وقت کے جابر حکمراں کے اگے ڈٹ جانا سیدنا امام حسین کا عظیم کردار

Spread the love

وقت کے جابر حکمراں کے اگے ڈٹ جانا سیدنا امام حسین کا عظیم کردار

معزز قارئین کرام !!

آج کے دور میں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں جو تنزلی پائی جارہی ہے یہ کوئی حادثاتی طور پر بہ ایک وقت رونما نہیں ہوا بلکہ نبی کریم ﷺ اور خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم کے طریقہ سے ہٹتے ہوئے جب حکمرانوں نے زمین پر سربراہی شروع کردی تو آہستہ آہستہ حالات کچھ اس طرح بگڑے کے ملت اسلامیہ کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا

اور اسلامی خلافت کے نہ ہونے کا سب سے خراب نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ دین کے دائرے کو اپنی اپنی فکر و نظر کے تحت محدود کرتے چلے گئے

مطلب یہ کہ جس طرح اللہ کے آخری رسول محمد ﷺ نے اللہ کے حکم کے عین مطابق اسلامی سیاست چلائی اور لوگوں کو دین اسلام کا ایک مکمل ترین تصور دیا اور آپ خود نمونے کے طور پر اس پر عمل کر کے دکھایا اور معاشرے پر نافذ فرمایا۔

اور آپ ﷺ کے بعد خلفاے راشدین رضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے بھی اس کے عین مطابق خلافت فرمائی اور دین کو ایک مکمل نظام حیات کی حیثیت سے نافذ فرمایا لیکن جب انسانی بادشاہت شروع ہوئی تو اسلامی ریاستیں ان تمام خوبیوں کو کھوتی چلی گئیں جو قرون اولی میں پائی جاتی تھیں اور لوگوں کے اندر سے دین کی جدوجہد اور جذبہ جہاد میں کمی آتی گئی اور آخر کار ایک زمانہ یہ بھی آگیا کہ دین کا ایک محدود تصور لوگوں کے ذہنوں میں اْبھرا اور اسی محدود تصور دین کے ساتھ امت مسلمہ کا ایک بڑا حصہ منسلک ہوگیا

جس کے خطرناک نتائج ہمارے سامنے یہ آئے ہیں کہ اللہ کی اس سرزمین کے ایک بڑے حصہ پر نمرودیوں، فرعونیوں اور باغیوں کا قبضہ ہوگیا اور آپس میں یہ متحدہ طور پر کچھ ایسے اصول بنالیے ہیں جس سے اہل ایمان کو اور اسلام کو جس طرح چاہیں نقصان پہنچاسکیں۔

محدود تصور دین رکھنے والے حضرات کا یہ خیال ہے کہ مسلمانوں کو اور دین کا کام کرنے والوں کو یہ جائز نہیں ہے کہ وہ حکومتی یا سیاسی معاملات میں دخل اندازی کریں، اس طرح کے لوگوں سے یہ سوال کرنے کو جی چاہتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے مد مقابل جو موقف اختیار کیا تھا وہ خالص دینی تھا یاسیاسی ؟۔

اگر یہ اپنا جواب دینی تھا میں دیتے ہوں تو انہیں چاہیے کہ اپنے محدود دائرہ دین کو تھوڑا وسیع کرلیں اور باطل طاقتوں کے خلاف آواز اٹھائیں، اگر ان کا جواب یہ ہو کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا موقف سیاسی تھا تو یہ حضرات اپنے اس جواب سے نعوذ باللہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے موقف کو نا جائز ٹھیراتے ہیں۔

حالاں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کتاب سنت کی روشنی میں اپنے موقف پر قائم رہے اور اسی کی خاطر اپنی جان کو قربان کردیا۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے موقف کی قرآن بھی تائید کرتا ہے، سورہ آل عمران میں اللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں ’’تم وہ بہترین امت ہو جسے لوگوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے نکالا گیا ہے تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو‘‘۔

ایک دوسری جگہ فرمایا یعنی اہل ایمان کی شان یوں بیان کی جارہی ہے کہ ’’نیکی کا حکم دینے والے ، بدی سے منع کرنے والے اور حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں(سورہ توبہ )۔

اس سلسلہ میں نبی کریم ﷺ کے ارشادات یوں آئے ہیں کہ ’’تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے اسے چاہیے کہ اس کو ہاتھ سے بدل دے اگر ایسا نہ کرسکے تو زبان سے روکے اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو دل سے برا سمجھے اور روکنے کی خواہش رکھے اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے۔

ایک دوسری حدیث یوں آئی ہے کہ ’’سب سے افضل جہاد ظالم حکمراں کے سامنے انصاف کی یا حق کی بات کہنا ہے ‘‘ ایک ارشاد نبوی یوں ہے ’’میرے بعد کچھ لوگ حکمراں ہونے و الے ہیں، جو ان کے جھوٹ میں ان کی تائید کرے اور ان کے ظلم میں ان کی مدد کرے وہ مجھ سے نہیں اور میں اس سے نہیں ‘‘۔

اس سلسلہ کی ایک اور حدیث ملاحظہ فرمایئے    ’’ جس نے کسی حاکم کو راضی کرنے کے لیے وہ بات کی جو اس کے رب کو ناراض کردے وہ اللہ کے دین سے نکل گیا ‘‘۔

محترم قارئین !!

ابھی آپ کے سامنے دو آیات کی ترجمانی اور چار احادیث کا ترجمہ پیش کیا گیا اس کے مطالعہ سے یہ بات صاف طور پر ظاہر ہورہی ہے کہ بدی کو ہاتھ سے روکنا اور نیکی کا حکم کرنا اہل ایمان کی شان ہے۔

اور آخر میں جو حدیث بیان کی گئی ہے وہ یہ صاف بتا رہی ہے کہ کسی حاکم کو راضی کرنے کے لیے کوئی ایسا عمل اختیار کرنا جو اللہ کو ناراض کرنے کا موجب بنتا ہے وہ شخص دین سے نکل گیا

اس طرح اب ہمیں اچھی طرح معلوم ہوگیا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے وقت کے جابر حکمراں کے ساتھ جو بھی معاملہ کیا ہے وہ خالص دین کی بنیاد تھی کیوں کہ سیاست دین سے الگ کسی چیز کا نام نہیں ہے بلکہ دین خود ایک ایسا مکمل طریقہ زندگی ہے جس میں سیاست بھی شامل ہے۔

بقول شاعر مشرق علاقہ اقبال

’’اسوہ حسین رضی اللہ عنہ سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ

ماسوی اللہ را، مسلماں بندہ نیست

پیش فرعونے سرش افگندہ نیست

یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا مسلمان کسی کا غلام نہیں اور کسی فرعون کے سامنے اس کا سر نہیں جھک سکتا۔

اس طرح ہم شہادت حسین رضی اللہ عنہ سے درس حاصل کرتے ہوئے یہ عزم کریں کہ ہمارا یہ سر کسی غیر خدا کے سامنے نہیں جھکے گا اور نہ ہی ہم کسی فرعونی و طاغوتی طاقتوں کے غلام ہیں اور نہ ہی اللہ کے سواء کسی باطل طاقت کی بالاتری ہم تسلیم کریں گے۔

حضرت حسین رضی عنہ نے اپنے قول و فعل کے ذریعہ ان اطاعتوں کو صحیح تسلیم کرنے سے انکار فرمادیا جو اللہ کی اطاعت اور نبی ﷺ کے طریقہ سے ہٹانے والی تھیں، کیوں کہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ ساری کائنات کا صرف ایک ہی جائز مالک ہے اور اپنی مخلوق کا ایک ہی جائز حاکم اللہ ہی ہے اس لحاظ سے کسی کو فی الوقع مالکیت اور حاکمیت کا حق ہی نہیں پہنچتا اور نہ ہی کسی کو یہ اختیار ہے کہ خدا کے نازل کردہ اور اس کے رسول ﷺ کے نافد کردہ احکام میں ردوبدل کرے۔

دوسرے یہ کہ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ باطل چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اظہار حق سے کبھی نہ گھبرائیں اور پر قطر ماحول میں بھی اہل حق کو چاہیے کہ وہ حالات کا پامردی کے ساتھ مقابلہ کریں چاہے معاملہ تحفظ شریعت کاہو یا مذہبی تشخص کا، چاہے اسلام کی بقا و سلامتی کا ہو یا دین و ایمان کا معاملہ، ہر حالات میں استقامت کو برقرار رکھیں لیکن اس کے لیے شرط اول یہ ہے کہ ہم ایمان لانے والے ہی نہیں بلکہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے والے بن جائیں

تب جاکر باطل کے سامنے سپر نہیں ڈالا جاتا بلکہ اپنے خون کے آخری قطرے تک اس کا مقابلہ کرتے ہیں اور موقع آنے پر اپنی جان کی بھی بازی لگادیتے ہیں جس کا عملی ثبوت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے اپنی زندگیوں سے پیش کیا ہے اور خدا کے باغیوں سے زمین کو پاک کیا

اور ایک صالح معاشرہ کو وجود میں لایا، علاوہ ازیں نواسہ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے باطل سے نبرد آزما ہوئے اوریہاں تک کہ تحفظ شریعت اور اس کی بنیادوں کو مضبوط رکھنے کی خاطر اپنی جان کی بازی بھی لگادی میں اپنی تحریر کو اس شعر پر ختم کرتا ہوں۔

زندہ حق از قوت شبیری است

باطل آخر داغ حسرت میری است

یعنی حق کی بقاء کا راز قوت شبیر میں مضمر ہے اور باطل کے مقدر میں حسرت و ناکامی و موت ہے۔

مختصر یہ ہے کہ حق و باطل کی ہر معرکہ آرائی میں مومنانہ کردار ہونا چاہیے ،جیسے کہ نواسہ رسول ﷺ نے وقت کے جابر حکمراں کے آگے ڈٹ گے ۔

! لہذا ہمیں بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ بن علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی زندگی سے درس حاصل کرنا چاہیے !

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اسلاف کی مومنانہ زندگی کو احتیار کرنے اور مرتے دم تک قرآن و سنت و سلف صالحین امت پر کامل طریقہ سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور خلفائے راشدین و صحابہ کرام، اہل بیت اطہار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے بے ریا محبت و الفت ہمارے دلوں میں ڈال دے۔ آمین

مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی

فون نمر: 9849099228

mahafeez.islami@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *