امت مسلمہ کا مذہبی زوال ایک لمحہ فکریہ
امت مسلمہ کا مذہبی زوال ایک لمحہ فکریہ
از قلم : محمد افتخار حسین رضوی
عہد رواں کے مسلمانوں کا دین اسلام سے تعلق افسوس ناک حد تک کمزور ہوچکا ہے، بایں سبب مسلمانوں کے قلوب میں اللہ ورسول جل و علا و صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، دین اسلام کی عظمت اور اسلامی تعلیمات کی اہمیت پہلے جیسی نہیں رہی۔
دنیا میں بظاہر مسلمانوں کی مجموعی تعداد بہت زیادہ ہے، مگر نام نہاد مسلمانوں کی اکثریت زیادہ ہے، جو اسلامی تعلیمات سے دور ہیں، جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں، دنیا کمانے میں اور زندگی کا آرام و سکون حاصل کرنے میں مشغول ہیں،
جو مسلمان تعلیم سے منسلک ہیں،وہ بھی دو مختلف جماعت اور گروہ میں منقسم ہیں، ایک کا تعلق صرف دنیاوی تعلیم سے ہے جبکہ دوسرے کا تعلق صرف دینی علوم و فنون سے ہے۔ مگر اکثریت دنیاوی تعلیم سے وابستہ مسلمانوں کی ہے۔ جبکہ سچر کمیٹی کے سروے کے مطابق صرف 4% فی صد مسلمان طلبہ ہی مدارس کا رخ کرتے ہیں۔ باقی مسلمان صرف رسمی طور پر اسلامی تعلیم حاصل کرتے ہیں، جو قرآن کریم ناظرہ اور تھوڑی بہت اردو یا کوئی بھی علاقائی مادری زبان تک محدود ہوتی ہے۔
مسلمانوں کی روز مرہ کی زندگی، انکے اعمال و کردار، اور شکل وصورت کو اگر دینی و مذھبی تناظر میں دیکھا جائے تو دور دور تک ان میں دینی تعلیمات اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے اثرات نظر نہیں آتے، جہلا تو جہلا اکثر و بیشتر عصری تعلیم یافتہ مسلمان بھی دین اسلام کی بنیادی ضروریات دین سے واقف نہیں، ٹھیک سے قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرسکتے، عقائد مضبوط نہیں ہوتے۔
میرا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ بہت سے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ لا علمی اور غیر اسلامی ماحول میں رہنے کے سبب گمراہی کی باتیں کرتے ہیں، ایمان وعقائد اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ بڑی آسانی سے یہ لوگ ایمان اور اسلام مخالف خیالات کا اظہار کردیتے ہیں۔
اور بعض نام نہاد مسلم دانشور اسلام پر ہی بےجا اعتراضات کرنے لگتے ہیں۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مسلمان بظاہر مہذب اور شریف ہوتے ہیں مگر حقیقی اسلامی افکار و نظریات سے محروم ہوتے ہیں، سیکولر ازم کے علمبردار نظر آتے ہیں، جبکہ بےشمار ایسے لوگ ہیں جو اسلام سے سچی محبت رکھتے ہیں، حقیقی اسلامی تعلیمات و نظریات پر یقین کامل رکھتے ہیں، مگر اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے، شب وروز گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں،
مسلمانوں کی اسلامی تعلیم وتربیت سے دوری کے اسباب مسلمانوں کی اسلامی تعلیم وتربیت سے دوری کے بےشمار اسباب ہیں ،اور یہ دوری یکایک اور مختصر وقت میں نہیں ہوئی ہے، بلکہ مسلمانوں کا مذہبی زوال کا تشویشناک اور افسوسناک سلسلہ سینکڑوں سال پر محیط ہے، اگر اسلام کے پورے عہد کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جائے تو ہر آنے والا دور گذشتہ دور سے زیادہ زوال پذیر نظر آئیگا گویا آنے والے ہر عہد میں مسلمانوں کی دین اسلام سے وابستگی اور تعلقات کا گراف گھٹتا گیا ہے۔ یہاں تک کہ آج ہم جس دور پرفتن عہد فساد میں سانس لے رہے ہیں، وہ کامل طور پر اسلامی تاریخ میں سب سے بدترین دور ہے۔ جہاں اکثر و بیشتر مسلمانوں کا دین اسلام سے معمولی رشتہ رہ گیا ہے، اسلامی تعلیمات پر برائے نام عمل رہ گیا ہے، ہمارا اکثر اوقات فکر دنیا میں صرف ہوجاتے ہیں، دنیاوی ترقی، تکمیلِ ضروریات و خواہشات، عیش و عشرت، نام و نمود، غرور و تکبر،اور اپنے انا کی تسکین کے لئے بڑے سے بڑا گناہ کرنا معمولی بات بن گئی ہے، کفار و مشرکین کی ترقی سے مرعوب ہو کر مسلمان بھی انکے نقش قدم پر چلنے لگے ہیں۔
اسلامی دور حکومت میں مسلمانوں کا عروج دیکھ کر اہل یورپ حیران تھے اور مسلمانوں کی طرف رشک بھری نظروں سے دیکھتے تھے، مگر وقت کا یہ کیسا المیہ ہے کہ نیرنگ زمانہ سے آج کا مسلمان یورپ کی اندھی تقلید پر فخر کررہا ہے، نام نہاد مسلمانوں کا ہائی پروفائل، مارڈن طبقہ مکمل طور پر اسلامی طرزِ زندگی اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے لبادے کو اتار کر مکمل طور پر انگریزی اور غیر اسلامی طرزِ زندگی اور کلچر کو اپنا چکا ہے، الغرض نیچے سے اوپر تک ہر طبقہ برائیوں کے دریا میں غرق ہے،
تاریخ اسلام کا جب عمیق مطالعہ کیا جاتا ہے تو یہ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ جب تک مسلمانوں کی متحدہ اسلامی ریاست اور مملکت قائم رہی، حکومت کے زیر انتظام و انصرام شریعت مطہرہ کے قوانین نافذ رہے، اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت ہوتی رہی، مسلمانوں کی اصلاح ہوتی رہی، حکومت مساجد ومدارس، علمائے کرام اور مبلغین اسلام کی کفالت کرتی رہی تب تک مسلمان زیادہ سے زیادہ دین پر قائم رہے
مگر جب سے سلطنت اسلامیہ کا اتحاد پارہ پارہ ہوا، مسلمانوں کا سیاسی اتحاد واتفاق زوال کا شکار ہوا، مسلمان فاتح سے مفتوح بن گئے، پوری دنیا کے مسلمان یہودیوں اور نصرانیوں کے ظلم وتشدد کے شکار ہوئے تو مسلمان زندگی کے ہر میدان میں زوال کے شکار ہوگئے، پوری دنیا میں سیاسی اور اقتصادی طور پر اہل یورپ کو غلبہ حاصل ہوا تو پوری دنیا کے مسلمان ان کی تہذیب و ثقافت سے متاثر ہوئے، بلکہ حالات زمانہ سے مجبور ہو کر مسلمانوں نے غیروں کی تہذیب اپنا لیا، یہود ونصاریٰ اور دیگر کفار و مشرکین کی دلی منشا اور خفیہ پلاننگ بھی یہی تھی کہ مسلمانوں کی اسلامی شناخت کو ختم کر دیا جائے۔ مسلمانوں کے دلوں سے عشق خدا و رسول جل و علا و صلی اللہ علیہ وسلم کو، اسلام سے جذباتی وابستگی کو، جذبہ جہاد کو نکال دیا جائے، چنانچہ اسلام کے دشمن اپنے اس خطرناک مشن میں پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں۔
حالانکہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اسلام اور مسلمانوں کی دفاع میں دشمنان اسلام سے ہمیشہ برسرپیکار رہا اور ہر حال میں اپنی قیمتی زندگیوں کو قربان کرکے اسلام کی پاسبانی کا فریضہ انجام دیا، مگر دشمنان اسلام کی یلغار اتنی خطرناک تھی کہ اس کی زد میں آکر بےشمار مسلمان خش و خاشاک کی طرح بہ گئے اور اپنے ایمان وعقائد سے ہاتھ دھو بیٹھے، دوسری جانب مسلمان بڑی تیزی کے ساتھ اسلامی تعلیمات سے دور ہونے لگے۔
مغلیہ سلطنت میں بر صغیر کے اندر مدارس و مساجد کا جال بچھا ہوا تھا جنکی سرپرستی مغل حکمران فرماتے تھے، علماء، ائمہ، معلمین و مدرسین کے لئے وظائف و تنخواہیں متعین تھیں، اس لئے سب بےفکر ہوکر اشاعت علم اور تبلیغ دین میں مسلسل مصروف تھے۔
مگر امتداد زمانہ، سیاسی و سماجی تبدیلیوں، اور آخری دور کے مغل حکمرانوں کی غفلت، نااہلی، اور عیش و عشرت کے سبب رفتہ رفتہ مغلیہ سلطنت زوال کا ہوتا گیا، یہاں تک کہ انگریزوں کی عیاری و مکاری، دھوکہ و فریب سے پر سیاسی سازشوں کی زد میں آ کر مغلیہ حکومت کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا، اور ہند پر انگریزوں کا ظالمانہ و جابرانہ تسلط قائم ہوگیا، جنہوں نے اپنے ناپاک منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے بطور خاص مسلمانوں کو اور مدارس و مساجد کو تشدد اور نفرت کا نشانہ بنایا، مسلمانوں کو سیاسی و سماجی، تعلیمی و ثقافتی، دینی و مذھبی اور معاشی و اقتصادی طورپر بے دست و پا کر کے تباہی و بربادی سے ہم کنار کردیا، جسکی بھرپائی اور بازیابی کے لئے مسلمان آزادی ہند کے بعد مسلسل مصروف عمل ہیں، مگر حالات کا دھارا اور رخ موڑنے میں کامیاب نہ ہوسکے، اب عہد حاضر مسلمان جس درد و کرب سے گزر رہے ہیں یہ ہم سب پر ظاہر و عیاں ہے۔
آج مسلمان اپنے ہی وطن میں دین و مذہب، جان و مال، عزت و آبرو، تہذیب و ثقافت، آئینی حقوق اور مدارس و مساجد کی حفاظت کی خاطر جس کسمپرسی اور بےبسی کے عالم میں، خوف و ہراس اور نفرت کے ماحول میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، جو بہت ہی ناقابلِ برداشت ہے
مگر اس کے باجود مسلمانوں کی بیغیرتی، بےحسی، غفلت ولاپرواہی، سستی و کاہلی، خانہ جنگی، باہمی اختلافات بہت ہی حیرت انگیز اور تعجب خیز ہیں، جبکہ اب بھی اگر مسلمان ماضی کے حالات سے سبق حاصل کریں اور دشمنوں کا مقابلہ کرنے اور اپنی خامیاں، خرابیاں اور کمزوریاں دور کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں
اور قوم مسلم کی ہمہ جہت تعمیر وترقی کے لئے قربانیاں پیش کرنے کے لئے دل سے تیار ہوجائے تو امید قوی ہے کہ مسلمانوں کے حالات بدل جائیں گے۔ مگر افسوس دود دور تک اس کے آثار نظر نواز نہیں ہو رہے ہیں۔
محمد افتخار حسین رضوی
مدیر: اردو دنیا ( ویب پورٹل)
9546756137
ماہِ ربیع الاول شریف کی آمد، اس کی بہاریں، اس کے تقاضے اور مسلمانوں کی ذمے داریاں
پاکستان حکومت کا پیدل سفر حج پر جا رہے شہاب چتر کو ویزا دینے سے انکار کرنا شرم ناک
شرپسند عناصر کا ظلم وتشدد اور مسلمانوں کی پریشانیاں