شب معراج کی فضیلت وعبادت
شبِ معراج کی فضیلت وعبادت
از: مفتی محمدشمس تبریزقادری علیمی
(ایم.اے.بی.ایڈ.) مدارگنج،ارریہ. بہار اللہ رب العزت نے انسانوں کے لئے بے شمارنعمتیں پیداکی ہے ۔دن اوررات بھی اللہ کی عظیم نعمت ہے۔سورہ یونس کی آیت نمبر۶۷ ، میں رب الارباب فرماتاہے کہ ’’وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی کہ اس میں چین پاؤ اوردن بنایاتمہاری آنکھیں کھولتا بے شک اس میں نشانیاں ہیں سننے والوں کے لیے‘‘۔
یوں توپورے سال میں بہت سی راتیں آتیں ہیں مگران راتوں میں سے کچھ خاص راتیں بھی ہیں کہ جن کی فضیلتیں بہت زیادہ ہیں ۔ان فضیلت والی راتوں میں سےایک رجب المرجب کی ستائیسویں رات ہے۔ کیوں کہ اسی رات میں آقاے دوجہاں ﷺ کواللہ تعالیٰ نے معراج کرائی ۔اسی نسبت سےاس رات کوشبِ معراج کے نام سے جاناجاتاہے۔
شبِ معراج انتہائی افضل اوربے شمارفضیلت وبرکات والی رات ہے ۔معراج شریف کے بارے میں سینکڑوں احادیث ہیں جن کا ایک مختصرخلاصہ یہاں پیش ہے۔چناں چہ معراج کی رات حضرت جبریل علیہ السلام بارگاہ ِ رسالت ﷺ میں حاضرہوئے ،نبی کریم ﷺ کومعراج کی خوش خبری سنائی اورآقائے کریم کامقدس سینہ کھول کراسے آبِ زمزم سے دھویا
پھراسے حکمت وایمان سے بھردیا۔اس کے بعدتاجدارِ رسالت ﷺ کی بارگاہ میں براق پیش کی اورانتہائی اکرام واحترام کے ساتھ اس پرسوارکرکے مسجدِ اقصیٰ کی طرف لے گئے۔ بیت المقدس میں سیدالمرسلین ﷺ نے تمام انبیاومرسلین علیہم الصلوٰۃ والسلام کی امامت فرمائی۔پھروہاں سے آسمانوں کی سیرکی طرف متوجہ ہوئے۔
حضرت جبریل امین علیہ السلام نے باری باری تمام آسمانوں کے دروازے کھلوائے، پہلے آسمان پرحضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام ،دوسرے آسمان پرحضرت یحیٰ اورحضرت عیسیٰ علیہماالصلوٰۃ والسلام ،تیسرے آسمان پرحضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام ،چوتھے آسمان پرحضرت ادریس علیہ الصلوٰۃ والسلام ،پانچویں آسمان پرحضرت ہارون علیہ الصلوٰۃ والسلام ،چھٹے آسمان پرحضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اورساتویں آسمان پرحضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام حضوراقدس ﷺ کی زیارت وملاقات سے مشرف ہوئے
انہوں نے حضوراکرم ﷺ کی عزت وتکریم کی اورتشریف آوری کی مبارک بادیں دیں،حتیٰ کہ نبی اکرم ﷺ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف سیرفرماتے اوروہاں کے عجائبات دیکھتے ہوئے تمام مقربین کی آخری منزل سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔
اس جگہ سے آگے بڑھنے کی چونکہ کسی مقرب فرشتے کوبھی مجال نہیں ہے اس لیے حضرت جبریل امین علیہ السلام آگے ساتھ جانے سے معذرت کرکے وہیں رہ گئے۔پھرمقام قرب خاص میں حضورپرنورﷺ نے ترقیاں فرمائیں اوراس قرب اعلیٰ میں پہنچے کہ جس کے تصورتک مخلوق کے افکاروخیالات بھی پروازسے عاجزہیں۔
وہاں رسول اکرم ﷺ پرخاص رحمت وکرم ہوااورآپ ﷺ انعامات الٰہیہ اورمخصوص نعمتوں سے سرفرازفرمائے گئے،زمین وآسمان کی بادشاہت اوران سے افضل وبرترعلوم پائے۔
امت کے لیے نمازیں فرض ہوئیں، نبی کریم ﷺ نے بعض گناہگاروں کی شفاعت فرمائی ،جنت ودوزخ کی سیرکی اورپھردنیامیں اپنی جگہ واپس تشریف لے آئے۔(صراط الجنان فی تفسیرالقرآن)اتنی طویل مسافت کے بعدحضورﷺ مکۃ المکرمہ تشریف لائے اوریہ طویل سفررات کے قلیل حصہ میں مکمل ہوگیا۔
اس عظیم الشان واقعہ کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’پاکی ہے اسے جواپنے بندے کوراتوں رات لے گیامسجدِ حرام سے مسجداقصیٰ تک جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں ۔بے شک وہ سنتادیکھتاہے‘‘۔(ترجمہ کنزالایمان،بنی اسرائیل:آیت ۱)
اس واقعہ کاتفصیلی ذکرسورۃ النجم میں یوں آیاہے:’’انہیں سکھایاسخت قوتوں والے طاقتورنے ،پھراس جلوہ نے قصدفرمایااوروہ آسمان بریں کے سب سے بلندکنارہ پرتھا۔پھروہ جلوہ نزدیک ہواپھرخوب اُترآیا،تواس جلوہ اوراس محبوب میں دوہاتھ کافاصلہ رہابلکہ اس سے بھی کم۔
اب وحی فرمائی اپنے بندے کوجووحی فرمائی۔دل نے جھوٹ نہ کہاجودیکھا،توکیاتم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پرجھگڑتے ہواورانہوں نے تووہ جلوہ دوبارہ دیکھاسدرۃ المنتہیٰ کے پاس ۔اس کے پاس جنت الماویٰ ہے۔
جب سدرہ پرچھارہاتھاجوچھارہاتھا،آنکھ نہ کسی طرف پھری،نہ حدسے بڑھی،بے شک اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔(ترجمہ کنزالایمان،سورہ نجم:۵۔۱۸) فضیلت:ارشادِباری تعالیٰ ہے: ’’اورانہیں اللہ کے دن یاددِلا‘‘(ترجمہ کنزالایمان،سورۂ ابراہیم:آیت ۵)
اس آیت کی تفسیرمیں صدرالافاضل علامہ سیدمحمدنعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں،ان ایام میں سب سے بڑی عظمت کے دن سیدعالم ﷺ کی ولادت ومعراج کے دن ہیں ان کی یادقائم کرنابھی اس آیت کے حکم میں داخل ہیں۔(خزائن العرفان)۔
اس سے معلوم ہواکہ نبی کریم ﷺ کی معراج شریف کاذکراس حکمِ الٰہی کی تعمیل ہے بلکہ سنت ِ الٰہیہ بھی ہے۔
اس کی ایک حکمت یہ ہے کہ لوگوں کومحبوب کبریاﷺ کی عظمت ورفعت معلوم ہونیزقلوب واذہان عشقِ رسول ﷺ کی روشنی سے منورہوجائیں۔امام بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیاہے کہ ماہ رجب میں ایک دن اورایک رات بہت ہی افضل اوربرترہے۔
جس نے اس دن روزہ رکھااوراس رات عبادت کی توگویااس نے سوسال کے روزے رکھے اورسوسال تک عبادت کی ۔یہ افضل رات رجب کی ستائیسویں شب ہے۔(ماثبت من السنہ،صفحہ۱۷۱)۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضوراکرم ﷺ نے فرمایا:رجب کی ستائیسویں رات میں عبادت کرنے والوں کوسوسال کی عبادت کاثواب ملتاہے۔(احیا العلوم،ج،۱،ص:۳۷۳)
عبادت: شبِ معراج میں سب سے مقبول اورپسندیدہ وظیفہ درودپاک ہے۔ اس رات میں باوضودنیاسے دھیان ہٹاکرتصورمیں آقاکامدینہ بسائے ہوئے زیادہ سے زیادہ درودپاک کاوردکریں۔ شبِ معراج اوردیگرقدروفضیلت والی رات میں جب کبھی عبادت کاموقع ملے تواپنے نبی پرزیادہ سے زیادہ درودپاک پڑھا کریں اوریقین جانیں کہ درودپاک دنیا وآخرت میں بخشش ونجات کاذریعہ ہے۔
ایسی متبرک رات میں اپنی زندگی کامحاسبہ کریں کہ آپ کی عمرکتنی ہے ۔اوراب تک کتنی نمازیں فوت ہوگئیں ہیں۔ ان نمازوں کاحساب کریں اوران راتوں میں زیادہ سے زیادہ قضائے عمری کواداکریں۔ کیونکہ جونمازیں آپ نے قضاکردی ہیں اگران کوادانہیں کیاتوقبرمیں جواب دیناپڑے گا۔ نوافل پڑھناچاہیں توپڑھ سکتے ہیں مگرقضائے عمری پڑھناہی زیادہ بہترہے۔ جن کے ذمہ کوئی بھی نمازقضانہیں ہے ایسے لوگ موجودہ زمانے کے بڑے خوش نصیب ہیں۔
شب ِ معرا ج کے چندنوافل ہیں جن کی بہت ہی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔
شبِ معراج میں دو،دویاچار،چار،رکعت کی نیت سے نفل نمازیں پڑھے۔اورخاص طورپریہ بارہ رکعت نمازضرورپڑھ لے جس کی حدیث میں رغبت دلائی گئی ہے۔جوکوئی بارہ رکعت نمازاس طرح پڑھے :ہررکعت میں سورۂ فاتحہ پڑھ کرقرآن کریم کی کوئی سورت پڑھے ۔
اوردورکعت پرتشہداوردرودپڑھ کرسلام پھیردے اسی طریقے سے بارہ رکعت مکمل کرنے کے بعدایک سومرتبہ یہ تسبیح پڑھے ’’سبحان اللہ والحمدللہ ولآالٰہ الااللہ واللہ اکبر،پھرسومرتبہ ’’استغفراللہ‘‘اورسومرتبہ درودشریف پڑھے(جودرودبھی اچھی طرح یادہو)تودنیاوآخرت کے امورکے متعلق جوکچھ چاہے دعاکرے اورستائیسویں تاریخ کوروزہ رکھے تویقیناًاللہ تعالیٰ اس کی تمام جائز دعاؤں کوقبول فرمائے گا(احیاالعلوم،ج،۱،ص۳۷۳)
شبِ معراج میں صلوٰۃ التسبیح پڑھنے کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ اس نماز میں بے انتہا ثواب ہے بعض محققین فرماتے ہیں اس کی بزرگی سن کر ترک نہ کرے گا مگر دین میں سُستی کرنے والا۔ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ’’اے چچا! کیامیں تم کو عطا نہ کروں ، کیا میں تم کو بخشش نہ کروں ، کیا میں تم کو نہ دوں تمھارے ساتھ احسان نہ کروں ، دس خصلتیں ہیں کہ جب تم کرو تو اﷲ تعالیٰ تمھارے گناہ بخش دے گا۔
اگلا پچھلا پُرانا نیا جو بھول کرکیا اور جو قصداً کیا چھوٹا اور بڑا پوشیدہ اور ظاہر، اس کے بعد صلاۃ التسبیح کی ترکیب تعلیم فرمائی پھر فرمایا: کہ اگر تم سے ہو سکے کہ ہر روز ایک بار پڑھو تو کرو اور اگر روز نہ کرو تو ہر جمعہ میں ایک بار اور یہ بھی نہ کرو تو ہر مہینہ میں ایک بار اور یہ بھی نہ کرو تو سال میں ایک بار اور یہ بھی نہ کرو تو عمر میں ایک بار۔‘‘ اور اس کی ترکیب ہمارے طور پر وہ ہے جو سنن ترمذی شریف میں بروایت عبداﷲ بن مبارک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مذکور ہے۔
فرماتے ہیں : اﷲ اکبر کہہ کر’’ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَآ اِلٰـہَ غَیْرُکَ ‘‘پڑھے پھر یہ پڑھے’’ سُبْحَانَ اللہ وَالْحَمْدُ للہ وَلَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ وَاللہ اَکْبَرْ ‘‘پندرہ بار پھر اَعُوْذُ اور بِسْمِ اللہ اور اَلْحَمْداور سورت پڑھ کر دس بار یہی تسبیح پڑھے پھر رکوع کرے اور رکوع میں دس بار پڑھے پھر رکوع سے سر اٹھائے اور بعد تسمیع و تحمید دس بار کہے پھر سجدہ کو جائے اور اس میں دس بار کہے پھر سجدہ سے سر اٹھا کر دس بار کہے پھر سجدہ کو جائے اور اس میں دس مرتبہ پڑھے۔
یوہیں چار رکعت پڑھے ہر رکعت میں ۷۵ بار تسبیح اور چاروں میں تین سو ہوئیں اور رکوع و سجود میں’’ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ، سبُحْاَنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی ‘‘کہنے کے بعد تسبیحات پڑھے۔ ( غنیہ وغیرہا) حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ کو معلوم ہے اس نماز میں کون سورت پڑھی جائے؟
فرمایا: سورۂ تکاثر والعصر اورقل یٰٓایھاالکٰفرون اورقل ھواللہ ،اور بعض نے کہا سورۂ حدید اور حشر اور صف اور تغابن۔ (ردالمحتاربحوالہ بہارشریعت)مذکورہ سورتیں یادہوں تووہی پڑھے اوراگریادنہ ہوتوجوسورت بھی اچھی طرح سے یادہوالحمدکے بعداسے پڑھے۔
ان متبرک راتوں میں دیکھایہ جاتاہے کہ قوم مسلم کے نوجوان شب بیداری کے نام پرموٹرسائیکل ریسنگ میں،کوئی موبائل گیم میں توکوئی کیرم بورڈوغیرہ کھیلنے میں مصروف ہوجاتے ہیں ،خداکے واسطے ایساہرگزنہ کریں بلکہ جتنی دیرتک مسجدیاگھرمیں وضوکے ساتھ درودپاک ،تسبیح وتہلیل اورنوافل میں گزارسکتے ہیں گزاریں اس کے بعد سوجائیں مگران لغویات کاموں میں ہرگزمشغول نہ رہیں ورنہ ثواب کی بجائے عذاب کےمستحق ہوں گے۔
اس وقت ملک کے جوحالات ہیں ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے رب کی بارگاہ میں گریہ وزاری کریں اوردعائیں کریں کہ مولیٰ تعالیٰ پوری دنیاخصوصاًبھارت کے مسلمانوں کے جان ومال اورعزت وآبروکی حفاظت فرمائے اورہم سب کوامن وامان اورپرسکون زندگی عطافرمائے اوردنیاوآخرت کی سعادتوں سے مشرف فرمائے ۔
معزز علماے اہل سنت سے مودبانہ گزارش
مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی
ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضلِ حق خیرآبادی
جنگ آزادی 1857ء کا روشن باب : قائد انقلاب علامہ فضل حق خیرآبادی
جنگ آزادی میں علماے کرام کی سرگرمیاں
جنگ آزادی میں مسلمانوں کی حصہ داری