مدارس اسلامیہ کے سروے

Spread the love

مدارس اسلامیہ کے سروے
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مدارس اسلامیہ اور ملی تنظیموں کی مخالفت کے باوجود اترپردیش حکومت نے آزاد مدارس کے سروے کا کام شروع کردیا ہے ، کام کا آغاز دیوبند کے دار العلوم زکریا سے کیا گیا ہے ، یہ ایک سوچی سمجھی اسکیم ہے ، کیوں کہ بہت سارے مدارس مغربی یوپی میں ہی واقع ہیں، دیوبند تو مدرسوں کا شہر ہے ، یہ سروے کرنے والے اب دار العلوم دیوبند، مظاہر علوم اور ندوۃ العلماء تک پہونچ گیے ہیں، یقینا مدارس اسلامیہ جو خدمات انجام دے رہے ہیں، اس میں کہیں بھی انگشت نمائی کا موقع نہیں ہے ، لیکن جانچ کرنے والوں کی نفسیات بھی پولس والوں سے کم نہیں ہوتی، جس طرح پولس والے اگر کسی کی گاڑی کو ہاتھ دے دیں تو کچھ نہ کچھ کمی نکال دیتے ہیں، ویسے ہی جانچ کرنے والی ایجنسیاں غیر ضروری طور پر مدارس والوں کوہراساں کرنے کی کوشش کریں گی، جانچ کا یہ کام بہبودیء اطفال کی منصوبہ بندی کے نام پر کیا جارہا ہے اس لیے مدارس کے طلبہ کے خورد و نوش اور رہائش کا معیار بھی جانچ کے دائرہ میں آئے گا اور سروے کے بعد یہ ممکن ہے کہ بہت سارے مدارس کو اسی حوالہ سے یا تو آسام سرکار کی طرح اترپردیش کی یوگی حکومت بند کردے یا ایسے شرائط لگادے جن کا پورا کرنا چھوٹے مدرسوں والوں کے لیے خصوصاً ممکن نہ ہوسکے ۔
اترپردیش میں اگر یہ سروے بہبودیٔ اطفال کے لیے کیا جارہا ہے تو گروکل، پاٹھ شالے اور دوسرے مذاہب کے اقامتی تعلیمی اداروں کا سروے کیوں نہیں کرایا جا تا، بلکہ خود سرکاری اسکولوں میں ملنے والے دوپہر کی خوراک کا جائزہ حکومت کیوں نہیں لیتی اور وہاں جو غیر معیاری غذائیں ملتی ہیں کیوں وہ بہبودی اطفال کے خلاف نہیں ہیں،
حکومت نے مدارس کے سروے کے لئے جو سوالات تیار کیے ہیں،

ان میں سوالوں کی تعداد بارہ ہے ، مدرسہ کانام، مدرسہ چلانے والے ادارہ کا نام، مدرسہ کے قیام کا سال، مدرسہ کرایہ کی عمارت میں ہے یا اس کا اپنا مکان ہے ، پینے کے پانی کی سہولت، بیت الخلا کا نظم، بجلی کی سہولت ہے یا نہیں، مدرسہ میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد، اساتذہ کی تعداد، مدرسہ کا نصاب، مدارس کا ذریعہ آمدنی کیا ہے اور وہ مدارس کس تنظیم کے تحت چل رہے ہیں، جہاں تک مدارس کی مالیات کا تعلق ہے پورا ہندوستان اور خود سرکار بھی اس بات کو جانتی ہے کہ مدارس کے ذمہ دار، سفرائی، اساتذہ اور محصلین دوکان دوکان اور گھر گھر جاکر مسلمانوں سے خیرات، زکوٰۃ، صدقات، عطیات وغیرہ کی رقومات حاصل کرتے ہیں، بڑی محنت کے باوجود مدارس کا سالانہ بجٹ پورا نہیں ہوتا اور کئی کئی مرتبہ ان کی تنخواہ باقی رہ جاتی ہے ، پھر موسم بہار رمضان آجاتا ہے ، دوبارہ محنت شروع ہوتی ہے تو اساتذہ کی تنخواہیں ادا ہوتی ہیں، خورد و نوش اور رہائش کا معیار بھی آمدنی کے اعتبار سے طے ہوتا ہے ، مدارس کے ذمہ داران اس بات کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ اچھا سے اچھا کھلایا جائے ، اچھی طرح ان کی بود و باش ہو، لیکن چھوٹے مدرسوں کے لیے ایسا کرنا عملاً ممکن نہیں ہوتا، یہ ویسے ہی ہے ،جیسے ہم اپنے گھر کا بجٹ بناتے ہیں، کون نہیں چاہتا کہ اپنے بچوں کو اچھی رہائش اور اچھی خوراک فراہم کرائے ، لیکن سارا کچھ آمدنی پر منحصر ہوتا ہے ۔ آمدنی نہ ہو تو گھر میں بھی روٹی چٹنی پر گزارا کرنا پڑتا ہے اور کبھی فاقہ کشی کی بھی نوبت آتی ہے

ہر مدرسہ ایک خاندان کی طرح ہے اور اس کا سب کچھ چندے کے ذریعہ آمدنی پر منحصر ہوتاہے ۔ اور یہ نوبت اس حالت میں آتی ہے کہ وہاں پڑھانے والوں کی تنخواہیں یومیہ اجرت پر مزدوری کرنے والوں سے بھی کم ہوتی ہے ، یہاں کے اساتذہ بقدر کفاف روزینہ پر کام کرتے ہیں، ان کی نظر اجرت پر نہیں اللہ رب العزت کی جانب سے ملنے والے اجر پر ہوتی ہے ۔ اور وہ آخرت کی امید پر قلیل تنخواہ پر کام کرتے ہیں، عمومی احوال یہی ہیں، ہوسکتا ہے بعض مدارس کثرت آمدنی کے باوجود طلبہ کی خوراک، اساتذہ کی تنخواہ اور بود وباش کو معیاری نہیں بناتے ہوں، لیکن ایسا شاذ و نادر ہی ہوا کرتا ہے ۔
اترپردیش کے وزیر برائے اقلیتی امور دانش آزاد انصاری نے اس سروے کا جواز یہی بتایاتھا کہ اس سروے کے ذریعہ دینی مدارس میں پڑھ رہے بچوں کو دی جانے والی مراعات کی جانچ کی جائے گی اور تحفظ حقوق اطفال کمیشن کے مطلوبہ معیار کو سامنے رکھا جائے گا۔ مطلب صاف ہے جو مدارس اس معیار پر پورا نہیں اتریں گے ۔

ان کے لئے سرکار مصیبتیں کھڑی کرے گی اور غریب مسلمانوں کے جوبچے ان مدارس میں تعلیم پاکر آگے بڑھ رہے ہیں، ان کے راستے مسدود کردیے جائیں گے ۔ مسلمانوں کا تعلیمی گراف جو پہلے ہی دوسرے مذاہب کے مقابلے انتہائی کم تر ہے ۔ وہ جہالت میں خطرے کے نشان سے نیچے چلاجائے گا، ایسے میں ہمیں سرکار سے تصادم یا تعاون کے نقطہ نظر سے غور کرنا چاہیے ، جو مفید ہو اس کی طرف مدارس والوں کی رہنمائی کی جائے ۔ جو بھی قدم اٹھایا جائے متحد ہوکر اٹھایا جائے ، اگر سب لوگ الگ الگ تجاویز لاکر اس پر عمل کرانا چاہیں گے تو یہ ناممکن سا ہوگا اور ہماری آواز بھی کمزور ہوگی، امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی مدظلہ بھی اس سلسلے میں کافی فکرمند ہیں، امید کی جاتی ہے کہ ان کی فکرمندی کے نتیجہ میں جلدہی کوئی لائحہ عمل سامنے آئے گا۔ممکن ہے امارت شرعیہ تحفظ مدارس کے عنوان سے کوئی اجلاس بلائے ۔

Leave a reply

  • Default Comments (0)
  • Facebook Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *