نتیش کمار وزیر اعظم ہند

Spread the love

نتیش کمار، وزیر اعظم ہند

سیکولر اقدار و ایثار کی مثال ہیں وزیر اعلی بہار نتیش کمار، یوں کہیں کہ بے مثال ہیں، جنہوں نے اخلاقی بنیاد پر 1999 میں وزیر ریل کے عہدہ سے استعفی دے دیا تھا اور وزیر اعلی کی کرسی سماج کے نچلے طبقہ کے جیتن رام مانجھی کو 20 مئی 2014 کو سونپ دی تھی، وزیر اعظم کا عہدہ ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا وہ تو مشن کے تحت کام کرتے ہیں، جس نے ہندوستان کو ترقی کا ماڈل دیا ہے، حقیقت میں وہ تمام عہدوں سے بالاتر ہیں

 

جمہوری ہندوستان کا وزیر اعظم ہونا فخر کی بات ہے، ہر سیاسی لیڈروں کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے۔ زندگی کی تمام سہولیات جس سے حاصل ہو۔

اس لئے آج وزیر اعظم کے عہدہ کے بے شمار امیدوار ہیں جن کے بارے میں عوام مختلف رائے رکھتی ہیں۔ ان میں ایک نام بہار کے معزز وزیر اعلی نتیش کمار کا بھی ہے۔ عظیم اتحاد اور بہار کے عوام کی وہ پہلی پسند ہیں۔ اقلیتی طبقہ کی خواہش بھی جناب نتیش کمار کو وزیر اعظم بنانے کی ہے، کیونکہ این ڈی اے میں رہ کر بھی وہ مسلمانوں کی حمایت میں کھڑے رہے اور ان کی ترقی کے لئے فکرمند رہے۔

وہ سیکولر اقدار و ایثار کی مثال ہیں۔ ہندوستان کے مشہور، معروف، مقبول ترین و ہردل عزیز رہنما جناب لالو پرساد یادو، ان کے صاحبزادے نائب وزیر اعلی بہار جناب تیجسوی پرساد یادو بھی انہیں وزیر اعظم کی کرسی پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

یہ سچائی ہے، اس بات کا یقین یوں ہوتا ہے کہ لالو پرساد یادو خود انتخاب لڑ نہیں سکتے اور تیجسوی یادو کو ریاستی سطح پر ہی ابھی مضبوط قیادت کے لئے تیار کرنا ہے اس مقصد میں وزیر اعلی جناب نتیش کمار سے اتحاد کارآمد ثابت ہو رہے ہیں۔

جناب نتیش کمار کے سیاست کرنے کا انداز ہی نرالا ہے، لوگ انہیں پلٹو رام کے نام سے پکارتے ہیں، لیکن وہ وکاس پروش ہیں۔

لوگ ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ کرسی کے پیچھے چلتے ہیں لیکن 20 مئی 2014 کوجیتن رام مانجھی کو وزیر اعلی کی کرسی سونپ کر انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ انہیں کرسی کی لالچ نہیں بلکہ بہار کی ترقی ان کا اہم نصب العین ہے، مانجھی کو وزیر اعلی کی کرسی پر بیٹھا کر انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ اپنی

کرسی وہ سماج کے سب سے نچلے طبقہ کو بھی سونپ سکتے ہیں۔ ” مشہر ” ذاتی کی بہار میں آبادی بہت کم ہے، جمہوریت میں اسے اونچا سے اونچا عہدہ حاصل کرنے کا حق حاصل تو ہے لیکن وزیر اعلی بننے کے لئے ووٹ چاہئے اور

اسمبلی میں نمبر آف ممبران چاہئے جو اس سماج کے لئے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ جناب کمار نے اسے ممکن کر دیا، جیتن رام مانجھی کو انہوں نے نہ صرف وزیر اعلی بنایا بلکہ آج جو وہ بڑے رہنما کی حیثیت میں ہیں وہ بھی نتیش جی کی ہی دین ہے۔ وہ 245 میں صرف چار سیٹ پر ہی سمٹ جاتے ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ وہ کل کی جگہ اپنے بڑے حمایت والی پارٹی سے حصہ میں ملے دس سیٹوں پر ہی انتخاب لڑتی ہے اور ان کی مہربانی پر ہی جیت بھی درج کر پاتی ہے۔ اس لئے وزیر اعلی جناب کمار کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ کرسی کے

پیچھے بھاگتے ہیں یا لالچی ہیں، یہ سب فضول کی باتیں ہیں۔ ان باتوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ عوام اور عظیم اتحاد کے رہنماؤں کی وہ پہلی پسند ہیں لیکن جناب نتیش کمار خود کو وزیر اعظم کے عہدہ کے دوڑ سے الگ بتاتے ہیں۔ جناب کمار اخلاقی اعتبار سے بھی اونچا مقام رکھتے ہیں۔ ایک واقعہ کی جانب ہم آپ کا دھیان

مبذول کرانا چاہیں گے کہ مرکز میں جب وہ وزیر ریل تھے تو 1999 کے ایک حادثہ گیسل ٹرین ڈیزاسٹر کی اخلاقی ذمہ داری لیتے ہوئے انہوں نے استعفی دے دیا تھا۔ آج ٹرین کا بڑا سے بڑا حادثہ ہو جاتا ہے استعفیٰ تو دور اخلاقی ذمہ داری قبول کرنے کو بھی کوئی تیار نہیں ہوتا ہے، کہیں نہ کہیں سے اس میں حزب اختلاف یا غیر ملکی ایجنسیوں کی شمولیت

تلاشنے کای ہر ممکن کوشش ہوتی ہے۔ نتیش کمار نے ایک سیاسی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ شرافت و اخلاقیات کا جو عمدہ مثال پیش کی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔

انہوں نے بہار کی تصویر بدلنے کے لئے جس تحریک کا آغاز 1905 میں کیا تھا آج اس کا نتیجہ صاف نظر آرہا ہے‌۔ کئی اہم معاملے میں بہار ملک کی رہنمائی کر رہا ہے۔ ملک کے عوام کو آج یقین ہو گیا ہے کہ بہار سے جناب نتیش کمار، لالو پرساد

یادو اور تیجسوی پرساد یادو نے ہندوستان کو بھاجپا سے آزاد کرانے کے جس تحریک کا آغاز کیا ہے وہ ابھی سے کامیابی حاصل کرنے لگا ہے، بھاجپا حکومت حزب

اختلاف کے اتحاد ” I.N.D.I.A سے اتنا گھبرا گئی ہے کہ گھبراہٹ میں جو کبھی میک ان انڈیا وغیرہ کا نعرہ دیا کرتے تھے اب وہ ہندوستان کے آئین سے انڈیا نام کو ہی ہٹانے پر تلی ہے۔

محمد رفیع

7091937560

rafimfp@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *