کھرگون دنگا ہوا یا کرایا گیا
رام نومی جلوس: کھرگون دنگا ہوا یا کرایا گیا ؟
کھرگون دنگا ہوا یا کرایا گیا
مدھیہ پردیش کے کھرگون شہر میں رام نومی کے موقع پر ہوئے فرقہ وارانہ فسادکی شروعات کیسے اور کیوں ہوئی؟
جب مقامی پولس نے جلوس کے لیے روٹ طے کردیے تھے تو اس روٹ سے نا جا کر دوسرے راستے سے کیوں جلوس کو لے جایا گیا ؟
کیا یہ چاہتے تھے کہ ایسا ہو؟
اس جلوس میں تمام طرح کے وہ نازیبا اور بھڑکاؤ نعرے لگائے گیے جس سے منا کیا گیا،جو نہیں کرنا تھا۔
اوریہ سب جان بوجھ کر کیا گیا۔
مذہبی جلوس میں مذہبی سلوگنس (نعروں ) کی بجائے اشتعال انگیز نعرے لگائے گیے اور لوگوں کو فساد کے لیے اُکسایا گیا۔
جس کا ایک مخصوص کمیونٹی پر الزام لگایا جاتا رہا ہے اور لگایا ہے کہ پتھر انہوں نے پھینکا۔
اس کا بھی تجزیہ ہونا چاہیے کہ آخر وہ پتھر کیوں پھینکے؟
کس کے رد عمل میں ایسا کیا گیا؟
ایسا کیوں ہوا؟
ضلع انتظامیہ اور مقامی پولس شروعاتی دور میں اچھا کام کررہی تھی، لیکن وہ بھی جلوس میں لگائے جارہے اشتعال انگیز نعروں کو روکنے میں ناکام رہی۔
آج زمانہ سوشل میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا کا ہے۔ دنگے کے واقعات کے ویڈیوز اور فوٹوزسے یہ دیکھنا چاہیے کہ باہر سے کون کون سے لیڈر خاص کر دہلی اور آر ایس ایس کے کاڈر کے ورکرس آئے اور آکر کس طرح کا بھڑکاؤ نعرہ لگائے اور بھیڑ پر پتھرچلائے۔
ویڈیوزاور فوٹوز سے صاف ظاہر ہے کہ اس جلوس میں آر ایس ایس ،ہندو منچ پریشد،اکھل بھارتی ودھیارتی پریشد کے ڈھیر سارے ورکرس شامل تھے جو مسجد کے پاس آکر پتھرائو شروع کردیا۔
پولس پر حملہ آور ہوئے اور پھر دیگر لوگوں نے اپنے بچاؤ میں کارروائی کی اور اس طرح یہ معاملہ پورے طور پر پولس انتظامیہ اور جلوس والوں کا تھا۔
جس کو بعدمیں ہندو۔مسلم رنگ دے دیا گیا۔ وہیں سبھی سیاسی پارٹیوں کے ذمہ دار رہ نما خاموش ہیں سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔
بھارت کی دیگرپارٹیاں جو خود کو سیکولربتاتی ہیں سبھی کے سبھی خاموش ہیں کسی نے مخالفت اور مذمت نہیں کیں۔
اس سے صاف ظاہر ہوچکا ہے کہ سبھی پارٹیوں میں منووادی اور پونجی وادی عناصر شامل ہوکر دیش کے ماحول کو خراب کررہے ہیں۔
آر ایس ایس اور اس کی تنظمیں بھارت کے لیے تو خطرہ ہیں ہی لیکن منووادی اور پونجی وادی عناصربھی آج بھارت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
بتادیں کہ جب سے مرکز میں بی جے پی برسراقتدار میں آئی ہے ۔ مریادا پرشوتم رام کی توہین کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔
مریادہ پرشوتم رام،جن کو امام الہند کہا جاتا ہے اب بھارت کے نہ ہوکر صرف دنگائیوں کے ہوکر رہ گئے ہیں۔’’جے شری رام ‘‘اب صرف دنگا فساد کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔
آج ہمیں رام نومی کے مبارک موقع پر مریادہ پرشوتم بھگوان رام کی دی گئی تعلیم اور نصیحت کو اپنی زندگی میں اپنانا چاہیے نہ کہ سماج میں نفرت پھیلانا چاہیے۔
آج اس موقع پر بھگوان رام کے پیروکار مندروں میں نہ جاکر مسجد کا رخ کیوں کرتے ہیں اور کررہے ہیں؟۔
مسجدوں کی طرف جانے کی کیوں ضرورت پڑرہی ہے؟۔
کھرگون دنگا کے بعد حکومت نے جو اسٹیٹ ٹریبونل(State Tribunal)
بنایا ہے اس سے کس کو فائدہ ہوگا؟
اس کے رُکن(ممبرس) کون لوگ ہیں؟
ان کا integrity/cridential کیا ہے؟
یہ سرکار کے اشارے پر ہرکام کریں گے یا ساری غلطی،الزام مظلوم ،بے سہارا اور غریبوں کے اوپر ڈال دیا جائے گا؟
آنے والے وقت میں یہ بھی واضح ہوجائے گا۔
آج سرکار ملزمان کی غیر قانونی تعمیرات منہدم کرنے کی جو کارروائی کررہی ہے وہ کس قانون کے تحت کررہی ہے؟
اگر وہ مکان جس کو مسمار کیا جارہا ہے غیر قانونی بنے ہیں تو وہ بنے کیسے؟
گزشتہ 18سال سے تو بی جے پی کی ہی سرکار ہے۔
اگر کسی خاندان میں کوئی ایک شخص مجرم ہے تو مکان کو گراکر پورے خاندان کو بے گھر کس قانون کے تحت کیا جارہا ہے؟
اس میں ان کا کیا قصور ہے؟
جو مجرم ہے ان پر کارروائی کرنی چاہئے۔ اور کوئی بھی کارروائی اس وقت کی جانے چاہئے جب ملزم پر الزام ثابت ہوجائے۔
دیکھا یہ جارہا ہے کہ کسی کے خلاف کسی نے شکایت کی اور شکایت کی تحقیق کئے بغیر ان کا مکان توڑ دیا جارہا ہے۔کیونکہ ایسے شخص کا تعلق کسی خاص مذہب اور فرقے سے ہے۔
رام نومی کے موقع پر رام نومی کا جلوس کھرگون کی تالاب چوک سے نکلا اور جب جلوس مسجد کے پاس گزررہی تھی
اسی وقت جلوس میں شامل لوگوں نے مسجد پر پتھرائو کرنا شروع کردیا اس کے بعد محلوں میں پہنچ کر پتھرائو کرنے لگے اس طرح سے وہاں دنگا بھڑک گیا
لیکن جب دنگے کے خلاف کارروائی کی گئی تو گرفتار ہونے والے زیادہ تر مسلم اورباقی غریب غرباء لوگ ہیں۔ جو دنگا کرانے والے ہیں وہ سب باہر آزاد گھوم رہے ہیںاور برسراقتدار ہیں۔
جہاں کہیں بھی ملک میں دنگا ہوتا ہے وہاں ایک مخصوص کمیونٹی اور غریب طبقے کے لوگوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔
اور اسی کو ہر طرح سے ستایا اور بربریت کا شکار بنایا جاتا ہے۔
برسر اقتدار اپارٹی کے وزراء اور لیڈران نے جس طرح کے بیان دیئے ہیں اور دے رہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ دنگا بھڑکانے میں ان کی ملی بھگت ہے اور ایک مخصوص کمیونٹی اور غریب طبقے کو پریشان کیا جارہا ہے اور سماج کو بانٹا جارہا ہے تاکہ آنے والے انتخابات میں اس کا فائدہ مل سکے۔
بی جے پی کی نظرآئندہ 2023کی اسمبلی انتخابات اور اس کے بعد 2024کے عام انتخابات پر ہے
اسی لیے یہ انتخابی میدان تیار کررہے ہیں۔ کیونکہ بی جے پی نے روزگار اورمہنگائی جیسے مدعوں پر کوئی کام ہی نہیں کیا۔ عوام سے ووٹ مانگنے کے لیے ان کے پاس کوئی مدعہ نہیں ہے اس لیے یہ عوام کو آپس میں لڑاکر ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
بھارت کو ایک ایسا ملک بنادیا گیا ہے کہ بھارت واسیوں کو آپس میں لڑائواوربھارت واسیوں کو لڑاکر اقتدار پر بنے رہو۔
بھارت کے جس آئین کا سرکار نے حلف(شپتھ) لیا ہے اسی کا توہین کررہے ہیں۔ ایڈمنسٹریشن کو بھی پارٹی کی وچار دھارا (نظریہ) کے مطابق کام کرنے کے لیے مجبور کررہی ہے۔
جو دیش کو بہت نقصان پہنچا چکا ہے اور پہنچا رہا ہے۔ آج سرکار کو بھارت کے آئین کے مطابق کام کی ضرورت ہے ۔سماج کو بانٹنے اور توڑنے سے بھارت وشو گرو نہیں بننے والا ہے۔
ایک طرف سرکار بھارت کو وشو گرو بنانے کی مہم چلا رہی ہے وہیں دوسری طرح امن وامان کو ختم کررہی ہے۔ ای۔میل :- taha2357ind@gmail.com
Pingback: رام نومی پر تشدد اصل مجرم کون ⋆ اردو دنیا ⋆ از قلم : سید سرفراز احمد، بھینسہ
Pingback: فساد زدگان کی امداد کے لیے قوم کے لوگ آگے آئیں ⋆ اردو دنیا ملک الظفر سہسرامی