حضرت سراج ملت رحمہ اللہ کی زندگی خدمت دین کے لیے وقف تھی
حضر ت سراج ملت رحمہ اللہ کی زندگی خدمت دین کے لیے وقف تھی
از : روشن رضا ازہری مصباحی
سرزمینِ ہند کی یہ زرخیز مٹی جس نے ہزاروں لعل و گہر کو پیدا کیا، اور ملک و ملت کے ان سپوتوں نے چہار دانگ عالم میں منتشر ہوکر کلمۃ الحق کے علم کو بلند فرمایا اور اپنی تگ و دو اور محنت و جانفشانی کرکے اسلام کی صحیح تعلیمات سے امت کو روشناس کرایا اور اسے اپنا فریضہ منصبی سمجھ کر گلی گلی، بستی بستی جاکر اسلام کے آفاقی پیغام کو خلق خدا تک پہونچایا
انہیں عظیم الشان و ہمہ جہت شخصیات میں ایک نمایاں نام ،مبلغ اسلام حضرت علامہ الحاج الشاہ سراج الہدی علیہ الرحمہ والرضوان کی ذات با برکات ہے جنھوں نے اپنی ساری زندگی خدمت دین متین و تحفظ عقائد ملت و نشر رسالہ دین کے لیے وقف فرما دیا تھا
کون سراج ملت ؟وہی سراج الہدی جس نے بارگاہ صدر الشریعہ و حافظ ملت سے فیض یاب ہوکر امت مسلمہ کے لیے فلاح و بہبود کی راہیں ہموار کی اور راہ دعوت و تبلیغ میں انتھک کوششیں کرکے مسلمانوں تک دین و سنت کی صحیح تعلیمات پہنچائی
پلاموں علمی و دینی اعتبار سے بہت پسماندہ تھا، کلمہ گو مسلمان شریعت کے ابتدائی مسائل سے بھی نا آشنا تھے، وہ روزہ، نماز کے احکامات سے بھی نابلد تھے، انہیں فاتحہ و ذبح کرنے کا تک کا سلیقہ نہیں تھا
سب کی نگاہیں منتظر تھیں کہ میرے مالک! ہمارے مابین کوئی ایسا محسن بھیج دے جو اپنے علمی شعاعوں سے لوگوں کے اذہان و افکار کو روشن کرے، میرے خالق حقیقی! کوئی ایسا رہبر، و انقلاب آفریں شخصیت بھیج دے جو ہمارے تیرہ و تاریک دلوں کو علم و آگہی کے نور سے منور کر دے
ان تمام زخم خوردہ دلوں کی آہیں و شکستہ دلوں کی سسکیاں باب اجابت سے ٹکرائیں اور اللہ نے قوم و ملت کا محسن بناکر حضرت سراج ملت علامہ شاہ سراج الہدی و شاہ شمس الہدی علیہ الرحمہ والرضوان کو اس عالم رنگ و بو میں پیدا فرمایا
یقیناً ان میں کا ایک اگر ہدایت کا چراغ تھا تو وہیں دوسرا ہدایت کا چمکتا ہوا آفتاب تھا جن کی علمی و روحانی کرنوں سے نہ جانے کتنے دل روشن و منور ہوے
اور انتہائی کمال کی بات ہے کہ ان کے والدین نے ان کا نام کتنی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تجویز فرمایا گویا ان کی نگاہ ولایت دیکھ رہی تھی کہ ہمارے آنگن میں جو پھول کھلے ہیں وہ معمولی نہیں ہیں
بلکہ اللہ ہمارے ان فرزندوں کو مستقبل میں ہدایت کا آفتاب و ماہ تاب بنا کر قوم کے سامنے پیش فرمائے گا جبھی تو ایک کا نام سراج الہدی رکھا اور دوسرے کا نام شمس الہدی، اور دنیا نے دیکھا کہ ان بزرگوں نے زندگی کی ہر سانس کو امت مسلمہ کے رشد و ہدایت اور ان کو جہالت سے نکال کر نور علم کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں صرف فرمایا اور ہزاروں سیاہ دلوں کو ایمان و عمل کے نور سے منور بھی فرمایا،
ان کے اساتذہ میں سر فہرست مصنف بہار شریعت، حضرت علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ والرضوان اور استاذ العلماء، جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ والرضوان جیسے بڑے بڑے علما موجود تھے. حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ معین المدرس کے منصب پر فائز تھے اس وقت اس لیے حضرت سراج ملت نے اپنی درس نظامی کی اکثر کتابیں حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ کی بافیض درسگاہ سے پڑھیں
پھر جب حضور صدر الشریعہ اجمیر شریف سے استعفیٰ دے کر بریلی شریف آ گئے تو آپ بھی ان کے دامن سے منسلک ہو کر بریلی شریف چلے آے، اور کچھ دن وہاں رہ کر بافیض اجلہ اساتذہ کی مقدس خرمن علم سے مکمل خوشہ چینی کی اور ایک وقت وہ آیا کہ
حضور صدرالشریعہ نے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ والرضوان سے فرمایا :اب آپ کو میرے علاقے اعظم گڑھ جانا ہے وہاں جا کر آپ کو دین کی خدمت کرنی ہے، اس علاقے میں کچھ بہروپیے علم و ایمان کے لبادے میں آکر سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان و عقائد کو سلب کر رہے ہیں
لہذا آپ وہاں جائیں، الغرض حضور حافظ ملت اپنے استاذ و مربی کا حکم کی تعمیل میں مبارک پور اعظم گڑھ تشریف لے آئے اور حضور سراج ملت بھی ان کے ساتھ مبارک پور آگئے ،پھر بارگاہ حافظ ملت علیہ الرحمہ والرضوان میں رہ کر مکمل درس نظامی کی تعلیم لی اور حافظ ملت قدس سرہ کی بافیض درسگاہ سے خوب اپنی علمی تشنگی بجھائی
جامعہ اشرفیہ کے پہلے سالانہ جلسے میں ہندوستان کے مشاہیر علما کی موجودگی آپ کے سر پر علم و فضل کی دستار سونپی گئی اور آپ بارگاہ حافظ ملت کے سینے سے اتنا فیض لیا کہ اپنے سینے کو علوم و معارف کا گنجینہ بنا کر اپنے وطن واپس ہوے
فراغت کے بعد کچھ تدریسی خدمات انجام دی اور اس کے بعد مسلسل تبلیغی اسفار میں آپ کی زندگی گزری، بستی بستی، گاؤں گاؤں، قریہ قریہ، جاکر آپ نے لوگوں کو شریعت کی باتیں بتائیں، اس وقت اتنے وسائل بھی نہیں تھے کہ آسانی سے سفر ہو، وہی راستے کی پگڈنڈیاں، سواری میں وہی گھوڑا، بیل گاڑی وغیرہ وغیرہ مگر آپ نے اپنے لیے راحت و آرام کے بارے میں نہیں سوچا بلکہ خود کو تکالیف میں ڈال کر امت کی اصلاح کی ذمہ داری نبھائی. شریعت کی ایسی پابندی کہ کیا سفر
کیا حضر کبھی نمازیں نہ چھوٹیں بلکہ ہمہ وقت شریعت پر کار بند رہے، اور زندگی کی ہر سانس کو اللہ و رسول کی رضا کے حصول میں صرف فرمائی، آپ کی خانقاہ بیت الانوار میں شاہ سراج الہدی و شمس الہدی علیہ الرحمہ والرضوان کا پاکیزہ سالانہ عرس اپنے روایتی انداز میں بڑے ہی تزک و احتشام کے منعقد ہوتا ہے ،جس میں بڑے بڑے علما و مشائخ کی شرکت ہوتی ہے۔
اور عوام کی ایک بڑی تعداد بارگاہ سراج ملت و شمس ملت میں جاکر اپنے عقیدتوں کا خراج پیش کرتی ہے مگر میں بڑے ادب سے تمام تر عقیدت مندان خانقاہ بیت الانوار کی بارگاہ گزارش ہے کہ خدا کے لیے آپ ان بزرگوں کی مشن پر چل کر ان کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی محبت کا ثبوت پیش کریں کیوں کہ انہیں ہماری چادروں کی ضرورت نہیں ہے
انہیں ہماری بھیڑ کی حاجت نہیں ہے بلکہ ان کی روحیں ہم سے پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ ہم نے زندگی کے ہر لمحات کو امت کی اصلاح و خدمت میں صرف کردی میرے ماننے والو! تم کتنے لوگوں کی ضرورتیں پوری کر رہے ہو
اگر ہم ایک ہزار کی چادر ان کے مزار پر چڑھا دیں تو ان کی روحیں خوش نہیں ہوں گی بلکہ اسی پیسے سے اگر ہم کسی مسلمان بیٹی کے سر پر چادر ڈالیں گے تو مدینے والے مصطفی بھی خوش ہوجائیں گے اور بارگاہ سراج ملت و شمس ملت کے فیوض و برکات سے شاد کام بھی ہوتے نظر آئیں گے ۔ وہ چلے تو گئے ہیں مگر ان کے رہ نما نقوش ہر وقت ہمیں دعوت فکر دے رہا ہے