدین جہانگیر نے دربار میں حاضر ہونے کا حکم صادرکیا۔حضرت مجدد کی گرفتاری کے بیان میں شاہ جہاں کی عقیدت بھی قابل ذکر ہے شہزادئہ شاہ جہاں کو درباری آداب وسجدئہ تحیت کا اندازہ تھا کہ حضرت مجدداس پرعمل نہیں کریں گے۔
اس نے حاضری سے پہلے دوعالموں کے ذریعہ فقہ کی کتابیں دیکرآپ کے پاس بھیجا اورخواہش ظاہر کی کہ’’آپ بادشاہ کو سجدئہ تحیت کر لیں،میں اس صورت میں آپ کی ضمانت لیتا ہوں کہ بادشاہ سے آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی‘‘آپ نے علماء سےفرمایا ’’یہ رخصت ہے مگر عزیمت یہی ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ نہ کیا جائے ‘‘۔
جب آپ بادشاہ کے سامنے حاضر ہوئے تو آپ سے چند سوالات کئے گئے اصل سوال آپ کے اس مکتوب کے بارے میں تھا کہ جس میں آپ نے اپنے روحانی عروجات کا ذکر فرمایا تھاآپ نے اس کا مثال کے ساتھ جواب دیا جس سے بادشاہ لاجواب ہوکر خاموش ہوگیا۔اس معاملہ کو ٹھندا ہوتا ہوا دیکھ کرمخالفین نے بادشاہ کے سامنے سجدہ تحیت (زمین بوسی)نہ کرنے کا الزام لگایااسی واقعہ کی طرف ڈاکٹرعلامہ اقبال نے اشارہ فرمایا ہے:
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمئی احرار
وہ ہند میں سرمائیہ ملت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبر دار!
جب جہانگیر کواپنی اہانت معلوم ہوئی تو آپ کو قید کرنے کا حکم دیا۔حضرت مجددالف ثانیؒ کوایک سال کے لیے قلعئہ گوالیار میں قید کردیاگیا۔پھر تین سال دس مہینے شاہی فوج میں نظربند رہے۔قید کئے جانے پر آپ کے مال واسباب،کتب وجائیدادکو شدید نقصان پہنچا۔
جیل میں رہ کر آپ نے تبلیغ دین کا بہت بڑا کام سر انجام دیا جیل میں جتنے بھی فاسق،بدکار،فجار،ظالم قیدی تھے ان پرآپ کی تبلیغ اورآپ کی صحبت کا یہ اثر ہوا کہ وہ سب کے سب توبہ کر کےدائرہ اسلام میں داخل ہو گئے،اور ان کے چہرے نورالٰہی سے چمک اٹھے اورجوبھی جیل سے باہر نکلتا وہ اسلام کا سچاسپاہی بن کرنکلتا۔
جب بادشاہ کو اس بات کا علم ہوا کہ جیل میں مجددالف ثانی کے ذریعہ تبلیغ دین کا سلسلہ جاری ہے توباد شاہ آگ ببلولہ ہو گیااور حکم نامہ جاری کیا کہ شیخ احمدسرہندی سے کہو کہ وہ اگر ہمیں سجدئہ تعظیمی کر لیں تو ہم ان کو معاف کر دیں گے۔
آپ نے یہ کہکر سجدہ تعظیمی کی مخالفت کی کہ سجدہ اللہ کا حق ہے اوراللہ کا حق کسی بھی حال میں بندے کو نہیں دیاجاسکتا۔جب عبادتوں میں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہو جائے تو دین اسلام کوخطرہ لا حق ہو نے لگتا ہے،لیکن جب پورے دین میں بگاڑ پیدا ہو جا ئے اوربگاڑ کا نام ہی اصلا ح رکھ دیا جائے اور بے دینی کو عین دین ٹھرایا جائے تو یہ بہت بڑاخطرہ ہے اور اکبری فتنہ اس قدرخطرناک و شدیدتھا کہ اس کا فساد ایک خطہ تک محدودنہیں تھا بلکہ دنیا کا ایک براعظم اس کی لپیٹ میں آچکا تھا ایسے نازک وقت میں حضرت مجددالف ثانی ایک عظیم ایمانی طاقت وقوت کے ساتھ اٹھے اوراکبر کے خودساختہ’’دین الٰہی‘‘اور باطل نظر یات کا خاتمہ کیا۔
بہر حال جہانگیر نے ایک نئی تدبیر سوچی کہ ایک چھوٹی سی کھڑکے ذریعہ آپ کو دربار میں بلایا جائے جس وقت آپ داخل ہو نگیں تو پہلے اپنا سرداخل کریں گے بعد میں پاؤں ہمارا مقصد پورا ہوجائیگا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت بڑاسمجھداربے مثل عقل والا اوراپنے کرم خاص سے اعلیٰ بصیرت بھی عطا فرمائی تھی۔
جس وقت آپ کو کھڑکی کے پاس لایا گیا اور اندرداخل ہو نے کو آپ سے کہا گیاتو سب سے پہلے آپ نے اپنے پاؤں داخل کئے بعد میں سر مبارک کویہ دیکھ کر جہانگیر غصہ میں (آگ کی طرح ) بھڑک گیا اورآپ کی طرف تلوارسنبھالتے ہوئے کہنے لگا
اے شیخ احمد!کیا تم ہمیں جانتے نہیں ہو؟ہم کون ہیں برصغیر پر ہمارے آباؤ اجدادنے حکومت کی ہے ہماری رگوں میں بابری خون ہے۔تو حضرت مجددالف ثانی نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ اگر تیری رگوں میں بابری خون ہے تو میری رگوں میں خون فاروقی ہے جنہوں نے دنیا کی دو سُپر پاورفُل طاقتیں روم اورایران کو فتح کرکے اسلام کے دامن میں لاکر ڈال دیا تھا بتا تو کیا چاہتا ہے؟
یہ جملے سن کر جہانگیرکاپنے لگااوراُس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی اورجہانگیرآپ کے قدموں میں گر گیا اور معافی مانگنے لگا اورآپ کی خدمت میں عرض گزار ہوا کہ
اے’’شیخ احمد تم کیا چاہتے ہو‘‘حکم کرو!آپ نے ارشاد فرمایا کہ’’ اے بادشاہ!میں شریعت محمدی کا نفاذ چاہتا ہوں،غیر شرعی رسومات وخرافات کو ختم کرانا چاہتا ہوں‘‘اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے جنت میں بھیجاتو میں اس وقت نہیں جاؤں گاجب تک خدا ئے تعالیٰ سے تجھے جنت میں داخل نہیں کرالوں گا۔
یہ جملے اوراپنے حق میں جنت کی بشارت سن کرجہانگیر توبہ کر کے آپ کے دست مبارک پر خود بھی بیعت ہوااوراپنے بڑے بیٹے شاہ جہاں کو بھی بیعت کرایا۔اس طرح تمام ہندوستان میں شریعت محمدی کا نفاذ ہوا۔اوران باطل رسومات بدعات وخرافات کا مکمل خاتمہ ہو گیااور چاروں طرف شریعت اسلامی کا پر چم لہرا نے لگااوراسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیااور اکبری دین ’’دین الٰہی‘‘ کا خاتمہ ہوا۔
چناں چہ اس کے بعد جہانگیر نے جواحکامات جاری کئے ان کے مطابق اسلامی قوانین کو بحال کیا گیا۔شراب نوشی پر روک لگائی گئی،حرام جانوروں پرپابندی کے ساتھ حلال جانوروں کوذبح کرنے کا حکم دیا گیا۔مساجد کی تعمیر کی اجازت کے ساتھ اشاعت اسلام سے روک کو ہٹایا گیا۔
عموماًعلماءاورصوفیاء بادشاہوں اورامیروں سے دوررہ کر یہ تائثرات دیتے ہیں کہ ان کو دنیا والوں سے کو ئی سروکار(مطلب) نہیں ہے۔مگر مجدد صاحبؒ امراء کی حقیقت سے واقف تھے وہ خوب جان تے تھے کہ ملک کے بڑے لوگوں کی اصلا ح کا اثر عوام پرضرورپڑتا ہے اس لئے مجدد صاحب نے شروع سے ہی اکبری عہد کے بعض صحیح الفکر امراء سے برابر رابطہ رکھا جس کی وجہ سے بہت سے امراء نقشبندی سلسلہ سے وابستہ ہو گئے۔ان ہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ اکبر کے بعد جہانگیر کی تخت نشینی ہوسکی جس نے ملک میں اسلامی قوانین کو رائج کیا۔
جس تخت پراکبر جیسا بادشاہ بیٹھا تھاہندواور ایرانی امراء کا غلبہ تھا پچاس سال بعد اسی تخت پر جہانگیر جیسا صحیح الفکراور راسخ العقیدہ باد شاہ بیٹھاجس نے مسلم خلفاء کی یاد کو تازہ کردیا۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی ؒعہدجہانگیری میں بہت بڑی مذہبی طاقت بن گئے تھے
اورجہانگیر بادشاہ آپکا بہت بڑامعتقدومعتمد ہو گیا تھا۔ جہانگیر کو آپ سے اس کمال درجہ کی عقیدت تھی کہ جہانگیر بادشاہ کہا کرتا تھاکہ میرا کو ئی بھی عمل اس قابل نہیں کہ میں جنت میں جا سکوں سوائے دو چیزوں کے ایک نسبت اورایک جملہ کہ باشاہ سے معلوم کیا گیا کہ وہ نسبت اور جملہ کیا ہے تو جہانگیر باد شاہ نے کہا کہ نسبت یہ ہے کہ میں مجدد الف ثانیؒ کا بہت بڑا عقیدت مندومعتمد ہوں۔
اور جملہ یہ ہے کہ مجھ سے مجددالف ثانیؒ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جہانگیر میں اس وقت جنت میں نہیں جاؤں گاجب تک تجھ کو میرا ساتھ نصیب نہ ہو جائے گا۔
مجھے مجددالف ثانی کی اس نسبت و جملہ پر نازوفخر ہے۔جہانگیراکثر سرہند شریف حاضر ہوکر آپ کی خدمت اقدس میں حاضری دیتااورآپ کے یہاں دربار کا کھانا کھا تا اور بڑے فخر کے ساتھ کہتا کہ آج تک ایسا لذیذ کھاناکبھی نہیں کھایا۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ دین اسلام کی اشاعت اوراصلا ح امت کے لیے وقف فرمادیا تھا۔دعوت حق کیلئے آپ کو قیدوبندکی صعوبتوں سے بھی گزرنا پڑااورجیل کےاندربھی آپ اپنے مقصد کو نہیں بھولے تبلیغ دین میں مصروف رہے۔
آپ کی خدمات کو تا قیامت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ہندوستان میں اسلام کی بنیاد سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے رکھی اوردین اسلام کی اشاعت کر کے ہندوستان کومنورفرمایا ۔خواجہ صاحب کے خلفاء میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی،حضرت بابافریدالدین مسعود گنج شکر،حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءمحبوب الٰہی رحمتہ اللہ علیہم نے اس کو خوب پروان چڑہایاان حضرات کی تبلیغ سے لاکھوں غیرمسلم مشرف بہ اسلام ہو ئے۔لیکن بعد میں کچھ بادشاہوں نے جن میں اکبر خاص طور سے قابل ذکر ہے۔
اس نے اسلام کی اصل تصویر کو مسخ کرکے اسلام کومٹانے کی ناپاک کوششیں کی لیکن حضرت مجددالف ثانیؒ نے اُس کو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا اورمجددصاحب نے اپنی محنت وکوششوں سے دین محمدی کی اصل تصویر کولوگوں کے سامنے پیش کرکے روشن و منور رکھااور تجدیددین کر کے نبوت کی جا نشینی کے حقوق ادا کئے۔
زندگی کےآخری لمحات :
اس دنیائے فانی سے رخصت ہونے کے دن صبح چاشت کے قریب آپ کواستنجا کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی بَول (پیشاب) کرنے کے لیے طشت منگایااس میں ریگ(ریت) نہیں تھا
جس کی وجہ سے پیشاب کی چھینٹوں کے واپس آنے کا خطرہ تھاآپ نے ریت والا طشت منگایا اس کےآنے میں کچھ دیر ہوئی توآپ نے فرمایا رہنے دومجھ کواٹھاکر بٹھاؤ میں اب پیشاب نہیں کروں گا۔
آپ کی خدمت کرنے والے اس کیفیت کو نہیں سمجھ سکے توآپ نے فرمایا کہ ہم وضو نہیں توڑیں گے (استنجا نہیں کریں گے)آپ کواپنےرخصت ہونے کا علم ہو چکا تھا اس وجہ سے استنجا کرکے وضو کرنا تاخیرکا سبب بنتا کیوں کہ صبح سے آپ کا وضوقائم تھا
آپ نے اپنا سرتکیہ پرٹیک لیااوردایاں ہاتھ اپنے دائیں رخسار کے نیچے رکھ لیا (ذکر) میں مشغول ہو گئے ساتھ ہی آپ کی سانس کا چلنا بھی تیز ہوگیا بڑے صاحب زادے نے آپ کا حال معلوم کیا آپ نےفرمایا ’’خوبیم‘‘یعنی میں اچھا ہوں۔
اورفرمایا دورکعت نمازجوہم نے ادا کی کافی ہے بس یہ آپ کا آخری کلام تھا اس کے بعد آپ ذکر’’اسم ذات‘‘ کرتے ہوئے 28/ صفرالمظفر1034ھ۔مطابق 10/ دسمبر1624ء۔کواس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔۔۔۔۔ انا للہ وانا الیہ رٰجعون۔
آپ کا مزارپُر انوارسرہند شریف ضلع فتح گڑھ پنجاب میں مرجع خلائق بنا ہواہے کثیر تعداد میں مخلوق خدا فیض یاب ہو رہی ہے اورتا قیامت ہوتی رہے گی۔
ان شااللہ
از قلم : محمد محفوظ قادری ،رام پوری
9759824259