بات طاقت نہیں غیرت ایمانی کی ہے
بات طاقت نہیں غیرت ایمانی کی ہے !
غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
پہلا منظر نامہ
آج سے تقریباً تیرہ صدی پہلے سندھ کے راجا داہر کے کارندوں نے حجاز جا رہے مسلمانوں کے ایک بحری جہاز پر حملہ کیا۔ساز و سامان لوٹا اور مسافروں کو قید خانہ میں ڈال دیا۔مسافروں میں مردوں کے ساتھ کچھ خواتین بھی شامل تھیں جو علاقہ سراندیپ سے اپنے وطن جارہی تھیں لیکن شومی قسمت سے ظالموں کے نرغے میں گھر گئیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب عبد الملک بن مروان(متوفی 86ھ) خلیفہ وقت اور حجاج بن یوسف ثقفی(متوفی 95ھ) عراق کا گورنر ہوا کرتا تھا۔مسافروں میں سے کسی طرح دو لوگ داہر کی قید سے بھاگ نکلنے میں کامیاب رہے اور اس طرح اس حادثہ کی خبر عراقی گورنر حجاج بن یوسف تک پہنچ گئی۔
یوں تو حجاج بن یوسف کا شمار تاریخ اسلام کے انتہائی سفاک، ظالم اور بے رحم حاکم کے طور پر کیا جاتا ہے۔اس کے دامن پر ہزاروں صلحا کے خون ناحق کے دھبے ہیں، لیکن حادثہ سندھ کی خبر نے اس کی غیرت ایمانی پر شدید ضرب لگائی۔دشمنوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی توہین اسے قوم مسلم کی توہین محسوس ہوئی۔اسے لگا جیسے چند مسلمانوں کی نہیں قوم مسلم کی توہین کی گئی ہے۔
غیرت ایمانی اور ملی جذبات سے سرشار حجاز نے اولاً راجا داہر کو مکتوب لکھ کر مسلم خواتین کی رہائی کا مطالبہ کیا۔داہر کے رعونت آمیز جواب نے حجاج کو برانگیختہ کر دیا اور اس نے اپنے 17 سالہ بھتیجے محمد بن قاسم (متوفی 95ھ) کو چھ ہزار کا لشکر دے کر سندھ کی مہم پر روانہ کیا تاکہ راجا داہر کو سبق سکھایا جا سکے۔
محمد بن قاسم نے نو عمری کے باوجود محض چھ ہزار کی فوج کے ساتھ راجا داہر کی تین گنا زیادہ فوج کو شکست دے کر مسلم خواتین کو اس کی قید سے آزاد کرایا اور ساری دنیا کو ایک واضح پیغام دیا کہ؛
“کوئی بھی مسلمان کہیں بھی تنہا نہیں ہے، اگر کسی نے مسلمان پر ذرہ برابر بھی ظلم کیا تو سلطنت اسلامیہ اسے گھر میں گھس کر نشان عبرت بنا دے گی۔ “
درسِ نظامی : نصاب میں تبدیلی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے
ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں موجودہ مرکزی قیادت کو اچھے ناموں سے یاد نہیں کیا جائے گا
احتجاجی جلوس سڑک پر نہیں بلکہ مسلم محلوں تک محدود رکھاجائے
علماےکرام انداز خطابت پر توجہ دیں
موجودہ سیاست کو مذہب کا رنگ نہ دیا جائے
کشمیری تعزیے اور پس ماندہ مسلمان
کجا ماند مسلمانی
دوسرا منظر نامہ
آٹھ اکتوبر 2023 کو اسرائیلی جارحیت کے خلاف فلسطینی تنظیم حماس نے حق دفاع استعمال کیا۔جواباً اسرائیل نے اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ کمزور اور نہتھے فلسطینیوں پر حملہ بول دیا۔اب تک دو ہزار سے زائد مردو خواتین، سیکڑوں بچے، ہزاروں رہائشی مکانات، درجنوں اسپتال اور کئی اسکولوں کو میزائلوں کے ذریعے تباہ کر دیا گیا ہے۔
غزہ کی بجلی سپلائی کاٹ دی گئی۔ اناج وغیرہ کی ترسیل کے راستے بھی بند کر دئے گیے ہیں۔اسرائیلی جارحیت کا یہ عالم ہے کہ وہ غزہ پٹی کے رہائشی علاقوں پر فاسفورس بموں تک کا استعمال کر رہا ہے
جب کہ انسانی آبادی کے خلاف حالت جنگ میں بھی فاسفورس کے استعمال پر سخت پابندی ہے لیکن اسرائیل تمام تر عالمی ضابطوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اہل فلسطین کی نسل کشی پر آمادہ ہے۔موجودہ صورت حال انتہائی سخت ہے۔ فلسطینی مسلمانوں پر یہ کوئی پہلا حادثہ نہیں ہے۔ظلم وتشدد کا یہ سلسلہ 1948 میں قیام اسرائیل بل کہ اس سے پہلے سے ہی چلا آرہا ہے۔
اس درمیان لاکھوں فلسطینی مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ہزاروں دودھ پیتے بچوں نے جام شہادت پیا۔ہزاروں ماؤں کی کوکھ اجڑی۔
لاکھوں فلسطینی بے وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔مگر 75 سال کی چیخ و پکار کے باوجود کرہ ارض پر موجود ستاون مسلم ممالک کے حکمرانوں کے کانوں تک فلسطینیوں کی چیخیں اور یہودیوں کے حقارت آمیز قہقہے نہیں پہنچ سکے ہیں۔غزہ کے دو طرف اسرائیلی سرحد، ایک طرف سمندر اور ایک طرف مصر ہے۔
اسرائیل تو اپنی سرحدیں کھول ہی نہیں سکتا افسوس مصری حاکموں پر ہے جنہوں نے سخت ترین بربادی کے وقت بھی فلسطینیوں پر سرحد پوری طرح بند کر رکھی ہے۔
فلسطینی مصری سرحد پار کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو مصر کی مسلم فوجیں اپنے ہی مسلم بھائیوں پر گولیاں برساتی ہیں۔اس طرح فلسطینی مسلمان چاہ کر بھی کہیں باہر نہیں نکل سکتے۔آسمان سے برستے اسرائیلی بموں کے شور میں غزہ پٹی کے مکانات کھنڈرات میں بدلتے جارہے ہیں۔صاف وشفاف آسمان دھواں دھواں ہے اور فلسطینی شہدا کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔
فرق غیرت کا ہے
دونوں منظر ناموں پر غور کریں اور کچھ بنیادی چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کریں :
🔸دونوں منظر ناموں کے درمیان تیرہ صدی یعنی 1312 سال کا فاصلہ ہے۔
🔹اُس وقت سلطنت اسلامیہ کے طور پر سلطنت بنو امیہ ہی موجود تھی۔
🔸اِس وقت مسلم سلطنتوں کے نام پر ستاون ملک موجود ہیں۔
🔹 اُس زمانے میں سندھ اور عراق کے درمیان تقریباً 3500 کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ تھا۔
🔸آج فلسطینی سرحد سے مصر، لبنان، سیریا اور جارڈن کی سرحدیں بالکل ملی ہوئی ہیں۔لیکن کل غازیان عرب ساڑھے تین ہزار کلومیٹر تک چلے آئے تھے، جب کہ آج عربوں سے چند قدموں کا فاصلہ طے نہیں ہو رہا ہے۔
🔹اہل عرب کے لیے سندھ ایک اجنبی اور نامانوس علاقہ تھا۔زبان، بود وباش اور رہن سہن سب کچھ مختلف تھا۔
🔸 فلسطین کے ہمسایہ مسلم ممالک کے لیے سب کچھ دیکھا بھالا ہے۔زبان/ماحول اور راستوں تک سے شناسائی ہے۔
🔹 سندھی حکومت ایک مضبوط اور علاقائی اعتبار سے انتہائی طاقت ور حکومت تھی جب کہ محمد بن قاسم کی فوج کافی کم اور کمزور تھی۔
🔸 اسرائیل طاقت ور تو ہے لیکن اتنا بھی نہیں جیسا پروپیگنڈہ کیا جاتا حماس کے حالیہ حملوں نے اس کی طاقت اور انٹیلی جنس کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
🔹محمد بن قاسم کی فوجی تعداد راجا داہر سے تین گنا کم تھی، جنگی ساز و سامان کا بھی یہی حال تھا۔
🔸 آج مسلم دنیا کے پاس 57 ممالک، 50 لاکھ فوج، گیس اور تیل کے 14 ذخائر اور ایٹمی طاقت بھی موجود ہے۔
🔹محمد بن قاسم کی فوج کے لیے تبدیلی موسم اور صعوبت سفر کی ذہنی مشکل بھی ایک مسئلہ تھی۔
🔸 اُنہیں ہنگامی صورت حال میں کسی مدد یا رسد کی کوئی امید نہیں تھی۔جب کہ آج مسلم ممالک کے سامنے ایسی کوئی پریشانی نہیں ہے۔
ان تمام تر ذہنی/جسمانی مشکلات کے باوجود محمد بن قاسم کے غیرت مند غازیوں نے اپنی بیٹیوں کی عزت کی خاطر عرب سے عجم تک 3500 کلومیٹر طویل سفر کی تکلیفیں برداشت کرنا گوارا کیا لیکن مظلوم اور بے بس مسلمانوں کو ظالموں کے رحم وکرم پر چھوڑنا ان کی غیرت نے گوارا نہیں کیا۔
اس لیے راستے کی تکلیفیں ان پر اثر ڈال سکیں اور نہ ہی موسم کی تبدیلی ان کی ہمت کو کمزور کر سکی۔اجنبی ملک اور ناشناسا ماحول میں بھی انہوں نے ایمانی قوت کے دم پر مغروروں کا غرور کچل کر رکھ دیا تھا۔
اُس دور کے مقابلے آج مسلم ممالک تمام تر آسائشوں/سہولتوں/فوجی کثرت اور ایٹمی طاقت کے حامل ہیں۔اس کے باوجود اگر فلسطین کے مٹھی بھر جیالے ہی قبلہ اول کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں تو فرق جنگی آلات/فوجی قوت اور کثرت وگنتی کا نہیں بل کہ غیرت ایمانی اور ملی حمیت وخود داری کا ہے۔تیرہ سو سال پہلے غیرت ایمانی زندہ تھی تو عربوں نے ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کی مسافت کو ناپ کر رکھ دیا تھا
آج وہ غیرت مردہ ہو چکی ہے اسی لیے چند قدموں کا فاصلہ ناپنے میں بھی پسینے چھوٹ رہے ہیں۔ایک ہفتے سے فلسطین کی فضا دھواں دھواں اور بموں کے شور سے لہو لہان ہے۔مصر/سعودی/جارڈن اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک اسرائیل کے ساتھ ہیں۔کل جمع گنتی کے دو چار ملک ہی ہیں جو زبانی طور پر ہی سہی فلسطین کی حمایت کا دم بھر رہے ہیں
مگر مسلم حکمرانوں کی اکثریت پوری طرح خاموش ہے۔نہ حجاج سی غیرت ہے، نہ محمد بن قاسم سی ہمت! ارض فلسطین محمد بن قاسم اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے وارثوں کو مسلسل آواز دے رہی ہے:
ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصی تیرا