امام بخاری مختصر سوانح حیات

Spread the love

امام بخاری  مختصر سوانح حیات امام بخاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے سابق ائمہ کی آرزو، اساتذہ کا فخر، اور ہم عصروں کے لیے سراپا رشک، آپ حدیث کے امام اور ایک ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔

محدثین نے آپ کو مرتبہ ومقام امام الدنيا، اميرالمومنين في الحديث، ناصرالاحادیث، سید المحدثین کے معزز القابات سے یاد کیا ہے اور سب نے آپ کے علم وفضل کو تسلیم کیا ہے۔ نیز امام احمد بن حنبل نے فرمایا۔ خراسان کی زمین میں بخاری جیسا کوئی پیدا نہ ہوا۔ اسحق بن راہویہ نے فرمایا۔

اگر امام بخاری حسن بصری کے زمانہ میں ہوتے تو حسن بصری حدیث وفقہ میں آپ کے محتاج ہوتے۔ امام ترمذی نے فرمایا: میں نے ایران و خراسان میں بخاری سے زیادہ حدیث کا ماہر کسی کو نہ پایا۔ امام مسلم نے فرمایا ۔ امام بخاری بے نظیر شخصیت ہیں۔

احمد بن حمدون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام مسلم امام بخاری کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے۔ بخاری مجھے اپنے قدم چومنے دو ۔۔ تم سید المحدثین ہو۔ امام محمدبن اسحق نے فرمایا کہ اس آسمان کے نیچے میں نے بخاری جیسا حافظ حدیث کسی کو نہ پایا۔۔۔۔۔غرضکہ ایک عالم نے امام بخاری کے علم وفضل ، ورع ، تقوی ، جودت ذہن و حفظ و ضبط ، ثقاہت و درایت کا اعتراف کیا ہے جس کی تفصیل کے لیے ایک دفتر درکار ہے ۔

ولادت و نام و نسب :

امام بخاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۱۳ شوال المکرم ۱۹۴ھ ماوراء النھر کے مشہور شہر بخارا میں پیدا ہوے۔ آپ کا اسم گرامی محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بردزبہ جعفی ہے بعد میں آپ نے اپنی کنیت ابوعبداللہ اختیار کی۔ آپ کے والد محترم اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ الجعفی عظیم محدث اور خدا ترس بزرگ تھے، یہ فخر امت میں کم ہی لوگوں کو حاصل ہوا ہے کہ باپ بھی محدث ہو اور بیٹا بھی محدث بلکہ سیدالمحدثین۔

خاندانی پس منظر :

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق اس خطے سے ہے جہاں آتش پرستی یعنی مجوسیت تھا اس لیے آپ کے آباؤ اجداد بھی اسی مذہب کے پیروکار تھے آپ کے اجداد میں سے مغیرہ بن بروز نے اسلام قبول کیا اس زمانے میں رواج یہ تھا کہ جب کوئی شخص کسی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتا تو خود کو اس شخص کے قبیلے سے منسوب کر لیتا تھا

جس وقت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے جد امجد نے اسلام قبول کیا اس وقت بخارا کا گورنر یمان جعفی نامی شخص تھا اور اسی کی نسبت کی وجہ سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کے افراد اپنے نام کے ساتھ جعفی کی نسبت استعمال کرتے تھے ۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے والد اسماعیل بن ابراہیم صاحب ثروت آدمی تھے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو حصول تعلیم کے دوران معاشی پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا اس کے علاوہ مورخین نے یہ بات نقل کی ہے کہ آپ کے والد علم حدیث میں بھی درک رکھتے تھے انہیں امام مالک عبداللہ بن مبارک اور حماد بن زید جیسے چوٹی کے ماہرین سے علم حدیث حاصل کرنے کا شرف حاصل تھا

بچین:

بچپن میں آپ کی بینائی رخصت ہوگئی آپ کے والدہ جو نہایت نیک خاتون تھیں انہوں نے بارگاہ رب العزت میں اپنے بیٹے کی بصارت کی واپسی کی دعا کی اور یہ ان کی دعا کی برکت تھی کہ انہیں خواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زیارت ہوئی

جنہوں نے اس نیک خاتون کو یہ خوش خبری دی کہ اب تمہارے بیٹے کی بینائی واپس آجائے گی اگلے دن جب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بیدار ہوے تو ان کی بینائی واپس آچکی تھی۔

تحصیل علم و علم حدیث:

۔۔۔٢١٠ھ میں امام بخاری کی عمر جب سولہ سال کی تھی ۔ اپنے بڑے بھائی احمدبن اسمعیل اور والدہ کے ہمراہ حج کو گیے۔ والدہ اور بھائی تو حج سے فارغ ہو کر وطن واپس ہو گئے مگر امام بخاری مکہ معظمہ رہ گئے۔

وہاں تحصیل علم وتصنیف وتالیف و علم دین کی نشر واشاعت میں مصروف رہے۔ نیز امام بخاری نے علم حدیث کی طلب کی خاطر پہلا سفر ۲۱۶ ھ میں مکہ مکرمہ کا کیا اگر آپ کے سفر کا سلسلہ قبل ازیں شروع ہو گیا ہوتا تو لا محالا آپ بھی طبقات عالیہ کے ان محدثین سے روایت حاصل کر لیتے

جن سے آپ کے ہم عصروں نے کی چونکہ آپ نے بھی طبقات عالیہ کے مقارب رواۃ مثلا یزید ابن ہارون اور ابوداؤدطیالسی کا زمانہ پالیا تھا۔ جن دنوں آپ نے مکہ مکرمہ کا سفر کی اس وقت امام عبدالرزاق باحیات تھے ، امام بخاری نے آپ سے روایت حدیث کے لیے یمن جانے کا ارادہ کیا

لیکن سوءاتفاق کسی نے امام کو غلط خبر دیتے ہوۓ کہا کہ امام عبدالرزاق کا انتقال ہو گیا یہ سن کر یمن جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور پھر ایک واسطہ کے ساتھ امام عبدالرزاق سے حدیث روایت کرنے لگے۔ امام بخاری نے علم حدیث کی طلب کے لیے دور دراز کا سفر کیا جیسے مرو، بلخ ، برات ، نیشاپور ، مصر، شام وغیرہ کوفہ اور بغداد کے متعلق خود ارشاد فرماتے ہیں میں شمار نہیں کر سکتا کہ میں نے کتنی مرتبہ محدثین کے ساتھ کوفہ اور بغداد کا رخت سفر باندھا۔

جلاوطنی اور بخارا کو مراجعت:

لیکن نیشاپور آپ کو بعض حاسدوں کی زیادتیوں کی وجہ سے چھوڑنا پڑا اور پھر آپ بخارا واپس ہوئے۔ اہل بخارا کو جب معلوم ہوا کہ ان کا ہم وطن کمالی شہرت کی خلعت سے آراستہ ہو کر پھر اپنے وطن کو آرہا ہے تو جوش مسرت میں استقبال کے لیے آگے بڑھے۔

شہر سے دو کوس کے فاصلہ پر امراء شہر نے خیر مقدم کیا اور درہم ودینار نچھاور کرتے ہوے، نعرۂ تکبیر کی فلک شگاف نعروں کے ساتھ شہر میں لائے۔ بخارا میں کچھ دن تو آرام و راحت سے زندگی بسر ہوئی لیکن آخر میں اپنی غیر طبیعت کی بدولت مصیبت میں مبتلا ہو گئے۔

امیر بخارا نے آپ کو جلا وطن کر دیا اور آپ مقام خرتنگ میں مقیم ہوگئے۔تلامذہ وحلقہ درس:امام کے فضل و کمال کی شہرت ان کے زمانہ تعلیم ہی میں دور دورتک پہونچ چکی تھی۔۔۔ بڑے بڑے محدثین جو امام فن تھے ان کے کسی مجموعہ حدیث کو امام صاحب تسلیم کرتے تو وہ فخریہ کہتے۔ ہماری ان حدیثوں کو امام بخاری جیسے نقاد نے صحیح تسلیم کیا۔ امام صاحب کا حلقہ درس بہت وسیع تھا۔ اسلامی دنیا کے ہر حصہ سے طلباء کی جماعتیں جوق در جوق آکر شریک ہوتیں۔

آپ کے شاگردوں میں۔۔۔۔ حافظ ابوعیسی محمد بن عیسی ترمذی ، ابوعبدالرحمن نسائی ،مسلم بن حجاج قشیری جیسے محدث نظر آتے ہیں جو صحاح ستہ کے تین جلیل القدر رکن بھی ہیں۔ ابن خزیمہ، محمد بن نصر مروزی ، صالح بن محمد جو آگے چل کر بہت پاۓ کے مصنف ہیں ۔ امام بخاری کے عام شاگردوں میں شاگرد ہیں۔

اساتذہ و شیوخ:

اگر چہ اس امر کا تفصیلی مال معلوم نہیں ہوتا کہ امام نے ابتدائے کن کن مشائخ سے فن حدیث حاصل کیا۔ لیکن اس قدر مسلم ہے کہ آپ کا فضل و کمال اسحق بن راہویہ، علی بن مدینی کے فیضان تعلیم کا زیادہ مسنون ہے۔ امام کے شوق تحصیل حدیث کا یہ عالم تھا کہ بغداد ، مصر خراسان خوارزم، حجاز وشام میں کوئی ایسا محدث نہ تھا جس سے امام نے کچھ نہ کچھ اخذ نہ کیا ہو۔ ان تمام شیوخ واساتذہ کی تعداد ایک ہزار اسی تک پہنچتی ہے ۔

 

شان جلالت ومحدثین کے تاثرات:

امام بخاری کے کمال کی معراج یہ ہے آپ کے فضائل ومناقب کا اعتراف خود آپ کے عہد کے تمام اساطین ملت وائمہ حدیث وارباب فضل وکمال نے کیا اور آپ کے بارے میں ایسے ایسے عظیم الشان کلمات مدح وثناء کہے ہیں جو امام بخاری کی جلالت شان کی دستاویز ہیں۔ اور ان میں صرف تلامذہ اصاغر ہی نہیں بلکہ اساتذہ بھی ہیں اور معاصرین بھی ۔اگر ان تمام کلمات کو جمع کیا جائے تو ہزاروں صفحات نا کافی ہیں۔

اس حوالے سے امام مسلم رحمۃ اللہ تعالیٰ جب آپ کے پاس جاتے تو سلام کے بعد یہ خواہش کرتے کہ ان کے پاؤں کو بوسہ دیں اور حدیث کے طبيب ، أستاذ الاستاذین اور سیدالمحدثین کے القاب سے آپ کو یاد کرتے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالی نے کہا میں نے بخاری کی مثل کوئی شخص نہیں دیکھا۔ اللہ تعالی نے ان کو اس امت کی زینت پیدا کیا ہے۔

حافظ ابونعیم رحمۃ اللہ تعالی نے کہا بخاری اس امت میں بہت بڑے فقیہہ تھے۔ محمد بن بشار رحمہ اللہ تعالی نے کہا علمائے مکہ مکرمہ کہتے تھے کہ امام بخاری ہمارے امام وفقیہ اور خراسان کے فقیہہ ہیں۔

ابن مدینی رحمہ اللہ تعالی نے کہا انھوں نے ان کی مثل کوئی نہیں دیکھا ہے۔ ابن خزیمہ رحمہ اللہ تعالی نے کہا سقف سماء کے تحت حدیث کا عالم اور حافظ ان سے بڑا کوئی نہیں۔ بعض علماء نے کہا امام بخاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ زمین پر چلتی پھرتی اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔امام بخاری کا فقهی مسلک:امام بخاری کے اپنے کلام میں آپ کے مسلک کی صراحت نہیں ملتی ہے البتہ جامع صحیح میں بکثرت ایسی حدیثیں موجود ہیں

جن سے امام شافعی علیہ الرحمۃ والرضوان کے مسلک کی تائید ہوتی ہے شایداسی لیے۔۔۔بعض مشاہیر علما نے آپ کو امام شافعی کے مقلدین میں شمار کیا ہے جیسا کہ خود امام قسطلانی تاج الدین سبکی پر اعتماد کرتے ہوۓ رقم طراز ہیں “وقد ذكره ابوعاصم في طبقات اصحابنا الشافعية ” ابوعاصم نے امام بخاری کو ہمارے طبقات شافعیہ میں شمار کیا ہے اور تاج الدین سبکی امام بخاری کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں :”وسمع بمكة عن الحميدي و عليه ثقة عن الشافعی” امام بخاری نے مکہ مکرمہ میں (زادها فيها الله شرفا) میں حمیدی سے سماع کیا اور انہیں سے فقہ شافعی کی تعلیم حاصل کی۔

مزید دوسری جگہ پر لکھتے ہیں: ابوعاصم عبادی نے اپنی مایہ ناز تصنیف طبقات شافعیہ میں امام بخاری علیہ الرحمہ کا ذکر کرتے ہوۓ لکھا ہے کہ امام بخاری نے زعفرانی وابوشور اور کرابیسی سے سماع کیا ہے اور میں کہتا ہوں کے آپ نے حمیدی سے علم فقہ حاصل کیا اور یہ سب امام شافعی کے شاگرد تھے ۔

یہ تمام اقوال و حوالہ جات اس بات پر شاہد عدل ہیں کہ امام بخاری شافعی المذہب تھے یہ الگ بات ہے کہ شافعی المذہب ہونے کی تقدیر پر محض مقلد نہیں تھے بلکہ طبقات فقہا میں تیسرے درجے پر فائض تھے اور مجتہد فی المسائل تھے اس وجہ سے آپ بعض مسائل میں امام شافعی سے اختلاف رکھتے ہیں

اور اپنے اجتہاد پر عمل کرتے ہیں اسی لئے اہل علم کے نزدیک امام بخاری کو شوافع کے مابین وہی درجہ حاصل ہے جو امام ابو جعفر طحاوی کو احناف میں۔حلیہ اخلاق وعادات:حضرت امام بخاری کا حلیہ یہ تھا، جسم دبلا پتلا ، قدمیان ، رنگ گندمی، طبیعت حد درجہ غیور اور خود داری تھی کہ تمام عمر امراء وسلاطین سے وظیفہ قبول نہیں کیا۔ اپنے پدر بزرگوار سے جو کچھ میراث میں ملا اسی پر آخری عمر تک قناعت کی۔ خود تو علم کی خدمت میں مصروف رہے ۔

مضاربت کے طور پر تجارت میں شریک ہوتے اور اسی کی تقلیل آمدنی سے ضروریات زندگی پوری کرتے۔ زندگی گو بہت ہی سادہ تھی مگر صفائی کا اس درجہ خیال فرماتے کہ فرش پر ایک سکا پڑا رہنا گوارہ نہ ہوتا۔ غذا نہایت سادہ کھاتے ایک بار بیمار ہوئے تو اطبا نے آپ کا قارورہ دیکھ کر کہا۔ یہ تو کسی راہب کا قارور ہے جو روٹی کے ساتھ سالن نہیں کھاتا۔

امام سے پوچھا کہا تو فرمایا۔ چالیس سال سے صرف روٹی پر قناعت ہے.بارگاہ رسالت میں مقبولیت وتدوین بخاری:امام بخاری خود بیان کرتے ہیں کہ صحیح بخاری کی تدوین کا محرک ایک خواب ہوا۔۔

ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور اقدس صلی الہ علیہ وسلم جلوہ فرما ہیں اور میں پنکھے سے ہوا کر رہا ہوں۔ معبرین نے اس کی تعبیر دی کہ بخاری تم حضور علیہ السلام سے جھوٹ کو جدا کرو گے یعنی آپ کے ارشادات کو صحیح جمع کروگے۔ چنانچہ اس کے بعد میرے دل میں صحیح بخاری کی ترتیب کا خیال پیدا ہوا اور سولہ سال کے عرصہ میں اس کی تکمیل ہوئی۔

امام نے سب سے پہلے اس کا مسودہ مسجد حرام میں بیٹھ کر لکھا۔ لکھنے کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے ضروری عنوان لکھ لیتے تھے پھر ہر عنوان کے نیچے حدیث درج کرتے۔ ہر حدیث کے اندراج سے پہلے آب زمزم سے غسل فرماتے۔ مقام ابراہیم میں دو رکعت نفل استخارہ پڑھتے تھے۔ بعدہ حدیث قلمبند فرماتے۔ مسودہ مکمل کرنے کے بعد مدینہ منورہ میں روضہ مبارک ومنبر اقدس کے درمیان بیٹھ کر مسودہ کو دوبارہ لکھا۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ بعض صلحاء نے خواب میں دیکھا کہ جس جگہ حضور اقدس ﷺ قدم مبارک رکھتے ٹھیک اسی جگہ امام کا قدم پڑتا ہے۔بخاری شریف کی تعلیم کے واسطے نبوی ارشاد:محدث عظم حضرت ابوزید مروزی رحمۃ اللہ تعالی نے بیان فرمایا کہ میں بیت اللہ شریف میں رکن اسود مقام ابراہیم کے درمیان سو رہا تھا کہ خواب میں سردار انبیا محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریف لاکر ارشاد فرمایا۔ اے ابوزید کب تک کتاب الشافعی کا درس دیتے رہوگے۔

ہماری کتاب کی تعلیم نہیں دیتے میں نے عرض کیا یارسول اللہ آپکی کتاب کونسی ہے فرمایا محمد بن اسمعیل کی جامع تصانیف: اٹھارہ سال کی عمر میں قضايا الصحابہ والتابعین لکھی اور اسی عمر میں اپنی مشہور کتاب “کتاب التاریخ” مزار اقدس حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پڑھ کر چاندنی میں لکھی اور ابھی داڑھی مونچھ بھی نہیں نکلی تھی کہ محدثین نے آپ سے احادیث اخذ کرنا شروع کر دیا تھا۔

تاریخ کبیر، تاریخ اوسطہ، تاریخ صغیر، خلق افعال عباد ، رسالہ رفع الیدین، قرأت خلف الامام، الادب المفرد، برالوالدین، کتاب الغفار، الجامع الکبیر، التفسیرالکبیر، کتاب الاشربہ، کتاب الھبۃ، کتاب المبسوط ، کتاب الکنی ، کتاب المناقب، کتاب العلل، کتاب الفوائد بھی آپ کی تالیفات ہیں۔حج و زیارت:مقدمہ فتح الباری میں مبدء طلب حدیث کے باب میں یہی ہے کہ ٢١٠ ھ میں حج کیا اس حساب سے امام بخاری کی عمر اس وقت سولہ کی ہوئی

لیکن ثناء الناس کے عنوان کے تحت ص ٢٨٤ پر خود امام بخاری کا یہ قول نقل کیا ہے کہ میں نے اٹھارہ سال کی عمر میں پہلا حج کیا اس حساب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام بخاری نے سب سے پہلا حج ٢١٢ھ میں کیا تھا۔خرتنگ میں قیام و وفات: امام بخاری جلا وطنی کا حکم سننے کے بعد بخارا سے نکلے ۔

جب سمرقند والوں کو معلوم ہوا کہ امام بخاری وطن چھوڑ رہے ہیں تو انھوں نے خط لکھ کر درخواست کی کہ ہمارے یہاں تشریف لاکر عزت بخشیں امام بخاری نے سمرقند کا رخ کیا ۔

جب سمرقند کے قریب ایک موضع خرتنگ پہنچے تو اطلاع ملی کہ سمرقند میں بھی انکے بارے میں اختلاف ہو گیا ہے۔خرتنگ میں امام بخاری کے کچھ رشتہ دار بھی تھے ۔ آپ نے وہیں عارضی طور پر اس وقت کے لئے قیام فرمانے کا ارادہ کر لیا جب تک باشندگان سمرقند کوئی اخیر فیصلہ نہ کرلیں۔چنانچہ پیہم حوادث و شورش نے امام بخاری کے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا۔ دنیا سے اکتا گئے۔

ایک رات تہجد کی نماز کے بعد سوز قلب سے یہ دعا کی “اللهم قد ضاقت على الارض بمارحبت فاقبضنی” اے اللہ! زمین اپنی وسعت کے باوجود مجھ پر تنگ ہوگئی ہے مجھے اپنی طرف اٹھا لے۔۔

چند دن کے بعد بیمار پڑ گئے ۔اور ابھی پورا مہینہ نہیں گزرا تھا کہ بعد نماز عشاء آپ کی رحلت ہوئی ۔ آپ شوال کی ۳ تاریخ کو پیدا ہوئے اور شوال ہی میں ٢٥٦ھ کو وفات پائی۔ بعد وصال وقبر مبارک:وصال کے بعد آپ کے جسم اقدس سے پسینہ نکلنا شروع ہو گیا اور روایت میں آیا : اتنا نکلا کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔۔۔کفن پہناتے وقت تک نکلتا رہا

چناں چہ آپ رضی اللہ عنہ کو جب دفن کیا گیا تو ان کی قبر کی مٹی سے کستوری سے کہیں زیادہ خوشبو مہکنے لگی اور قبر کے محازی آسمان کی طرف لمبی سفید جھلک ظاہر ہوئی اور لوگ برکت کے لیے ان کی قبر سے مٹی اٹھا کر لے جاتے حتی کہ قبر کا حضرہ ظاہر ہو گیا

اور زبردست حفاظت کے باوجود لوگ نہ رکے تو قبر پر لکڑی کا جنگلا نصب کر دیا گیا۔ پھر لوگ اردگرد کی مٹی اور کنکریاں وغیرہ اٹھاکر لے جاتے تھے۔ کئی روز تک آپ کی قبر سے خوشبو مہکتی رہی حتی کہ قرب و جوار کے بلاد میں یہ خبر مشہور ہو گئی۔ (حوالہ جات:نزھۃ القاری، بشیر القاری، فیوض الباری، تفہیم البخاری،منحۃ الباری، اور جمال السنہ شرح صحیح البخاری..

نوٹ: یہ تمام کتب الغزالی اکیڈمی آن لائن ٹیلیگرام میں موجود ہے نیز کلک سسٹم کے ذریعے کوئی بھی کتب الغزالی اکیڈمی میں تلاش کر سکتے ہیں) اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت امام بخاری رضی اللہ تعالیٰ کے فیوض و برکات سے مالامال فرمائے بالخصوص مجھ فقیر کو اُن کی کتاب بخاری شریف زیادہ سے زیادہ پڑھنے اور اس کو حفظ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔

از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی

(بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰ حضرت مشن، آبادپور تھانہ (پرمانک ٹولہ) ضلع کٹیہار بہار، الھند :

متعلم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی،بستی۔ یوپی،