حضور سیّدنا سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ اور صبر و استقلال

Spread the love

حضور سیّدنا سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ اور صبر و استقلال

از: محمد مقتدر اشرف فریدی

اللہ کریم کا بے پایاں فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں، شرف انسانیت بخشا، دولت ایمان سے ہمیں مشرف فرمایا اور ایک بندہ مومن کے لیے سب سے بڑی نعمت ایمان ہے۔ مذہب اسلام اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر شعبے میں رہ نمائی عطا کرتا ہے۔

مذہب مہذب اسلام ایک پاکیزہ اور خوش گوار معاشرہ کی تشکیل کے لیے اپنے ماننے والوں کو اسلامی تعلیمات عطا کرتا ہے جس پر عمل کر کے انسان اپنی دنیا و آخرت کو سنوار سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات انسان کے جسم کو توانا، ذہن و فکر کو تابناک، دل کو پاکیزگی اور روح کو جلا بخشتی ہیں۔ اسلام کی تعلیمات میں سے صبر و تحمّل اور شکر بھی ہیں۔

داعیان اسلام اور اولیائے کرام نے صبر و استقلال اور شکر کے ذریعہ اللہ کریم کی بارگاہ تقدیس میں محبیوبت و قطبیت کے مراتب و درجات حاصل کیے۔ اسلام نے مصیبتوں میں صبر اور خوشیوں میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کہ تعلیم دی ہے۔

اللہ کریم نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر صبر و شکر کا حکم دیا ہے۔اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: (سورة البقرة، آیت نمبر:153)ترجمہ: اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

ایک دوسرے مقام پر اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:(سورة آل عمران، آیت نمبر: 200)ترجمہ: اے ایمان والو! صبر کرو اور صبر میں دشمنوں سے آگے رہو اوراسلامی سرحد کی نگہبانی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اس امید پر کہ تم کام یاب ہوجاؤ۔

حدیث شریف میں ہے:الصّبْرُ مِفْتَاحُ کُلِّ خَیْر (شعب الایمان للبیھقی، الرقم: 9524) ترجمہ: صبر ہر بھلائی کی کنجی ہے۔’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ کو بخار ہو رہا تھا۔ میں نے چادر پر سے آپ ﷺ کے جسم مبارک پر ہاتھ رکھ کر دیکھا تو آپ ﷺ کے بخار کی گرمی مجھے محسوس ہوئی۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اتنا تیز بخار ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ہم پر مصیبت بھی سخت آتی ہے اور ثواب بھی دوگنا ملتا ہے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ، کن لوگوں پر زیادہ سخت مصیبت آتی ہے آپ ﷺ نے فرمایا : انبیاء پر۔ میں نے عرض کیا : پھر کن پر؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نیک لوگوں پر اور بعض نیک لوگ ایسی تنگ دستی میں مبتلا کر دیے جاتے ہیں کہ ان کے پاس ایک کمبل کے سوا، جسے وہ اوڑھے ہوئے ہیں، کچھ نہیں ہوتا۔

ان میں سے بعض مصیبت سے اس قدر خوش ہوتے ہیں جتنا تم لوگ مال و دولت ملنے سے ہوتے ہو۔(سنن ابن ماجہ، الرقم: 4024)

 

متذکرہ بالا آیات و احادیث سے معلام ہوا کہ اسلام میں صبر کی بڑی فضیلت ہے۔ اللہ صابروں کے ساتھ ہے اور یقینا اللہ کریم نے اپنی بارگاہ میں صبر کرنے والوں کے لیے بےحساب اجر رکھا ہے۔ اللہ کے محبوب بندے اپنے رب کی طرف سے حکمت و رحمت پر مبنی مصائب و مشکلات کا بھی خندہ پیشانی کے ساتھ استقبال کرتے ہیں اور صبر و شکر کا پیکر جمیل بن کر انہیں مولٰی کریم کی قربت حاصل ہو جاتی ہے۔

قطب ربانی، غوث صمدانی، قندیل نورانی، محبوب سبحانی سلطان البغداد، سیّد الافراد، حضور سیّدنا سرکار غوث اعظم الشیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کی مکمل زندگی صبر و شکر سے لبریز ہے۔

آپ بہت ہی صابر اور مستقل مزاج تھے۔ آپ نے زمانہ طالب علمی میں انتہائی کٹھن حالات کا سامنا کیا، بڑی بڑی شدید ترین مشقتیں اور تکلیفیں اٹھائیں، بھوک کی شدت سے دوچار ہوئے اور مسلسل فاقوں سے بھی رہے مگر آپ کی پائے استقامت میں کبھی کوئی لغزش واقع نہیں ہوئی۔ آپ نے تمام مصائب و تکالیف کا خوش دلی اور خندہ پیشانی کے ساتھ استقبال کیا اور آپ کی زبان فیض ترجمان پر کبھی کوئی حرف شکایت نہیں آیا۔

حضور سیدنا سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے صبر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ صبر یہ ہے کہ بلا و مصیبت کے وقت اللہ کریم کے ساتھ حسن ادب رکھے اور اس کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کر دے۔ آپ فرماتے ہیں: اللہ کے لیے صبر کرنا وہ یہ ہے کہ اس کے امر کو ادا کرے اور اس کی نہی سے باز رہے۔(بہجة الاسرار مترجم، صفحہ: 351)

حضور قطب ربانی سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ارشاد فرمایا: ایک بوڑھے شخص نے خواب میں مجھ سے سوال کیا، وہ کیا چیز ہے جس کے ذریعہ بندہ اللہ تعالٰی کے قریب ہو جائے؟ میں نے جواب دیا: قرب الٰہی کے لیے ایک ابتدا ہے اور ایک انتہا۔ اس کی ابتدا تقوٰی اور پرہیز گاری ہے اور اس کی انتہا تسلیم و رضا اور توکّل ہے۔ (فتوح الغیب مترجم، صفحہ: 126)

آپ کا صبر و استقلال:ایک مرتبہ بغداد میں بڑا ہی خوفناک قحط پڑا۔ اس وقت آپ کو بڑے ہی سخت مصائب و آفات کا سامنا کرنا پڑا۔ فاقوں پر فاقے ہوتے تھے، بھوک سے بیتاب ہو کر دریائے دجلہ کی جانب تشریف لے گئے تاکہ کھانے پینے کی کوئی چیز میسّر آئے تو کچھ سکون حاصل کریں، مگر جس طرف جاتے مساکین کا ہجوم پاتے اور کھانے کے لائق کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ یہاں تک کہ آپ جب بھوک سے نڈھال ہو گئے تو بغداد کی ایک مسجد میں داخل ہو کر ایک گوشہ میں بیٹھ جاتے ہیں۔

اسی اثنا میں ایک فارسی جوان مسجد میں نان اور بھنا ہوا گوشت لے کر آیا اور کھانے لگا، اتفاق اس کی نظر آپ پر پڑی تو اس نے کہا آؤ بھائی تم بھی شریک ہو جاؤ۔ آپ نے پہلے تو انکار فرما دیا مگر اس کے اصرار کی وجہ سے آپ نے اس کی دعوت قبول کر لیا۔ اس نے آپ کا حال پوچھا تو حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں جیلان کا باشندہ ہوں اور طلب علم مشغلہ رکھتا ہو۔

اس نے کہا: میں بھی جیلان کا ہوں، اچھا آپ جیلان کے ایک نوجوان کو جس کا نام عبد القادر ہے، پہچانتے ہیں؟

آپ نے فرمایا کہ وہ تو میں ہی ہوں۔ یہ جوان اتنا سن کر بے چین ہو گیا اور کہنے لگا: میاں سید زادے خدا کی قسم میں نے آپ کو بہت تلاش کیا مگر تم نہیں ملے، بغداد میں میری ساری رقم خرچ ہو گئی۔

آپ کی والدہ نے آپ کے لیے چند درہم بھیجے تھے جو میرے پاس امانت تھے، لیکن آج جب کہ تین دن کے مسلسل فاقوں سے میں جاں بلب ہو گیا تو میں نے آپ کی امانت سے یہ کھانا خریدا ہے۔ اب آپ خوشی سے یہ کھانا تناول کیجیے، یہ کھانا آپ ہی کا ہے اور میں آپ کا مہمان ہوں۔

میں نے انتہائی مجبوری کے عالم میں آپ کی امانت میں یہ خیانت کا جرم کیا ہے، للہ مجھے معاف کر دیجیے۔ آپ نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ اس کو معاف فرما دیا اور اس کے پاس سے باقی درہموں کو لے کر اس کی دل جوئی کے لیے اس میں سے کچھ درہم اس کو عطا فرما کر رخصت فرما دیا (قلائد الجواہر مترجم، صفحہ: 42)

یقینا یہ آپ کا صبر و استقلال ہی تھا کہ ظاہری مصائب و مشکلات سے صبر و استقلال کا جبل شامخ اور تسلیم و رضا کا پیکر جمیل بن کر گزرنے کے بعد آپ اس مقام پر فائز ہوئے جہاں کبار اولیا و مشائخ نے آپ کے قدم مبارک کے احترام میں گردنیں خم کر دیں۔

از: محمد مقتدر اشرف فریدی

اتر دیناج پور، بنگال۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *