نیکی کر فیس بک میں ڈال
نیکی کر فیس بک میں ڈال
آپ نے وہ کہاوت تو ضرورسنی ہوگی ’’نیکی کر دریا میں ڈال ‘‘یعنی ہمیں صدقہ وخیرات کا کام کچھ اس طریقے سے کرنا چاہیے کہ ایک ہاتھ سے دیں اور دوسرے ہاتھ کو خبر بھی نہ ہو ۔ہم میں بہت سارے لوگ یہ کہاوت سنتے ہیں تو مگر آج بھی اس کا مطلب نہیں جانتے ۔
خیر یہ سب با تیں ایک طرف ۔صدقہ وخیرات ایک مالی عبادت ہے جو ہر مسلمان نہیں کر سکتا بہر حال جو اس کی اتطاعت رکھتے ہیں وہ ادا کریں اور ان شاء اللہ اس کا ثواب انہیں ضرور ملے گا ۔
رسول اکرم ﷺنے فرمایا کہ قیامت کے دن جب اللہ کے رحم وکرم کے علاوہ کسی اور چیز کا کوئی سایہ نہ ہوگا تب اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے سات قسم کے لوگوں کو اس سائے کی رحمت عطا فرمائے گا …انہیں سات بندوں میں سے ایک بندہ وہ ہے اس طرح صدقہ وخیرات دیتا ہو کہ اگر داہنے ہاتھ سے صدقہ دے تو اس کے بائیں ہاتھ کوبھی خبر نہ ہو ۔
اب ہمیں اس بات کو کسی فلسفہ کی طرح لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ اس عمل میں ریاکاری سے احتراز کرنا لازم ہے ورنہ یہ سارا کا سارا کام یوں ہی دھرا رہ جائے گا اور بروز قیامت اس کے منہ پر مار دیا جائے گا ۔مطلب یہ کہ صدقہ وخیرات کرتے وقت دکھاوے سے بچنا ہی اصل ہے ورنہ تو دکھاوے کی لالچ میں لوگ کیا کچھ نہیں کرتے مگر ان سب سے انہیں کوئی فائدہ میسر نہیں ہوتا بلکہ وہی صدقہ ان کے لئے عذاب ِ عظیم کا باعث ہوجاتا ہے ۔
کہنے ارو سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آج کل ہمارے معاشرے میں ایک نیا ٹرینڈ آیا ہے اور وہ یہ کہ’’ نیکی کر اور فیس بک پر ڈال ‘‘اب اس کا مطلب یہ نہ لیں کہ فیس بک ہی نہیں بلکہ اب تو دیگر سوشیل میڈیا پر بھی ایسا ہی کیا جاتا ہے کیونکہ فیس بک سے یہی مراد ہے ۔
موجودہ حالات بڑی تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں ،لوگ بھائی چارگی ،محبت والفت ،رحم وشفقت کو چھوڑ کر قطع تعلق ،دشمنی ،عناد اور بغض وکنہ کے شکار ہو رہے ہیں مگر اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ انہیں ان سب باتوں کا کوئی احساس بھی نہیں اور وہ اس کو محسوس کرنے کے بارے میں کوئی بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے ۔
آج ہر شخص ترقی کی پیاس لئے یہاں سے وہاں گھوم رہا ہے اور بے شک ترقی کرنا کوئی غلط بات نہیں لیکن اگر انسانیت کی پامالی کرکے ترقی کی جارہی ہو تو یہ نہ صرف شریعت کی مخالفت ہے بلکہ یہ تو پوری انسانیت کے مقام غور وفکر ہے ۔
لوگ ترقی کے نام پر ایک دوسرے کا حق مارنے سے بھی باز نہیں آتے ،بھائی بھائی کے خلاف ،بہن بہن کے مخالف ہے ،اولاد ماں باپ کی عزت وآبرو کی کوئی فکر نہیں کرتے اور نہ ہی کبھی اس کے بارے میں سوچتے ہیں ۔پس اس طرح کی ترقی سے باز آنا ہی ترقی ہے ۔ایسے پر آشوب وپر فتن ماحول میں جہاں کوئی کسی کا نہیں ,بنا فائدے کے کوئی کسی سے رشتہ داری نہیں رکھنا چاہتا ،جہاں رشتوں کا معیار دولت ہے ،جہاں انسانیت سے زیادہ فوقیت مال ودولت کے ماتحت مرکوز ہے۔ بقول شاعر ہر اک رتشے کی اب بنیاد بس مطلب ہی مطلب ہے
نہیں کہتا ہے ہمیں کوئی بھی بے کار میں اپنے اب ہر کوئی شہرت یافتہ ہونے کی کوششیں کر رہا ہے ،ترقی کرنا چاہتا ہے ،خود کو زندگی میں ایک بلند وبالا مقام پر دیکھنے کا خواہش مند ہے اور اس کے لئے اسے جوکچھ کرنا پڑے کرتا ہے ۔
تعلیم لڑکیو ں کا بھی حق ہے مگر
آج سوشیل میڈیا پر ہرقسم کے مشہور لوگ مل جائیں گے ،کوئی مزاحیہ نگاری کی وجہ سے ،کوئی شعر وشاعری کی وجہ سے،کوئی سماج کی خدمت کی وجہ سے ،کوئی سیر وتفریح کے ویڈیوز بنا کر ،کوئی لوگوں کو رلا کر ،کوئی موٹیویشن کے نام پر لوگوں کو جذبہ دے کر ،کوئی الگ الگ طرح کے پکوان بنا کر وغیرہ وغیرہ ۔
انہیں میں سے ایک طرح کے وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی مدد کے لئے ہر گھڑی تیار رہتے ہیں،ان کے گھروں کی تعمیر میں مدد کرتے ہیں ،ان کی مالی مدد کرتے ہیں،ان کے ساتھ مل کر ان کا غم بانٹ لیتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔میں یہ نہیں کہتا کہ سب غلط ہیں اور بے شک ان کاموںمیں بالعین کوئی قباحت نہیں بلکہ یہ تو انسانیت کے لیے فخر وناز کی باتیں ہیں
مگرجہاں تک میرا خیال ہے کہ یہ ساری بھلائیاں اور کار خیر دکھا دکھا نہیں بلکہ چھپا چھپا کر کرنا چاہئے اور ہمارا اسلام بھی ہمیں یہی مشورہ اور اسی کا حکم دیتا ہے جس کا کوئی انکار نہیں ہے ۔ آج کل کوئی بھی ایک بھی نیکی کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچتا ہے کہ چلو اسے کرتے تو ہیں لیکن اس سے ہمارا فائدہ بھی ہونا چاہیے اس لیے اس کی ایک ویڈیو بنا لیتے ہیں
اور اسے سوشیل میڈیا پر شیر کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی طرف سے لائک اور کمینٹ ضرور ملے بس یہی سوچ ہمیں اندر ہی اندر کھوکھلی کرتی جارہی ہے مگر ہمیںاس بات کوئی خیال نہیں ۔نیکی کر کے اسے دریا میں ڈالنا ہی صیحح ہے کیونکہ اسے اگر ہم لوگوں کے درمیاں بتائیں تو اس کے بہت سے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں
جیسے کہ لوگ ہمارے بارے میں یہ گمان کرنا شروع کردیں گے کہ ’’ارے یہ تو دکھاوا کرتا ہے اور کچھ نہیں ،اس کا مقصد کی کسی مدد کرنا ہر گزنہیں ہے بلکہ یہ سب تو لوگوں کی ہمدردیاں جمع کرنے کا ایک بہانا ہے اور کچھ نہیں …وغیرہ وغیرہ ‘‘۔وہ کہتے ہیں ’’اتقو ا مواضع التہم ‘‘یعنی ان جگہوں سے روگردانی کرو جہاں سے تہمت لگنے کا ذرا سا بھی شائبہ ہو ۔فیس بک اور دیگر سوشیل میڈیا مقام جہاں صرف اور صرف دکھاوے کے کارنامے اور جھوٹوں پر مبنی باتوں کو نشر کیا جاتا ہے ان جگہوں سے حتی الامکان گریز کرنا ہی صحیح ہے
ورنہ تو اسکا خمیازہ کافی خطرناک ثابت ہونے والا ہے اور یہی حقیقت ہے جس کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ۔ بہت سارے لوگوں سے جب موضوع پر بحث کی جاتی ہے اور انہیں اس کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ اس طرح جواب دیتے ہیں
’’بھائی صاحب ! ہمارا مقصد ریاکاری یا دکھاوا کرنا نہیں ہے بلکہ ہم تو ہمارے کارِ خیر کو سوشیل میڈیا پر اس لیے ڈالتے ہیں تاکہ لوگ ہمارے اس کاکارنامے سے سبق سیکھیں اور حتی الامکا ن وہ بھی اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور لوگوں کا کیا وہ تو کچھ نہ کچھ بولتے ہی رہیں گے تو کیا ہم ان کے خوف سے خود کے اچھے کاموں کو کرنا چھوڑ دیں ؟وغیرہ وغیرہ ‘‘…
ایک حساب سے دیکھا جا ئے تو ان کی یہ بات صحیح ہے مگر اس با ت کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ایسے لوگوں کی تعداد اب بہت ہی کم بچی ہے جو اس طرح کی سوچ کے ساتھ کام کرتے ہیں ۔
اور جہاں تک بات رہی کہ ان کے اس کام سے دوسرے لوگ بھی ان کی طرح کرنے کے بارے میں سوچیں اور ان کے جذبات میں اچھائی کرنے کی کوئی سوچ پیدا ہوگی تو یہ سب باتیں محض باتیں ہی ہیں ان کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ کرنے والے تو یوں ہی سکتے ہیں اور نہ کرنے والوں کو تم کتنا بھی سمجھا ؤ ،کتنا بھی کچھ بھی کرکے دکھاؤ ان کے دلوں پر کوئی اثر نہیں ہونے والا۔
مالحاصل بات یہ کہ ’’نیکی کر دریا میں ڈال ‘‘ اس کہاوت کو اسی طرح باقی رہنا چاہیے نہ کہ یہ کہہ کر کہ دنیا ترقی کررہی ہے ،ہرشئی میں تبدیلی ضروری ہے اس لیے میں بھی تبدیلی لانا چاہیے اور اس کہاوت کو ’’نیکی کر اور فیس بک میں ڈال ‘‘کر دینا چاہیے تو یہ کسی بھی اینگل سے ٹھیک نہیں بلکہ یہ سب محض ایک بے وقوفی ہے اور اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ۔خلوص اور تقوی ہی وہ مادہ ہے جس سے تمام اعمال کا جائزہ لیا جاتا ہے
اور اسی کی بنیاد پر ان کے جزاء تیار کئے جاتے ہیں ۔وہ لوگ جو مخلصانہ نیت کے ساتھ اس کام کو انجام دیتے ہیں اور اپنے اس کام سے دوسروں کو بھی خوابِ غفلت سے نکال کر نیک راہی ومسافر بنانا چاہتے ہیں تو بے شک ان کے اس کام میں کوئی برائی نہیں مگر تب بھی احتیاطا انہیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اپنے کاموں میں دکھاوے کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی پائے ورنہ ان کے سارے کے سارے ان کے منہ پر مار دئے جائیں گے ۔
سیف علی شاہ عدمؔ بہرائچی
متعلم جامعہ دارالہدی اسلامیہ ،کیرلا