جنگ آزادی میں مسلمانوں کی حصہ داری
جنگ آزادی میں مسلمانوں کی حصہ داری !
از۔۔۔۔۔۔۔ محمدمحفوظ قادری
مکرمی!مذہب اسلام فطری دین ہے اور آزادی کے ساتھ زندگی گزارنا بھی انسان کا فطری وبنیادی حق ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے انسان غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے ایک دوسرے پر ظلم وستم کا سلسلہ جاری تھا کوئی کسی کا پرسان حال نہیں تھا۔
پوری انسانیت دو گروہوں میں تقسیم ہوچکی تھی،کچھ لوگ وہ تھے کہ جن کے پاس زندگی گزارنے کے تمام وسائل موجود تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اقتدار میں رہنا اور زندگی گزارنے کے وسائل کا میسر ہونا ان کا پیدائشی حق ہے ۔دوسرے طرف وہ لوگ جومحکومیت کی زندگی گزاررہے تھے یہ لوگ تعداد میں اگر چہ زیادہ تھے مگر حالات کی کمزوری نے ان کو ذہنی طور پر غلام بنا رکھا تھا
ان کو نہ مذہبی آزادی میسر تھی اور اور نہ کسب معاش کا ان کو حق تھا اور نہ ان کو مالکانہ حقوق حاصل تھے جس سے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکیں ،دیکھنے میں یہ انسان تھے مگر انسان ہونے کی وجہ سے ان کا جو احترام ہونا چاہئے تھا اس سے یہ طبقہ محروم تھا۔مگر اللہ رب العزت نے عالم انسانیت پررحم فرمایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایاجوتمام جہانوں کے لیے تو رحمت بن کر آئے ہی
مگر ساتھ ہی تمام انسانوں کیلئے ایک مکمل دین کے ساتھ نظام سیاست اورمکمل نظام زندگی لیکر بھی جلوہ گر ہوئے جس کے ذریعہ انسانوں کو ان کا حق حاصل ہو سکے اور محکومیت کی زندگی گزارنے والے بھی آزاد زندگی گزار سکیں ۔
اسی روایت کا امین ہمارا وطن عزیز ملک ہندوستان تھا کہ ہر انسان کویہاں آزادی کے ساتھ زندگی گزار نے کا حق حاصل تھا مذہبی اعتبار سے بھی اور کسب معاش کے اعتبار سے بھی ۔لیکن 24ستمبر1599ء میں لندن کے تاجروں نے آپس میں ملکر مشورہ کیا کہ اپنے کاروبار کو بڑہانے کے لیے مشرقی ممالک میں بھی تجارت شروع کرنی چاہیے اسی مقصد کو پوارا کرنے کے لیے ان تاجروں نے ’’ایسٹ انڈیا ‘‘کمپنی قائم کی۔
اس کمپنی میں دوسوسے زائد امراء اور تاجر شریک تھے ۔سترہویں صدی کے شروع میں کمپنی کی طرف سے انگریز تاجر ہندوستان بھیجے گئے اور 1612ء میں انہوں نے سورت(مغربی ساحل)میں کاروبار شروع کیا ،اور یہاں کے حکمرانوں نے کیسی کیسی رعایات اور احسانات اُن کے ساتھ کئے کہ بعد میں یہ سب کچھ یہاں کے حکمرانوں کیلئے جان وبال بنا اور دوسروں کے ساتھ خیر اندیشی اپنے لیے ناعاقبت ثابت ہوئی
اور تاریخ ہند کی تین صدی کا یہ سب سے سیاہ باب ہے کہ بے جا اعتماد ی نے وطن عزیز کو اپنے ہاتھوں سے نکال دیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے بہانے انگریز ہندوستان آئے اور یہاں پر قابض ہوئے اور ہندوستانیوں کو اپنا غلام بنا لیا ۔
پُلاسی کی جنگ:
انگریزوں نے رفتہ رفتہ اپنا کاروبار بڑہانا شروع کیا لیکن اورنگزیب عالمگیر کی وفات 1707ء تک مغلیہ حکومت مضبوط ہونے کی وجہ سے انگریزوں کوکامیابی نہیں مل سکی ۔اورنگزیب کی وفات کے بعد جب دہلی جیسا مرکز کمزور پڑ گیا اور صوبوں میں طوائف ا لملوکی شروع ہوئی تو ایسٹ انڈیا کمپنی کو چاروں طرف پھیلنے کا موقع ملا
جس کا افسوس ناک سانحہ 1757ء میں پلاسی کے میدان میں دیکھنے کو ملا ،جب بنگال کے نواب’’ سراج الدولہ ‘‘کی فوجوں کو اپنوں کی سازش کا شکار ہوکر ایسٹ انڈیا کمپنی کی مٹھی بھر فوج سے شکست کاسامنا کرنا پڑا،اور نواب سراج الدولہ کے ساتھ غداری کرنے والا ’’میر جعفر ‘‘تھاجس نے انگریزوں کی چاپلوسی کرکے نواب کو شکست کا سامنا کرایا۔
اس سانحہ سے نواب سراج الدولہ سمجھ گئے کہ انگریز اس ملک پر قابض ہونا چاہتے ہیں اس لئے سب سے پہلا علم بغاوت ا نگیریزوں کے خلاف سراج الدولہ نے بلند کیا اور آپ سب سے پہلے مجاہد آزادی کہلائے۔
بکسر کی لڑائی:
بکسر کے مقام پر22اکتوبر1764ء کوانگریزوں سے زبر دست جنگ ہوئی اور مغل باد شاہ شاہ عالم اور اودھ شجاع الدولہ کو شکست ہوئی اور بنگال سے اودھ تک انگریز وں کی حکومت قائم ہو گئی ۔دوسرے نمبر پر انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے مرد مجاہد شیر میسور ٹیپوسلطان ہیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو سب سے زیادہ خطرہ ٹیپوسلطان سے ہی تھا اس لیے انگریزوں نے ٹیپوسلطان کو راستہ سے ہٹا نے کے لیے پوری کوشش شروع کی،۔
ٹیپوسلطان کے وزیرمیرصادق سے انگریزوں نے خفیہ طورپرہاتھ ملایا ،میر صادق نے میر جعفر کی راہ اختیار کرتے ہوئے ٹیپو سلطان کو 1799ء میں شہید کرا دیا ۔ٹیپوسلطان کی شہادت کے بعد برطانوی اثرات چاروں طرف کو بہت تیزی سے پھیلتے گئے اور اسی زمانے میں دینی مدارس بڑی تعداد میں تباہ و برباد کئے گئے اورایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی کی طرف قدم بڑہانے شروع کر دئے دہلی کی مغلیہ حکومت آخری سانسیں لے رہی تھی آخر کار 1803ء میں انگریزوں نے دہلی پر قبضہ کرلیا ۔
شاہ عبد العزیزمحدث دہلوی کا فتویٰ:
جب چاروں طرف انگریزوں کے اختیارات ہونے لگے ساتھ ہی مذہب اسلام کے تشخص کو مٹانے کی ناپاک کوششیں شروع ہوئیں تو ان نازک حالات میں دہلی میں انگریزوں کے خلاف ایک تحریک وجود میں آئی جس کے بانی وروح رواں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ تھے ۔آپ کی وفات کے بعد آپ کے فرزند وجانشین اعظم شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے اس تحریک کو آگے بڑھایا ۔
اور انگریزوں کے خلاف 1803ء میں ایک فتویٰ جاری کیا اور ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا اور یہ فتویٰ ہندوستان کی آزادی کا نقطئہ آغاز وسبب بنا اور اس فتویٰ کے اثرات جب ظاہر ہونا شروع ہوئے تو علما اور عوام کا غصہ انگریزوں کے خلاف پھوٹ پڑااور باقاعدہ انگریزوں کے خلاف تحریک شروع ہوگئی اور اس تحریک میں بہت سے علما شہید بھی ہوئے اور یہ تحریک انگریزوں کے خلاف اسی طرح آگے کوبڑہتی رہی
یہاں تک کہ 1857ء کا دور آگیا۔اور 1857ء میں شاہ ولی اللہؒ ،شاہ عبدالعزیزؒاور شاہ اسحاق محدث دہلوی اور ان کی جماعت کی محنت رنگ لائی اور اسی جماعت کے جوش وجذبے کو دیکھتے ہوئے انگریزوں کے خلاف ایک اور جماعت وجود میں آئی ۔
جس میں مفتی کفایت اللہ ،مولانا محمد علی جوہر ،مولانا شوکت علی ،مولانا ابوالکلام آزاد ،مولانا حسرت موہانی ،مولانا حسین احمد مدنی،مولانا امداداللہ مہاجر مکی ،مولانا فضل حق خیرآبادی اور ان کے علاوہ بے شمار علماء نے علاقوں کے دورے کئے عوام کو دینی شعور کے ساتھ بیدار کیا اور حکمت عملی کے ساتھ عوام کو انگریزوں سے مقابلہ کے لیے تیار بھی کیا اور ساتھ ہی بے شمار علما نے اپنی جانوں کی قربانیاں بھی پیش کیں وطن عزیز کے لیے ۔
الغرض اس مشن اور تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے برادران وطن مہاتما گاندھی اور دیگر ساتھیوں کوبھی ساتھ میں شریک کیاگیا،ان بزرگوں اور بے لوث مسلمانوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں 14-15اگست 1947ء کو درمیانی شب ہندوستان کی آزادی کا اعلان کیا گیا
اور وطن عزیزبرطانوی سامراج اور غلامی کی زنجیروں سے نکل کر آزاد ہوا اور 26جنوری 1950ء کو نئے دستور کے ساتھ ہندوستان کو جمہوری ملک قرار دے دیا گیا۔ افسوس! جن مقاصد کے تحت مجاہدین آزادی اور دیگر اسلاف نے آزادی حاصل کی تھی وہ مقصد فوت ہوگیا۔
از۔۔۔۔۔۔۔ محمدمحفوظ قادری
رام پور یو۔پی9759824259
Pingback: مدرسہ انوار القرآن جواہر نگر میں پرچم کشائی کا انعقاد ⋆ اردو دنیا محمد طاہر ندوی
Pingback: ۔76 واں یوم آزادی: دارالعلوم انوارمصطفیٰ میں شان دار جشن منایا گیا ⋆ باقر حسین قادری
Pingback: ہوڑ سے ہڑبونگ تک ⋆ اردو دنیا غلام مصطفےٰ نعیمی
Pingback: عالم کو بخشا گیا جب وجود جدید ⋆ اردو دنیا ⋆ عبداللہ فیض سنڈیلوی
Pingback: کھیل کود مسلم قوم اور اصلاح ⋆ اردو دنیا از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی
Pingback: امام بخاری مختصر سوانح حیات ⋆ اردو دنیا محمد توصیف رضا قادری علیمی
Pingback: شرپسند عناصر کا ظلم وتشدد اور مسلمانوں کی پریشانیاں محمد افتخار حسین رضوی
Pingback: صورت خورشید تاباں مارہرہ رہے ⋆ شاداب امجدی
Pingback: صداے درد دل ⋆ اردو دنیا افتخار حسین رضوی
Pingback: پاکستان حکومت کا پیدل سفر حج پر جا رہے شہاب چتر کو ویزا دینے سے انکار کرنا شرم ناک ⋆
Pingback: امت مسلمہ کا مذہبی زوال ایک لمحہ فکریہ ⋆ افتخار حسین رضوی
Pingback: حضور سیّدنا سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ اور صبر و استقلال ⋆ محمد مقتدر اشرف
Pingback: سلطان الاولیا سیدنا محی الدین عبد القادر جیلانی غوث اعظم دستگیر ⋆ محمد فداء المصطفے
Pingback: سرکار غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ ⋆ افتخار حسین
Pingback: قرآنی نغموں کے مترنم لہجوں سے گونجتی رہیں فضائیں ⋆
Pingback: تقریر و تحریر کی غیر معمولی اثر پذیری ⋆ محمد افتخار حسین رضوی
Pingback: کوئی کسی سے کم نہیں ہے ⋆ اردو دنیا
Pingback: حضرت امام ربانی کی حیات و خدمات ⋆ محمد محفوظ قادری
Pingback: ہندوستان کی آزادی مسلمانوں کا عظیم کردار ⋆ اردو دنیا
Pingback: مدرسہ محمدیہ سلفیہ ماری پور میں یوم آزادی پورے جوش و خروش سے منائی گئی ⋆
Pingback: مدسہ قاسمیہ بینی آباد میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ منائی گئی یوم آزادی ⋆
Pingback: ڈاکٹر منصور معصوم نے قومی نغموں کے مسابقتی پروگرام کا کیا انعقاد ⋆
Pingback: ملک میں نفرت کا ہے ماحول، مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیاں ہیں اسے دور کرنا ہے ضروری