برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں ہر

Spread the love

برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر

وطن عزیز ہندوسان کی ریاست اترپردش میں مسلم لیڈروں کے انکاؤنٹر کی خبریں مسلسل آتی رہتی ہیں اس کی جو بھی وجوہات ہوں لیکن دو وجہیں اس کی یہ ہیں: کہ آر۔ایس۔ایس کی حمایت یافتہ برسر اقتدار پارٹی بی۔جے۔پی یہ کبھی نہیں چاہتی کہ اترپردیش میں مسلمانوں کی کبھی کوئی لیڈر شپ کھڑی ہو بلکہ چاہتی ہے کہ ہمیشہ ہندو مسلم کا کارڈ دکھاکر تادیر اقتدار پر قبضہ جماۓ رکھے۔

حال میں مشرکوں کی مسلمانوں سے عداوت ونفرت کا نشہ سر چڑھ کر بول رہاہے لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں اللہ تبارک وتعالی نے تو آج سے چودہ صدی قبل فرمادیا تھا کہ تمھارے سب سے بڑے دو دشمن ہیں ۔ ایک یہودی اور دوسرے کفار و مشرکین۔جیساکہ آیت کریمہ
لتجدن اشد الناس عداوۃ ألآیۃ اس کو بیان کررہی ہے
تن کے گورے من کے کالوں کے ہند کے

بعد سے مسلمان آج تک اپنی لیڈر شپ کھڑی نہ کرپاۓ جب کہ اس سے کم تناسب والی برادریاں ایسا کرنے میں کام یاب رہیں اس کی وجہ یہ رہی کہ مسلمان سیکولرزم کو اپنانے میں اپنی کامیابی تصور کرتے رہے جب کہ کوئی بھی پارٹی مسلمانوں کے لیے قطعی ہمدردی نہیں رکھتی بلکہ صرف ووٹوں کے لیے مسلم چہروں کو پرتیاشی کے روپ میں اتارتے ہیں۔

ممکن ہے کہ آپ میری بات سے متفق نہ ہوں لیکن اللہ تعالی نے اسے ذکر فرمایا کہ میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ یہ تم سے محبت سے ملتے ہیں جب کہ ان کا ظاہر و باطن میں جانتاہوں اور جو تم میں سے ایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ جیسا کہ اس آیت “یآایھا الذین آمنوا لاتتخذوا عدوی وعدوکم اولیاء۔” ألآیۃ میں ہے۔
لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اب سیکولرزم کے قریب نہ جائیں بلکہ خداورسول نے جو ہدایات دی ہیں ان پر عمل کریں یہود وہنود کی چالوں سے خبردار رہیں۔

آر۔ایس۔ایس کا منصوبہ ہندو راشٹریہ بنانے کا ہے۔ اس لیے وہ کبھی نہیں چاہتی کہ کوئی اس کے اس مقصد اصلی کے آڑے آۓ۔ اس لیے وہ چوٹی کے مسلم لیڈروں کا صفایا کرارہی ہے۔ لیکن صد افسوس! مسلمان اب بھی بیدار نہیں۔
بی۔جے۔پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک کتنے مسلم لیڈروں کا انکاؤنٹر ہوچکاہے یاانھیں برباد کردیا گیا ہے آئیے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں

سابق رکن پارلمینٹ عتیق احمد اور ممبر اسمبلی اشرف احمد کا قتل!

اپریل بروز ہفتہ سابق رکن پالمنٹ عتیق احمد اور کے15 بھائی سابق ممبر اسمبلی اشرف احمد کا ہاسپیٹل جانچ کے لیے لے جاتے ہوۓ راستے میں سرعام انتظامیہ و میڈیا کی موجودگی میں تین حملہ آوروں نے قتل کردیا۔ جس پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ ایک دن قبل عتیق احمد کے بیٹے غلام احمد اور اسد احمد کا پولس نے انکاؤنٹر کردیا تھا جس کی صفائی میں پولس کا کہنا تھا کہ اس نے جوابی کاروائی کی تھی تو جب عتیق واشرف پر گولیاں برسائی جارہی تھیں تو پولس نے یہاں جوابی کاروائی میں ان حملہ آوروں کو کیوں نہیں مارگرایا بلکہ یہاں انتظامیہ کے رویہ کو دیکھ کر یہ محسوس ہورہا تھا کہ دونوں آنکھ مچولی کھیل رہے ہوں۔

گولی چلانے والوں کے انداز کو دیکھ کر لگتاہے کہ یہ مبینہ سازش تھی اور باقاعدہ انھیں اسی کام کے لیے تربیت دی گئی تھی کہ گولی قریب سے ماری جاۓ کہ پار ہوکر دوسرے کو نہ لگے یوں ہی گولی سر میں مارنا تاکہ ہدف پر لگے۔ گولی چلاتے وقت جسم کو اس حالت میں رکھنا کہ توازن برقرار رہے ایک ہاتھ سے گولی کس طرح چلائی جاتی ہے؟ کہ اس کا کوئی ضرر نہ اٹھانا پڑے

مافیاؤں کو مٹی میں ملادیں گے( سی۔ایم یوگی آدتیہ ناتھ )
عتیق احمد ہتیہ کانڈ کے مجرم لو لیش تواری ، ارون کماراور سنی سنگھ کا اس واردات کو

انجام دینا حکومت کے لا اینڈ آرڈر پر بھی سوال کھڑے کرتاہے۔
چند روز قبل وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے پارلمنٹ میں یہ بیان دیا تھا کہ مافیاؤں کو مٹی میں ملادیں گے۔ یہ بیان نہایت غیر ذمہ دارانہ تھا کیوں کہ ان پر سب کی حفاظت کا ذمہ ہے انھیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ کورٹ کو چاہیے کہ مجرموں کی صحیح جانچ کراکر مناسب سزادی جاۓ۔ جب ایک وزیراعلی اس طرح کا جانب دارانہ بیان دے گا تو اس کے نتائج اسی طرح ہوں گے اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی یوں ہی ہوتی رہے گی

عتیق و اشرف کا قتل بھی ہندو مسلم نفرت کا نتیجہ!

میڈیائی کوریج کے مطابق حملہ آوروں نے عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد کے قتل کے بعد جے۔شری۔رام کا نعرہ لگایا جو ہندو مذہب کو بدنام کرتاہے اور ہندؤوں کے اندر مسلمانوں کے لیے نفرت کس قدر بھردی گئی ہے اس کی عکاسی کرتاہے جب ایک بادشاہ کسی خاص برادری کو نشانہ بناکر بیان دے گا تو اس کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں آپ اندازہ لگاسکتے ہیں۔

حملہ آوروں کا میڈیا کے بھیس میں آنا میڈیا کے تشخص کا غماز!
عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف احمد کے قتل کی واردات انجام دینے کے لیے جو حملہ آور آۓ۔ انھوں نے اپنے آپ کو میڈیا رپورٹر ظاہر کیا اس سے میڈیا کے رول کی عکاسی ہوتی ہے اور حالات حاضرہ میں میڈیا کا کیا رول ہے اسے خوب واضح کرتاہے کہ میڈیا بھی یک طرفہ یا برسر اقتدار پارٹی کی ہاں میں ہاں ملاتی ہے اور ایک خاص برادری کے لیے لوگوں کے دلوں میں نفرت کا بیج بوتی ہے۔

اعظم خاں پر 94/مقدمے سازشوں کا جال!
سپا پارٹی کے قد آور لیڈر اعظم خان بھی شرپسندوں،

زعفرانیوں اور زعفرانی سوچ رکھنے والوں کی سازشوں کا شکار ہوۓ۔ اعظم خان مسلمانوں کی آواز بلند کرنے والے اور حق کی لڑائی لڑنے والے، ایک بے باک، حق گو مہذب اور ایک بہترین تعلیم یافتہ مسلم لیڈر ہیں۔ لیکن یہ بھی بی۔جے۔پی کی آنکھ میں کھٹکتے رہتے ہیں جب سے بی۔جے۔پی اقتدار میں آئی چوٹی کے مسلم لیڈروں کا سیاسی کریئر ختم کرنے کے درپہ ہے تاکہ اس کا ہندو راشٹریہ کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکے۔

2022ء میں دیے گئے اسمبلی انتخابات کے حلف نامے میں اعظم خان اور ان کے گھروالوں پر کل 165/ مجرمانہ معاملوں کا ذکر کیا گیا۔ جب کہ 2017ء میں اعظم خاں پر صرف ایک ہی مقدمہ درج تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اعظم

خاں کو سیاسی میدان سے بلکل ختم کرنے کی منظم سازش چوطرفہ منصوبہ بندی ہے۔
اعظم خان اور ان کے بیٹے اور اہلیہ کے حلفیہ بیان کے مطابق اعظم خان کے خلاف کل 87 بیٹے عبد اللہ اعظم کے خلاف 43 جب کہ تزئین فاطفہ کے خلاف 35/ مقدمات درج ہیں۔ جن کی کل تعداد 165 بنتی ہے۔ انتخابات کے بعد بھی اعظم خان پر درج مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اب تقریبا 94/مقدمات اعظم خان پر درج ہیں۔

اعظم خان صاحب ان کی اہلیہ تزئین فاطمہ اور بیٹے عبد اللہ اعظم پر جعلی پین کارڈ اور جعلی پاسپورٹ بنانے کا الزام ہے جس کے نتیجے میں تینوں نے 26/ فروری 2020ء کو رام پور کی ایک عدالت میں خود سپردگی کی تھی اور وہاں ایک رات گزارنے کے بعد سیتاپور جیل منتقل کردیا گیا تھا پھر اہلیہ تزئین فاطمہ 10/ماہ جیل میں رہ کر20/دسمبر 2020ء کو ضمانت پر باہر آئی تھیں اور بیٹا عبد اللہ اعظم کو تقریبا 23/ماہ جیل میں رکھ کر 16/جنوری 2022ء کو رہا کیا گیا اور اعظم خان صاحب کو کورٹ سے عبوری ضمانت ملنے کے بعد 27/ماہ بعد 20/مئی 2022ء کو رہا کیا گیا۔

زیادہ تر مقدمات خاندان کے تینوں افراد پر 2006ء میں جوہرعلی یونیورسٹی کے معاملے میں درج کیے گئے۔ تینوں افراد کے خلاف جوہرعلی یونیورسٹی کے لیے سرکاری زمین ہڑپنے، یونیورسٹی میں دشمن کی جائداد کی زمین شامل کرنے، کسانوں کی زمین پر زبردستی قبضہ کرنے، مدرسے کی لائبریری کی کتابیں چوری کرنے، جل نگم بھرتی میں بدعنوانی، عبد اللہ اعظم کا جعلی برتھ سرٹیفکیٹ بنانے، اہلیہ تزئین فاطمہ پر رام پور پبلک اسکول کے لیے فرضی فائر این۔او۔سی لگانے، عبد اللہ پر الیکشن میں غلط معلومات دینے، پولیس کے ساتھ بدتمیزی کرنے جیسے سینکڑوں مقدمات درج ہیں۔

ایم۔پی ایم۔ایل۔اے کورٹ کی سزا کے بعد اعظم خان باعزت بری! سچ کی جیت
چند روز قبل ایم۔پی۔ایم۔ایل۔اے کورٹ نے سماجوادی پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق رکن پارلمینٹ اعظم خان کو اشتعال انگیز تقریر کے معاملے میں باعزت بری کردیا ہے۔
جو سچ کی جیت قانون کی بالادستی اور جھوٹ کا پردہ فاش ہے۔
واضح ہو کہ سابق رکن اسمبلی محمد اعظم خان کو ایم۔پی۔ایل۔اے کی نچلی عدالت نے ان کے 2019ء کی انتخابی ریلی میں وزیر اعظم نریندر مودی اور یو۔پی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور رام پور ڈی۔ایم اور دیگر سرکاری عہدے داروں پر نازیبا تبصرہ اور اشتعال انگیز تقریر کرنے پر کاروائی کرتے ہوۓ تین سال کی سزا اور 25/ ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔

اس پر الیکن کمیشن نے کاروائی کرتے ہوۓ اعظم خان صاحب کی اسمبلی رکنیت منسوخ کردی تھی دراصل اگر کسی بھی ممبر آف پارلمینٹ کو دوسال سے زیادہ کی سزا ہوتی ہے تو اس کی اسمبلی رکنیت منسوخ ہوجاتی ہے۔ اور یہ پابندی عائد کی تھی کہ آئندہ چھ سال تک الیکشن میں حصہ بھی نہیں لے سکتے۔

اعظم خان صاحب کی اس سیٹ پر جس سے انھیں برخواست کیا گیا تھا الیکن کمیشن نے ضمنی انتخابات کرادیے تھے اور اس سیٹ پر بی۔جے۔پی کے امیدوار آکاش سکسینہ قابض ہوگئے جو 80 سے زائد کیسز میں اعظم خان صاحب کے فریق مخالف ہیں۔
سوال یہ پہدا ہوتاہے کہ ہیٹ اسپیچ معاملہ میں اعظم خان صاحب کی جو سیٹ چلی گئی تھی کیا وہ انھیں واپس دی جاۓ گی؟

عبد اللہ اعظم کی رکنیت کی منسوخی ظلم بالاے ظلم!
اعظم خان کی اسمبلی رکنیت کی منسوخی کے بعد بیٹے عبد اللہ اعظم کی اسمبلی رکنیت منسوخ کی گئی جو ظلم بالاے ظلم ہے۔

مراداباد کی ایک عدالت نے 15/سال پرانے کیس کو عبد اللہ اعظم کو دو سال سے زیادہ کی سزا سنائی ہے اور اس کے بعد الیشکن کمیشن نے ان کی اسمبلی رکنیت منسوخ کردی۔
واضح رہے کہ 15/سال قبل 29/جنوری 2008ء کو تھانہ چھجلیٹ کی پولس نے اعظم خان اور بیٹے عبد اللہ اعظم کی گاڑی کو جاتے ہوۓ مراداباد میں چیکنگ کے لیے روکا تھا اس پر ان کے حامی کافی مشتعل ہوگئے اور جم کر نعرے بازی کی۔ اس واردات کے بعد چھجلیٹ پولیس نے معاملہ درج کیا اور عبد اللہ سمیت نو لوگوں کو ملزم ٹھرایا اور کہا کہ سرکاری کام میں یہ لوگ رکاوٹ بنے۔

اعظم خان اور ان کے تمام اہل خانہ بیوی تزئین فاطمہ اور بیٹے عبد اللہ پر تقریبا 94/مقدمات کا تسلسل قائم کرنا اور دونوں کی رکنت منسوخ کرنا، 25/ ہزار کا جرمانہ عائد کرنا، انتخابی پابندیاں لگانا، یونیورسٹی پر بلڈوزر چلادینا، رام پور اور سوار کی سیٹ پر قانونی داو پیچ کے ذریعے قبضہ جمالینا،

بلاوجہ زندان میں ڈال دینا، تقریر میں حذف و اضافہ کرکے تین سال کی سزا کرادینا اور چھ سال تک حق راے دہی چھین لینا اس کے علاوہ بے شمار ظلم وستم کے پہاڑ ڈھانا، مسلمانوں کو جڑسے ختم کرنا یا مسلم لیڈر شپ کو ختم کرنا ہے۔

ورنہ ایسے نہ جانے کتنے لیڈر ہیں جن پرکئی دہائیوں تک مقدمے درج ہیں لیکن ان پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی وہ آرام کی زندگی بسر کررہے ہیں کیوں کہ ان کے نام کے آگے مسلم جڑا ہوا نہیں ہے۔

عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد کے قتل کے وقت ایک لسٹ وائرل ہوئی جس میں غیر مسلم مافیا لیڈروں کے نام درج تھے اور ان سب پر قریب سو تک اور بعض پر اس سے بھی زیادہ مقدمات درج ہیں اور ان پر کوئی کاروائی نہیں ہورہی جب کہ مسلم لیڈروں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا جارہاہے۔

یہ مسلمانوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔آئیے اس فہرست پر نظر ڈالتے ہیں۔

جرموں کی کالی دنیا!!

نمبرشمار نام مقدمہ صوبہ

1_ پنٹو سنگھ 23/مقدمے بستی

2_ کلدیپ سنگھ سینگر 28/مقدمے اناؤ

3_ راجا بھیا 31/مقدمے پرتاب گڑھ

4_ ونیت سنگھ 34/مقدمے چندوسی

5_ اشوک چندیل 37/مقدمے حمیرپور

6_ چنو سنگھ 42/مقدمے مہوا

7_ دھننجے سنگھ 46/مقدمے جون پور

8_ مونو سنگھ 48/مقدمے سلطان پور

9_ شنی سنگھ 48/مقدمے دیوریا

10_ بلبل سنگھ 53/مقدمے بنارس

11_ سونو سنگھ 57/مقدمے سلطان پور

12_ سنگرام سنگھ 58/مقدمے بجنور

13_ اجے سنگھ سپاہی 81/مقدمے مرزاپور

14_ ڈاکٹر ادے بھان سنگھ 83/مقدمے بھدوہی

15_ برج بھوسن سنگھ 84/مقدمے گونڈا

16_ بادشاہ سنگھ 88/مقدمے مہوا

17_ برجیش سنگھ 106/مقدمے وارانڑسی

 

محترم قارئین! مذکورہ بالا جدول میں مندرج افراد پر بے شمار مقدمات ہونے کے باوجود بھی ان پر کوئی کاروائی نہیں جب کہ مسلمم رہنماؤں کو اس ملک میں سانس لینا دشوار ہوگیاہے یہ ایک طرفہ کاروائی کیوں؟ برق گرتی ہے تو بےچارے مسلمانوں پر!
مختار انصاری کو 32/سال پرانے کیس میں دفعہ 302 کے تحت عمر قید کی سزا
مختار انصاری کو وارانسی ایم۔ایل۔اے کورٹ نے 05/جون 2023ء کو 32/سال پرانے اودھیش راے قتل معاملے میں دفع 302 کے تحت عمر قید کی سزا سنادی گئی ہے اور دو معاملوں میں 120000 ایک لاکھ بیس کا جرمانہ عائد کیا گیا۔

مختار انصاری پر تقریبا 64/مقدمے درج ہیں۔ جن میں 15/مقدمے قتل سے متعلق ہیں۔
بہر حال مجرم کو اس کے جرم کی سزا قانونی اعتبار سے تجویز ہونی چاہیے اور اس کا فیصلہ بھی عدالت کرے۔ انکاؤنٹر کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی حالت سدھاریں خواب غفلت سے باہر آئیں۔ ورنہ نتائج اور برے ہوسکتے ہیں۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کردیں تو چرچا نہیں ہوتا

کتبہ:محمد ایوب مصباحی پرنسپل وناظم تعلیمات دار العلوم گلشن مصطفی بہادرگنج وامام مکہ مسجد عالم پور وساکن بایزیدپور سلطانپور دوست ٹھاکردوارہ مراداباد

رابطہ نمبر: 8279422079

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *