کبھی سیدھا کبھی پٹری سے اتر جاتا ہے
کبھی سیدھا کبھی پٹری سے اتر جاتا ہے ! تحریر: جاوید اختر بھارتی
اکثر و بیشتر یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ سیدھے سے رہو، سیدھی بات کرو، بہت سیدھا شخص ہے، کتنا سیدھا ہے مطلب لفظ سیدھا انتہائی اہم ہے اس سے بہت کچھ واضح ہوتا ہے نیکی، شرافت، خوش مزاجی، اخلاص، وفاداری، محبت، عقیدت، احترام، بلند اخلاق ان ساری خصوصیات سے سجاوٹ کی گئی ہے لفظ سیدھا کی،، تبھی تو کوئی ہاتھ سے لولا، پاؤں سے لنگڑا، آنکھ سے نابینا بھی ہو پھر بھی نیک ہے لوگوں کی عزت کرتا ہے اور گالی گلوج و بدزبانی سے پرہیز کرتا ہے تو لوگ اسے بھی کہتے ہیں کہ بہت اچھا اور سیدھا آدمی ہے حالاں کہ بظاہر وہ لولا اور لنگڑا ہے
لیکن اسے سیدھا تصور کیا جاتا ہے اور مانا جاتا ہے اور کہا بھی جاتا ہے تو معلوم یہ ہوا کہ لفظ سیدھا کا تعلق ظاہر سے نہیں بلکہ باطن سے ہے، تہذیب و تمدن سے ہے ۔ اسی طرح راستے کو بھی کہا جاتا ہے کہ بڑا سیدھا راستہ ہے یہاں تک کہ ایک منزل سے دوسری منزل تک پہنچنے کے لیے جگہ جگہ سواریاں بدلنی پڑتی ہیں مگر سواریاں ملنے میں کوئی دشواری نہیں ہے تو اسے بھی کہا جاتا ہے کہ ارے بڑا آسان اور سیدھا راستہ ہے،، اور راستہ سچ میں بالکل سیدھا ہے مگر پورے دن میں ایک ہی دو سواری ملتی ہوتو اسے یہی کہاجاتا ہے کہ بڑا مشکل اور بڑا ٹیڑھا راستہ ہے
حالاں کہ بظاہر ایک بھی موڑ نہیں ہے بالکل سیدھا ہے تو یہاں بھی واضح ہوگیا کہ ہر مقام پر ظاہری اعتبار سے سیدھی چیز کو سیدھی نہیں مانی جاتی بلکہ اس کی کیفیات اور خصوصیات کی بنیاد پر سیدھا اور ٹیڑھا مانا جاتا ہے تبھی تو شراب کے نشے میں ایک شخص لڑکھڑاتے ہوئے چلتا ہے کسی موڑ پر پہنچ کر گرجاتا ہے، کسی نالی کے پاس پہنچ کر کبھی قدم آگے بڑھاتا ہے تو کبھی پیچھے کھینچتا ہے
مگر کوئی اسے راستہ بتانے والا نہیں ، نالی اور سڑک پار کرانے والا نہیں مگر ایک ایسا شخص بھی آتا ہے جس کی آنکھوں میں روشنی نہیں ہے اور ہاتھ میں لاٹھی ہے چلتے چلتے موڑ آگیا، یا نالی پڑگئی وہ شخص اپنے ہاتھ کی لاٹھی سے دائیں بائیں آزماتا ہے کہ راستہ بہتر ہے کہ نہیں اتنے میں کسی کی نظر پڑتی ہے تو وہ جلدی سے اس نابینا کے پاس پہنچتا ہے اور اپنے ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑتا ہے اور نالی پار کراتا ہے یا روڈ کراس کراتا ہے دونوں کے راستے ایک تھے مگر نوعیت مختلف تھی یہ دنیا ہے ہزاروں رنگ بدلتی ہے اور دنیا میں بسنے والے لوگ بھی ہزاروں رنگ بدلتے ہیں
انسان تو سب ہیں لیکن مقام الگ الگ، جینے کا طریقہ تو سب کو ایک جیسا بتایاگیا ہے لیکن لوگوں کے جینے کا طریقہ الگ الگ،، ایک وہ بھی شخص ہے جو کہتا ہے کہ یہ کیا کہ تم تو ہوش میں ہو میں نشے میں ہوں، پی کر شراب تم بھی کہو میں نشے میں ہوں، جو ہوش میں ہوں ان سے کرو عاقبت کی بات، مجھ سے نشے کی بات کرو میں نشے میں ہوں،، جب کہ دوسرا شخص کہتا ہے کہ ہوش میں آ نشے میں جھوم نہ تو، ارے میکدے کو منہ سے چوم نہ تو، شرم کر شرم اے ابن آدم، دیکھ ابلیس بن کے گھوم نہ تو،،
یہ بری چیز ہے پینا بھی برا ہے اس کا، ہے جو انسان کا دشمن وہ نشہ ہے اس کا، ہر برائی کی طرف دھیان چلا جاتا ہے، جس کو پیتے وقت ایمان چلا جاتا ہے، یہ تو داناؤں کو نادان بنا دیتی ہے، یعنی انسان کو شیطان بنا دیتی ہے، پی کے بدمست ہے کیا تیری ادا ہے پیارے، جان کر پی ہے یہ سب تیری خطا ہے پیارے، تو نے انگور کی بیٹی کا اسے نام دیا، اور بے فائدہ انگور کو بدنام کیا، تو نہ پیتا نہ یہ بہکی ہوئی باتیں کرتا، ہوش ہوتا تو تو قہر خدا سے ڈرتا، لڑکھڑا تا ہوا نشے میں کدھر جاتا ہے، ارے کبھی سیدھا کبھی پٹری سے اتر جاتا ہے
پینے والے یہ حقیقت ہے کہ نادان ہے تو، آج سے چھوڑدے پینا جو مسلمان ہے تو،، جب اس کے کانوں میں یہ آواز گئی تو اسے کچھ غیرت آئی اور وہ کچھ سوچنے پر مجبور ہوا پھر اس کے دل نے کہا کہ تجھے جینا ہے تو جی سارے زمانے کے لیے، زندگی تیری نہیں پینے پلانے کے لیے،، ہاتھ اللہ نے بخشے ہیں سخاوت کے لیے، پاؤں بخشا ہے تجھے راہ صداقت کے لیے، دل دیا ہے تجھے ایمان کی دولت کے لیے، اپنے محبوب کی اور اپنی محبت کے لیے،،
تجھ کو اس پر بھی خیال دل معصوم نہیں،، قوم دم توڑ رہی ہے تجھے معلوم نہیں،، اب اس کے دل کی دنیا بدلنی شروع ہوئی غیرت ایمانی جوش سے بھڑکنا شروع ہوئی دل سے توبہ کرنے کا ارادہ کیا اور مسجد کی طرف چل دیا۔ مسجد میں پہنچتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ مسجد خالی ہے وضو بناتا ہے اور اس کے بعد ایک کونے میں بیٹھتا ہے آنکھوں سے آنسو بہاتا ہے گناہوں سے توبہ کرتا ہے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی ہے کہ لوگوں کا مسجد میں آنا شروع ہوجاتا ہے
اس شخص پر لوگوں کی نظر پڑتی ہے جو ابھی کچھ دیر قبل نشے میں جھوم رہا تھا لوگوں نے اسے دھکے مارکر مسجد سے باہر کردیا دیکھتے ہی دیکھتے بھیڑ لگ گئی جو آتا ہے وہ طعنہ مارتا ہے کہ یہ شرابی ہے اس کو مسجد میں داخل نہ ہونے دیا جائے وہ اپنی آنکھوں سے آنسو برساتے ہوئے بھیڑ میں چکر لگاتا ہے ایک دکاندار کا گریبان پکڑتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا تونے ناپ تول میں کمی کرنے کی عادت چھوڑ دی؟
اگر نہیں تو پھر تمہیں مجھ پر انگلی اٹھانے کا اور مسجد میں داخل ہونے سے روکنے کا حق کس نے دیا؟ پھر آگے بڑھ کر ایک آفیسر کا گریبان پکڑتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا تم نے رشوت لینے سے توبہ کرلی ہے؟
پھر ایک تاجر کا گریبان پکڑ کر پوچھتا ہے کہ کیا تم نے تجارت میں دھوکہ دینے سے توبہ کرلیا؟ سب کی نگاہیں نیچی سب کے ہوش اڑے ہوئے آج اس کے ذہن میں یہ خیالات و سوالات کیسے آئے بالکل سناٹا چھایا ہوا ہے ہر طرف خاموشی ہے
اب وہ شخص خاموشیوں کو چیرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے بھیڑ لگاکر تماشہ دیکھنے والوں سنو یقیناً میں شراب پیاکرتاتھا لیکن آج ہی ایک شخص کے ذریعے نصیحت سن کر میرا دل خوف خدا سے لرز گیا اور میں نے گناہوں سے توبہ کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا اور آج مسجد میں آکر میں اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوکر سربسجود ہوا اور گناہوں کی معافی مانگ رہا تھا مجھے بڑا سکون حاصل ہورہا تھا مگر آپ لوگوں نے مجھ سے نفرت کا اظہار کیا اور مجھے مسجد سے باہر کیا لیکن افسوس صد افسوس آپ لوگ اپنا محاسبہ کرنے کے لیے تیار نہیں ناپ تول میں کمی آپ کرتے ہیں، تجارت میں دھوکا آپ دیتے ہیں اور رشوت آپ لیتے ہیں
آج تک آپ لوگوں نے توبہ کا ارادہ نہیں کیا،، کیا اب بھی آپ لوگ مجھے مسجد میں جانے سے روکیں گے؟
کم از کم اتنا تو سوچا ہوتا کہ اللہ نے گناہوں کو معاف کرنے کا وعدہ کیا ہے توبہ قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے یہاں تک کہ بندہ ایک دن شراب پیتا ہے اور جب نشہ اترتا ہے تو گناہوں کی معافی مانگتا ہے تو اللہ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے کہ دیکھو میرا بندہ بہک گیا تھا مگر جب خیال آیا تو مجھ سے معافی مانگ رہا ہے اے فرشتوں اس کا گناہ نہ لکھنا،،
بندہ دوسرے دن پھر شراب پیتا ہے اور جب نشہ اترتا ہے تو اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے اللہ کہتا ہے کہ اے فرشتوں دیکھو میرا بندہ آج پھر مجھ سے معافی مانگ رہا ہے اپنے کئے پر شرمندہ ہے توبہ کررہا ہے آج پھر میں اسے معاف کررہا ہوں،، ابب بندہ تیسرے دن بھی شراب پیتا ہے اور جب نشہ اترتا ہے تو پھر روتا اور گڑگڑاتا ہے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے تب پروردگار کہتا ہے کہ اے فرشتوں میرا بندہ مجھ سے مذاق کررہا ہے اب اس کے گناہ معاف نہیں کئے جائیں گے اب رجسٹر میں اس کا گناہ لکھ دیا جائے ،،
تو جب رب ذوالجلال اتنی مہلت دیتا ہے اور اتنا مہربان ہے تو آپ لوگ توبہ کے راستے میں کیوں رخنہ اندازی کررہے ہیں ارے ہوسکے تو آپ لوگ بھی تجارت میں دھوکا دہی سے، ناپ تول میں کمی سے اور رشوت خوری سے توبہ کریں اور اللہ کے نیک بندے بنیں اسی میں بھلائی ہے اور اسی میں کام یابی ہے۔
جاوید اختر بھارتی
سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
Pingback: مسلمانوں کی پسماندگی کا ذمہ دار کون ⋆ اردو دنیا جاوید اختر بھارتی
Pingback: معزز علماے اہل سنت سے مودبانہ گزارش ⋆ اردو دنیا قمرالزماں خاں اعظمی مصباحی