حدیث مصطفی میں اسلامی معاشرہ اور احترام مسلم

Spread the love

محمد مجیب احمد فیضی،بلرام پوری حدیث مصطفی میں اسلامی معاشرہ اور احترام مسلم

حدیث مصطفی میں اسلامی معاشرہ اور احترام مسلم

اسلام نے معاشرے کے افراد کو باہم مل جل کر رہنے،تعلقات خوش گوار رکھنے، بھائی چارگی کا برتاؤ کرنے اور ایک دوسرے کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت اوراحترام کرنے کا محکم تعلیمات پیش کی ہیں اور ایسے تمام ذرائع سے روکا ہے جن سے انسانی حقوق متاثر ہوتے ہوں،

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

“مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں اس لیے اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے”۔ (الحجرات)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

کسی مسلمان کے لیے اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک تعلق جائز نہیں۔ (ابوداؤد)

آپ فرماتے ہیں:آپس میں حسد نہ کرو نہ ایک دوسرے سے منہ موڑو،نہ باہم بغض رکھو اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ (بخاری)

آیت قرآن اور ان احادیث کریمہ سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو معاشرے میں آپسی تعلقات ہمیشہ خوش گوار رکھنا چاہیے اور بھائی چارے کا برتاؤ کرنا چاہیے،اگر معاشرے میں کبھی کسی سے اختلاف ہوجائے تو معاشرہ کےوہ افراد جن کی حیثیت ایک ضمہ دار کی حیثیت ہےان حضرات کا فریضہ یہ بھی ہے کہ آپس میں صلح کرادیں تاکہ معاشرہ ہمیشہ پر امن رہے، اور صلح ومصالحت یہ فقط خوف خدا کی بنیاد پر ہو۔

باہمی تعلقات کو مزید خوشگوار اور بہتر بنانے کے لئے شریعت مصطفی نے یہ بھی اصول بنائیں ہیں کہ کسی فرد کی عیب جوئی نہ کی جائے، نہ کسی کا مذاق اڑایا جائے،کسی کو برے نام سے یاد نہ کیا جائے، بدگمانیوں سے اجتناب کیا جائے، کسی کی ٹوہ میں نہ لگا جائے اور نہ کسی کی غیبت کی جائ

، یہ مذموم خصلتیں مسلم معاشرہ کے افراد کے باہمی تعلقات کو تار تار کرنے میں کافی حدتک مضر ثابت ہوتیں ہیں،ان کی موجودگی میں ایک مسلم معاشرہ کبھی بھی خوشگوار اور صحت مند نہیں ہوسکتا اسی لئے ان بری عادتوں کو گناہ کبیرہ میں شمار کیاگیا ہے۔اللہ فرماتا ہے:کوئی بھی دوسروں کا مذاق نہ اڑائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہ آپس میں ایک دوسرے کی طعن وتشنیع کرواور نہ برے ناموں سے پکارو۔۔۔۔۔۔ظن سے بچو۔۔۔۔۔۔اور کسی کی ٹوہ میں نہ پڑواور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ (الحجرات)

نبی کے صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی پنڈلیاں،جو بہت پتلی تھیں،دیکھ کر کچھ لوگ ہنسنے لگے،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے یہ میزان میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزن دار ہوں گی۔ (احمد)

حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی عیب گیری نہیں کرتے اور نہ کسی کی ٹوہ میں لگتے تھے۔ (ترمذی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے عیب ٹٹولنے کو منافق کی عادت بتایا ہے،آپ فرماتے ہیں:جس کسی نے کسی کی ایسی بات کان لگاکر سنا جس کو وہ ناپسند کرتا ہو تو قیامت کے روز اس کے کانوں میں سیسہ پلادیا جائے گا (بخاری)

آپ فرماتے ہیں:جس نے کسی کے عیب کی پردہ پوشی کی اس نے گویا زندہ درگور بچی کو زندہ کردیا۔ (ابوداؤد)

ایک بار آپ نے صحابہ سے کہا:تم جانتے ہو غٍیبت کیا ہے؟ صحابہ نے بطور ادب کہا: اللہ ورسول بہتر جانتے ہیں

آپ نے فرمایا:تمہارا اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرنا کہ جسے وہ ناپسند کرے،لوگوں نے عرض کیا:اگر وہ بات اس بھائی میں پائی جاتی ہو،آپ نے فرمایا: اگر بات وہ پائی جاتی ہو تو تم نے غیبت کی ہے،اور اگر نہیں ہےتو تم نے بہتان باندھا ہے۔ (مسلم)

پیٹھ پیچھے کسی کا عیب بیان کرنا قرآن کے کہنے مطابق ضرور گناہ کبیرہ ہے،چنانچہ باری تعالی ارشاد فرماتا ہے:”کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسندکرے گا تم تو اسے ناپسند ہی کرتے ہو”۔ (الحجرات)

ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے ایک شخص باہر چلا گیا،دوسرے شخص نے اس گئے ہوئے شخص کی پیٹھ پیچھے توہین کی بات کی

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خلال کرلو؟اس نے کہا: میں نے گوشت نہیں تناول کیا ہے،آپ نے فرمایا:تم نے اپنے بھائی کا گوشت کھایا ہے۔ (طبرانی)

 

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک بدبو دار ہوا چلی،آپ نے فرمایا:تم جانتے ہو یہ کیسی بدبو ہے؟یہ ان لوگوں کی بدبو ہے جو مومنوں کی غیبت کرتے ہیں۔(احمد)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جنت میں چغل خور داخل نہیں ہوگا۔(متفق علیہ)

مسلم جوانوں کو باہمی معاشرت اور اجتماعی زندگی میں مثبت اصول اخوت کو اپناتے ہوئے ان منفی اور انتہائی مضر کاموں سے حتی الامکان بچنا چاہئیے جب ہی وہ ایک صالح ، پاکیزہ اسلامی معاشرہ قائم کرسکتے ہیں اور اسے اغیار کے لیے نمونہ بنا سکتے ہیں

اس کے ساتھ ایک دوسرے کی عزت وآبروکی حفاظت ،جان ومال کی سلامتی اور ان کا احترام از حد ضروری ہے۔

سرکار دوجہاں نے اپنے اس خطبہ میں جو کہ آپ نےحجۃ الوداع کے موقعہ پردیا ارشاد فرمایاتھا:تمہارے اموال،تمہاری عزتیں اور تمہارے خون تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارا یہ دن تمہارے اس مہینے اور تمہارے اس شہر میں حرام ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:جانتے ہو اللہ کے نزدیک سب سے بڑا سود کیا ہے؟صحابہ نے مودب ہوکر عرض کیا: اللہ ورسول بہتر جانتے ہیں،آپ نے فرمایا اللہ کے نزدیک سے بڑا سود کسی مسلمان کی عزت وآبرو کو حلال کرلینا ہے،پھر آپ نے سورہ احزاب کی آیت کریمہ جو اس کے متعلق وارد ہیں تلاوت فرمائی۔

اسلام نے انسان کو اس قدر محترم قرار دیاہے اور خاص کر رب کی ذات پر ایمان لانے کو کہ ان پر ظلم وزیادتی کرنا یا ان کی زندگی کو نیست ونابود کرنا گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے،اور بعض روایات میں کفر سے تعبیر کیا گیا ہے،

چناں چہ سورہ ماٰئدہ میں ہے: “جس نے کسی کو قتل کیا بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہویا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر ڈالا”۔

اور ایسے ہی ایک دوسرے مقام پر اللہ فرماتا ہے:اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گاتو اس کا بدلہ جہنم ہے،جس میں وہ ہمیشہ رہے گا،اور اس پر اللہ کی غضب اور اس کی لعنت ہے اور اس کے لیے اللہ نے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (النساء)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مسلمان کا خون تین صورتوں کے علاوہ حلال نہیں

( ۱)جان کا بدلہ جان

(۲)شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرنے والا

(۳)دین کو چھوڑ کر جماعت سے جدا ہونے والا،مرتد ہونے والا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:جس نے پہاڑ سے خود کو گراکر خود کشی کرلی وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں گرتا رہے گا،اور جس نے زہر کھا کر خود کشی کرلی وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں زہر پھانکتا رہے گا،اور جس نے لوہے کی کسی چیز سے خود کشی کرلی وہ جہنم میں اسی چیز کے ذریعہ ہمیشہ خود کو زخمی کرتا رہے گا۔ (متفق علیہ)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ خود کشی بھی قتل ہے،اور انسان کو اپنی پیاری سی جان کی تقدس کا خیال کرتے ہوئے

اس سے بچناہی چاہئیے،نیز یہ زندگی کے مسائل سے فرار ہے،اور اسلام نے شدائد برداشت کرنے کی تعلیم دی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:صالح مال صالح آدمی کے لئے بہت بہتر چیز ہے۔

مسلمان جائز طریقے وجائز وسائل سے جتنی دولت چاہے کمائے اکٹھا کرے،اس میں اضافہ کرے اس میں حرج نہیں،دیگر جبری نظاموں کے برخلاف اسلام فرد کی جائز ملکیت کا نہ صرف قائل ہے،بلکہ مختلف قانونی واخلاقی ذرائع سے اس کی حفاظت بھی سکھاتا ہے،چوری،ڈاکہ زنی،غصب،رشوت اور مکر وفریب سے دوسروں کے مال کو حاصل کرنا دین اسلام کے نزدیک بہت بڑا جرم ہے،جس کے لیے ہمارے دین میں بالکل اجازت نہیں بلکہ اس کے لیے سزائیں تک مقرر کرتا ہے

چناں چہ اللہ جل مجدہ الکریم ارشاد فرماتا ہے:چور مرد ہو یاعورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو یہ ان کے عمل کا بدلہ اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا ہے۔ (القرآن)

اور ایک مقام پر ارشادفرماتا ہے: اے ایمان والو !آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے پر نہ کھاؤ الا یہ کہ باہمی رضامندی سے لین دین ہو۔ (النساء)

قارئین کرام ان آیات واحادیث نبویہ سے فرزندان توحید کے اموال وانفس کے مقدس ومحترم ہونے کا اندازہ آپ کو بحسن وخوبی ہو گیا ہوگا اور یہ کہ انہیں کسی غیرجائز طریقے سے مال کھانا یا حاصل کرنا شریعت مطہرہ کے نزدیک جائز نہیں ہے،بلکہ یہ عندالشرع جرم ہے۔

پتہ چلا اور معلوم ہوا کہ ایک پاکیزہ،صالح اسلامی معاشرہ،اسلامی سماج اجتماعی روابط کے لحاظ سے ان حقوق کی ادائیگی اور ان اصولوں کی پابندی سے ثابت وبرقرار رہ سکتا ہے،اور اغیار کے لیے نمونہ بن سکتا ہے۔

رب کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مولی تعالی ہمارے درمیان رشتہ الفت محبت وبھائی چارگی کو ہمیشہ ہمیش قائم ودائم رکھے اور ایک پاکیزہ، صالح اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لیے ہم سب کو شرعی اصولوں پر چلنے کی توفیق بخش۔آمین یا رب العلمین بجاہ سیدالمرسلین۔

محمد مجیب احمد فیضی،بلرام پوری

خادم/دارالعلوم محبوبیہ رمواپور کلاں اترولہ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *