قضیہ اجمیر اور نام نہاد محبین غریب نواز
قضیہ اجمیر اور نام نہاد محبین غریب نواز
محمد زاہد علی مرکزی
چئیرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ
کئی سالوں سے رہ رہ کر یہ آواز اٹھتی رہی ہے کہ آستانہ حضور غریب نواز علیہ الرحمہ ایک مندر ہے، پہلے جب یہ شور ہوتا تھا تو لوگ اسے “پاگل کی بڑ” سے زیادہ اہمیت نہ دیتے تھے
دھیرے دھیرے یہ آواز تیز ہوتی گئی اور بڑھتی عمر کے ساتھ اس آواز میں بھاری پن، پختگی آتی گئی اور آواز کا دائرہ بھی ویسع ہوتا چلا گیا، نوبت بایں جا رسید کہ اب کورٹ میں پٹیشن ڈال دی گئی ہے
عرضی ہندو سینا کی طرف سے ڈالی گئی ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایک” شِو مندر” ہے، عرضی گزار نے صدر دروازے کی ڈیزائن کو اپنی دلیل بنایا ہے، سماعت 10 اکتوبر کو ہوگی، اب اسے پاگل کی بڑ سمجھنا خود پاگل پن کی اعلی علامت ہے -ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب یہ آواز اپنی عمر کے ابتدائی مراحل میں تھی تبھی اس پر مضبوطی سے دباؤ ڈال کر ختم کیا جاتا
لیکن ایسا ہو نہ سکا، نام نہاد محبین خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ نے اپنی روزی روٹی سے مطلب رکھا، کان پر جوں تک نہ رینگی، آج بھی ان کی طرف سے کوئی خاص بیان یا ایکشن کی امید نہیں دکھتی، نہ ان کے پاس پیسے کی کمی ہے اور نا ہی وسائل کی
لیکن کسی لیگل ایکشن کا ابھی تک کوئی اعلان نہیں، آگے کیا ہوتا ہے یہ تو چند ایام کے بعد ہی معلوم ہوگا – ملک میں جس طرح کا ماحول ہے اس میں کچھ بھی بعید نہیں، لیکن تاریخ سے شغف رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہمارے مخالفین کا یہی پیٹرن رہا ہے، اولا آواز اٹھا کر ماحول بنایا جاتا ہے، پھر کورٹ جاتے ہیں، کورٹ سے معاملہ خارج ہوتا ہے
چند سال انتظار کرتے ہیں اور پھر دوبارہ عرضی ڈالی جاتی ہے اور اس بار سروے کا آرڈر ہوتا ہے، سروے کے نتائج آپ بخوبی جانتے ہیں اور پھر ہماری مساجد، درگاہیں، درس گاہیں، اوقاف ہمارے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں – خیر! مجاورین سے کوئی امید نہیں، ہمیں حفاظت کے لیے تیار رہنا چاہیے
اور ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے، اللہ خیر فرمائے – درگاہ اجمیر شریف اور ان کے متبعین کو جس قدر بریلی، سلام رضا، نعرہ رضا سے دقت ہے کاش اتنی ہی دقت ان لوگوں سے بھی ہوتی تو شاید یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، مزے کی بات یہ ہے کہ ان نام نہاد محبین اجمیر کا کوئی بھی قضیہ ہو، ان کی بات بریلی والے ہی کرتے ہیں، جب بھی حرمت غریب نواز علیہ الرحمہ کی بات آتی ہے تو سب سے پہلے رضا اکیڈمی ہی پیش پیش دکھائی دیتی ہے
پچھلے سال مجاورین کی زائرین کے ساتھ بد سلوکی کا مسئلہ ہوا تو پورے ملک سے نام نہاد محبین خواجہ نے ان مجاوروں کی حمایت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، ہمارے علاقے میں بھی ایسے ہی محبین نے ان بے عمل مجاوروں کی حمایت میں جلسوں میں گھنٹوں تقریر کرکے مجاورین کی عظمت میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے
عالم کہلانے والے بھی یہ کہتے پائے گئے کہ چاہے وہ دس دس انگوٹھیاں پہنیں یا بال بڑے رکھیں یا اور کوئی کام کریں، ہمیں اس سے کیا غرض؟ ہم تو نسبت والے لوگ ہیں اس لیے صرف نسبت دیکھیں گے، نسبت سے شئی ممتاز ہوتی ہے اس لیے یہ لوگ بھی ممتاز ہیں
چلیے! آپ ممتاز مانتے ہیں، کوئی بات نہیں، لیکن ہمارا عریضہ خدمت عالیہ میں یہ ہے کہ جن کو غریب سے نسبت ہے ان کے لیے تو آپ گھنٹوں کوشاں ہیں کہ ان کی عزت پر حرف نہ آئے، لیکن وہ ذات جس کی بنا پر آپ انھیں ممتاز مانتے ہیں جب اس ذات اور اس درگاہ عالیہ کی بات آتی ہے تو آپ کے نہ تو جلسے دکھائی دیتے ہیں اور نہ آپ؟
اب ہم اس رشتے کو کیا نام دیں؟
حضور! کچھ نہ کریں تو کم از کم مجاورین کے مقابلے ناموس غریب نواز علیہ الرحمہ پر دو گنے جلسے ہی کر دیں، آپ کی خطابت کے جوہر ایک بار پھر دیکھنے کو مل جائیں
ویسے ان محبین کی ایک بڑی ناکامی یہ بھی ہے کہ پیسے کی بہتات کے باوجود یہ اپنے ممدوحین سے یہ بھی نہ کرا سکے کہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے نام پر کوئی بڑا ادارہ، اسکول، یونیورسٹی یا کوئی رفاہی کام کرا سکتے