حماس کو اسرائیل نے کھڑا کیا ہے
حماس کو اسرائیل نے کھڑا کیا ہے ؟
مشرف شمسی
این ڈی ٹی وی پر سوربھ شکلا نامی صحافی نے ایک سابق بھارتی جو اس وقت فلسطین میں سفارت کار تھے جب اسرائیل اور یاسر عرفات کے درمیان اوسلو میں امن سمجھوتہ ہوا تھا ۔اس سمجھوتے میں اسرائیل اور فلسطین دو آزاد اور خودمختار ریاست ساتھ ساتھ امن سے رہیں گے کی بات تسلیم کی گئی تھی ۔
لیکن اسرائیل اور فلسطین کے امن معاہدہ ہوتے ہی غزہ میں انتقضا تحریک شروع ہو گئی اور پہلی بار اس انتقازہ تحریک میں دنیا کے ممالک کو حماس نامی تنظیم کا پتہ چلا تھا۔
فلسطین میں موجود اس وقت کے سفارت کار نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حماس تنظیم کو کھڑا کرنے کا کام اسرائیل نے کیا ہے کیوں کہ اسرائیل کو فلسطینی یعنی یاسر عرفات نے ایک آزاد ریاست کے طور پر قبول کر لیا تھا
اور اب باری اسرائیل کی تھی کہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر فلسطین کو تسلیم کیا جائے
لیکن اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون اور موساد کے ذریعے غزہ پٹی میں ایک پر امن مزاحمتی تحریک شروع کروا دی گئی،جو اسرائیل کی وجود پر سوال کھڑا کر رہا تھا ۔حالانکہ امن معاہدہ کے تحت اسرائیل کو 1967 کی جنگ سے پہلے کی پوزیشن میں جانا ہے اور شمالی یروشلم فلسطین کی راجدھانی ہونی ہے۔
غزہ میں حماس کی قیادت میں انتقضہء تحریک شروع ہو جانے سے اسرائیل دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی کہ فلسطینی ایک آزاد اور خودمختار اسرائیل کے وجود کو مانتا ہی نہیں ہے ۔ایسے میں غرب اردن اور غزہ کی انتظامیہ فلسطین کو دیا جاتا ہے لیکن پولس اور فوج رکھنے کی اجازت فلسطین اتھارٹی کو نہیں دی جا سکتی ہے اور نہیں دیا گیا ۔اوسلو سمجھوتہ 1991 میں ہوا تھا ۔
سوویت یونین 1990 تک بکھر چکا تھا اور امریکہ دنیا کا واحد سپر پاور بن چکا تھا۔لیکن بھارتی سفارت کار نے یہ نہیں بتایا کہ کب حماس اسرائیلی خفیہ ایجنسی کی بات مانتے مانتے فلسطینیوں کی جائز نمائندگی کرنے لگا یا بھارتی سفارت کار یہ کہہ رہے ہوں کہ اس بار بھی اسرائیل پر حماس نے حملھ کیا ہے
وہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے اشارے پر ہی کیا ہو۔کیونکہ اسرائیل کے اندر وزیر اعظم نیتن یاہو کمزور ہو چکے ہیں اور اُنہیں سرکار چلانے میں کافی مشکلات کا سامنا ہو رہا تھا ۔اسرائیل میں نیتن یاہو سرکار کے خلاف ہر ہفتے کے روز لاکھوں افراد سڑکوں پر مظاہرہ کرنے پر مجبور تھے ،چونکہ اسرائیل نیتن یاہو کی عدالتی اصلاحات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔وزیر اعظم خود بد عنوانی کے الزام سے گھیرے ہوئے ہیں ۔
نیتن یاہو سرکار کے خلاف جو مظاہرے ہو رہے تھے اس میں اسرائیل کے لاکھوں ریزرو فوجی بھی شامل ہوا کرتے تھے ۔لیکن حماس کے حملے کے بعد یہ ریزرو فوجی کو ملک کے دفاع میں شامل ہونے کہا گیا ہے اور وہ فوجی شامل بھی ہو گئے ہیں ،اور غزہ کے محاصرے میں اپنا حصہ دے رہے ہیں ۔
لیکن بھارتی سفارت کار کی بات صحیح بھی مان لیا جائے تو حماس تب متحرک دیکھا جاتا ہے جب اسرائیل اور ایران کے مفاد ٹکراتے نظر آتے ہیں ۔
اس میں شک نہیں ہے کہ ایران خلیج فارس میں امریکہ کی موجودگی برداشت نہیں کر پا رہا ہے ۔شیعہ اور سنی کے نام پر امریکہ اس خطّے میں عربوں کو آپس میں لڑانے کا کام کرتا رہا ہے ۔تاکہ اسرائیل کی بربریت پر کسی کی نظر نہیں جائے۔
اسرائیل اور امریکہ نے مل کر شام میں خانہ جنگی شروع کرائی تھی شام میں لاکھوں افراد مارے گئے اور پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ اپنے گھروں سے در بدر ہوئے۔ایران کے لیے شام کی اسد حکومت کو بچانا ضروری تھا
اور اس نے روس کو اس جنگ میں شامل کر اسد حکومت کو تو بچا لیا لیکن امریکہ نےروس کو یوکرین میں پھنسا دیا ۔حلانکہ ایران یہ بات کبھی قبول نہیں کرتا ہے کہ شام کے ذریعے ایران لبنان میں حزب اللہ اور حماس کو ہتھیار پہنچاتا رہا ہے
اور دونوں تنظیمیں ایران کی فرنٹ تنظیم کے طور پر کام کرتا ہے۔اسرائیل پر موجودہ حملھ ایران کا فوجی کمانڈر خالد سلیمانی کی عراق میں قتل اور شام کی خانہ جنگی سے جوڑ کر بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔
خلیجی ممالک امریکہ سے خوف کھا کر ایسے موقع پر مصلحت سے کام لیتے تھے ۔لیکن ایرانی صدر کا سعودی پرنس کو اُنکی تحفظ کی یقین دھانی کے بعد سبھی خلیجی ممالک غزہ میں معصوم فلسطینی پر حملے کی کھل کر مذمت کی ہے ۔یہاں تک کہ سعودی پرنس نے امریکی وزیر خارجہ کے سامنے فلسطینیوں کے حق میں اپنی بات رکھنے میں پش و پیش نہیں کی ۔
اسرائیل کے لیے غزہ میں زمینی حملھ کرنا مشکل لگ رہا ہے اور اگر حملھ ہوا تو یہ جنگ کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیگا ۔
لیکن اسرائیل چاہتا ہے کہ کسی بھی طرح جنگ کا خاتمھ اسکے وقار کے ساتھ ہو۔یہ تب ممکن ہے جب حماس اپنے قبضے میں لئےاسرائیلی لوگوں کو بنا شرط رہا کر دے ۔
لیکن یہ ممکن نظر نہیں آ رہا ہے ۔کیونکہ حماس بھی چاہے گا کہ اسرائیل کی جیلوں میں بند سبھی فلسطینی کو اسرائیل رہا کر دے ۔
لیکن اتنا تو طے ہے کہ اسرائیل حماس کی جنگ بند ہو جانے کے بعد بھی اسرائیل شام یا ایران میں کچھ ایسی کاروائی ضرور کرے گا جس سے مغربی ایشیا میں اسرائیل اپنی خوف کو پھر سے قائم کر سکے۔
میرا روڈ ،ممبئی
موبائیل 9322674784
Pingback: اسرائیل کے لیے مشکل ہے زمینی لڑائی ⋆ مشرف شمسی