ایک مظلوم و عاجز بچے کی دعا اپنے شہر فلسطین کے لیے
ایک مظلوم و عاجز بچے کی دعا اپنے شہر فلسطین کے لیے
نظم ::—— زارا طیب قاسمی جمشیدپوری
میں ایک ننھا سا ہوں بھکاری
تمہارے در پر کھڑا ہوا ہوں
میرے خدایا، مجھے بچا لے
تیری زمیں ہے…. ترے ممالک
تو سارے جگ کا ہے تنہا خالق
میرے خدایا
تو جانتا ہے
میں ایک بےبس و بے سہارا
ہوں اس وطن کا میں رہنے والا
جہاں کبھی ترے انبیا کا
ہوا اشارہ
فرشتے نازل ہوئے جہاں پر
وحی بھی اتری اسی زمیں پہ……
اس وطن کی سر زمیں پر
قدم مبارک
ہمارے آقا کے پڑ چکے ہیں
وہی وطن ہے
قرآن میں جس کا ذکرآیا
وہ منکشف سب پہ ہو رہا ہے
وہ دِکھ رہا ہے
ہوئی ہے سچ ساری پیشن گوئی
میں مانتا ہوں اے میرے مولا
میرے وطن میں جو ہےتباہی
شہید بہنیں شہید بھائی
ہر ایک سو
صرف خون ریزی
لہو کا دریا سا بہہ رہا ہے
بہن ہماری ردا لٹا کر
گنوا کےعزت
موت کو خود گلے لگایا
جوان بھائی نے جاں گنواں دی
ہوا ہے مقتول کنبہ سارا
کیا گیا مجھ کو
بے سہارا
لہو میں ڈوبا میں چیختا ہوں
کوئی مسیحا ادھر تو آئے
کبھی تو ظلم و ستم سے اک دن
ہمیں بچائے
اسیرِ رنج و الم بہت ہیں
معاف کر دے
نجات دے دے
اے میرے مولا
میں ہوں بھکاری
میں ترے آگے
بلند ہیں خالی ہاتھ میرے
خدا تجھی سے میں مانگتا ہوں
میرے وطن کے
جابروں کو
مٹا دے مو لا
مرے وطن کو بچا لے مولا
مرا شہر دیکھ آج پھرسے
جل رہا ہے
یہ آگ پل میں بجھا دے مولا
ہر ایک سو شہر جل رہا ہے
کہاں ہیں دنیا کے کلمہ گو سب
سہم گئے ہیں
کیا مصلحت ہے
کوئی اپنی مدد کو آئے
کوئی تو اٹھّے؟ جو ظلم جورو جفا مٹائے ……
کہاں ہیں وہ کلمہ گو مسلماں
کوئی تو ائے.
جو فتح یابی ہمیں دلائے
اے میرے مالک میں ہوں بھکاری
تمہارے در پہ کھڑا شکستہ
میں مانگتا ہوں پناہ تیری
میرے وطن کو بچا لے مولا
میں *شام* کا اک غریب بندہ
میں امن کا طالب
مرے وطن کو قدیم جیسا وطن بنا دے،
محبتوں کا چمن بنا دے