کیا ہم دوستی کا حق ادا کررہے ہیں

Spread the love

کیا ہم دوستی کا حق ادا کررہے ہیں ؟

دوستی لفظ ایک ایسا لفظ ہے جس کی تعریف کرتے زبانیں نہیں تھکتیں اور نہ جانے کتنے عظیم مفکرین نے اس کی کتنی تعریفیں بتائی ہیں مطلب یہ کہ دوستی ایک احساس ہے جس میں صداقت ،محبت والفت ،خلوص ودیانت،رہروی وحفاظت جیسی چیزوں کا خیال کیا جاتا ہے اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے اسے پاکیزہ رشتے کی بنیاد ڈالی جاتی ہے ۔

آج کے اس پر فتن وپر آشوب دور میں جہاں بقول شاعر درد وغم ملقب بدبیر الملک یعنی اسد اللہ خان غالبؔ ’’آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا ‘‘،رشتے تو بس نام کے ہی باقی رہ گئے ہیں ،بھائی بھائی کا نہیں ہے ، عورت اپنے شوہر کے ساتھ بے وفائی کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتی ، اولاد ماں باپ کے دشمن بنے پڑے ہیں اور بہن بہن کی پرواہ نہیں کرتی سب کچھ محض ایک کھلواڑ کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔

یہاں اب کوئی یہ نہیں سوچتا کہ میں اپنے ساتھ ساتھ اپنے رشتے داروں اور محبوں کے لئے بھی کچھ کروں بلکہ اب دنیا نفسی نفسی کے معاملے میں پڑ چکی ہے وہ کہتے ہیں نہ ’’ اپنا کام بنتا بھاڑ میں جائے جنتا ‘‘ اب محض اسی تصور کے ساتھ دنیا کے اکثر وبیشتر لوگ زندگی گزار رہے ہیں اور اس پر بھی افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ یہ سب کرتے ہوئے خوش ہونے کا بھی دعوی پیش کرتے ہیں کیونکہ شاید انہیں اسی میں خوشی کا احساس ہوتا ہے حالاں کہ حقیقی خوشی کا حصول وہ بھی ایسی حالت وصورت میں تو بس نا ممکن ہی ہے ۔

یہ سب باتیں تو ہیں ہی مگر اس میں سب سے زیادہ جس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم انسانوں میں ایک بات بہت عام ہے وہ یہ کہ آدمی جتنے بھی لوگوں سے دشمنی کرلے ،چاہیے جتنے خاندان والوں سے ناراض رہ لے یا چاہئے ماں باپ سے ہی کیوں جھگڑلے ایسے تمام حالات میں اس کا کوئی نہ کوئی ایک ایسا دوست ضرورت ہوتا ہے جو اس کا ساتھ دیتا ہے اور اس کو تنہائی کے اس پر الم ودردناک احساسات سے بچائے رکھتا ہے اور صحیح معنوں میں یہی اصل دوستی ہے۔ 

جس کا ہر کوئی قائل ہے ۔مگر یہ تو ایک سطحی بات تھی یعنی یہ کہ دوستی میں عموما ایسا ہوتا ہے مگر ہمیں اس بات کی گہرائی وگیرائی تک جانے اوراس کے موجودہ حالات کو سمجھ نے کی ضرورت ہے ۔ پس ہمیں بہت سارے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ مثلا کیا ہم اپنی دوستی کے حقوق اداکررہے ہیں ؟ کیا ہماری دوستی صحیح معنوں میںحقیقیہے ؟

کیا ہم دوستی کے نام پر دوسروں کو دھوکے میں تو نہیں رکھ رہے ہیں ؟کیا ہماری دوستی ہمارے لیے قابل فخر ہے ؟

کہیں ہماری دوستی ہی تو ہمارے لئے خطرے کا باعث نہیں ہے ؟  آخر ہم نے جس سے دوستی کی ہے وہ اس لائق ہے کہ اس سے دوستی کی جائے وغیرہ وغیرہ ۔ان سوالات سے گھبرانے یا ڈرنے کی کوئی ضرورت تو ہے نہیں بہر حال ان کا جواب ضرور ی ہے جس کا خلاصہ کچھ یوں کیا جاسکتا ہے ۔

در اصل دوستی کہتے ہی اس کو ہیں کہ اس میں فائدہ یا نقصان نہ دیکھا جائے مگر اس بات کا مطلب ہمیں اس حیثیت سے سمجھنا چاہئے کہ ہم ایک مسلمان ہیں پس ہمیں دوستی کے نام پر اپنے اسلامی اصول وضوابط کے ساتھ کوئی بھی سمجھوتا نہیں کرنا ہے ۔یعنی یہ کہ ہمیں دوستی میں فائدہ یا نقصان نہیں دیکھنا چاہیے۔ 

لیکن صرف اس حد تک جہاں تک نقصان یا فائدہ ہمارے مذہبی امور سے منسلک نہ ہو مطلب یہ کہ اگر دوستی کی وجہ سے اسلامی اصو ل میں کوئی سمجھوتا کرنا پڑے تو ہمیں اس کے لیے ہر گزبھی مستعدنہیں ہو نا چاہئے بھلے ہی اس سے ہماری دوستی کیوں نہ خراب ہو جائے ۔اب ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آخر اسلامی نقطہء نظر سے دوستی کے معنی کیا ہیں ؟

تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ اسلام میں دوستی ایک ایسے رشتے کا نام ہے جس میں اسلامی اصول وضوابط کا خیال رکھتے ہوئے محبت والفت اور احترام وعزت کی پاسبانی کی جائے اور ہر گھڑی ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں برابرکی شرکت کی جائے ۔

چوں کہ آج کل ہمارے معاشرے میں دوستی کے نا م پر نا جانے کیا کیا جاتاہے اور اسے اس قدر مشہور کردیا گیا ہے کہ جیسے ان کی غیر موجودگی سے دوستی کو کالعدم سمجھا جاتا ہے مثال کے طور پر یہ دیکھئے کہ جب بھی کسی کا یومِ ولادت ہوتا ہے تو اس کے تمام دوست اس کی اسٹوری انسٹا گرام پر لگاتے ہیں اور اسے مبارکبادیاں پیش کرتے ہیں

لیکن اگر کوئی اس طرح نہ کرے تو جیسے کہ لوگ یوں سمجھنے لگتے ہیںکہ شاید اس کی اس سے دوستی ہی نہیں ہے یا پھر وہ اس کا صحیح اور پکا دوست نہیں ہے ۔برتھ ڈے کے نام کیک کاٹا جاتا ہے اور ناچ گانے کی ناجائز محفلیں سجائی جاتی ہیں اگر کوئی اس میں شرکت کرنے سے اکار کردیں تو اس کی دوستی پر شک کیا جاتا ہے اور اسے نہ جانے کس کس قسم کے طعنے دئے جاتے ہیں جو کہ کافی حد تک قابلِ تذمیم ہے

مگر شاید ہماری نئی نسلوں کو ان سب باتوں کا کوئی علم ہی نہیں اور وہ اس طرح کے علوم کے حصول میں کوئی دلچسپی بھی نہیں رکھتے بلکہ اس سے بچنے کی حتی الامکان کوششیں کرتے ہیں۔

صحیح معنوں میں دوستی تویہ کے کہ ہم اسلامی اصولو ں کے سائے میں خود بھی زندگی گزاریں اور اپنے تمام دوست واحباب کو اس کی تلقین کریں وہ کہتے ہیں کہ نہ کہ دوستی یہ ہے کہ ہم اکیلے جنت میں نہ جائیں بلکہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں کو بھی جنت کی راہ دکھائیں تاکہ وہاں بھی ہماری دوستی دائم وقائم رہ سکے ورنہ اس دنیا کہ دوستی ہے ہی کس کام کی ؟

یہ چار دن کی زندگی اور اس میں بھی نام کی دوستی آخر ہمارے کس کام کی ؟ہمیں بحیثیت مسلمان اور محب سنتِ رسول اللہ یہ سوچنے اورسمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنی دوستی صحیح معنوں میں نبھارہے ہیں ؟

کیا ہماری دوستی سے اللہ راضی ہے کیوں کہ اس کی رضا کے بغیر ہمارا ہر عمل بے جا اور بے تکا ہے جس سے ہمیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہونے والا سوائے اس کے اس میں صرف اور صرف وقت کی بربادی ہوگی اور کچھ نہیں ۔ہم اگر نماز پڑھنے جائیں تو ہمیں سوفیصد لازم ہے کہ اپنے دوستوں کو بھی ساتھ لے جائیں اور اگر وہ نہ جائیں تو ان سے ناراضگی کا اظہار کریں اور قطع تعلق کریں کیونکہ شایدہمارے اس عمل سے ان میں کوئی تبدیلی رونما ہو سکے ۔

آج ہمیں تو یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ برائی غالب سے غالب تر ہوتی جارہی ہے ۔جو لوگ نمازی ہیں وہ اپنی دوستی کے چکر میں اور دوستوں کے ناراض ہوجانے کے ڈر سے خود بھی نماز کے ساتھ سمجھوتا کرلیتے ہیں اور نماز سے دوری اختیار کرلیتے ہیں

جس میں ذلت ورسوائی کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آنے والا ۔ہمارے یہاں کا رواج اتنا خراب ہو چکا ہے کہ اب دوستی کے نام پر غیر شرعی امور انجام دئے جارہے ہیں دوستوں کو خوش کرنے کے لیے فلمیں دیکھنے جاتے ہیں

اور خود بھی اس میں اپنی خوشی کا مکمل مظاہرہ کرتے ہیں،گانے سنتے ہیں ،سگریٹ نوشی کی محفلیں جماتے ہیں اور دیر رات تک گھر سے باہر رہ کر دوستی نبھانے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں اور بے شک اس سے بھلائی کا کوئی تعلق نہیں جس کا خمیازہ ہر کسی کو جھیلنا پڑتا ہے اور یدِ افسوس ملنا پڑتا ہے ۔

تعلیم لڑکیو ں کا بھی حق ہے مگر

یاد رہے دوستی کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم اس کے نام پر فحاشی اور دیگر غلط کاموں کو فروغ دیں بلکہ ہمیں چاہئے کہ ہم دوستی کے ذریعے اپنے معاشرے میں ،ماحول میں میں نئی نئی پہل کریں اور دوستوں کو اسلامی روایات واصول سے آشنا کرائیں اور ان کو دینی امور کی تلقین کریں کیوں کہ دوستی کا حق اسی طریقے سے ادا کیا جاسکتاہے اور بے شک جو بھی اس کی خلاف ورزی کرے گا وہ آخر کو پچھتائے اور اس وقت اس کا پچھتاوا کوئی فائدہ نہیں لائے گا ۔

آج ہمیں دوستی کے صحیح معنوں کو سمجھنے اور اسے عام کرنے ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے درمیان اس کو رائج کیا جاسکے اور ان کی رہروی کی جاسکے ورنہ تو آنے والے دنوں میں محض دوستی ایک برائی کا ذریعہ بن کر رہ جائے گا اور اس کے معانی کو پلیدہ کر دیا جائے گا

جس سے ہمارے معاشرے کو اچھا خاصہ خسارہ اٹھانا پڑے گا کیوں کہ موجودہ دور کے حالات سے ہر کوئی واقف ہے اور دوستی اس کی سدھار میں ایک نیا کردار ادا کر سکتا ہے بس دیری ہے تو ہمارے ذمہ دار ہونے اور نئے طریقے سے دوستی کو نبھانے کی فقط اتنا ہی باقی آپ کی اور ہم سب کی اعلی ظرفی ہمارے لئے ایک نئے انقلاب کی سیڑھی بن سکتی ہے ۔

سیف علی شاہ عدمؔ بہرائچی

متعلم جامعہ دارالہدی اسلامیہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *