مجاہد انقلاب حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمہ

Spread the love

مجاہد انقلاب حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمہ

از: محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی، رام گڑھ

اسکول اور کالج کی کتابوں میں ہمارے مجاہدین اور مسلم سیاسی رہنماؤں کا تذکرہ نہیں ملتا اگر کچھ نام کبھی کبھار شامل بھی کرلیا گیا تو پھر اس کی حیثیت ثانوی سے زیادہ نہیں ہوتی.

تاریخ نویسی کے نام پر تاریخ سازی کا جو کھیل کھیلا جارہا ہے وہ حد درجہ افسوسناک ہے. صحیح تاریخ سے نئی نسل کو آگاہ کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے. تاکہ ہماری قوم فکری مرعوبیت سے باہر نکل کر اپنی تاریخ پر ناز کرسکے، اور ان میں اپنے اسلاف کے مجاہدانہ کوششوں کے نتیجے میں مثبت تبدیلی آسکے. اور اس کے لیے سمینار کرائے جائیں، علماے کرام اپنی تقریروں میں اس موضوع پر گفتگو کریں اور جو بھی اس حوالے سے ہوسکے اس پر کام ہونا چاہیے.

آزادی کی تحریک میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لینے والے علمائے کرام میں ایک نمایاں نام حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمہ کا بھی ہے، ان کی حالات زندگی پر کچھ باتیں تحریر کی جارہی ہیں

نسب نامہ مفتی عنایت احمد کاکوروی بن منشی محمد بخش بن منشی غلام محمد بن منشی لطف اللہ.آپ نسبا قریشی مسلکا حنفی .(تواریخ حبیب الہ، ص:4.ناشر:مجلسِ برکات، جامعہ اشرفیہ مبارک پور ،سن اشاعت 2007ء. مضمون از پروفیسر آفتاب احمد نقوی ).

 

ولادت :  آپ کی ولادت 9 شوال المکرم 1228ھ مطابق 15 اکتوبر 1813ءمیں قصبہ دیوہ ضلع بارہ بنکی میں ہوئی

تعیلم ابتدائی دینی کتب اپنے آبائی قصبہ میں پڑھیں، تیرہ سال کی عمر میں مزید علوم و فنون کی تعلیم کے لیے رام پور تشریف لے گئے جہاں حضرت مولانا سید محمد رام پوری سے صرف و نحو، مولانا حیدر علی ٹونکی اور مولانا نورالاسلام صاحب سے دیگر فنون پڑھے. علم حدیث دہلی میں مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی سے پڑھا اور وہیں سے سند فراغت حاصل کی. پھر علی گڑھ میں حضرت مولانا بزرگ علی مارہروی سے معقولات کا درس لیا. (علم الصیغہ، ص:5،ناشرمجلس برکات ،جامعہ اشرفیہ مبارک پور ،سن اشاعت 2007ء)

درس وتدرس تحصیل علوم کے بعد تدریسی زندگی کا آغاز علی گڑھ میں کیا اور اپنے استاذ محترم حضرت مولانا بزرگ علی کے وصال کے بعد ان کے جانشین کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے، بے شمار تشنگان علوم کو سیراب فرمایا بریلی شریف، رام پور، علی گڑھ و دیگر مقامات پر دینی تدریسی اور افتا کے میدان میں قابل قدر خدمات انجام دیں. (ایضاً )

علی گڑھ میں قیام کے دوران تدریسی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمت بھی اختیار کی. پہلے منصف و مفتی کے عہدے پر فائز ہوئے اور کچھ ہی عرصے کے بعد صدر امین کی حیثیت میں بریلی شریف تبادلہ ہوگیا. سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ بریلی شریف میں بھی ترویج و اشاعت علم دین میں منہمک رہے. 1855ء میں بریلی شریف میں سرکاری سرپرستی سے قائم ہونے والے کتب خانے کی مجلسِ انتظامیہ میں آپ کو آپ کے علمی مقام و مرتبہ کے پیش نظر رکن منتخب کیا گیا، جو اس دور میں آپ کے لیے ایک بڑا اعزاز تھا، بریلی ہی میں ترقی پاکر آگرہ کے صدرالصدور مقرر ہوئے.

جنگ آزادی میں شرکت مفتی عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمہ صدرالصدور کے عہدے پر ترقی پاکر آگرہ جانے کی تیاری میں مصروف تھے ہی کہ مئی میں جنگ آزادی کے شعلے بھڑک اٹھےاور آپ آگرہ نہ جاکر بریلی شریف اور رام پور میں انقلابیوں کے ہمنوا اور معاون بلکہ سرپرست کی حیثیت سے سرگرم ہوگئے. چناں چہ آپ نے 1857ءکی تحریک آزادی میں انگریزوں کے خلاف مجاہدین تحریک کے لیے مالی امداد واعانت کا فتاوی دیا۔

پروفیسر محمد ایوب قادری لکھتے ہیں: تحریک 1857ءکے شروع ہوتے ہی انگریزوں کے خلاف وہاں(بریلی شریف میں) بڑا جوش و جذبہ تھا اور بڑے خاص انداز سے تیاریاں جاری تھیں. قائدین تحریک حالات کا بالکل اندازہ نہیں ہونے دیتے تھے. انقلاب سے پہلے بریلی میں اس تحریک کے دو ممتاز کارکن موجود تھے،مولوی سرفراز علی اور دوسرے مفتی عنایت احمد کاکوروی ( جنگ آزادی.ص:118،مطبوعہ کراچی ) کالم نگار میاں عبدالرشید روزنامہ نوائے وقت لاہور رقم طراز ہیں :

آپ (مفتی عنایت احمد کاکوروی ) بریلی میں نواب بہادر خاں روہیلہ کی زیر قیادت، جہاد حریت کی تنظیم کے لیے سرگرم عمل رہے. ان دنوں روہیل کھنڈ بریلی مجاہدین آزادی کا اہم مرکز تھا. اور مولانا احمد رضاخاں بریلوی کے جدامجد، مولانا رضا علی خاں بریلوی اس تحریک کے قائدین میں سے تھے. مفتی عنایت احمد نے مجاہدین کی تنظیم پر ہی اکتفا نہ کیابلکہ نواب بہادر خاں روہیلہ کے دست راست کی حیثیت سے مختلف معرکوں میں عملی حصہ بھی لیا. (جنگ آزادی نمبر. ماہنامہ ترجمان اہل سنت کراچی، جولائی 1975ء)

گرفتاری انقلاب کی چنگاری اڑنے کے بعد تحریک کے مجاہدین کے خلاف انتقامی کار روائیوں کا آغاز ہوا، چناں چہ آپ نے مجاہدین کے لیے مالی امداد و اعانت پر مشتمل جو فتوی دیا تھا وہ انگریزوں کےہاتھ لگ گیا. آپ پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا اور آپ کو حبس دوام کی سزا سناکر 1274ھ میں جزیرہء انڈمان نیکوبار بھیج دیا گیا

جزیرہء انڈمان کی آب ہوا اتنی خراب تھی کہ کوئی بھی شخص وہاں جانا پسند نہیں کرتا تھا. اس سلسلے میں حضرت علامہ فضل حق خیرا آبادی علیہ الرحمہ کا تاءثر نظر قارئین کررہاہوں جوکہ بذات خود بھی اس جگہ پہنچے، جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف حضرت علامہ فضل حق خیرا آبادی نے بھی فتوی جہاد دیا تھا، اس لیے انگریزوں نے انھیں بھی کالا پانی جزیرۂ انڈمان بھیجا تھا۔

 

قائدین تحریک آزادی حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی وہاں کی درد ناک آب و ہوا کی تصویر کشی کرتے ہوئے اپنی آب بیتی لکھتے ہیں : پھر ترش رو دشمن کے ظلم نے مجھے دریائے شور کے کنارے ایک بلند و مضبوط، ناموافق آب وہوا والے پہاڑ پرپہنچادیا۔

جہاں سورج ہمیشہ سرپر رہتا تھا. اس میں دشوار گزار گھاٹیاں اور راہیں تھی جنھیں دریائے شور (کالا پانی) کی موجیں ڈھانپ لیتی تھیں. اس (جزیرہ انڈما ) کی نسیم صبح بھی گرم و تیز ہوا سے زیادہ سخت اور اس کی نعمت زہر ہلال سے زیادہ مضر تھی۔

اس کی غذا حنظل سے زیادہ کڑوی، اس کا پانی سانپوں کے زہر سے بڑھ کر ضرر رساں اس کا آسمان غموں کی بارش کرنے والا، اس کا بادل رنج و غم برسانے والا، اس کی زمین آبلہ دار، اس کے سنگریزے بدن کی پھنسیاں اور اس کی ہوا ذلت و خواری کی وجہ سے ٹیڑھی چلنے والی تھی. ہر کوٹھری پر چھپر تھا جس میں رنج و مرض بھرا ہوا تھا. میری آنکھوں کی طرح ان کی چھتیں ٹپکتی رہتی تھیں، ہوا بدبو دار اور بیماریوں کا مخزن تھی

جب کوئی ان ( قیدیوں میں سے) مرجاتاہے تو نجس و ناپاک خاکروب جو درحقیقت شیطان خناس یا دیو ہوتا ہے اس کی ٹانگ پکڑکر کھینچتاہوا غسل و کفن کے بغیر اس کے کپڑے اتار کر ریت کے تودے میں دبا دیتا ہے، نہ اس کی قبر کھودی جاتی ہے نہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے

یہ کیسی عبرت ناک اور الم انگیز کہانی ہے. یہ واقعہ ہے کہ اگر میت کے ساتھ یہ برتاؤ نہ ہوتا تواس جزیرہ میں مرجانا سب سے بڑی آرزو ہوتی اور آچانک موت سب سے تشلی بخش تھی. اور اگر مسلمان کی خودکشی مذہب میں ممنوع اور قیامت کے دن عذاب وعقاب کا باعث نہ ہوتی تو کوئی بھی( مسلمان) یہاں مقید و مجبور بنا کر ناقابل برداشت تکالیف نہ دیا جاتا اور ایسی مصیبتوں سے نجات پانا اس کے لیے بڑا آسان ہوتا. ( باغی ہندوستان : ص، 77 تا 79. ناشر: المجمع الاسلامی، مبارک پور. اشاعت، 2011ء)

قید وبند اور تحریری سرگرمیاں

حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمہ اس زہرآلود فضا جزیرے میں چارسال تک رہے، قید وبند کی زندگی میں بھی آپ نے تصنیف وتالیف کا سلسلہ جاری رکھا.یہاں پر آپ کے پاس تصنیفی کاموں کے لیے کوئی معاون کتاب نہ تھی، لیکن اپنے غیر معمولی حافظے اور خدا داد صلاحیت سے کام لیتے ہوئے مختلف علوم و فنون میں کئ کتابیں تصنیف فرمائیں. جن کی صحت و افادیت کا اہل علم نے اعتراف کیا ہے

علم الصیغہ جزیرے میں لکھی جانے والی کتابوں میں ایک یہ بھی، اس کتاب کو خصوصی امتیاز اور شہرت دوام حاصل ہے،عربی صرف کانہایت جامع کتاب ہے جو مدارس اسلامیہ میں برسہا برس سےداخل نصاب بھی ہے. تواریخ حبیب الہ اردو زبان میں سیرت مبارکہ پر لکھی جانے والی زبردست تاریخی کتاب ہے. اس کتاب کو آپ نے اپنی یاد داشت اور حافظے کی مددسے تحریر کی تھی.

دنوں کتابوں پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا عبدالشاہد خاں شیروانی (مترجم الثورۃ الھندیہ، بنام باغی ہندوستان ) رقم طراز ہیں :

ان دونوں کتابوں کے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان حضرات کے سینے علم کے سفینے بن گئے تھے. تاریخی یاد داشت، ترتیب و واقعات، قواعد فنون، ضوابط علوم سبھی حیرت انگیز کرشمے دکھا رہے ہیں. (باغی ہندوستان، ص:225)

تقویم البلدان کا ترجمہ اور رہائی ایک انگریز کی فرمائش پر آپ نے اس کتاب کا ترجمہ، اس کے ترجمہ میں دوسالہ کا وقت لگا، اور بالآخر یہی آپ کی رہائی کا سب بنا

اس سلسلے میں حضرت مفتی صاحب کابیان ملاحظہ کریں: ایک روز ہم چندلوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ انگریزحاکم آیا اور “تقویم البلدان” کے اردو ترجمہ کی فرمائش کی، مگر ہر ایک نے بغیر کسی لغت کی موجودگی کے اس کے ترجمہ سے معذوری ظاہر کی. میں نے بسم اللہ پڑھ کر اس کو لے لیا اور ترجمہ شروع کیا جو بحمداللہ دوسال میں مکمل ہوا (کواکب، ص:202)

وصال پرملال رہائی کے دوسال بعد 1279ھ /1862ء میں بحری جہاز کے ذریعے سفر حج پر روانہ ہوئے، قافلے کے امیر آپ ہی تھے، مگر جدہ کے قریب آپ کا جہاز ایک چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگیا. حضرت مفتی صاحب قبلہ بحالت نماز احرام باندھے سمندر کی لہروں کی نذر ہوکر مرتبہء شہادت سے سرفراز ہوئے. انا للہ وانا الیہ راجعون.

31 thoughts on “مجاہد انقلاب حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *