خواجہ غریب نواز اور خدمت خلق و انسانیت

Spread the love

حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور خدمت خلق و انسانیت

دین اسلام نے انسانوں کو باہمی ہمدردی اور خدمت گزاری کا درس دیا ہے۔ قرآن مقدس اور احادیث نبویہ میں متعدد جگہوں پر اہل ایمان کو خدمت خلق کی ترغیب دی گئی ہے۔ انسانیت اور مخلوق خدا کی خدمت صرف مالی اعانت پر موقوف و منحصر نہیں ہے ، بلکہ اس کے متعدد طریقے ہوسکتے ہیں۔

مثال کے طور پر: غریبوں سے محبت، بیواؤں،محتاجوں اورمساکین کی مدد، بیماروں، اورمعذوروں کی خبر گیری، مظلوموں کی فریادرسی،یتیموں اور لاوارثوں کی کفالت ،مقروض کے ساتھ مالی تعاون، دکھیارے انسانوں کے دکھ درد کو بانٹنا، مفید مشورے دینا ، تعلیمی اوررفاہی ادارے قائم کرنا، مفت شفا خانے بنوانا ،کنواں تالاب کھود دینا ،یا نل وغیرہ بنوادینا، بھوکوں کو کھانا کھلا نا ، غم کے ماروں کو حوصلہ دینا،پسماندہ لوگوں کا سہارا بننا وغیرہ خدمت خلق و انسانیت کے چند طریقے ہیں۔

یہ ایسے کام ہیں جنہیں دنیا کے سارے مذاہب و ادیان تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن مذہب اسلام نے تو اس کو ایک عظیم عبادت اوراللہ رب العالمین کی قرب و رضا کے حصول کا ذریعہ قرار دے دیا ہے۔

اسلام کے سچے پیروکاروں اور صوفیائے عظام نےان مقدس تعلیمات کوحرز جاں بنالیا تھا ، بالخصوص اس تعلق سے حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کا مطالعہ کریں توپتہ چلتا ہے کہ آپ کی زندگی اسلام کی ان روشن تعلیمات کے عین مطابق تھی۔

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بلا تفریق مذہب و ملت ، ہر ایک کی خبر گیری کی ، اور نہ صرف خود اس کا عملی نمونہ بننے بلکہ اس کا ایک مستقل سلسلہ قائم فرمادیا جس کی کرنیں ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی اور پورے ملک میں امن و شانتی ، محبت ویقین، نیز خدمت خلق ،خداپرستی اور اپنے مالک سے براہ راست ربط و تعلق کی خوب صورت فضا قائم ہوگئی۔

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نےخود فقیری اختیار کی اور لوگوں کو بھی سادگی کا درس دیا،ا پنی خانقاہ میں لنگر کا انتظام کیا جس میں ہروز ہزاروں بھوکوں کو کھانا کھلاتے ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس قدر غریب پروری کی کہ آپ کا لقب ہی غریب نواز مشہور ہوگیا ۔

حاجت مندوں کی حاجت روائی کے لیے آپ کا دربارہمیشہ کھلا رہتا تھا تھا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خود فرماتے ہیں: “عاجزوں کی فریاد رسی، حاجت مندوں کی حاجت روائی،اور بھوکوں کو کھانا کھلانا اس سے بڑھ کر کوئی نیک کام نہیں ۔

آپ کے ملفوظات شریف میں آپ کایہ قول ملتا ہے: جس میں یہ تین خصلتیں ہو وہ اس حقیقت کو جان لے کہ خداے تعالیٰ اس کو دوست رکھتا ہے

(۱) سخاوت دریا کی طرح

(۲)شفقت آسمان کی طرح

(۳)خاک ساری زمین کی طرح” ۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں : ” جس کسی نے نعمت پائی، وہ سخاوت سے پائی، اور جو تقدم حاصل کرتا ہے صفائے باطن سے حاصل کرتا ہے۔”

صوفیاےکرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا ماننا ہے کہ اللہ عزوجل رحمان و رحیم ہے، لہذااس کی مخلوق کو بھی اس کی صفت رحمت کامظہر ہونا چاہیے اور اس کی مخلوق کے ساتھ رحم دلی کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔ اللہ اپنے بندوں کی مد د فرماتا ہے ، ان پر احسان فرما تا ہے لہذا اس کے بندوں کو بھی مخلوق خداکی مدد د کرنی چاہیے اور ضرورت مندوں پر احسان کرنا چاہیے۔اولیائے عظام رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک اللہ عزوجل کی قرب ورضاحاصل کرنے کا بہترین ذریعہ اس کے بندوں کی خدمت ہے۔

اللہ اپنے بندوں سے بے حد محبت فرماتا ہے اور ایسے بندوں کو اپنے قرب و رضا سے سرفراز فرما دیتا ہے جو اس کے بندوں کو خوش رکھتا ہے اور ان کے کام آتا ہے ۔ صوفیائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اسی خدمت خلق کے ذریعے دنیا والوں کا دل جیتا اور ان کے انہیں اعلیٰ اخلاق سے اکناف عالم میں مذہب اسلام کی ترویج و اشاعت ہوئی۔

حضرت خواجہ غریب نواز کی زندگی، آپ کی تعلیمات اور آپ کےکردار و عمل میں یہ اوصاف و فضائل اعلی درجہ میں موجود تھیں ، آپ کے صحبت یافت گان نے بھی ان باتوں کو دل و جان سے یاد رکھا ۔آپ کے خلفاء اور مریدین نے ملک بھر میں خانقاہ قائم کیں، عوام الناس کی خدمت کی، آپ کی تعلیمات پر عامل رہے، آپ کے مشن کو آگے بڑھایا اور آج بھی آپ کے فیض یافتگان کی بارگاہوں سے حاجت مندوں کی حاجت روائی ہو رہی ہے جو آپ کی تعلیمات کی یاد دلاتی ہے۔

خدمت خلق ایک ایسا مقبول عمل ہے جسے اللہ عزوجل پسند فرماتا ہے اور اس سے انسان لوگوں کے دلوں میں بھی محترم ہو جاتا ہے ۔ اسی خدمت خلق نے حضرت خواجہ غریب نواز کو مخلوق کے درمیان ایسی مقبولیت بخشی کہ ہندوستان کے ہندوو مسلمان سبھی آپ سے عقیدت رکھتے تھے اور یہ عقیدت آج بھی برقرار ہے ، بلکہ ہندوستان کے اصل شہنشاہ آپ ہی ہیں؛ کیوں کہ آپ فقیر ہوتے ہوئے بھی دلوں پر راج فرما رہے ہیں ۔

امیر ہویا غریب، حکمراں ہو یا رعایا ، سبھی آپ کے عقیدت مند ہیں، سبھی کشاں کشاں آپ کے روضہ سے فیض حاصل کرنے کے لیے حاضری دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ آپ کی بے لوث غریب پر وری ہی کے جلوے ہیں کہ بعد وصال بھی ہزاروں ہزار عقیدت مند فیض یاب ہو رہے ہیں۔

سال بسال بزرگان دین کے اعراس منانے کا مقصد یہ ہوتاہے کہ ہم ان کی سیرت کو پڑھیں ، ان کی تعلیمات کو اپنائیں، ہم بھی اپنے اندر خدمت خلق جیسی خصلت پیدا کریں اورزندگی میں ایسے کام کر جائیں جن سے مخلوق خدا کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے،مثلا بھوکوں کے لیے لنگر کا انتظام کردیں، رفاہی ادارے قائم کریں ،مفت شفا خانے بنائیں ، غریب بچوں کے لیے مفت اعلیٰ تعلیم کا انتظام کردیں وغیرہ۔ ایسے کام کرنے والوں سے مخلوق خدا محبت بھی کرتی ہے، اور ان کے لیےدعائیں بھی کرتی ہے۔

اور یہ کام ان کے حق میں صدقہ جاریہ بن جاتے ہیں جو بعد وصال بھی ان کے نامہ اعمال میں نیکیوں کے اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ اللہ عزوجل ہمیں بھی ان اعلیٰ خلاق سے آراستہ فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسین صلی اللہ علیہ و الہ سلم!

ہاشمی رضا مصباحی

نزیل حال: فیجی آئیلینڈز، ساؤتھ پیسیفک۔

ای میل: hr.hashmi117@gmail.com

4 thoughts on “خواجہ غریب نواز اور خدمت خلق و انسانیت

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *