مغربی تہذیب کی چند بے ہودہ رسمیں

Spread the love

از قلم : انصار احمد مصباحی مغربی تہذیب کی چند بے ہودہ رسمیں

مغربی تہذیب کی چند بے ہودہ رسمیں

مغربی تہذیب کی بے حیائی کے چند نمونے پیش کیے جارہے ہیں۔ مقام افسوس ہے کہ ان میں سے ایک سے زائد تہواروں کو مغرب کی اندھی تقلید کرنے والوں نے بھی اپنا لیا ہے۔

انھیں پڑھ کر آپ کو بھی اندازہ ہوجائے گا کہ دنیا بھر کو تہذیب و تمدن کا سبق پڑھانے والا روشن خیال مغرب خود آج بھی کس تاریکی میں جی رہا ہے۔

(1) یوم محبت ( Valentine’s Day ) :

ہر سال 14/ فروری کو منائی جانے والی یہ رسم ہوس کے پجاریوں کا عالمی تہوار ہے۔ اس کا دوسرا نام ”Feast Of Saint Valentine“ بھی ہے۔

یاد رکھیے! جب کوئی لفظ ذہن و دماغ پر اس طرح سوار ہوجائے کہ ہم اس کے معنی کو سمجھے بغیر ہی اسے استعمال کرنے لگیں تو وہ لفظ ”لفظ“ نہیں، نفسیاتی عمل بن جاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے اور اپریل فول ڈے جیسے الفاظ بھی اسی نفسیاتی غلامی کو ظاہر کرتے ہیں۔

اس حیا سوز رسم کی ابتدا کب ہوئی، اس بارے میں وکی پیڈیا میں موجود عطاء اللہ صدیقی کی یہ تحریر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے:

”اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں، البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ”ویلن ٹائن“ نام کے ایک پادری تھے، جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ مسیحیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا

اس لیے ایک دن ویلن ٹائن نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لیے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ 14/ فروری کا دن ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کر لیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کرلیا اور دونوں جوشِ عشق میں سب کچھ کر گزرے۔

کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا تھا۔ پھر بعد میں ان کے پرستاروں نے اس کے قتل کے دن کو بے حیائی کے لئے خاص کرلیا “۔

خیر اس تہوار کی ابتدا جیسے بھی ہوئی ہو، بدنگاہی، بے پردگی، فحاشی و عریانی، غیر محرم لڑکے لڑکیوں کا میل ملاپ، فحش ہنسی مذاق اور پھر اس ناجائز رشتے کو مضبوط کرنے کیلئے تحائف کا تبادلہ اور آگے بڑھ کر بدکاری تک کی نوبت جیسی برائیاں اس دن کے منانے کے برے نتائج ہیں۔

ویلن ٹائن ڈے کے موقع پر دوسروں کی بہن، بیٹی کی عزت تار تار ہوتی ہے، رقص، موسیقی، شراب نوشی اور بدکاری کے ریکارڈ توڑے جاتے ہیں، اخلاق و آداب معاشرت کا سر عام مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اسلام میں ایسے حیا سوز اور غیر اخلاقی رسم کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

(2) No Pants subway ride day (13 January ):
اسے آپ اپنی زبان میں ”عریاں سفر کرنے کی رسم“ کہہ سکتے ہیں۔ اس میں لوگ برہنہ ہوکر سائیکل یا میٹر میں سفر کرتے ہیں۔ یہ خالص مغربی تہوار جیسا کہ نام سے ظاہر ہے

۔ 2002ء میں نیو یارک شہر سے متعارف ہوا اور 2006ء تک صرف 150 لوگوں نے منایا۔ پھر اسے اچانک بال و پر مل گئے؛ آج دوسو سے زائد شہروں میں اس بے ہودگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

(3) یوم احمقاں: (April Fool’s Day)

مغرب کی بے ہودہ تقریبوں میں تیسرے نمبر پر “اپریل فول ڈے” کا نام آتا ہے۔ پہلی اپریل کو منایا جانے والا یہ تہورا مغربی تہذیب کے عقل و خرد سے کورے ہونے کا بڑا ثبوت ہے۔

کتنی حیرت کی بات ہے کہ صرف ہنسی ہنگامے کی لذت کے لیے ایک انسان دوسرے انسان کو دھوکا دے، اس سے جھوٹ بول کر بے وقوف بنائے، لوگوں کے بیچ اسے ذلیل کرے، کسی کو تکلیف میں مبتلا کرے اور یہ سارے کام تہذیب و ثقافت کے نام پر انجام دیے جائیں۔

”انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا “ میں اس رسم کی ابتدا کا ایک سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ: ”اکیس مارچ سے موسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوجاتی ہیں، ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ (معاذ اللہ) قدرت ہمارے ساتھ اس طرح مذاق کرکے ہمیں بے وقوف بنارہی ہے

لہٰذا لوگوں نے بھی اس زمانے میں ایک دوسرے کو بے وقوف بنانا شروع کردیا“۔ (رسالہ ”اپریل فول کیا ہے؟“ ص 11)

(4) عالمی کیچڑ ڈے: ( International Mud Day )

فارسی زبان میں ایک کہاوت ہے: ”غمے نہ داری، بزے بخر“ یعنی کوئی غم نہیں ہے تو خصی ہی خرید لو۔ کچھ ملکوں میں آوارہ گردوں کو جب مستی کا کوئی بہانہ نہیں سوجھتا تو وہ کوئی نہ کوئی تہوار اختراع یا ایجاد کرلیتے ہیں۔

ایسے ہی ایک تہوار ہے ”Mud-Day“ یا کیچڑ ڈے ہے۔ اس ماحول سوز تہوار کا سب سے بڑا مرکز فلپائن اور اسپین ہے۔

ہرسال 29 جون کو سیلیبریٹ کی جانے والی اس رسم میں متوالے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں، کیچڑوں سے جسموں کو لیپتے ہیں، اس میں گھسیٹنے کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ یہ ہے مغرب کا دوہرا معیار۔

(5) لٹیروں کی طرح بولنے کا عالمی دن : (Talk like a paridy day )

ایک زمانہ تھا جب پورے یورپ و امریکہ میں ڈاکوؤں اور راہزنوں کا سکہ چلتا تھا۔ اس دور کو آج بھی”The golden day of paridy“ سے یاد کیا جاتا ہے- یہ رسم یا فیسٹیول اسی دور کی یاد تازہ کرنے کے لیے منائی جاتی ہے اور شاید اس لیے بھی تاکہ وہ قوم اپنے اصلی مقصد کو نہ بھول جائے کہ وہ دنیا میں دوسروں کو لوٹنے کے لئے آئی ہے؛ کل بزور بازو لوٹتی تھی، آج ٹیکنالوجی کے بل پر۔

یہ ایک پیروڈی قسم کی رسم ہے۔ اس میں اجتماعی یا انفرادی طور پر ڈاکوؤں کی آوازیں نکالی جاتی ہیں۔ یہ چند نام ”مشتے نمونہ از خروارے“ پیش کیے ہیں۔اس کے علاوہ لگ بھگ بیس ایسے تہوار یا رسمیں یورپی و امریکی ممالک میں رائج ہیں

جو نہ صرف انسانیت کو شرم سار کردینی والی ہیں بلکہ وہ ماحولیاتی آلودگی کے بھی سبب بنتے ہیں۔ جو نہایت گھنونے ، بے ہودہ اور فطرت کے بالکل خلاف ہیں۔ بعض رسمیں ایسی بھی ہیں ، جن میں اعضاے مخصوص کی نمایش ، اور ان کی مقابلہ آرائی ہوتی ہے۔

ہمیں ان کے بارے میں جاننے سے زیادہ ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ ، اپنی روایات اور اپنی تہذیب و ثقافت سے جڑے رہیں۔

مغربی فیشن ، طرز حیات ، طور طریقے اور ان کی تہذیب ایک فریب ہے، جو وقتی طور پر نظر کو خیرہ تو کر سکتی ہے ؛ لیکن اپنی اصلیت اور اثر آفرینی میں اخلاق انسانی کے لئے نہایت ہی مہلک ہیں۔ شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال نے بہت پہلے کہا تھا۔ ؎

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی

یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

بھارت کی سنسکرتی میں یورپ و امریکی کی تہذیب اور معاشرت کی رس گھولنے کی کوشش کرنے والوں کا انجام بھی بہت برا ہوا۔ اس کی دو مثالیں پیش ہیں۔ رسالہ ”تہذیب الاخلاق “ کے بانی سر سید احمد خان صاحب متحدہ بھارت میں مغربی طرز عمل کے سب سے بڑے داعی ہیں۔ لیکن خود اسی تہذیب کے اثرات نے ان کے ساتھ کیا گل کھلایا ، جاننے کے لئے ماہ نامہ ایوان اردو دہلی کا یہ اقتباس پڑھیے!

”آخری وقت میں سر سید احمد خان کے فرزند ارجمند محمود نے ان کو اپنی حویلی سے نکال دیا تھا۔ وہ ضعیف ایک صندوق لے کر سڑک پر کھڑے ہوئے تھے کہ ان کے ایک قریبی دوست اسماعیل صاحب کا ادھر سے گزر ہوا۔ انہیں سر سید نے بتایا کہ بیٹے نے انہیں بے گھر کر دیا ہے، تو وہ سر سید کو اپنے گھر لے آئے۔

وہ کہتے تھے :اتنی بڑی یونیورسٹی قائم کرنے والا کیا اپنے لیے ایک جھونپڑی نہیں بنا سکتا تھا! پتا نہیں تھا کہ یہ دن دیکھنے ہوں گے۔ مختصر یہ کہ سر سید کو سخت دلی صدمہ پہنچا اور وہ چند ہی دنوں میں انتقال کر گئے۔

بیٹا جسٹس محمود کو انتقال کی خبر گئی تو اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ سر سید احمد کی تجہیز و تکفین کے لئے ان کا صندوق کھولا گیا تو اس میں سے کچھ نہ نکلا، چنانچہ چندے سے میت اٹھانے کا ارادہ کیا گیا۔ سب سے پہلے سرسید کے قریبی دوست محسن الملک سے رجوع کیا گیا۔ (ایوان اردو دہلی، فروری 2014ء)

ویسے تو اکبر الہ آبادی صاحب مغربی تہذیب وتمدن کے سخت مخالف تھے۔ اس کے باوجود اپنے بیٹے عشرت حسین کو زر کثیر خرچ کرکے اونچی تعلیم کے لئے ولایت بھیجا۔ مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر اس نے اپنے والدین ہی کو بھلا دیا۔

دل برداشتہ اکبر الہ آبادی نے ایک طنزیہ غزل لکھ کر اپنے بیٹے کو احساس دلانے کی کوشش کی۔ چند اشعار یہ ہیں۔ ؎

عشرتیؔ گھر کی محبت کا مزا بھول گیے

کھا کے لندن کی ہوا عہد وفا بھول گیے

پہنچے ہوٹل میں تو پھر عید کی پروا نہ رہی

کیک کو چکھ کے سویّوں کا مزا بھول گیے

بھولے ماں باپ کو اغیار کے چرنوں میں وہاں

سایۂ کفر پڑا ، نور خدا بھول گیے

نقل مغرب کی ترنگ آئی تمہارے دل میں

اور یہ نکتہ کہ”مری اصل ہے کیا“ بھول گیے

کیا تعجب ہے جو لڑکوں نے بھلایا گھر کو

جب کہ بوڑھے روشِ دینِ خدا بھول گیے

مغربی تہذیب و تعلیم کی تحریک کیوں کہ سر سید احمد خان نے چلائی تھی، اس لیے آخری شعر میں اس پر بھی کاری ضرب ہے۔ حاصل گفتگو یہ ہے کہ تن کے یہ گورے لوگ صالح تہذیب و تمدن سے ہمیشہ کورے رہے ہیں۔

وہ ان اطوار کو اپنانے سے ہمیشہ محروم رہے، فطرت انسانی جن کا متقاضی اور متلاشی ہے۔ ان کی تاریک دنیا میں شرم و حیا، طہارت و پاکیزگی، فہم و فراست، اخلاق و بھائی چارہ کی صبح کبھی نمودار نہیں ہوئی۔

از: انصار احمد مصباحی

پمپری ، پونے۔ 9860664476

43 thoughts on “مغربی تہذیب کی چند بے ہودہ رسمیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *