وہ بادشاہ کسی کا غلام لگتا ہے

Spread the love

وہ بادشاہ کسی کا غلام لگتا ہے

فرحان بارہ بنکوی 

قبلۂ اول، مسجد اقصی اور ارضِ مقدس اہلِ اسلام کے جس قدر اہمیت کی حامل ہے وہ کسی سے مخفی نہیں؛ بلکہ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ یہود و نصاری کے نزدیک بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے؛ لیکن موجودہ وقت میں صیہونیت زدہ لوگ جس قدر اس کی پامالی کر رہے ہیں وہ بھی واضح ہے۔ 

قبلۂ اول کے انہدام اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا خواب دیکھنے والوں نے بیت المقدس کی تخریب کاری میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا ہے؛ جب کہ اہل فلسطین مسجد اقصی اور بیت المقدس کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں اور اسرائیلی بربریت کا دنیا کھلی آنکھوں مشاہدہ کر رہی ہے۔

امریکا جو امن کا سفیر اور انسانیت کا پیامبر بنا پھرتا ہے، اس نے معصوم بچوں کے قتل کے لیے اپنے آلات و اسلحہ جات اور بم و بارود کے ذخائر اسرائیل کے قدموں میں بزبانِ حال یہ کہتے ہوئے ڈال دیے ہیں کہ میں نے تو لا تعداد معصوموں کی جانیں لے کر امن پسند ہونے کا شرف خطاب حاصل کر لیا ہے، اب حضور آپ بھی امن پسند اور انصاف پرور ہونے کا خطاب حاصل کر لو۔ 

جہاں ایک طرف صہیونی حکام ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں، تو وہیں عرب ممالک کے سربراہان منہ میں دہی جمائے اپنی عیاشیوں میں مست و مگن ہیں ۔ ایک طرف فلسطینی مسلمان مسجدِ اقصی کے تحفظ کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں تو دوسری طرف صیہونیت زدہ عرب حکام ریاض سیزن میں مست و مگن ہیں اور رقص و سرور کی محفل سے لطف اندوز ہو رہے۔ 

عرب سربراہان کی مشترکہ میٹنگ میں صرف مذمتی قرار دادیں پاس ہو رہی ہیں۔ ایران جو جو فلسطین کی نام نہاد خیر خیرخواہی کا دم بھرتا ہے، تاریخ کی روشنی میں ہمیشہ سے منافقانہ کرداد کا مالک نظر آتا ہے۔

ایران کا کردار صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہے کہ وہ صرف زبان کی حد تک حمایت کا فریضہ انجام دے کر اسلامی ریاستوں کو تباہ کرانے کا مجرم رہا ہے۔ ایران کی تقیہ کی پالیسی نے جس قدر اسلامی ممالک کو نقصان پہنچایا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ 

اس کو بھی پڑھیں :    خلیجی ممالک چاہتے ہیں غزہ پر اسرائیل کا  قبضہ

ارضِ مقدس اور قبلۂ اول کی آزادی کے لیے فلسطین اور اسرائیل کی لڑائی پچھلی ستر دہائیوں سے جاری ہے، کبھی وقفہ ہو جاتا ہے تو کبھی مزاحمت شدت اختیار کر لیتی ہے۔

۷؍ اکتوبر کو حماس نے یکبارگی ان پر دھاوا بولا، جو سات دہائیوں کے مسلسل ظلم کا جواب تھا، جس کے نتیجے میں حالیہ جنگ چھڑ گئی؛ گرچہ اس سے فلسطینیوں کا جانی و مالی کافی نقصان ہوا ہے

لیکن اس سے ظالم و متکبر اسرائیل کے بلند بانگ دعوے چکنا چور ہو کر رہ گئے۔ ان کا محفوظ ریاست کا دعوہ کھوکھلا ثابت ہوا اور دنیا بھر سے لا کر بسائے گئے صہیونی، اسرائیل چھوڑنے پر مُصِر ہیں

جس سے اسرائیلی حکام اور ظالم صہیونی تنظیمیں بھوکھلائی ہوئی ہیں اور اسی بوکھلاہٹ کے نتیجے میں نا جانے کتنے بے گناہ فلسطینیوں پر بم برسائے جاتے ہیں؛ لیکن مسلم حکمران کی خاموشی ان کی یہود نواز پالیسی کو اجاگر اور ان کی غلامی کو طشت از بام کرتی ہے۔ 

جہاں عالم اسلام اپنے ایمانی بھائیوں کی دل سوز تصاویر، ان کی آہ فغاں کی بنا پر کی بنا پر ہر پل سوزش قلبی کا شکار ہیں، تو وہیں مغربی تہذیب کے پروردہ امریکا کے غلام اور اسرائیل کے ایجنٹ رقص و سرور کی محافل کا انعقاد کرکے امتِ مسلہ کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کر رہے ہیں۔ 

کل بروزِ حشر حکامِ عرب اور سربراہانِ ممالک نبی ﷺ کے حضور پیشی پر کیا عذر بیان کریں گے؟

اگر نبی ﷺ نے پوچھ لیا کہ کیا تم تک میرا فرمان ’’ تمام مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں‘‘ نہیں پہنچا تھا ؟ تم نے میری امت کے درد کے درماں کے لیے کیا اقدامات کیے؟

اقتدار پر قابض رہنے اور عملی اقدام کی حالت میں ہونے کے باوجود کیوں ظالم کے مدد گار بنے رہے؟

تو کیا جواب ہوگا؟ امریکہ و اسرائیل کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے میں فخر و مباہات محسوس کرنے والے عرب حکام کون سا عذر پیش کریں گے؟  موجودہ وقت کے عرب حکام صیہونیت زدہ ہیں، ان کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت میں بالواسطہ یا بلا واسطہ یہود و نصاریٰ کا کرداد رہا ہے۔

صیہونیت زدہ عرب حکام امریکہ و اسرائیل کی خشنودی کے حصول کے لیے لا تعداد مسلمانوں کا خون بہہ جانے پر بھی خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور اپنے آقاؤں کے خلاف ایک لفظ بھی بولنے کی ہمت نہیں کر پاتے؛ ان کے نزدیک مسلمانوں کی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ؛ بلکہ خونِ مسلم دنیا کی سب سے ارزاں شے ہے۔ 

AnsariMFarhaan@gmail.com

One thought on “وہ بادشاہ کسی کا غلام لگتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *