مظلومیت کا کھیل

Spread the love

تحریر: بلال احمد نظامی مندسوری مظلومیت کا کھیل

مظلومیت کا کھیل

اکثر ایسا ہوتا ہےکہ ظالم مظلومیت کاکھیل کھیل کر حکومت اور عوام کی دردمندیاں بٹورنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔قیام اسرائیل سے قبل یہودی قوم نے بھی مظلومیت کا رونا روکر عالمی سطح پر ہم دردیاں بٹوری جس کےنتیجےمیں فلسطین کے ایک حصے پر ظالمانہ قبضہ و تسلط جمالیا۔

اس وقت بھارت میں بھی اکثریتی طبقہ مظلومیت کا کھیل کھیل کر اقلیتی طبقے کو ہراساں وپریشان کررہاہے۔

ہندو تین دن میں گاؤں خالی کردیں گے: 19 جنوری 2022ء کےایک اخبار کی سرخی ہے “مسلمانوں سےتنگ آکر ہندو تین دن میں گاؤں خالی کردیں گے” اخبار میں جس گاؤں کاذکر ہے وہ رتلام شہر سےپندرہ کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے،جس کا نام سُراناہے۔

اخبار میں لکھاہےکہ ” 60 فیصد مسلم آبادی والےگاؤں کےہندو مسلمانوں سےپریشان ہوکر 3 دن میں گاؤں سےنقل مکانی کررہےہیں اور حکومت سےکسی دوسرے گاؤں میں جگہ کی مانگ کررہےہیں”۔

پس پردہ حقائق یہ ہیں کہ 17جنوری 2022 کو راہ چلتے ایک مسلم لڑکے کے ساتھ چند غیر مسلم لڑکوں نے پہلے گالیاں دیں پھر اس کےساتھ مارپیٹ کی،مسلم لڑکا بھاگ کر گھر گیا اور گھر والوں کو بلا کرلایا اتنی دیر میں غیر مسلم لڑکے شہر پہنچے اور مسلمانوں کےخلاف شکایت درج کروائی کہ وہ ہم پر ظلم کررہے ہیں۔

مظلوم بننے کا معاملہ یہیں پر نہیں تھما بلکہ 18جنوری کو گاؤں کےغیر مسلم اجتماعی صورت میں کلیکٹر کے پاس پہنچے اورعرضی داخل کی کہ مسلمانوں نے ہم پرعرصہ حیات تنگ کردیا ہے اور ہم گاؤں چھوڑنے پر مجبورہیں،ساتھ ہی مکانوں پر لکھ دیا کہ “یہ مکان بکاؤ ہے”۔

غیر مسلموں کی طرف سے مظلومیت کا یہ پروپیگنڈہ کارگر رہا اور پولیس انتظامیہ نےآنا فانا مسلمانوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے چوراہوں پرموجود ان کی ذاتی دکانیں (جن کی رجسٹری تھی) زمیں بوس کرکے ان زمینوں کو مندر کی زمین تسلیم کرکے ہندوؤں کےحوالےکردی،اور مسلمان منہ تکتےرہ گیےکہ یہ کیا ہوگیا۔

دراصل تقریبا دو سالوں سے اس گاؤں کے غیر مسلم مسلمانوں کو ہراساں و پریشان کرنےکی کوشش کررہےہیں،معمولی معمولی باتوں پر تنازعات شروع کرنا اور پولیس و انتظامیہ پر دباؤ بنانا کہ مسلمانوں پر کاروائی کرے، لیکن مسلمان ہمیشہ سےسمجھ بوجھ کا ثبوت دیتےآئے ہیں اس لیےغیرمسلم کام یاب نہیں ہوئے، لیکن اس بار مظلومیت کا تماشا کھڑا کرکے کام یاب ہوگئے۔

آلوٹ میں مظلومیت کا کھیل:۔

وکرم گڑھ آلوٹ ضلع رتلام میں اکثریتی طبقے کے کچھ شرپسند مسجد کےسامنےنعرے بازی کرتے ہوئےگزر رہےتھے، مقامی امن پسندوں نے تھانےمیں شکایت درج کرائی لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا

دوسرےدن پھر یہی عمل دوہرایا،تیسر دن 9 جنوری 2022ء بروز اتوار شرپسند پھر سے مسجد کے سامنے قابل اعتراض نعرے بازی کرتے ہوئے گزرنے لگے، مسلمانوں  نے مشتعل ہوکر نعرے بازی کرنے والوں کی خبرلےلی

اب کیاتھاشرپسند جوچاہتےتھےانھیں مل گیا،ان کا مقصد ہی مسلمانوں کو مشتعل کرنا تھا، اب یک طرفہ کاروائی شروع ہوتی ہےاور نامزد مسلمانوں کی گرفتاریاں ہونے لگتی ہیں ،صرف گرفتاری ہی پر آتش غضب نہیں بُجھی بلکہ گرفتار شدہ تمام مسلمانوں کےمکانات غیرقانونی اور قبضہ بتاکر زمیں بوس کردیےگیے

حالاں کہ ان میں بہت سارےایسےمکانات بھی تھےجن کی رجسٹریاں وغیرہ تھیں،لیکن زد میں سب آئے۔

اور شرپسند طبقہ جرم کرکےبھی مظلوم بن کر صاف بچ نکلا۔ مسلمانوں کو بھی ایسےمواقع پر عقل و ہوش سےکام لیناچاہیے،اشتعال بازی سے بچتےہوئے قانونی چارہ جوئی کرناچاہیے،تاکہ زیادہ نقصان سےبچ سکیں۔

یہی مظلومیت کاکھیل 23 اگست کو اندور بان گنگا کے گووند نگر علاقہ میں تسلیم نامی ایک شخص کی چند لوگوں نے لنچنگ کردی اور بعد میں مظلومیت کا ڈھونگ رچا کر اسی متاثر شخص تسلیم کو حوالات میں بھیج دیا اور ظالم مظلوم بن کر آزاد گھوم رہے۔

بھارت بھرمیں اور مدھیہ پردیش میں ایسےسینکڑوں واقعات رونماپذیر ہوچکےہیں جن میں ظالم مظلومیت کاکھیل کھیل کر صاف بچ نکلتےہیں اور اپنےمفادات حاصل کرلیتےہیں۔

افسوس ناک پہلو یہ ہےکہ اس ظلم و ستم پر ہر طرف خاموشی اور سناٹا چھایا ہوا ہے،کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ہے،انتظامیہ تعصب اور نفرت کا شکار ہے اور جذبہ نفرت کے ساتھ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنےکی کوشش ہے۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسےمعاملات میں نہایت چوکنا رہیں،اور ہرفرد کو قانونی داؤ پیج سےآگاہی رہے، جب بھی اس طرح کے معاملات درپیش ہوں تو سب سے پہلے قانونی چارہ جوئی کریں۔

ہرشہر کےباشعور اور باہمت افراد ایک دوسرے سے مربوط رہیں اور مصیبت کےوقت ایک دوسرےکی مدد کریں وکلاء حضرات بھی اپنی ملی ذمہ داری کا احساس کرتےہوئے ملی مسائل و ایشوز پر مسلمانوں کوگائڈ کریں اور ان کی ہرممکن مدد کریں۔

تحریر: بلال احمد نظامی مندسوری،رتلام مدھیہ پردیش
تحریک علماےمالوہ

ان مضامین کو بھی پڑھیں

 کسانوں کا آندولن حقائق کی روشنی میں سمجھیں

ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی 

ایک مظلوم مجاہد آزادی

عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات

سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن

شوسل میڈیا بلیک مینگ 

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

خطرے میں کون ہے ؟

افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں 

۔ 1979 سے 2021 تک کی  آسام کے مختصر روداد

کسان بل واپس ہوسکتا ہے تو سی اے اے اور این آر سی بل کیوں نہیں

ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں 

हिन्दी में पढ़ने क्लिक करें

Leave a reply

  • Default Comments (0)
  • Facebook Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *