صورت خورشید تاباں مارہرہ رہے
صورت خورشید تاباں میرا مارہرہ رہے ( سپاس نامہ اور قلبی جذبات کی عکاسی کرتی ایک تحریر )
اترپردیش کے ایک پسماندہ مگر علما خیز قصبہ گھوسی کے ایک گمنام گھرانے کا ایک فرزندِ سعادت مند جس نے اوائل عمری ہی میں کہیں پڑھا کہ اعلیٰ حضرت کا پیرخانہ مارہرہ مطہرہ ہے ۔ جب سے اس کے دل میں مارہرہ ایک تصوراتی جنت بن کر گھر کر گیا ۔ اور پھر ایام طالب علمی ہی میں بیعت اور برکاتی غلامی کا پٹہ اپنے گلے میں ڈال لیا ۔
مگر وہ غلام اپنے آقایان مرتبت کے مسکن، اپنی تصوراتی جنت، قادریت کی راجدھانی، منبع فیوض غوث صمدانی یعنی بغداد ثانی مارہرہ مطہرہ سے ہنوز دور تھا ۔ سرکاران مارہرہ کی نگۂ التفات اپنے اس غلام کی طرف ملتفت ہوئی، قسمت کی کایا پلٹی اور پھر بظاہر تدریس کے لیے مگر درحقیقت اپنی بارگاہ کی جاروب کشی اور اکتساب فیوض و برکات کے لیے اپنے جوار میں بلا لیا ۔
قسمت کی ارجمندی ہی ہے کہ جس جگہ کا تصور اسے جنت جیسا لگتا تھا اب وہاں اس کے روز و شب گزر رہے ہیں، مجلس برکات مبارک پور سے شائع درسی کتابوں کے ٹائٹل پیج پر جس آستان فلک نشان کے گنبد ابیض کو حسرت بھری نگاہوں سے تکتا تھا، اب ہر صبح سورج کی کرنیں بعد میں ویٹامن ڈی مہیا کرتی ہیں، پہلے وہی گنبد ابیض سے چھن کر آتی مقویِ ایمان و ایقان ویٹامن نصیب ہوتی ہے ۔
جہاں زندگی میں ایک بار پہنچنے کی تمنا ہو اگر وہیں زندگی بسر ہونے لگے تو اس سے بڑھ کر قسمت کی معراج اور کیا ہوسکتی ہے ۔ مگر یہ تو سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے چشمۂ فیض کا
ہندی سوتا ہے، اتنی عنایتوں پہ بس کیوں کر ہوگا ۔ وقت گزرا طلبہ کو مضمون نگاری کی طرف متوجہ کیا، یوم آزادی کے موقع پر بعض طلبہ کے مضامین اخباروں کی زینت بنے، ارباب علم و دانش نے طلبہ کے خامۂ خام کو نظر تحسین سے دیکھا، تو ساقی جامِ برکات، شفیق الطلبہ، رفیق الملۃ سیدی شاہ سید نجیب حیدر نوری برکاتی أدام اللہ فیوضہ و برکاتہ کا دریائے کرم جوش میں آیا اور طالب علم کے ساتھ اس ہیچمداں کو بھی نقدی انعام اور مدینۃ الرسول کا مبارک مصلیٰ عنایت فرمایا ۔ جبین شکر ان کے قدموں پہ نثار ہوئی۔
چند ہی دنوں کے بعد مینائیہ گونڈہ میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسابقہ خطاب میں عزیز القدر مولوی ہاشم برکاتی سلمہ نے سیکڑوں طلبہ پہ سبقت حاصل کرتے ہوئے دوسری پوزیشن کا انعام حاصل کیا اور پورے ملک میں اپنے جامعہ کا نام روشن کیا ۔ اس کامیابی پر ایک بار پھر حضور رفیق ملت نے عرس رضوی شریف کے پروگرام میں (بمقام جامعہ احسن البرکات) عزیزم ہاشم سلمہ کو انعام و اکرام سے نوازا
فقیر عرس رضوی شریف میں شرکت کے لیے اس دن بریلی شریف میں تھا ۔ واپسی ہوئی تو طلبہ و اساتذہ کے ذریعے اس انعام و اکرام کا علم ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت میرے لیے بھی انعام لے کر آئے تھے (چوں کہ مقابلے کے لیے تقریر فقیر ہی نے لکھی تھی اس لیے حضرت نے انعام کا سزاوار مجھے بھی جانا۔) مگر میں غیر حاضر تھا اس لیے واپس لے کر چلے گئے ۔
قدرے افسوس ہوا پھر فوراً پردۂ خیال پہ یہ بات بھی آئی کہ جس ذات گرامی کے عرس میں تھا وہ چشم و چراغ خاندان برکات ہیں لہٰذا مشائخ مارہرہ و بریلی کے روحانی تصرف پر کامل یقین تھا کہ وہ انعام میرے حصے میں ضرور آئے گا ۔ آج یکم / اکتوبر ناشتے کے وقت قبلہ ازہری صاحب کا فون آیا کہ جلدی آئیے، آج چوں کہ ناشتے میں تاخیر ہوگیی تھی اس لیے مجھے لگا کہ تاخیر کی وجہ سے حضرت نے فون کیا ہو اس لیے جلدی جلدی ناشتہ کرکے سلام میں حاضر ہوا، آج خلاف معمول حضرت رفیق ملت بھی شمع محفل بن کر موجود تھے
آپ نے طلبہ کو کچھ نصیحتیں فرمائیں اور مدارس کا سروے کرنے والی ٹیم کے متعلق کچھ اہم باتیں ارشاد فرمائیں ( جن کا دورہ آج ہونے کو تھا اور بحسن و خوبی ہوا بھی) پھر گفتگو کا انداز تبدیل ہوا، فرمایا کہ : کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہوتی ہے
ابھی حال ہی میں عزیزم ہاشم برکاتی نے مقابلے میں دوم پوزیشن حاصل کی ان کے پیچھے ان کے استاذ کی محنتیں کارفرما تھیں، پھر حضرت نے فقیر کا نام لے کر فرمایا کہ عرس کے دن یہ نہیں تھے یہ وہاں تھے جہاں سب کو جانے کی تمنا تھی (یعنی بریلی شریف) ۔ پھر حضرت نے ایک شال اپنے بیگ سے یہ فرماتے ہوئے نکالی اور مجھے اس کے جلو میں لے لیا کہ یہ ہے تو ایک چادر اس کی کیا قیمت؟
میں نے دل میں سوچا کہ حضور! یہ آپ کا عجز ہے، یہ میرے لیے صرف ایک چادر نہیں بلکہ برکاتی خزانے کا وہ بے بہا، بیش قیمت اور انمول تحفہ ہے جس کو ہمیشہ میں حرز جاں بنا کر رکھوں گا ۔ اس سے برکتیں حاصل کروں گا۔ حضرت والا درجت نے اپنے مبارک ہاتھوں سے گناہوں کے اس پیکر مجسم پر وہ چادر ڈالی، فقیر نے دست بوسی کی، مجھ پر عجیب کیف طاری تھا ، اب اس دوران حضرت نے کیا کلمات ارشاد فرمائے مجھے کچھ نہیں یاد، فرحت و انبساط کے سمندر میں غوطہ زن تھا ۔
پھر حضرت نے ایک خوب صورت اور ظاہراََ بھی نہایت قیمتی عطر کا تحفہ ( جس کی پرنٹ قیمت پندرہ سو ہے) یہ کہتے ہوئے پیش کیا کہ یہ لیں اور اس کی خوشبو پورے ہندوستان میں پھیلائیں، دست بوسی کا شرف پاتے ہوئے یہ تحفہ بھی قبول کیا۔ پھر حضرت نے اپنی جیب سے بارہ سو روپے نکال کر میری طرف بڑھائے ۔ ایک بار پھر دست بوسی کا شرف ملا ۔
پے در پے انعامات اور پھر اس کے بعد حضرت نے اپنی زبان مبارک سے میری ترقی و کامیابی کے لیے ڈھیر ساری دعائیں دیں، یہ سب کچھ میری نظروں کے سامنے ایک خواب کی مانند تھا ۔
میں پھر اسی سوچ میں گم تھا کہ کہاں گھوسی کا ایک ناکارہ شخص اور کہاں صاحب البرکات کی چوکھٹ پہ ملنے والا یہ اعزاز و اکرام ۔ بار بار یہ خیال کچوکے لگا رہا تھا کہ میں ہرگز ہرگز اس انعام و اکرام کے لائق نہیں، مجھ میں کوئی ایسی خوبی نہیں کہ یہ عزت پاؤں ۔ ہاں! اگر آقایان مارہرہ کا کرم ہو اور وہ کچھ عطا کریں تو وہ تو ہمارے لیے نعمت غیر مترقبہ ہے ۔ یہ خیالات اتنے شدید تھے کہ میری آنکھیں نم ہوگئیں، ہونٹوں پر بلا اختیار رعشہ سا طاری ہوگیا، قریب تھا کہ ضبط کا باندھ ٹوٹ جائے اور اشک رواں ندامت کا باعث بن جائیں مگر ایسا نہ ہوا، ضبط میں کامیاب رہا ۔
دل مجسمہ شکر بن کر رفیق ملت کے قدموں پہ نثار ہورہا تھا، الفاظ کے ذخیرے میں گویا قحط پڑ گیا ہو۔ یوم آزادی پہ ملنے والے انعام پہ فقیر بس اس نیت سے لکھ کر نشر نہ کرسکا تھا کہ کہیں کوئی اس کو ریاکاری اور خودپسندی کا نام نہ دینے لگے، اپنے منہ میاں مٹھو کا الزام نہ لگ جائے
مگر آج یہ سوچ کر اسے عام کر رہا ہوں کہ اگر آج نہ لکھا، اور احسان مندی کا تذکرہ نہ کیا، سپاس گزاری کو الفاظ کا جامہ نہ پہنایا تو یہ احسان فراموشی ہوگی، ناشکری ہوگی اور اس عالی ذات کے مبارک ہاتھوں پے در پے ملنے والے اعزاز و اکرام کی توہین ہوگی ۔ اس لیے یہ تحریر عام کر رہا ہوں کہ اس میں اصل احسان مندی اور شکرانے کا اظہاریہ ہے
اگر ضمناََ کہیں میرے ہاتھوں میری تعریف ہوگئی ہو(حالاں کہ بچنے کی کوشش کی ہے) تو اسے اللہ معاف فرمائے انعام ملنے کے بعد تمام اساتذہ جامعہ نے فرداََ فرداََ مبارک بادیوں اور دعاؤں سے نوازا ۔
بالخصوص ماہر درسیات، خرد نواز حضرت مولانا عرفان ازہری صاحب قبلہ صدر المدرسین جامعہ ہذا کا سپاس گزار ہوں جن کی صدارت میں اور جن کی حوصلہ افزائیوں کی چھاؤں میں بااختیار اور آزادانہ طور سے ہم علمی و تعمیری سرگرمیوں کو انجام دینے کی کوشش کررہے ہیں، میرے ہر اچھے کام پر کھلے دل سے تحسین و آفریں فرماتے ہیں، اور اس کا دنیاوی صلہ بھی دینے، دلانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ۔ اللہ ان کی محبتیں اور حمایتیں سدا قائم رکھے ۔ آمین
اور اس موقعے پر فاضل گرامی قدر، ہرفن مولا حضرت مولانا مفتی عمار خان مصباحی امجدی شامی صاحب قبلہ کا شکر ادا کیے بغیر میرا یہ سپاس نامہ ناقص ہوگا کہ جو قدم قدم پہ میری رہ نمائی فرماتے ہیں اور بیش بہا مشوروں سے نوازتے ہیں، ان کی معیت کو میں اپنے لیے اللہ کی نعمت مانتا ہوں ۔ اللہ حضرت کو شاد و آباد رکھے ۔ آمین
ساتھ ہی تمام اسٹاف کی حوصلہ افزائیوں پر بھی تہہ دل سے شکر گزار ہوں، اور یہ بھی دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ الحمد للہ جامعہ کے اسٹاف پر بزرگان مارہرہ کا خصوصی فیضان ہے کہ یہاں آپسی عصرانہ چشمک نہیں ہے بلکہ ہر ایک دوسرے کی کامیابی پر خوش ہوتا ہے اور پیٹھ تھپ تھپاتا ہے ۔ اللہ یہ محبتیں باقی رکھے ۔
حضور تاج الشریعہ کے ان دعائیہ اشعار پہ بات اختتام کرتا ہوں ۔
علم کا اس آستانے پر سدا پہرہ رہے
صورتِ خورشید تاباں میرا مارہرہ رہے
اخترؔ خستہ ہے بلبل گلشن برکات کا
دیر تک مہکے ہر اک گل گلشن برکات کا
شکر گزار : شاداب امجدی برکاتی
خادم التدريس : جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف
One thought on “صورت خورشید تاباں مارہرہ رہے”