کھیل کود مسلم قوم اور اصلاح

Spread the love

کھیل کود مسلم قوم اور اصلاح

از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی

دور حاضر میں کھیل کود معاشرے کا ایک اہم جز بن چکا ہے، جسے اب صرف کھیل کود نہیں بلکہ ایک مستقل فن کی حیثیت حاصل  ہے۔ آج معاشرے میں قسم قسم کے کھیل رائج ہیں جسے لوگ سیر و تفریح اور دل چسپی کا ذریعہ تصور کرتے ہیں، کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے کھیل کود کو اپنا نصب العین اور مقصد زندگی بنالیا ہے ۔۔

اس سلسلہ میں بالخصوص کرکٹ جس کا جنون اس حد تک بڑھ چکاہے کہ نوجوانوں کی غالب اکثریت اپنی زندگی کے قیمتی اوقات اور اصل سرمایہ اسی میں ضائع کرتی جارہی ہے،انہیں سود وزیاں کا کوئی احساس نہیں، نفع  ونقصان کا کوئی شعور نہیں، روشن مستقبل کے لیے کوئی تیاری نہیں۔۔۔

کچھ افراد ریڈیو پر کمنٹری سننے میں مصروف ہیں، کچھ اپنے موبائل پر کرکٹ اسکور کا ایس ایم ایس جاری کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور بعض تو ٹی وی پر لائیو کرکٹ میچ دیکھنے کو بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں۔۔۔حالاں کہ یہ بے شمار مُنکَرات ومفاسد اور برائیوں پر مشتمل ہے

(۱) نیم عُریاں عورتوں کا اسکرین پر دکھائی دینا۔

(۲) اُس میں مشغولیت کی وجہ سے نماز باجماعت کا فوت یا قضا ہوجانا۔

(۳) ملازمین کے فرائض وواجبات میں کوتاہی وخلل کا واقع ہونا۔

(۴) مدارس، اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں طلبا کی تعلیم کا متأثر ہونا۔

(۵) نیز مدارس ومساجد جو پڑھنے لکھنے اور عبادت کی جگہیں ہیں، اُن میں اِسی عنوان پر گُفت وشُنید، بحث ومُباحَثہ اور تذکِرہ وتبصِرہ کا ہونا وغیرہ یہ سب ناجائز اُمور ہیں۔۔۔

 

اور ہر ایسا کھیل کھیلنا ودیکھنا، جو انسان کو اُس پر واجب حقوق (خواہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد) سے غافل کردے، یا منکرات ومنہیاتِ شرعیہ پر مشتمل ہو، یا اس کے نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہوں، ناجائز وحرام ہے

اصلاح:شریعت میں صرف تین کھیل کے علاوہ تمام کھیل کو جسے صرف بطور کھیل کھیلا یا دیکھا جائے ناجائز و حرام ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: قال رسول الله صلى الله علیه الصلوٰۃ والسلام کل لھو المسلم حرام الا ثلاثة ملاعبتة باھله وتادیبه لفرسه و مناضلته بقوسه اھ (حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا : مسلمان کے لیے ہرکھیل حرام ہے سوائے تین کے (یعنی مسلمان کے لیے سوائے تین کے باقی ہر کھیل حرام اور ممنوع ہے اور جو تین کھیل مباح ہیں وہ یہ ہیں خاوند کا اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا دل لگی کرنا، اپنے گھوڑے سے کھیلنا اس کی تربیت اور سکھلائی کرنا اور اپنی کمان سے تیر اندازی کرنا اھ) ۔

اسی حدیث کی روشنی میں دورحاضر کے تمام کھیل (کرکٹ،فٹ بال، ہاکی وغیرہ) کے متعلق حضرتِ بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی رحمۃ اللہ القوی تحریر فرماتے ہیں: کھیل کی غرض سے جو افعال کیے جائیں شریعت میں حرام و ناجائز ہیں، بالخصوص آج کل کا کرکٹ کا کھیل جو بے شمار برائیوں کا ذریعہ ہے، اس کھیل کے عادیوں کے پیچھے نماز ضرور مکروہ ہے، چاہے کھیلنے والے ہوں یا دیکھنے والے ہوں (فتاویٰ بحر العلوم ،ج 5، ص 579)

ازالہ: کیوں کہ آج کچھ پڑھا لکھا جاہل مولوی ایسے کھیل کے عادی ہیں کچھ دیکھنے میں اور کچھ کھیلنے میں لہذا اُن کے پیچھے نماز ناجائز و مکروہازالہ دوم: ہاں! کشتی کھیلنے کے متعلق اہل شرع فرماتے ہیں کہ اگر صرف کھیل کود کی غرض سے نہ کھیلے بلکہ اس نیت سے کہ اس کے ذریعے طاقت و قوت میں اضافہ ہو اور مخالفین اسلام سے مقابلہ کرنے میں مددگار ثابت ہو تو جائز ہے

جیسا کہ سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں: حدیث میں باہم کشتی کرنے کی اجازت موجود ہے یعنی جنگ وجہاد کے لیے قوت حاصل کرنے کے لیے نہ کہ کھیل کود کے لیے کیونکہ محض کھیل کود تو مکروہ ہے۔۔ نیز اسی کے آگے در مختار کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں: درمختار میں ہے کہ باہم کشتی کرنا بدعت نہیں مگر یہ کہ محض کھیل کود کے لئے نہ ہو (فتاویٰ رضویہ: ج 23،ص 279 ملخصاً)۔۔

تنبیہ: کرکٹ کھیلنا، کھلانا، میدان یا ٹی وی پر دیکھنا دکھانا، نیز ریڈیو پر اس کی کمنٹری سننا سنانا، اسی طرح موبائل پر کرکٹ اسکور کا ایس ایم ایس منگوانا، اور اس پر بحث ومباحثہ کرنا، یہ سب معصیت اور گناہ ہے اور شرعاً ناجائز و حرام ۔۔

لہذا بہ حیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے اور ہم اس بات پر سنجیدگی کے ساتھ غورکریں کہ اسلام میں کھیل کی حیثیت کیا ہے، اس کے جواز کے کیا اصول ہیں، کس قسم کا کھیل اسلام میں جائز ہے اور کون کون سے کھیل ناجائز ہیں۔۔؟؟

اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت مطہرہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، سچی بات کہنے لکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے نیز جو ایسے کھیل کے عادی ہیں اُنہیں عقلِ سلیم اور فہم مستقیم عطا فرمائے اور اعتدال کے ساتھ زندگی گزارنے والا بنائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی

(بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰ حضرت مشن، آبادپور تھانہ (پرمانک ٹولہ) ضلع کٹیہار بہار، الھند:

متعلم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی،بستی۔ یوپی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *