دہلی میں پر اسرار صوفی کانفرنس اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے مطالبے پر حقیقت

Spread the love

دہلی میں پُراسرار صوفی کانفرنس اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی کے مطالبے کی حقیقت

✍: سمیع الله خان

کل دہلی میں ‘لیڈر مسلمانوں ‘ کی ایک پُراسرار صوفی کانفرنس منعقد ہوئی تھی

اس میں آل انڈیا صوفی سجادہ نشینوں کےعلاوہ کئی معروف مسلمان شخصیات بھی شریک ہوئیں، جن میں جمعیۃ اہل حدیث کے سربراہ مولانا اصغر مہدی سلفی کےعلاوہ پروفیسر محسن عثمانی ندوی، مولانا عامر رشادی مدنی اور مولانا سید سلمان حسینی ندوی بھی شریک تھے۔

کہا جارہاہے کہ اس کانفرنس میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی لگانے کی بھی قرارداد پیش ہوئی جس میں مولانا سلمان حسینی ندوی کے بھی دستخط ہیں، تحقیق کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ یہ فیک نیوز ہے، ایسی کوئی قرارداد اُس کانفرنس میں نہ تو پیش ہوئی ہے نہ ہی صوفیوں کےعلاوہ شریک ہونے والے دیگر اسلامی اسکالرز اور علماے دین کو پیشگی ایسا کوئی ایجنڈا بتایا گیا تھا، نہ ہی اُن کے سامنے ایسی کوئی قراداد پاس ہوئی ہے

خود مولانا سلمان ندوی صاحب نے ایسی خبروں کی تردید کی ہے، اور واضح کیا ہےکہ وہ بذات خود پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی لگائے جانے کےخلاف ہیں کیوں کہ وہ کئی مثبت اور تعمیری منصوبوں پر بھی کام کررہی ہے

مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب کی طرف سے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کےمتعلق یہ وضاحت اور موقف اچھی بات ہے، ایسے ہی کانفرنس میں دیگر جماعتوں سے شریک ہونے والی شخصیات کو بھی اس بابت اپنا موقف واضح کرنا چاہیے

کیوں کہ سرکاری مشنریوں اور سنگھیوں کی طرف سے پی۔ایف۔آئی پر پابندی کا مطالبہ ایک تنظیم کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ لاکھوں عام مسلمانوں اور ہزاروں مسلمان علماء، وکلاء، معلمین اور زیرتعلیم بچوں بچیوں کا مسئلہ ہے، پی ایف آئی پر پابندی کا مطالبہ ناجائز، غیرمنصفانہ اور سازشی بھی ہے، ان سے کچھ اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن پابندی کا کوئی جواز ہی نہیں ہے، پی ایف آئی پر پابندی کا مطلب امت کے ایک بہت بڑے طبقے پر ظالمانہ کریک ڈاؤن کو ہری جھنڈی دکھانا ہے

گرچہ مولانا سلمان حسینی ندوی نے پی ایف آئی پر پابندی کےخلاف بات کرتے ہوئے آر ایس ایس پر پابندی نہ ہونے کی جو مثال دی ہے وہ بھی بالکل غلط اور مضحکہ خیز ہے جس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا، لیکن پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے سلسلے میں بہرحال اب تک شرکاء میں سے سیّد سلمان ندوی صاحب نے اپنا موقف صاف کردیاہے کہ وہ پی ایف آئی پر پابندی کےخلاف ہیں ۔

توپھر اس کانفرنس سے پی۔ایف۔آئی پر پابندی کا مطالبہ کس نے کیا تھا؟

 

دراصل کانفرنس کے بعد باہر نکل کر میڈیا والوں کو انفرادی بائٹ دیتے وقت صوفی نصیر الدین چشتی نے پی ایف آئی کےخلاف بیان دیا جسے تمام شرکاء کی جانب منسوب کرکے منظم طورپر آئی ٹی سیل کے گرگے چلا رہےہیں، ایسی تو ہزاروں انفرادی بائٹ میڈیا پر پی ایف آئی کےخلاف چلائی جاتی ہیں

رہی بات نصیرالدین چشتی کےساتھ اسٹیج شیئر کرنے والے شرکاء کی تو ان میں سے اب تک مولانا سلمان ندوی صاحب نے پی ایف آئی کےخلاف اس بیان سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی کے مطالبے سے نااتفاقی بھی درج کرائی ہے، دیگر ممتاز شرکاء جنہیں دینی و ملی حلقوں میں جانا جاتاہے انہیں بھی چاہیے کہ وہ اپنا موقف واضح کریں۔

یہ بات بالکل صاف ہےکہ نہ تو مولانا سید سلمان حسینی نے نہ ہی پروفیسر محسن عثمانی صاحب نے نہ ہی جماعت اسلامی کے کسی فرد نے صوفی کانفرنس کےذریعے پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی کا کوئی مطالبہ کیا ہے نہ ہی ایسی کسی قراداد پر دستخط کی ہے بلکہ قومی سلامتی کے مشیر نے بھی پی ایف آئی کےخلاف ان حضرات کی موجودگی میں ایسا کچھ بھی نہیں کہا ہے

لہذا ایسی افواہ پھیلانا اور اُس پر سارا ہنگامہ کھڑا کرنا یہ خود تخریبی رویہ ہے اور ان افواہوں پر بحث کا سیدھا فائدہ سرکاری ایجنسیوں کو ہوگا اور نقصان پی ایف آئی کو، جو بات ہے ہی نہیں اسے خوامخواہ پیدا کرکے ہنگامہ برپا کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟

موجودہ مسئلہ تو پی ایف آئی کےساتھ خیانت ہے جو ایسی شخصیات کی طرف پی ایف آئی مخالفت کی افواہیں منسوب کی جارہی ہیں, صبح سے یہ ہنگامہ جاری ہے تحقیق کرنے کےبعد کچھ نہیں نکلا تو بہت افسوس ہوا کہ ہمارے درمیان کیسے فیک نیوز کی بنیاد پر ہندتوادیوں کی طرح ہنگامے اٹھائے جانے لگے ہیں

یہ کانفرنس پراسرار اس لیے تھی کہ اس میں مسلمانوں کے نمائندگان کےنام پر ایسے لوگ بھی سامنے آئے جنہیں مشکل سے چند مسلمان جانتے ہوں گے، اور پھر ان مشتبہ افراد کے ذریعے بھارت کے سب سے اعلیٰ انٹلیجنس افسر قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال بھی اس کانفرنس کا حصہ بنے

اس کانفرنس میں اجیت ڈوبھال جیسے انتہائی قدآور افسر کی شرکت نے اس بات پر مہر لگادی کہ یہ کانفرنس دراصل گزشتہ دنوں رسول اللہﷺ کی شان میں نوپور شرما کی گستاخانہ حرکت کےبعد عالمی سطح پر بگڑتی ہوئی سَنگھی ہندوستان کی شبیہ کو کنٹرول کرنے کا ایک ضروری پروگرام تھا یعنی کہ Damage Control وہیں اس کانفرنس کے ذریعے حکومتِ ہند نے ملکی سطح پر ایک نئی قسم کی مسلم لیڈرشپ کو پروموٹ کرنے کی کوشش کی ہے، جو سجادہ نشین صوفیوں پر مشتمل ہوگی اور انہی کو عالمی سطح پر بھی مسلمانانِ ہند کے قائدین کے طورپر پروجیکٹ کیا جانا بظاہر اس کانفرنس کا ہدف محسوس ہوا ۔

خلاصہ : ملت کے قابلِ ذکر افراد کو ایسے مشتبہ لوگوں کےساتھ ربط یا پینگیں بڑھا کر اپنا وقار مجروح نہیں کرانا چاہیے، صوفی کانفرنس کے لوگ وہی ہیں جو ماضی میں امت کی ایک بڑی جماعت کو دہشت گرد قرار دے کر مودی جی سے ان کےخلاف پابندی کا مطالبہ کرچکے ہیں یہ صوفی سجادہ نشین کانگریس کے دور میں بھی دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کےساتھ تھے اور ہمیشہ سے ان کی سرگرمیاں مشتبہ رہی ہیں

ابھی بھی ان لوگوں نے حکومتی افسران کی نظر میں کارکردگی پیش کرنے کے لیے سید سلمان حسینی اور پروفیسر محسن عثمانی صاحبان جیسی شخصیات کو ڈوبھال کے اسٹیج پر شریک کروایا بعد ازاں کام نکال کر پروگرام کے بعد امت کی ہی ایک جماعت کو کانفرنس کے بعد کی پریس کانفرنس میں بھیڑیوں کے آگے پھینک دیا، یعنی کہ قابلِ ذکر افراد کو بین المذاہب مذاکرات کے نام پر دعوت دی اور نشانہ لگایا مسلمانوں پر ہی یعنی کہ بے وقوف بنایا، لہذا بے وقوف بننے سے بچیے

✍: سمیع اللہ خان

ksamikhann@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *