سکوں کی جھنکار میں تو نہ ہو مست مگن

Spread the love

سکوں کی جھنکار میں تو نہ ہو مست مگن !

تحریر: جاوید اختر بھارتی

واہ رے انسان تیری خود غرضی کا کیا کہنا، تیرے مکر و فریب کا کیا کہنا، تیرے نمائشی انداز کا کیا کہنا، تیری بے رخی اور بے وفائی کا کیا کہنا اور تیرے سخت لہجے و سنگدلی کا کیا کہنا لگتا ہے تجھے مرنا ہی نہیں ہے چند سکوں کی جھنکار میں اتنا مست مگن ہوگیا کہ رشتہ داروں کا بھی خیال نہیں، پڑوسیوں کا بھی خیال نہیں، سماج کا بھی خیال نہیں

یتیموں اور بیواؤں و مسکینوں کا بھی خیال نہیں تجھے شیخی بگھاڑ نے سے فرصت نہیں، اپنے منہ اپنی تعریف سے فرصت نہیں، خود کو برتر اور دوسروں کو کمتر سمجھنے لگا حج پر حج کرنے لگا، عمرے پر عمرہ کرنے لگا پڑوسی بھوکا سورہا ہے کوئی پرواہ نہیں، بہت سے گھروں کے چولہے میں آگ نہیں جلتی ہے کوئی پرواہ نہیں خود حاجی صاحب کا کار ڈرائیور غریب ہے، فاقہ کشی کے دہانے پر کھڑا ہے، بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ نہیں ہے

پیشانی پر غربت کی لکیریں نظر آتی ہیں، گھر کی چھت ٹپک رہی ہے، گھروبھر کے جسموں پر بوسیدہ کپڑے ہیں کسی سے مدد مانگنے کے لیے زبان نہیں کھلتی ہے، کسی کے سامنے دامن پسارنے کی ہمت نہیں ہوتی ہے کیونکہ ہر غریب ایک جیسا نہیں ہوتا کوئی لاؤڈ اسپیکر سے بھیک مانگتا ہے تو کوئی بے حیا اور بے شرم کچھ لوگوں کو پال کر ان سے بھیک منگواتا ہے یعنی بھیک مانگنے اور منگوانے کا کاروبار کرتا ہے

رب کائنات غارت کرے ایسے منحوس انسان کو جو چھوٹے چھوٹے بچوں کے مستقبل کو تباہ کرتا ہے صبح میں گاڑی سے جگہ جگہ چھوڑتا ہے اور شام کو اٹھاتا ہے بھیک کی رقم کم ہونے پر ان بچوں اور نوجوانوں و بوڑھوں پر ظلم بھی ڈھاتا ہے ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا کہ کل میدان محشر میں رب کے سامنے کیا جواب دیں گے۔

 

 

کچھ انسان بظاہر بڑے بھولے بھالے نظر آتے ہیں مگر ان کی حقیقت وہی جانتے ہیں جو ان کے ماتحت ہوتے ہیں ،،

ایسے ہی ایک صاحب کا واقہ بذریعہ ویڈیو نظر سے گزرا جسے راقم نے تحریری شکل میں ترتیب دینے کی کوشش کی ہے کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں، اختلاف نہیں مگر جو ویڈیو میں دیکھا اس کی جھلک عام طور پر سماج کے دولتمند لوگوں کے اندر اور ان کی اولادوں کے اندر دیکھنے کو ملتی ہے حاجی صاحب بڑے خوش حال ہیں

دولت کی فراوانی ہے، بنگلہ نما مکان ہے، سنگ مرمر لگے ہوئے ہیں، پورے مکان میں چکاچوند روشنی ہے اور بڑی مہنگی کار بھی ہے لیکن اس کار کو چلانے والا انسان یعنی ڈرائیور بہت غریب ہے ، چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں کمانے والا وہ تنہا ہے بیوی بیمار ہے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے علاج کے لیےپیسے نہیں ہیں

ایک دن بیوی کی بیماری اور تکلیف میں اضافہ ہوگیا وہ اٹھنے بیٹھنے سے مجبور ہوگئی ڈاکٹر نے آپریشن کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پورے پیسے کا انتظام کرکے اسپتال آنا کیوں کہ ہم نے اسپتال کمائی کے بنوایا ہے خدمت خلق کے لیے نہیں

ہم نے ڈاکٹری کی تعلیم کمائی کے لئے حاصل کی ہے قوم کی خدمت کے لیے نہیں غریب ڈرائیور رات بھر بیوی کو تسلی دیتا رہا اور خود اپنی آنکھوں سے آنسو بہاتا رہا کبھی اپنی بیوی کا چہرہ دیکھتا تو کبھی بچوں کے چہروں کی اداسی کو دیکھتا صبح ہوتی ہے حسب دستور حاجی صاحب کے گھر پہنچتا ہے گاڑی صاف کرتا ہے پھر حاجی صاحب کی آفس میں جاتا ہے کیا دیکھتا ہے کہ حاجی صاحب خربوزے کو شہد سے لگاکر کھارہے ہیں جیسے ہی غریب ڈرائیور پر نظر پڑتی ہے تو گھمنڈ بھرے انداز میں پوچھتے ہیں کہ گاڑی کو صاف کیا کہ نہیں،،۔

غریب ڈرائیور بولتا ہے جی حاجی صاحب صاف کردیا ہے اتنے میں ٹرے میں سجاکر نمکین اور چائے حاجی صاحب کے لئے آگئی اب حاجی صاحب خربوز بھی شہد سے لگاکر کھا رہے ہیں اور نمکین کھاکر چائے بھی پی رہے ہیں مگر ایک بار بھی ڈرائیور سے کھانے پینے کے لیے نہیں کہا اور حاجی صاحب کی کرسی و میز کے نیچے ڈرائور بیچارہ اپنے اندر ہمت پیدا کررہا ہے کہ آج حاجی صاحب سے کچھ کہوں گا

آخر کار کانپتے ہوئے ہونٹوں سے کہا کہ حاجی صاحب مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے میری بیوی بہت بیمار ہے اس کا آپریشن کرانا بہت ضروری ہے حاجی صاحب نے نظریں اٹھا کر دیکھا اور کہا کہ تجھے پیسے کی ضرورت پڑ گئی،،

اور کہا کہ اچھا چل لے لینا شام کو ڈرائیور اپنے گھر پہنچتا ہے تو دیکھتا کہ بیوی بستر پر پڑی ہے شدت بیماری سے تڑپ رہی ہے بیوی کے پاس جاکر کہتا ہے کہ حاجی صاحب پیسہ دینے کے لئے بولے ہیں جیسے ہی پیسہ دیں گے میں تمہارا آپریشن کرادوں گا کچھ دنوں بعد بیوی کہتی ہے کہ حاجی صاحب سے پیسے کے لیے بولئے اب تکلیف برداشت نہیں ہوتی غریب شوہر بولتا ہے

حاجی صاحب بڑے لوگ ہیں بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی آخر بیوی کے کہنے پر ڈرائیور حسب معمول حاجی صاحب کے گھر جاتا ہے تو آج حاجی صاحب نئے نئے لباس میں ملبوس ہیں ایکدم برق دم ہیں اتنے میں ایک شخص سوٹ بوٹ جماکر آتا ہے

حاجی صاحب کو سلام کرتا ہے اور گلے ملتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ حاجی صاحب آپ کو تیرہویں حج کے سفر کی مبارکباد ادھر حاجی صاحب کہتے ہیں کہ رات میں بہت بڑی دعوت کا اہتمام تھا آپ کہیں نظر نہیں آئے،، ڈرائیور کے پیروں تلے زمین کھسک گئی کہ حاجی صاحب حج کے لیےجارہے ہیں میری بیوی کا کیا ہوگا آخر غریب ڈرائیور نے زبان کھول ہی دی کہ حاجی صاحب پیسہ دے دیجئیے تاکہ میری بیوی کا آپریشن ہوجائے حاجی صاحب نے کہا کہ ابے ذرا دیکھ میں حج بیت اللہ کے لیےجارہا ہوں اس کے لیےکافی پیسہ خرچ ہوا ہے اور ابھی رات میں دعوت کا اہتمام تھا اس میں بھی زبردست پیسہ خرچ ہوا ہے

اب حج سے واپسی پر ہی تجھے پیسہ دوں گا اتنا سنتے ہی ڈرائیور کے ارمانوں کا خون ہوگیا اس کی نظروں کے سامنے اندھیرا چھاگیا بہر حال حاجی صاحب کو ایرپورٹ چھوڑنے گیا اور جب واپس گھر پہنچتا ہے تو دیکھتا ہے کہ بیوی کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی بیوی کا انتقال ہوگیا آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں،، کبھی اپنی قسمت کو کوستا ہے تو کبھی بچوں کے کاندھوں کو پکڑ کر روتا ہے تو کبھی بیوی کا چہرہ دیکھتا ہے

پھر سینے پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے کہ میری دنیا اجڑ گئی میرے بچوں کا مستقبل تاریک ہوگیا حاجی صاحب آپ نے پیسہ نہیں دیا، میری بیوی کا علاج اور آپریشن نہیں ہوسکا

حاجی صاحب آپ نے تو انسانیت کا بھی فرض نہیں نبھایا اور میں آپ کا ڈرائیور لیکن پھر بھی آپ نے میرا خیال نہیں کیا آپ حج کے لیےگئے ادھر میری بیوی مالک حقیقی کے پاس گئی ڈرائیور پھر ایک بار چیخ مارتے ہوئے کہتا ہے کہ حاجی صاحب میں نہیں جانتا کہ آپ کا حج قبول ہوگا کہ نہیں

لیکن میں اتنا تو جانتا ہوں کہ کوئی حاجی ہوسکتا ہے، نمازی ہوسکتا ہے، بظاہر عابد و زاہد ہوسکتا ہے، عالم و فاضل ہوسکتا ہے، مفکر، مقرر، محدث، مناظر ہوسکتا ہے مگر اس کے سامنے کوئی اللہ کا بندہ سخت بیماری اور تکلیف میں مبتلا رہے کراہتا رہے مگر اس پر رحم نہ آئے اور دل میں اس کی تکلیف کا احساس نہ ہو تو وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی مومن نہیں، مومن نہیں، مومن نہیں۔

جاوید اختر بھارتی

( سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین)

محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *