کوئی کسی سے کم نہیں ہے
کوئی کسی سے کم نہیں ہے
مرکزی سطح کی بڑی دونوں پارٹیوں یعنی بی جے پی اور کانگریس نے مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے
. بی جے پی مسلمانوں کو جو نقصان پہنچارہی ہے وہ زمانہِ حال میں ہونے کی وجہ سے سب کو بخوبی معلوم اور یاد ہے.
اسی طرح کانگریس کے ذریعے جو بڑے نقصانات مسلمانوں کو ماضی میں پہنچے ہیں وہ بھی واضح ہیں اگرچہ زمانہِ ماضی میں ہونے اور اس پر زمانہِ حال کے غالب ہونے کی بناء پر صرف باشعور اور حافظے والوں کو ہی مستحضر ہیں. یہ فطری اصول ہے کہ حال کے درد کو ہی انسان عموماً یاد رکھتا ہے،
اس سے متأثر ہوتا ہے اور منصوبے بناتا ہے اور ماضی کے درد کو بھول جاتا ہے مگر عقلمند شخص ماضی کے درد کو بھی یاد رکھتا ہے، اس سے بھی بچنے کی تدبیر اختیار کرتا ہے اور آگے کی حکمتِ عملی بناتے وقت ماضی کو فراموش نہیں کرتا ہے. عقلمند اور بے عقل میں یہ بہت بڑا فرق ہے کہ اول الذکر ماضی سے بھی سبق حاصل کرتا ہے مگر ثانی الذکر سخت خوف یا جذباتیت یا کسی اور وجہ سے ماضی کو بھول کر صرف حال کو یاد رکھتا ہے.
اس بات کا کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ کانگریس جب بھی single party کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے یعنی بہت مضبوط ہوکر حکومت کی ہے تب تب اس نے مسلمانوں کو شدید نقصانات پہنچائے ہیں خواہ وہ بڑے مسلم کُش فسادات کی شکل میں ہو، بابری مسجد کی شہادت ومتعلقات کی شکل میں ہو، مسلمانوں کو دلت رزرویشن سے محروم کرنے کی شکل میں ہو عرصہِ دراز سے جاری اردو زبان کی جگہ پر ہندی کو منتخب کرنے کے اعتبار سے ہو یا دوسری شکلوں میں ہو.
ذرا اور پیچھے جائیں یعنی تقسیم کے وقت تو اس وقت بھی یہ چیز واضح نظر آئے گی اور تقسیم کے وقت جب کانگریس مسلمانوں کی شمولیت کی وجہ سے مضبوط ہوگئی تھی کانگریس نے اپنے اتحادی وحامی مسلم قائدین سے رضامندی لیئے بغیر چپکے سے تقسیم کے ڈرافٹ پر دستخط کرکے مسلمانوں کی قوت کو تین حصوں میں تقسیم کردیا.
لہذا ان تجربات سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ کانگریس کا اس حد تک مضبوط ہونا کہ وہ تنہا حکومت بناسکے سخت مضر ہے. البتہ اس بات کی کوشش ضرور ہونی چاہیے کہ کانگریس کی تنہا نہیں بلکہ مخلوط حکومت بنے اور اس اتحاد میں مسلم قیادت والی سیاسی پارٹیوں کو بھی شامل کیا جائے کیونکہ اس کے مقابلے میں جو دوسری بڑی سیاسی طاقت ہے وہ اس سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے اگرچہ وہ کانگریس کی غلط پالیسیوں کی ہی اپنی پیداوار ہے.
یہ بات حقیقت ہے کہ جب تک مسلمان اقتدار میں حصہ دار اور اتحادی نہیں ہوگا اس پر مظالم کم نہ ہونگے خواہ پارٹی کوئی بھی ہو اور یہ بات گزشتہ زائد از 70 سالوں کے پیہم تجربات سے ثابت ہوچکی ہے. ماضی میں ہزاروں فسادات میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل اور ان کی بربادی اور مجرمین کو سزا نہ ملنا اس بات کو چیخ چیخ کر بتارہے ہیں. موجودہ پیچیدہ صورتحال میں سخت غوروفکر کی ضرورت ہے.
معزز علماے اہل سنت سے مودبانہ گزارش
مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی
ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضلِ حق خیرآبادی
جنگ آزادی 1857ء کا روشن باب : قائد انقلاب علامہ فضل حق خیرآبادی
جنگ آزادی میں علماے کرام کی سرگرمیاں
جنگ آزادی میں مسلمانوں کی حصہ داری
مجاہد انقلاب حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمہ
جو چیز بھی کسی خاص طاری ماحول کی وجہ سے بظاہر اچھی نظر آنے لگے ہمیں اس کے پیچھے بھاگنے اور اس کے سیلاب میں بہنے کی بجائے ٹھہر کر اس کے عواقب پر باریکی سے غور کرنا چاہیے اور اگر وہ چیز حالات اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں غوروفکر کرنے کے بعد غلط نظر آئے تو اس کی تائید سے اجتناب کرنا چاہیے. جب حالات خراب ہوتے ہیں تو عموماً سوچنے سمجھنے اور باریکی سے غوروفکر کی صلاحیت عموماً متأثر ہوجاتی ہے اور پھر اس کا دور رس نقصان ہوتا ہے اور یہ دلدل کی شکل اختیار کرلیتا ہے.
میں نے حالات اور تعلیماتِ اسلامی کی روشنی میں بار بار جو غوروفکر کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ مسلم قیادت والی سیاسی پارٹیوں مثلاً مولانا بدر الدین اجمل صاحب کی AIUDF اور اویسی صاحب کی AIMIM کو قتل کرنے کی بجائے انہیں حتی الامکان مضبوط کرنا چاہیے اور اس کی تدبیر اختیار کرنی چاہیے کہ اس کا اتحاد اکثریتی طبقے کے اہون البلیتین سیاسی پارٹی/اتحاد سے ہو تاکہ مسلمان اقتدار میں حصہ دار بن سکے.
اکثریتی طبقے کے سیاسی اتحاد کے ساتھ مسلم قیادت والی پارٹیوں کا اتحاد بغیر پریشر بہت مشکل اور تقریباً ناممکن ہے اور یہ پریشر مسلم ووٹرز کے ہاتھ میں ہے. ایسے اتحاد کے خلاف بالخصوص کانگریس سرگرم ہے کیونکہ وہ اقتدار میں مسلمانوں کی حصہ داری کی سخت مخالف ہے اور یہ اس کے سخت تعصب کی وجہ سے ہے. جو کام مولانا بدر الدین صاحب اور اویسی صاحب کررہے ہیں وہ مسلمانوں پر مخفی نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے حلقوں کے مسلم ووٹرز انہیں مسلسل ووٹ دیکر ممبرِ پارلیامنٹ بنا رہے ہیں. آج بھی پارلیامنٹ میں مولانا اور اویسی کی جو تقریریں ہوئیں وہ بہت اہم تھیں. انہیں نظر انداز صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس کی عقل پر پردہ پڑ گیا ہو.
مسلمانوں کو یہ حقیقت ذہن نشیں رکھنی چاہیے کہ قرآن کی ہدایت کے مطابق ایک مسلمان غیر مسلم سے بہتر ہے چنانچہ کہا گیا ولأمة مؤمنة خير من مشركة ولو أعجبتكم یعنی مسلمان عورت مشرکہ سے بہتر ہے چاہے وہ مشرک تمہیں اچھی لگے. اس اچھے لگنے میں اخلاق اور شکل وصورت وغیرہ سب کچھ شامل ہیں.
یہود ومشرکین کی اقلیت کے اچھی اور غیر متعصب ہونے کی نفی نہیں کی جاسکتی ہے اور بہتیرے یہود ومشرکین مسلمانوں کے تئیں تعصب یا عداوت نہیں رکھتے ہیں مگر قرآنی تعلیم کے بموجب یہود ومشرکین کی اکثریت مسلمانوں کے تئیں متعصب ہے اور عداوت میں مبتلا ہے چنانچہ بہت تاکیدی صیغے کے ساتھ ان کے بارے میں عمومی پیرایہِ بیان میں فرمایا گیا لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا..
اگر اکثریت کی اکثریت اقلیت پر بوجہ اقلیت ہونے ظلم کے وقت باوجود استطاعت روک نہیں رہی ہے اور تماشائی بنی ہوئی ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ اکثریت اس سے راضی ہے اور متعصب ہے. اگر یہ حقائق اور ہدایات سامنے رہیں اور حالات بھی پیشِ نظر رہیں تو مسلمان بہتر حل کی طرف آگے بڑھ سکتے ہیں اور اگر مسلمان باریکی سے غور کیئے بغیر خوف کی نفسیات سے مغلوب ہوکر بظاہر اچھی نظر آنے والی چیز کی طرف بھاگینگے اور مسلم قیادت والی سیاسی پارٹیوں کی بیخ کنی میں مصروف ہونے کی بھیانک غلطی کرینگے تو اس کے بھیانک انجام ہونگے.
اللہ تعالی تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے اور دین پر ثابت قدم رہنے کی توفیق دے!