سبھی رہ نما ایک جیسے نہیں

Spread the love

سبھی رہ نما ایک جیسے نہیں :: از : آئی، اے، قادری، برکاتی کریم گنج، پورن پور، پیلی بھیت

بڑھتی منہگائی کے اس دور میں کوئی کسی کا پریشان نہیں، سب اپنے اپنے میں لگے ہوئے ہیں، کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں، خود غرضی کا عالم یہ ہے کہ دوسروں کی مدد کے نام پر آدمی بات سننے کو تیار نہیں، اسی خود غرضی نے ملک کے ایثار و ہم دردی کے جذبات کو ختم کر رکھا ہے

شاید اس قوم کو نہیں معلوم کہ خود غرضی کی یہ بیماری ایثار و ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات کو دل سے بالکل محو کردیتی ہے، اور دوسروں کے دکھ درد سے بے خبر کرکے رکھ دیتی ہے، صرف لاتعلقی کو فروغ دیتی ہے، بہ ایں سبب سماج میں امتیازی صورتحال حال ترقی کرتی ہے، مثلاً سماج کاایک حصہ شاہانہ زندگی گزارتا ہے اور دوسرا حصہ غربت کی چکی میں پستا ہے۔

 

ایک حصہ عالی شان عمارت میں نرم و گداز بستر پر ٹھنڈی ٹھنڈی نید لیتا ہے اور دوسرا فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر جیسے تیسے اپنی زندگی کی گاڑی کھینچتا ہے- اسی امتیاز کو ختم کرنے اور معاشرے کو ایک رنگی بنانے کے لیے الله رب العزت نے مسلمانوں کو رشتہ اخوت میں جوڑ دیا-

آیات اور احادیث مبارکہ میں اس سلسلے میں ہدایات کی گئی ہیں- صحابہ کرام کی حیات طیبات ہمیں اس بات کا درس دیتی ہیں کہ معاشرے میں زندگی کیسے گزاری جائے- ان حضراتِ طیبات کی زندگی کی سب سے عظیم الشان مثال وہ مواخات ہے جو حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ہجرت کے بعد ان کے درمیان قائم فرمائی ہے، دنیا اس ہمدردی کی اس سے بہتر مثال کبھی نہ پیش کر سکے گی

معاشرتی زندگی کا اس دینی رشتہ اخوت کو دلی طور پر محسوس کرنے کے سبب تعمیر و ترقی کے میدان میں ان کے درمیان امتیازات کی دیوار حائل نہ ہوسکی اور انہوں نے دنیا کے سامنے اسلامی سماج کی اصل تصویر پیش کر کے اسلام کا بہترین تعارف کرایا

جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برسوں سے تعصب، حسد جلن، بغض و کینہ، قتل و فساد کے تاریک زدہ ماحول میں زندگی بسر کرنے والے قبائل اسلامی طرزِ حیات سے متاثر ہو کر جوق در جوق داخل اسلام ہوئے، لیکن آج مسلمان بڑا خود غرض ہوگیا ہے، صرف اپنی دنیا آباد کرنے میں مگن نظر آتا ہے، دوسروں کی خیر و خواہی کی بات سن کر ان سنی کر دیتا ہے بلکہ بسا اوقات بھڑک بھی اٹھتا ہے۔

بڑے فخریہ انداز میں بہت سارے لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ اپنا کام بنتا بھاڑ میں جائے جنتا، ہر ادنی و اعلیٰ بلکہ دینی حلقہ بھی اس مہلک وبا کی زد میں آچکا ہے، ہر شخص جانتا ہے کہ قوم اپنے رہنما سے بڑی والہانہ عقیدت رکھتی ہے ان کے لئے جان تک کی قربانی دینا اپنے لیے خوش بختی سمجھتی ہے

ان کے رخ زیبا کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ترستی ہے لیکن رہ نما صاحب اپنی غریب جانثاروں کا کتنا خیال رکھتے ہیں یہ بھی کسی پر مخفی نہیں۔

موقع دیکھ کر قدم بڑھاتے ہیں، نذرانوں کی کثرت کو مدنظر رکھ کر دعوت قبول کرتے ہیں، دینی ضرورت پر اپنی ضرورت کو مقدم رکھتے ہیں 

کسی دیہی علاقے میں خدمت دین کی بات آجاتی ہے تو یہ جملے دہراتے ہیں کہ اتنا دور کیسے جائیں آنے جانے کے لیے کوئی سہولت نہیں، ویسے بھی ایسے علاقوں میں رہنے سہنے کے لیے معقول انتظام نہیں ہوتا

کیا یہ جملے اس بات کے شاہد نہیں کہ رہنما حضرات فطری تقاضوں کو دینی تقاضوں سے زیادہ اہمیت دے رہیں- یہ مانا کہ سبھی ایسے نہیں لیکن حالات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ ہندوستان کے طول و عرض میں اکثریت ایسے رہنماؤں کی ہے-

افتخار احمد قادری ، برکاتی

کریم گنج، پورن پور، پیلی بھیت

 

17 thoughts on “سبھی رہ نما ایک جیسے نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *