حضرت پیر سید کبیر أحمد شاہ بخاری علیہ الرحمۃ اور آپ کی دینی خدمات
حضرت پیر سید کبیر أحمد شاہ بخاری علیہ الرحمۃ اور آپ کی دینی خدمات
محمد ھاشم أزھری
متعلم:جامعة الأزهر ، قاہرہ ،مصر
مغربی راجستھان کا وہ عظیم صحرا جو راجستھان کے ساتھ ساتھ پڑوسی ملک پاکستان میں بھی پھیلا ہوا ہے۔ انسانی آبادی کے لحاظ سے باقی صحراؤں کی بنسبت بڑی آبادی والا صحرا ہے ۔
اسی صحرائے راجستھان کے ضلع باڑمیر میں واقع ایک با فیض گاؤں سہلاؤ شریف میں آباد خانوادۂ بخاریہ وہ عظیم المرتبت اور مبارک ومسعود خاندان ہے کہ جس کے تمام شیوخ واکابر کی پیشانیوں میں عبادت الٰہی ، تصلب فی الدین ، خدمت خلق ، علم دوستی ، علماء نوازی ،جیسے اوصاف وکمالات کا نورچمکتا تھا۔
چناں چہ قطب تھر ولی کامل حضرت پیر سید حاجی عالی شاہ بخاری علیہ الرحمۃ والرضوان کی سب سے بڑی کرامت استقامت و تصلب فی الدین اور تقویٰ و طہارت ہے –
اس خانوادے میں یکے بعد دیگرے تصوف و معرفت کے لعل و گوہر پیدا ہوتے رہے اور اپنی پرنور ضیاء سے سارے عالم کو منور کرتے رہے۔ اسی صاحب تقویٰ و طہارت اور متصلب خانوادے کی ایک عظیم اور جلیل القدر شخصیت جنہیں دنیائے سنیت نمونہ اسلاف حضرت پیر سید حاجی کبیر أحمد شاہ بخاری علیہ الرحمۃ کے پیکر میں جانتی اور پہچانتی ہے-
آپ ١٣٦١ھ میں پیدا ہوئے۔ أیام طفولیت ہی سے آپ کی جبین مبارک سے سعادت مندی اور رشد وہدایت کے آثار واضح تھے ۔ آپ نے اپنے وقت کے جید اور ممتاز علماء سے نور علم کشید کرنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ ان کی بافیض درسگاہوں سے عظمت و رفعت اور بلندی کی منزلیں طے کرتے ہوۓ کبیر کے مرتبہ پر فائز ہوئے-
آپ خانوادۂ بخاریہ کے چشم وچراغ اور مخدوم جہانیاں حضرت سیدنا جلال الدین جہانیاں جہاں گشت علیہ الرحمہ کی نسل پاک کے گل سر سبد ہیں ۔ آپ سہلاؤ شریف میں واقع عظیم خانقاہ ، خانقاہ عالیہ بخاریہ کے سچے جانشین و أمین تھے ۔ یوں تو آپ کو خاندانی وراثت کے طور پر بے شمار اوصاف وکمالات حاصل ہوئے- مگر اس وقت میرے قلم کا محور و مرکز حضرت پیر سید کبیر أحمد شاہ بخاری علیہ الرحمۃ والرضوان اور آپ کی دینی خدمات ہے
آپ اپنے أکابر و أعاظم کے اس وصف خاص کے مظہر أتم تھے- آپ کے أقوال ہوں یا أفعال، تقریر ہوں ، یا ظاہر وباطن، ہر چیز میں خدمت دین کا نور چمکتا تھا۔
آپ اپنے وقت کے صوفی أعظم ، حامی سنت ، ماحی بدعت ،غریق بحر محبت ، مقتدائے أہل مودت ،شمع قصر ہدایت اور دین مصطفیٰ ﷺ کے عظیم داعی تھے ۔ رسول اکرم ﷺ کے دین کو ہر سو پھیلایا ۔جہاں بھی تشریف لے جاتے دین کی بہاریں ساتھ لے جاتے ۔ اور جب واپس آتے تو گلشنِ اسلام سر سبز و شاداب ہوتا ۔
الغرض آپ کی حیات مستعار کا لمحہ لمحہ خدمت دین متین اور فروغِ مسلک اعلیٰ حضرت کے لیے وقف تھا۔
سرکار أعلی حضرت علیہ الرحمۃ نے فروغ دین متین کے لیے جو دس نکاتی پروگرام بیان فرمائے ہیں وہ قارئین کرام پر مخفی نہیں ہیں .حضرت سید کبیر أحمد شاہ بخاری علیہ الرحمۃ والرضوان کی ذات وہ عظیم المرتبت ذات تھی کہ جس نے ان دس نکاتی پروگراموں کو مکمل طور پر عملی جامہ پہنایا ۔ اور خصوصی طور پر مغربی راجستھان میں سرکار أعلی حضرت علیہ الرحمہ کی تعلیمات کو زمین پر محسوس صورت میں پیش فرمادیا ہے جن کے دل کش مناظر سے ہماری آنکھیں ٹھنڈک حاصل کر رہی ہیں ۔
یوں تو قدیم زمانہ ہی سے خانقاہ عالیہ بخاریہ کے سجادگان کا یہ طرۂ امتیاز رہا ہے کہ انہوں نے ہر دور اور ہر عصر میں جب کبھی اور جہاں کہیں أمت مسلمہ کو جیسی ضرورت پیش آئی ہے ہر طرح کے حالات میں أمت مسلمہ کی کفالت فرمائی ہے ۔ اور أمت مسلمہ کی ہر صدا پر لبیک کہا ہے ۔
چناں چہ جس وقت حضرت پیر سید کبیر أحمد شاہ بخاری علیہ الرحمۃ نے لوگوں کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کے لیے ایک عظیم دینی قلعہ (جامعہ)کی ضرورت محسوس کی تو آپ نے خانقاہ شریفہ سے منسلک ایک عظیم دینی درسگاہ و دانشگاہ دارالعلوم انوار مصطفٰی قائم فرمایا اور اسے اپنے خون جگر سے سینچا آج اسی باغ کے مہکے ہوئے پھول اپنی دینی خدمات کے ذریعے ہندوستان بالخصوص راجستھان کے گوشہ گوشہ کو سر سبز و شاداب بنائے ہوئے ہیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ آپ نے گاؤں گاؤں ، ڈھانی ڈھانی بہت سارے مدارس ومکاتب قائم فرمائے ۔ اور تادم حیات ان کی سرپرستی و آبیاری فرماتے رہے –
آپ اپنے مریدین و متوسلین و معتقدین کے لیے ایک با انصاف جج کی حیثیت رکھتے تھے ، یہاں پر پیش آنے والے مسائل (عوام الناس کے آپسی اختلافات) کا ازالہ انتہائی سنجیدگی و حسن تدبر کے ساتھ شریعت کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے فرماتے تھے ۔ اسی وجہ سے یہاں کی عوام پولیس اسٹیشن پر شکایت درج کرانے کے بجائے اس خانقاہ پر آتی تھی اور بہت سارے مسائل کے فیصلے کورٹ کے بجائے خانقاہ عالیہ بخاریہ پر از روئے شرع ہوتے تھے۔
انہیں ساری خدمات کی بنا پر یہاں کی عوام و خواص آپ سے والہانہ محبت کرتی تھی ۔ ہر وقت آپ کے آستانہ پر آنے والے طالبان حق کا اس قدر ہجوم رہتاتھا کہ آپ کی طبیعت کو ذرا سا آرام بھی میسر نہ آتا تھا۔
یقیناً آپ نے مغربی راجستھان میں فروغ مسلک اعلیٰ حضرت اور رد فرقہائے باطلہ پر جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔
بالآخر بروز جمعہ ١/ربیع الأول ١٤٣٢ھ کو عالم سنیت کا وہ چمکتا اور دمکتا ہوا سورج اپنی تمام تر روشنی کے ساتھ روپوش ہو گیا اور سارے مغربی راجستھان میں أندھیرا کر گیا ۔ اور یقینا یہ خدمت دین متین ہی کا نتیجہ تھا کہ آج بھی مغربی راجستھان کے ہر گھر ، ہر مجلس میں آپ کی جاں نثاریوں و کرامتوں کے واقعات نہایت ہی عقیدت و محبت کے ساتھ سنے اور سنائے جاتے ہیں ۔
اور جس وقت آپ کا جنازہ اٹھایا جا رہا تھا اس وقت خانقاہ عالیہ بخاریہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جو انسانی سروں سے خالی ہو اور عوام و خواص اہل سنت کی زبان پر یہ کلمات جاری تھے کہ آج ہمارا پاسبان چلا گیا، آج قوم و ملّت کا سرمایہ چلا گیا ، یقیناً جس وقت آپ نے اس دار فانی سے کوچ کیا تو گویا وقت رحلت آپ اپنی زبان حال سے یہی فرما رہے تھے کہ
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا
لہٰذا ٠٧ شعبان المعظم ١٤٤٥ھ/ ١٨ فروری ٢٠٢٤ء بروز : اتوار دوشنبہ کی رات خاندان بخاریہ کے اس عظیم مرد قلندر کا عرس مبارک اور آپ کے قائم کردہ دینی وعصری ادارہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤ شریف” کا سالانہ جلسۂ دستار فضیلت،حفظ وقراءت ان کے سچے جانشین و أمین خلیفۂ حضور أمین ملت شیخ طریقت نورالعلماء والمشائخ حضرت علامہ الحاج سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی والنورانی سجادہ نشین خانقاہ عالیہ بخاریہ کی قیادت میں شرعی مراسم کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے نہایت ہی عقیدت و محبت اور تزک و احتشام کے ساتھ منایا جائے گا ، عرس بخاری وسالانہ جلسۂ دستارفضیلت کی تمام تر تقریبات میں حاضر ہوکر صاحب عرس کے فیضان نظر سے مال مال ہوں اور ثواب دارین حاصل کریں ۔
سوانح حیات حضرت امام ابو جعفر طحاوی