تحریک آزادی کا مختصر تاریخی جائزہ‎

Spread the love

تحریک آزادی کا مختصر تاریخی جائزہ‎

اظفر منصور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

تھے دل سینوں میں لیکن ہر لگن سوئی ہوئی سی تھی

چمن تو تھا مگر روح چمن سوئی ہوئی سی تھی

گلستان وطن میں بس خزاں کے ہیرے پھیرے تھے

غلامی ہی غلامی تھی، اندھیرے ہی اندھیرے تھے

ہم آج کے اس حسین و پرلطف موقع پر اپنے آپ کو بہت خوش بخت محسوس کر رہے ہیں کہ ہمیں معہد سیدنا ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے اپنے محترم اساتذہ کرام، گاؤں مہپت مئو کے معزز مہمانان عظام اور تمام ساتھیوں کے درمیان اس وسیع و عریض میدان میں دوسری مرتبہ پندرہ اگست یوم آزادی کی مناسبت پر کچھ کہنے، بولنے اور سنانے کا موقع مل رہا ہے،

حضرات! آج کا یہ پروگرام خود بخود گفتگو کا موضوع طئے کر رہا ہے، اور آج کی یہ صبح ان جانباز شہدائے حریت وطن کی یاد اور ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا عنوان متعین کر رہی ہے، جنہوں نے آج سے ۷۶ سال قبل ملک کی آزادی کی خاطر اپنے لہو سے ارض ہند کو سرخ زار کیا، اور اس وقت تک عزم و ہمت کا سودا نہیں جب تک کہ سانس جاری رہی یا ملک آزاد نہ ہوا۔

آج کا یہ دن اس معنی کر بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس دن ۱۹۴۷ء میں ہم نے انگریزی استبداد سے خلاصی حاصل کی، اور باقاعدہ اعلان ہوا کہ آج سے یہ ملک آزاد ہے، اور اس ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے لال قلعہ کی پر شکوہ عمارت سے رسم پرچم کشائی کی ابتداء کی۔

اور پورے ملک کے نام امن و آشتی، محبت و الفت کا پیغام دیا تھا اس لیے ہم بھی ہر سال اس تاریخ میں شہدائے وطن کو نذرانہ عقیدت پیش کر کے وطن کی فرقہ واریت کے خلاف اور مذہبی ہم آہنگی کے سپورٹ میں بیک آواز بلند کہتے ہیں کہ جس طرح انگریزی استبداد سے چھٹکارا پانے کے لیے ہم نے اپنی جانیں تحفے میں پیش کی تھیں آئندہ ضرورت پڑے تو ہم دوبارہ یہ تحفہ پیش کر کے ملک کی حفاظت و سالمیت کی ذمہ داری قبول کریں گے۔

حضرات! اس مختصر وقت میں تحریک آزادی کی تقریباً ڈھائی سو سالہ تاریخ کو پیش کرنا ممکن تو نہیں مگر آج کے اس دور میں جب کہ ہماری قربانیوں کا صلہ ہمیں غدار وطن اور دیش دروھ کہہ کر دیا جا رہا ہے تو مختصراً تاریخ کا تذکرہ کرنا بے حد ضروری ہے۔ ورنہ
ہمارے بعد اندھیرا ہوگا محفل میں
بہت چراغ جلاؤ گے روشنی کے لیے

معزز حاضرین !

وطن کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض چکائے جو کہ واجب بھی نہیں تھے

ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضلِ حق خیرآبادی

جنگ آزادی 1857ء کا روشن باب : قائد انقلاب علامہ فضل حق خیرآبادی

جنگ آزادی میں علماے کرام کی سرگرمیاں 

جنگ آزادی میں مسلمانوں کی حصہ داری 

مجاہد انقلاب حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمہ

جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں

تحریک آزادی اور امارت شرعیہ

دوچار سے دنیا واقف ہے گمنام نہ جانے کتنے ہیں

معزز حاضرین!

بات چودہویں صدی کے ان ایام کی ہے جب ہندوستان پوری دنیا میں صنعت و تجارت کا پرچم لہرا رہا تھا، ملک کی سرسبزی و شادابی، زرخیزی و گرم بازاری کا شہرہ ستاروں کی مانند افق عالم پر جھلملا رہا تھا کہ یک بیک ۱۴۹۸ء کی وہ شب تاریک آگئی

جب واسکوڈی گاما کی قیادت میں پرتگالی ملاحوں کا ایک تجارتی قافلہ (جس کا مقصد خود ان کے ایک بادشاہ کے مطابق ہندوستان آنے کا مقصد صرف مسیحیت کی ترویج اور اس کی مشرقی دولت پر قبضہ کرنا ہے) کالی کٹ کے ساحل پر لنگر انداز ہوا۔ اور جنوبی ہند کے ساحلی علاقوں میں اپنی تجارتی سرگرمیوں کا آغاز کیا، ہندوستان میں سیاہ قلوب کے مالک ان تاجروں کی آمد نے ایک عجیب قسم کی کیفیت پیدا کر دی، امن و آشتی کے اس گہوارے میں لوٹ مار، چوری و ڈاکہ زنی، قزاقی، اور تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو جبر و ستم کے سہارے دور کرنا شروع کر دیا تھا۔

اسی طرح بزورِ طاقت عیسائیت کی ترویج و تبلیغ شروع کر دی، پرتگالیوں کی یہ عیش کوشی اور جبر و ستم دیگر ممالک کے شاطروں سے مخفی نہ رہ سکے، اور برطانیہ میں ۱۵۷۵ء سے ہی قائم ایسٹ انڈیا کمپنی کی ۱۰۰۱ تاجروں پر مشتمل ایک جماعت ۱۶۰۱ء میں اپنا جھنڈا لہراتے ہوئے ہندوستان میں داخل ہوئی، اور بنگال کو اپنا مرکز بنایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان سخت کشمکش کا شکار تھا، ایک طرف سفید فام ملک پر تجارت کے پس پردہ تسلط کی خفیہ تدبیریں کر رہے تھے ۔

دوسری طرف (اکبر اعظم تحریف اسلام میں مشغول تھا) سن ۱۷۰۷ء میں مغلیہ خاندان کا عظیم فرمانروا اورنگزیب عالمگیر کی وفات شہزادوں کے درمیان حصول تخت کی لڑائی کا ذریعہ بن گئی تھی، اس موقع سے فائدہ اٹھا کر انگریزوں نے ممبئی، مدراس، کولکاتہ وغیرہ میں اپنے مراکز کو وسعت دی اور فوجی چھاؤنیاں بھی قائم کیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سمندری علاقوں میں مغل حکومت محض حرف کتاب بن کر رہ گئی۔

جہاں بادشاہ کا نہ کوئی فرمان قابل اطاعت ہوتا اور نہ اتنی سکت ہی ہوتی کہ عمل کروا سکیں۔ اس درمیان کمپنی کا اتنا منافع ہوا کہ جو مال ۱۷۰۸ء میں برطانیہ جاتا تھا اس کی قیمت صرف ۶۰ ہزار پونڈ تھی مگر ۱۷۳۸ء میں یہ بڑھ کر ایک لاکھ اٹھائیس ہزار پونڈ ہوگئی، ہندوستانی مال سے برطانیہ میں انقلاب آ رہا تھا مگر خود ہندوستان ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی عافیت کوشی اور طوائف الملوکی کی وجہ سے کمپنی کا دست نگر بنتا جا رہا تھا۔

سلطنت مغلیہ کی عمارت بھی زمیں دوز ہو رہی تھی، ملک پر مہیب و خوفناک سایہ، سمت مخالف چلتی ہوا یہ خبر دے رہی تھی کہ ملک اب فیصلہ کن موڑ پر آ کھڑا ہے، چہار جانب سے گیدڑوں کے چلانے کی آوازیں آنا شروع ہوگئی تھیں۔

انگرویزوں کے پر پُرزے ابھی صحیح سے نکلے بھی نہیں تھے کہ بنگال سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے راج کا غلغلہ بلند ہوا۔ بنگال کے نواب سراج الدولہ اس نئی سازشی نظام کے خلاف سب سے پہلے ۱۷۵۷ء میں پلاسی کے میدان میں فوج لے کر اترے، مگر تھوڑی مزاحمت اور میر جعفر کی غداری کی وجہ سے شکست خوردہ واپس لوٹے، (اس جنگ میں طرفین کی اموات و زخمی حضرات کی تعداد) پھر کمپنی سے مصالحت کرنی پڑی۔

مگر پلاسی کی اس جنگ نے ہندوستان کی سیاسی قسمت کا فیصلہ کر دیا، اور ہندوستان کی بعض دیگر ریاستی سلطنتیں انگرویزوں کی عیاری و مکاری پر نظر رکھنے لگے۔ بالآخر ۱۷۹۹ء میں ریاست ِمیسور کے شاہ ٹیپو سلطان سری رنگا پٹنم کے میدان میں شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے کا نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے وطن کے نام پر شہید ہو کر سرخرو ہو گئے

اس موقع پر جنرل ہارس نے سلطان شہید کی نعش کو دیکھ کر فرطِ مسرت سے چلا اٹھا کہ ”آج سے ہندوستان ہمارا ہے“ پھر بعد کے حالات نے اس اعلان کی تصدیق بھی کر دی کہ مغلیہ سلطنت کا وہ چراغ جو کم از کم لوگوں کے عزم و حوصلے کا مرکز ہی بنا ہوا تھا کہ ۱۸۰۰ء میں دہلی جانب انگریزوں کی پیش قدمی اور مرہٹہ فوجوں کے اکھڑتے قدم نے دارالحکومت دہلی کو عملاً انگریزوں کے حوالے کر دیا، اور مفرور و معتوب بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے سامنے ہی ان کے جواں بخت شہزادوں کو تہہ تیغ کر کے اور تختہ دار پر لٹکا کر جبراً یہ عہد نامہ لکھوا لیا کہ ”خلق خدا کی، ملک بادشاہ سلامت کا، اور حکم کمپنی بہادر کا“ اس اعلان کے ساتھ ہی دہلی و اطراف دہلی میں ظلم و جور کا ایسا بازار گرم ہوا کہ تذکرہ کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جائیں،

الغرض جب شاہان دنیوی کو بے دست و پا کر دیا گیا تو شاہان دینی اپنی اپنی خانقاہوں سے نکل کر ان روباہ صفت سفید فاموں پر قدغن لگانے کا عزم کیا، اور ایک کے بعد ایک تحریکیں وجود میں آنے لگیں جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ پورے ملک کے عوام بیدار ہوئے اور آزادی کی اہمیت کو گوشہ گوشہ میں پھیلایا، اور زبان حال سے یہ اعلان کیا کہ

سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، شاہ سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، مولانا عبدالحئی یہ وہ جلیل القدر سربراہان قیادت ہیں جنہوں نے یکے بعد دیگرے سب سے پہلے ملک میں آزادی کی صدا بلند کی، اور درویشی کے ساتھ سپہ گری اور جبہ و دستار کے ساتھ تیغ و سناں کو لازمی قرار دیا، اور تمام نے ہندوستان میں جہاد کے فرض ہونے کا فتویٰ دیا، چناں چہ انہیں بنیاد پر ۱۷۵۷ء میں پلاسی کی وہ جنگ بھی لڑی گئی جسے آزاد ہندوستان کی طرف خشت اول کا خطاب حاصل ہے۔

یعنی اس کے بعد مسلمانوں کے ساتھ دیگر مذاہب کے لوگ بھی کاندھے سے کاندھا ملا کر چلنے کے لیے تیار ہوئے، اور پھر سب نے مل کر تحریک آزادی کا صور پھونکا، مگر اب بھی قیادت مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہی تھی کہ کیوں کہ سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہی ہوا تھا اور ہو رہا تھا، تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے ورنہ ارض ہند تو کجا صرف لکھنؤ کی سرزمین سے اٹھنے والے شہدا کے تذکرے سے دن گذر اور رات بسر ہو جائے،

سامعین بزم! ۱۸۵۷ء میں جنگ آزادی میں شکست خوردہ انگریزوں نے انتقام کے جذبے کو سردکرنے کے لیے ایک ایک مسلمان کو تہہ تیغ کرنا شروع کر دیا تھا، بغاوت کا مقدمہ چلا کر پابند سلاسل کیا جا رہا تھا، مگر پھر بھی مجاہدین ہند کے پائے استقامت میں ایک منٹ کے لیے بھی تزلزل نہیں پیدا ہوا بلکہ جوش حریت مزید قوت و توانائی کے ساتھ پنپنے لگا اور چرخ کہن نے دیکھا کہ چند زندہ دل لوگوں پر مشتمل جماعت کے افراد کی تعداد ۲۰ ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ تک ہوگئی مگر پھر ۷ مئی ۱۸۳۱ء کو ایک بزدلانہ اور اچانک حملے کی وجہ ان میں سے ۳۰ جانباز مجاہدین کے ساتھ حضرت سید احمد شہید و شاہ اسماعیل شہید بالاکوٹ کی پہاڑی پر جام شہادت نوش فرما گئے۔
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس میرا شعلہ بار ہوگا

آپ کی شہادت کیا تھی گویا ایک نئی جنگ کا اعلان تھا، جسے آپ کے متوسلین و جانشین نے ہوا دی اور ایسی فضا تیار کی کہ خود بخود لوگ اس تحریک کی جانب کشاں کشاں کھچنے لگے، اور اس میں اپنی شرکت کو مذہبی فریضہ سمجھنے لگے، رفتہ رفتہ برادران وطن میں حب الوطنی کا جذبہ جاگا اور انگریزی حکومت کو سوچنے پر مجبور ہونا پڑا۔

لیکن اس کے باوجود انگریزوں نے تحریک کو کچلنے ذرا بھی نہیں ہچکچایا، مگر جو روح قائدین نے پھونک کر لوگوں کو گرمایا تھا وہ کسی طور بھی سرد ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا، گروہ ِعلماکے سپہ سالاروں نے جس میں علامہ فضل حق خیر آبادی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا حسین احمد مدنی مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر کے علاوہ بیشمار علما نیز گاندھی وغیرہ بھی شریک تھے اس تحریک کو جذبہ شہادت سے سرشار ہوکر فعال و متحرک بناتے رہے جس سے پورے ملک میں جنگ آزادی کا بگل بج گیا، جگہ جگہ ہندوستان چھوڑوں کی تحریکیں بیدار ہوگئیں۔ 

چناں چہ اس تحریک کو دبانے کے لیے بھی انگریزوں نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، اس جماعت کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری کیا، چن چن کر گرفتار کیا گیا، کسی کے حصے میں مالٹا کی اسیری آئی تو کسی کو جزیرہ انڈومان بھیجا گیا، کوئی نذر
زنداں ہوا تو کوئی تختہ دار پر چڑھایا گیا، کسی کو گھروں میں گھس کر چھلنی کیا گیا تو کسی کو راہ چلتے بندوقوں اور توپوں سے اڑا دیا گیا

تجھے مبارک ہو حکمرانی مخالفت بھی ہم نہ کریں گے
اگر شریعت پہ ہاتھ ڈالا تو تم رہو گے یا ہم رہیں گے

اس کے بعد آزادی کی تحریک میں مزید شدت پیدا ہوئی اور نومبر ۱۹۱۹ء میں دہلی میں ایک اجلاس خلافت کانفرنس کے نام سے منعقد ہوا جس میں کئی تجاویز پر غور کرنے کے علاوہ ایک اہم فیصلہ جمعیۃ علماء ہند نام سے مسلمانوں کی ایک دستوری جماعت کا قیام ہے، تحریک ترک موالات، تحریک عدم تعاون، تحریک خلافت، تحریک نمک ستیہ گرہ کے علاوہ بیشمار تحریکوں اور عوامی جذبات کو انگریز حکومت خوب سمجھ چکی تھی۔

کہ اب اس ملک پر مزید قابض رہنا دشوار ہے، اس لیے ۱۹۳۵ء میں ایک دستور نافذ کر کے ہندوستانی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کر دی، اور ایک قانون ساز اسمبلی کے ذریعے اختیارات ہندوستان کو واپس کر دئیے۔

اسی طرح الیکشن کا نظام دیا، مگر ہندو اور مسلمان میں تقسیم کر دیا کہ ہندو ہندو کو اور مسلمان مسلمان کو ووٹ دے۔ پھر یہیں سے ہندو مسلمان کے درمیان منافرت کی ایسی دیوار قائم ہوئی جس کی سزا اب تک ہندوستان بھگت رہا ہے، بالآخر تقریباً چار سو سال کی طویل جہد مسلسل اور سعئ پیہم کے بعد ظلمت شب کو چھانٹے ہوئے ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کی وہ مسعود گھڑی آگئی جب باقاعدہ علی الاعلان ملک کی آزادی صاف لفظوں میں تسلیم کی گئی۔

چناں چہ آج کا یہ دن جسے ہم یوم آزادی یا سوتنتر دیوس کے نام سے منا رہے ہیں انہیں عظیم مجاہدین آزادی کے نام ایک خراجِ عقیدت ہے کہ ان کی قربانیوں کے بعد یہ ملک آزاد ہوا۔ یقیناً صبح قیامت تک ہم ان پر گذری ہوئی مصیبتوں کا تذکرہ کرتے رہیں گے، اور ان سے کہتے رہیں گے کہ

تم ہو اک زندہ جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو؟ کہ ڈھل جاؤ گے

مگر آج جشن آزادی کے موقع پر زباں شکوہ کناں اور آنکھیں نالہ بلب ہیں کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ تاریخ آزادی کے اوراق سے ان ناموں کو پردہ خَفا میں رکھنے اور ان کی قربانیوں کو فراموش کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے، اور جو اس کے اصل و محرک تھے ان کی محنت و قربانی کو صرف ایک طبقہ کا مرہونِ منت سمجھ لیا گیا ہے، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آزادی کی تاریخ مرتب کرنے میں تہائی حصہ مسلمانوں کا ہے۔

تاریخ کے صفحات سے مسلمانوں کے نام کو کھرچ کھرچ کر نکالنے کی سازش کی جا رہی ہے، یہ سوچنے اور سمجھنے کا محل ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

آج اسی ملک میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے، مساجد و مدارس کو ایک طرفہ تماشہ سمجھ لیا گیا ہے، ہر ہر گلی و محلے سے مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کے نعرے بلند ہو رہے ہیں، اس لیے آئیے آج کے اس اہم دن کے موقع پر ہم سب یہ عہد کریں وطن کی حفاظت و سالمیت کے لیے ہر طرح کی قربانی پیش کریں گے۔ 

اپنے عظیم مجاہدین آزادی کے کارناموں سے دنیا کو آگاہ کریں گے، اور پورے ملک میں اخوت و محبت کی فضا عام کریں گے، اور ملک و مذہب پر اٹھنے والے ہر سوالات کا منہ توڑ جواب دیں گے۔ یقین جانیں اگر ہم نے یہ کام نہیں کیا تو اپنے اسلاف کے سچے جانشین ہرگز نہیں ہوسکتے۔ ورنہ آئندہ آنے والی نسل ہماری غفلت کی سزا پائے گی۔ آئیے ایک اور عہد کریں کہ

وطن کی سرزمیں سے دم وفاداری کا بھرنا ہے

یہیں پیدا ہوئے ہیں ہم، یہیں پہ ہم کو مرنا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *