تنویر القرآن میں عشق رسول کی گل کاریاں ایک مطالعہ

Spread the love

تنویر القرآن میں عشق رسول کی گل کاریاں ایک مطالعہ

از : مفتی محمد ایوب مصباحی

ترجمہ نگاری خود مشکل ترین فن ہے کہ اس میں عبارت کے سیاق سباق کو سمجھنا، عبارت کا باہمی ربط وضبط پیش نظر رکھنا، عبارت کی روح سے آگاہ ہونا حد درجہ ناگزیر ہے۔ پھر الفاظ کا ذخیرہ بھی وافر مقدار میں فراہم ہو۔ اور قرآن پاک کا ترجمہ کرنا انتہائی دشوار کہ اس کا بامحاورہ اور موزوں وسلیس ترجمہ کرنے کے لیے قطعی طور پر ١٥/علوم وفنون پر کامل دسترس درکار ہے۔ جیساکہ “زبدۃ الاتقان فی علوم القرآن مترجم ص: ٣٥٨/ فرید بک اسٹال لاہور” میں ہے: “اسے لغت، نحو، صرف، اشتقاق، معانی، بیان، بدیع، قراءت، عقائد، ناسخ و منسوخ، اصول فقہ،اسباب نزول وقصص، فقہ، حدیث۔ ان چودہ علوم متداولہ میں ید طولی ہونا چاہیے۔ اور پندرہواں علم وہبی یا لدنی بھی اسے مفوض ہو۔ (ملخصا) تب کہیں جاکر ترجمہ قرآن کی سعادت سے سرفراز ہواجاسکتاہے۔

پھر نظم نگاری کس قدر سنگلاخ وادی سے گزرنے کا نام ہے! کہ اس میں مذکورہ تمام چیزوں کے رعایت کے باوجود قافیہ اور ردیف کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ ان سب میں بھی اشکل واصعب واشد قرآن کا منظوم ترجمہ کرنا ہے۔ اس میں بیک وقت شاعر رعایت قافیہ وردیف، افہام وتفہیم مراد، ترجمہ بمقتضاے عبارت، الفاظ کا زیر وبم، احتراز تنقیص الوہیت ورسالت، تطبیق معانی بآیات قرآنی، تسہیل وتشکیل ترجمہ وغیرہ جیسے مسائل سے دوچار ہوتاہے۔

مولانا کیف الحسن قادری مارہروی قابل مدح و ستائش ہیں کہ انھوں نے قرآن مع کنز الایمان اور معتبر تفاسیر کا منظوم ترجمہ وتفسیر کا حسین گلدستہ قوم کو پیش کیا یہ کوئی آسان کام نہیں، بلکہ “ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے” کی مثل ہے۔ اللہ تعالی قبول عام وخاص فرماۓ! آج ہماری مطالعاتی میز پر “تنویر القرآن منظوم ترجمہ وتفسیر” ہے جس میں بے شمار مقامات پر عشق رسالت کی گلکاریاں منتثر ہیں۔ جنھیں یک جا کرنے کی حتی المقدور ہم کوشش کریں گے۔ قارئین آپ بھی پڑھیں اور فرحت وانبساط کے دامن میں سما جائیں۔ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ محبوب کا نام ادب سے لیا جائے اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی کو اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت ہے۔ اور ہر جگہ اس نے آپ کا نام ادب سے پکارا ہے۔مثلا اللہ تعالی نے کہیں آپ کو “یایھا المزمل” کہا۔

تو کہیں “یایھا المدثر” کہیں “طٰہٰ” کے لقب سے تو کہیں یٰسین وغیرہ کے لقب سے یاد فرمایا۔ اور جب بھی آپ کو یاد کیا تو خطاب عزت سے سرفراز کیا۔ اس میں اس پر بھی دلیل ہے کہ محبوب کو ہمیشہ ادب و تہذیب کے دائرے میں خطاب کیا جاۓ اور یہ بھی کہ ادب سے نام لینا محبت کی علامت اور نشان ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت و الفت ہے مزید برآں اگر محبوب پر کسی قسم کا ظلم و ستم ہو تو محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا دفاع کیا جائے اور محبوب کی تسکین خاطر کی جاۓ ۔ جیسا کہ “تنویر القرآن” میں مولانا کیف الحسن قادری نے بڑے اچھے اسلوب میں اس کو بیان کیا۔ لکھتے ہیں:ع اے رسول مجتبی! تم کو نہ وہ غمگیں کریں، کفر کی جانب ہے بڑھتے رہنے سے مطلب جنھیں جس گھڑی محبوب کو خالق نے فرمائی ندا تو خطاب عزت اس کے واسطے مختص کیا آپ کی تسکین خاطر کو کہا: ہاں،اے حبیب! آپ کا ناصر ہوں، رحمت آپ سے میری قریب کفر میں جلدی اگر کرتے ہیں اصحاب نفاق کام ہے پھیلانا جن کا، انتشار و افتراق آپ ان کے کفر کے اطوار سے غمگیں نہ ہوں

کافروں کے ساتھ ان کے پیار سے غمگیں نہ ہوں

( تفسیر النسفی، الجزء الاول، ص: ٤٤٦)

(تنویر القرآن، منظوم ترجمہ وتفسیر ، ج:٢، ص: ٢٩٥)

جس کا حامی ہو خدا اس کو مٹا سکتا ہے کون؟ عشق و محبت کا تقاضا یہ ہے کہ محب اپنا سب کچھ اپنے محبوب پر قربان کردے، اور ہر قسم کے شر و فساد سے بچا کر اس کی حفاظت کرے، اسے پورا پروٹیکشن مہیا کرے، اس کے لیے تمام تر حفاظتی اقدامات اور تدابیر اختیار کرے۔ایسا ہی پروردگار عالم نے کیا کہ اپنے محبوب سرور دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو سیکیورٹی عطا کی۔ در اصل منصوبے اور عزائم جس قدر اہم اور بڑے ہوتے ہیں اس کے دشمن بھی اسی معیار کے ہوتے ہیں۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت وارشاد حق اور تبلیغ دین متین کے مشن کے ساتھ مبعوث کیا گیاجو نہایت اہم ہے۔

تو دشمن بھی ابلیس لعین ہوا جس نے آپ کے مشن کو روکنے کی حتی الامکان کوشش کی۔ اور پھر یہود بے بہبود کی دشمنی بھی سب سے بڑھ کر تھی۔

“لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین آمنوا الیہود” جس پر ناطق وشاہدہے ۔ انھوں نے بھی آپ پر مظالم کے پہاڑ ڈھانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی، کبھی ندوہ میں آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا، کبھی طائف کی سنگلاخ وادی میں آپ کی نعلین مبارک کفار و مشرکین کی سنگ باری کے باعث خون سے لبریز ہوۓ۔ تو اللہ تعالی نے اس کے جواب میں کفار ناہنجار کے ظلم و ستم سے آپ کی حفاظت وصیانت اپنے ذمہ کرم پر لی۔

اور ارشاد فرمایا: “یایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فمابلغت رسالتک واللہ یعصمک من الناس ان اللہ لایھدی القوم الکفرین۔ (مائدہ، آیت:٦٧) ترجمہ: اے رسول! پہنچادو جو کچھ اترا تمھیں تمھارے رب کی طرف سے اور ایسا نہ ہو تو تم نے اس کا کوئی پیام نہ پہنچایا اور اللہ تمھاری نگہبانی کرے گا لوگوں سے بے شک اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا۔ (کنز الایمان)

قارئین! اللہ تعالی کا اپنے محبوب سے محبت کا یہ انداز کہ آپ کو ہر طرح کی حفاظت عطا کیترجمہ میں آپ نے جسے ملاحظہ کیا_ تعجب خیز اور دل چسپ ہے۔ اب مولانا کیف الحسن قادری نے اپنے منظوم ترجمہ وتفسیر ” تنویر القرآن “میں جس گوناگوں تفسیری رنگ سے اس کو ہم آہنگ کیا ہے اور جس قدر جاں فشانی اور عرق ریزی سے اس میں عشق رسالت کی گل کاری کی ہے وہ کافی حیرت انگیز اور قابل دید ہے ۔ قارئین! آپ بھی اسے ملاحظہ فرمائیں، اور اپنے ایمان کو جلا بخشیں۔ فرماتے ہیں: ع پیش فرمادو من وعن اے امام الانبیا! اور تمھارے دل میں پیدا ہو نہ اندیشہ ذرا اور بچاۓ گا تمھیں کفار سے رب علا جو ارادہ رکھتے ہیں یکسر تمھارے قتل کا (تفسیر الماوردی، الجزء الثانی، ص: ٥٣)

(تنویر القرآن منظوم ترجمہ وتفسیر،ج: ٢،ص:٣١٦)

سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردان عرب یہ انداز بھی کتنا نرالا ہے کہ صحابہ کرام آقاے کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خاطر راتوں رات پہرہ دیتے تھے اور کبھی آپ پر کوئی آنچ نہیں آنے دی بلکہ ہمارا ایمان تو یہ ہے کہ ہر کوئی آپ کا خواستگار اپنی زبان حال سے یہی کہتا ہوگا!

ع کروں تیرے نام پہ جان فدا نہ ایک جاں دو جہاں فدا نہیں دو جہاں سے بھی جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں ہر کوئی پروانہ نثار اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہے بلکہ آپ کے اندر ہی اس قدر کشش اور جاذب تھ! !!کہ جو دیکھتا وہ آپ کا شیدائی ہوجاتا۔ جیسا کہ اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے فرمایا: ع

حسن یوسف پہ کٹی مصر میں انگشت زناں

سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردان عرب

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین ابتداے اسلام میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے، راتوں میں پہرہ دیتے۔ یہ صحابۂ کرام کی اپنے آقا سے غایت درجہ محبت ہے۔ پھر اللہ تعالی نے جب آپ کی حفاظت کا ذمہ لے لیا تو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام پہرہ داروں کو چھٹی دے دی۔ مولانا کیف الحسن قادری صاحب نے اپنے منظوم ترجمہ و تفسیر “تنویر القرآن ” میں اس کی تصویر کشی اور نظم نگاری میں خوب گل کاریاں کیں، فرماتے: ع آپ کا پہرہ دیا جاتا تھا دوران سفر جاگتے تھے آپ کی خاطر صحابہ رات بھر جب خدا نے آپ پر نازل اس آیت کو کیا تو شہ کون و مکاں نے ختم پہرہ کردیا پہرہ داروں سے کہاں حاجت تمھاری اب نہیں ہے نگہباں میرا ہر صورت الہ العالمیں

(سنن الترمذی، ج:٤، ص:١١٢، المستدرک للحاکم، ج: ٤، ص: ١٦٢)

(تنویر القرآن منظوم ترجمہ وتفسیر، ج:٢، ص:٣١٦)

نبی سے عداوت اور دشمنی روزی گھٹنے کا ایک سبب! نبی سے بغض و عداوت سے روزی گھٹ جاتی ہے۔ جیسا کہ ابھی آپ ملاحظہ کریں گے۔ واضح رہے ہمارا عنوان دراصل یہ ہے کہ “تنویر القرآن میں عشق رسالت کی گل کاریاں” لیکن ہم یہاں اس کی جانب مخالف کو بھی بیان کررہے ہیں اس لیے کہ ضابطہ ہے “تعرف الاشیاء باضدادھا” یعنی چیزیں اپنی ضدوں سے پہچانی جاتی ہیں۔ تو اس مخالف سمت کے بیان سے عشق رسالت کا گوشہ نہایت نمایاں اور واضح ہو جاۓ گا۔ نبی سے دشمنی رکھنے سے روزی گھٹادی جاتی ہے یہ بھی اللہ کی اپنے محبوب سے کمال محبت کی علامت ہے۔ کہ پروردگار عالم کو یہ برداشت نہیں کہ کوئی اس کے محبوب سے کدورت رکھے، آپ سے عداوت اور بغض رکھے اور اللہ تعالی اسے خوش خرم دیکھے۔ لہذا دشمنی رکھنے کے باعث اللہ تعالی اس کی روزی کم کردیتاہے تاکہ وہ اس حرکت سے باز آجاۓ۔ روزی کے گھٹنے کے اسباب کیا ہیں ؟ اور ان کا تدارک کیاہے؟ قارئین! اگر اس پر سیر حاصل بحث چاہیں تو ہماری تحریر : “روزگار کی عدم فراہمی اسباب و تدارک کے چند اصول ” کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔

یہ “سہ ماہی پیغام شریعت دہلی اکتوبر، نومبر، دسمبر ٢٠٢٠ء” بنام “فلاح و نجات نمبر” میں طبع ہوچکاہے۔ علاوہ ازیں گوگل ویب سائٹ :” ہماری آواز ” وغیرہ پر بھی وزٹ کیا جاسکتاہے۔ مزید بر آں ہماری کتاب “رزق کی تنگی: اسباب وحل” میں بھی عنقریب پڑھ سکیں گے جو ابھی تشنہ طباعت ہے۔ منجملہ رزق کی تنگی کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہے کہ پیغمبر سے بغض و عداوت رکھنے سے بھی رزق میں تنگی آجاتی ہے جس کا مفہوم مخالف یہ ہوتاہے کہ نبی سے محبت و عشق تضعیف رزق میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔ اسی کو مولانا کیف الحسن صاحب قادری نے اپنی تصنیف لطیف وعجیب “تنویر القرآن منظوم ترجمہ وتفسیر ” میں بیان کیا۔ اور اس ترجمہ میں خوب عشق رسالت کی جلوہ سامانیوں سے مخطوطے کو آراستہ کیا اس میں خوب عشق نبوی گے گلشن کے پھول کھلاۓ ۔ فرماتے ہیں: “تفسیر :آیت :٦٤ دشمنان مصطفی کی روزیاں کم ہوگئیں: اور یہودی بولے بستہ ہاتھ ہے اللہ کا یعنی آمادہ بخالت پر ہے خلاق علا اس جگہ مذکور ہے یہ قول بن عباس کا آل اسرائیل کا طبقہ بہت خوش حال تھا جب انھوں نے کی شہ کون و مکاں سے دشمنی تو یکایک ان کی روزی کم سے کمتر ہوگئی۔

(تنویر القرآن منظوم ترجمہ وتفسیر، ج:٢، ص: ٢١٤)

 

آذان کی توہین کرنے والا نذر آتش! “سدی ” کا بیان ہے: جب آذان ہوتی تو ایک نصرانی شہادتین کے وقت کہتا:”جھوٹا ہلاک ہوجاۓ”۔ اور اس طرح جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کرتا۔ایک روز اس کا خادم آگ لایا، اچانک ایک شرارہ اس آگ سے اڑا اور نصرانی کو چشم زدن میں جلاکر خاکستر کردیا ، اس کے اہل وعیال اور املاک سب نذر آتش ہوگیا۔ قارئین محترم ! اس واقعہ سے عیاں ہوتاہے کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جانب سے ہر حربہ کا جواب پروردگار دیتاہے اور یہ محبت رسول کی پہچان ہے۔ علامہ کیف الحسن قادری نے ان الفاظ کو موتیوں کی لڑی میں پرو کر غایت خوش اسلوبی سے بیان کیا اور اپنے منظوم ترجمے میں عشق رسالت کی خوب گل کاریاں کیں۔ فرماتے ہیں:ع ایک گستاخ اذاں کا ہوگیا گھر بھر تباہ سدی کا فرمان ہےدیتامؤذن جب اذاں اور الفاظ شہادت جیسے ہی کرتا ادا تو کہا کرتاایک نصرانی ان الفاظ پر ہاں حوالے آگ کے ہوجاۓ جھوٹا سر بسر! اتفاقا آگ لایا اس کا خادم ایک رات دیکھیے حق کا کرشمہ دیکھیے قدرت کی بات وہ اور اس کے اہل خانہ سو رہے تھے بھاگ سے بس اڑا چشم زدن میں ایک شرارہ آگ سے اس کی زد میں آ کے نصرانی سراسر جل گیا جل گئے سب اہل خانہ اس کے اور گھر جل گیا (تفسیر الطبری، الجزء الثامن، ص:٥٣٦)

(تنویر القرآن منظوم ترجمہ وتفسیر، ج: ٢، ص: ٣١٠)

محبوب خدا فیصلے کے باب میں مختار عشق مجازی اور محبت تک کا تو حال یہ ہے کہ محب اپنے محبوب کو اپنی ہر چیز کا مالک بنادیتا ہے، ہر قسم کی باہمی رضامندی وخوشنودی جانبین سے ہوتی ہے اور اس کا ہر کام محبوب و مرغوب تصور کیا جاتاہے پھر اس میں ایک دوسرے سے کوئی حساب بھی نہیں لیتا۔ لیکن ذرا سوچو تو سہی! اگر بات رب کی اپنے محبوب سے حقیقی محبت کی ہو تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ اس محبت کا عالم کیا ہوگا! ازہار العرب میں ایک شعر کمال کا نظر سے گزرا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی اسم گرامی “محمود” باب سمع سے اسم مفعول کا صیغہ ہے جس کا معنی ہے تعریف کیا ہوا پھر اسی پر کچھ حرف کا اضافہ کرکے باب تفعیل سے اسم مفعول اسی مادے سے “محمد” اپنے محبوب کا نام رکھا ۔ چوں کہ ضابطے کی رو سے حروف کی کثرت معانی کی کثرت پر دلالت کرتی ہے تو محمد کا معنی ہوا خوب خوب سراہا ہو؛ رب ذوالجلال نے یہ سب اس لیے کیا تاکہ اس کے محبوب کی خوب تعظیم و توقیر ہو۔ شاعر نےکہا:

ع وشق لہ من اسمہ لیجلہ ۔ فذوالعرش محمود وہذامحمد قارئین! ذرا غور کریں آپ حیرت و استعجاب کے سمندر میں غوطہ زنی کرتے نظر آئیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کا نام تک اپنے نام پر رکھ ڈالا اب اگر لفظ محمود اور محمد کے حروف اصلیہ کو دیکھا جاۓ تو دونوں میں صرف “ح”، “م”، اور “د” ہی ہیں۔ جن سے یہ بو آتی ہے کہ نظام کائنات میں بھی یہ اتحاد رکھا گیا کہ اللہ تعالی اپنے محبوب کی رضامندی کہ سوا کچھ نہیں کرتا نہ محبوب کائنات ہی رب کی مرضی کے خلاف کچھ کر سکتے ہیں۔ اور اللہ جو بھی کرتا ہے اس کا اختیار کل اپنے محبوب کو عطا کردیا ہے۔

اعلی حضرت تبھی یوں گویا ہوۓ: ع میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب یعنی محبوب ومحب میں نہیں میرا تیرا

اسی طرح اللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس کا بھی اختیار عطا کردیا ہے کہ اگر کوئی شخص آپ سے فیصلہ کرانے آۓ تو آپ فیصلہ کرنے نہ کرنے میں مختار کل ہیں۔ سبحان اللہ! کیا شان ہے مصطفی کی! یہ روایت تفسیر بیضاوی میں قاضی بیضاوی لاۓ۔ مولانا کیف الحسن قادری اپنی مصنف “تنویر القرآن” منظوم ترجمہ وتفسیر میں لاکر عشق رسالت کی گل کاری میں چار چاند لگادیے۔ فرماتے ہیں:

فیصلے کے باب میں مختار ہیں محبوب رب ع شاہ طیبہ کو مخیر اس میں فرمایا گیا ہاں یہود ان سے جو آکر چاہیں کوئی فیصلہ فیصلہ کرنے نہ کرنے کا ہے ان کو اختیار ہر ادا ان کی پسندیدہ ہے نزد کردگار (تفسیر البیضاوی،، الجزء الاول، ص:٤٣٨)

(تنویر القرآن منظوم ترجمہ وتفسیر ج:٢، ص٢٩٨)

جشن عید میلاد النبی موجب برکات ہے اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاے سابقین کو یہ حکم عطا فرمایا تھا اور ان سے عہد وپیمان لیا تھا کہ اگر میں تمھیں کتاب وحکمت عطا کروں پھر تمھارے پاس آخری پیغمبر تمھاری کتابوں کی تصدیق کرتے ہوۓ آجاۓ تو تمھیں ان پر ایمان بھی لانا ہے اور ان کی مدد بھی کرنا، اور فرمایا کہ کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو ؟ سب نے کہا: ہم نے اقرار کیا۔ قارئین! یہ عالم ارواح کا قصہ ہے۔ جب انبیا کرام قرناً بعد قرن ، نسلا بعد نسل دنیا میں تشریف لائے تو اپنی اولاد کو وصیت کرتے رہے کہ ہم تو نبی آخر الزماں کا زمانہ نہ پاسکے اگر تم ان کا زمانہ پاؤ تو ان پر ایمان ضرور لانا۔ تو میلاد مصطفی کا تذکرہ انبیا کی سنت ہوئی اور انبیا کی سنت یقینا باعث اجرو ثواب اور موجب برکات و ثمرات ہے۔ اور بعثت نبی آخر الزماں کا اس قدر اہتمام کامل ترین محبت والفت کی اعلی ترین مثال ہے۔ قارئین کرام! اس پر “تنویر القرآن منظوم ترجمہ وتفسیر” کے یہ اشعار ملاحظہ کریں اور محبت رسول کے برکات و فیوض سے فیض یاب ہوں ۔

فرماتے ہیں: ع

اپنے اوپر یاد اے امت! کرو فضل خدا،

تم میں سے ٹھراۓ پیغمبر تمھیں سلطان کیا

قارئین محترم! آیت سے یہ عقدہ کھلا بعثت پیغمبراں ہے نعمت رب العلی قوم کو اس کے بیاں کا حکم موسی نےدیا وہ سبب لاریب ہے برکات اور ثمرات کا اس سے ہم کو درحقیقت یہ سند حاصل کوئی موجب برکات ہے تقریب میلاد النبی (تنویر القرآن، منظوم ترجمہ وتفسیر، ص:٢٨٣)

نقض عہد کرنے پر رب کی اپنے محبوب کو تسلی جب کبھی آقاے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد وتبلیغ پر لوگوں کے سر تسلیم خم نہ کرنے پر ملال خاطر اور کبیدہ خاطر ہوا تو اللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی اور فرمادیا کہ جب تک یہ لوگ آپ سے جنگ کے لیے برسر پیکار نہ ہوں تو آپ انھیں در گزر کرتے رہیے انھیں معافی کا پروانہ دیتے رہیں، سبحان اللہ! کیا انداز محبت ہے! فرمادیا کہ تم ان نقض عہد کرنے والوں سے قطعا پریشان نہ ہو، ان کے لیے تو ہم ہی کافی ہیں۔ عشق رسالت کی یہ تجلی ” تنویر القرآن” میں ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں:

پیشتر وعدہ جنھوں نے سرور دیں سے کیا

آگے چل کر ان کو نذر طاق عصیاں کردیا

دی خدا نے اپنے پیغمبر کو اس کی آگہی ہوں گے اس صورت میں آیت کے یہ معنی واقعی ان کے نقض عہد سے اے پیارے کیجیے در گزر آپ سے جب تک کہ آمادہ نہ ہوں وہ جنگ پر

( تنویر القرآن منظوم ترجمہ وتفسیر ، ج:٢،ص:٢٧٩)

یادگار دینی پر خوشی کا اظہار جائز آیت کریمہ:”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا” کے بابت ایک یہودی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے بولا : تمھارے پیغمبر پر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے اگر وہ ہمارے پیغمبر پر اترتی تو ہم اس دن کو عید بنالیتے سیدنا عمر فاروق اعظم سمجھ گئے اور ارشاد فرمایا :”مجھے معلوم ہے کہ یہ آیت میدان عرفات میں جمعہ کے دن نازل ہوئی ہے جو دو عیدوں کا حسین سنگم ہے اور ہم اس دن کی اہمیت کو بھی سمجھ گئے۔ یہ روایت باتفاق بخاری ومسلم ہے۔ ترمذی میں بعینہ یہی واقعہ حضرت عبد اللہ بن عباس کے بارے میں ملتا ہے۔ جس کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کیا جاتاہے یہ اس سے غایت درجہ محبت و الفت کا نشان ہوتاہے اس لیے کہ یہ اظہر من الشمس ہے کہ بغیر محبت کے خوشی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ آقاے کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کی وفادار، جاں نثار امت آپ کی پیدائش کا دن مناتی ہے تو یہ بھی سب محبت میں ہوتاہے۔ بعض کو اس پر اعتراض ہے۔ لیکن اعتراض کرنا بےجا ہے کیوں کہ عید میلاد النبی کا جشن منانا اگر شرک وبدعت ہوتا پیادئکی خوشی کرنا ناروا ہوتا تو فاروق اعظم اور حضرت عبد اللہ ابن عباس اسی وقت فرمادیتے کہ یہ تو شرک وبدعت ہے ہم ایسا نہیں کریں گے لیکن آپ کی خاموشی اس پر دال ہے کہ یہ چیز ان صحابہ کے درمان بھی جائز اور درست تھی یہاں دو باتیں معلوم ہوئی ایک یہ کہ جشن عید میلاد النبی منانا جائز ہے۔ دوسرے یہ کہ جشن عید میلاد النبی منانا ان کا مقدر ہے جو اپنے نبی سے بے پناہ محبت والفت رکھتے ہیں۔ اب اتنا تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ جب جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا جائز ہے تو محفل میلاد رسول کا انعقاد بھی بدرجۂ اولی جائز و درست ہوا۔ مولانا کیف الحسن قادری نے اسے اس انداز میں بیان کیا:

مسئلہ واضح ہوا یہ اس حدیث پاک سے

کوئی دینی کام ہو یا خوشی جس دن ملے

اس کو فی الواقع خوشی کا دن منانا ہے روا

اور صحابہ کے عمل سے بھی یہی ثابت ہوا

ورنہ عبد اللہ بن عباس اور فاروق کا

اس کی بابت ہوتا انداز بیاں کچھ دوسرا

صاف تر انداز میں دیتے وہ ہم کو آگہی

ہو نمایاں شادمانی کا سماں جس دن کوئی

یادگار اس کو بنانا ہم ہیں بدعت جانتے اور عید اس دن مانا ہم ہیں بدعت جانتے

اس سے فی الواقع اجاگر ہوگئی یہ بات بھی

ہے روا ہر رخ سے جشن عید میلاد النبی

کیوں کہ رب کے فضل بے پایہ کی ہے وہ یادگار شرک کے جذبات سے ہوتے ہیں مومن ہمکنار (تنویر القرآن، منظوم ترجمہ وتفسیر، ج: ٢،ص علاوہ ازیں بے شمار مقامات پر عشق رسالت کی جھلکیاں دیکھنے کو ملیں لیکن قلت وقت دامن گیر اور عدیم الفرصت ہونے کے باعث اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور امید قوی کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اس کو قبول عام وخاص فرماۓ گا اور اس ادنی کاوش کو قبول فرماۓ گا۔ ارشاد ہوتاہے: “ان ارید الا الاصلاح مااستطعت وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب۔ “

نیز فرمایا: “مااصابک من حسنۃ فمن اللہ وما اصابک من سیئۃ فمن نفسک۔ “

قارئین اگر اس میں کسی لغزش پر متنبہ ہوں تو اپنے دامن عفو میں جگہ دیں اور جو دل کو چھو جاۓ اس پر عمل کرکے راقم کو بھی اپنی خاص دعاوں میں یاد رکھیں۔ آمین بجاہ النبی الامین الکریم علیہ افضل الصلوات واکرم التسلیم۔

از: مفتی محمد ایوب مصباحی

پرنسپل وناظم تعلیمات دار العلوم گلشن مصطفی بہادر گنج ،ٹھاکردوارہ ، مراداباد، یوپی

رابطہ :نمبر 8279422079

One thought on “تنویر القرآن میں عشق رسول کی گل کاریاں ایک مطالعہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *