مسلم ممالک کا منظرنامہ

Spread the love

مسلم ممالک کا منظرنامہ

تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی)

حماس اسرائیل جنگ 7/ اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد سے مستقل جاری ہے ، بیچ میں سات دن جنگ بندی رہی اور دونوں طرف سے خواتین اور بچے قیدیوں کا تبادلہ ہؤا بالعموم دونوں ہی فریق نے جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کی 

جنگ کو اب 64/ دن مکمل ہونے جارہے ہیں ، شہداء کی تعداد 16/ ہزار تک پہنچ چکی ہے ، غزہ کی 80/ فیصد آبادی ایسی ہے جو جنگ کی وجہ سے ایک مرتبہ ضرور نقل مکانی پر مجبور ہوئی ہے ۔ مسلم ممالک کس قدر بزدل اور نکمے ہیں ؟ اس جنگ نے اچھی طرح بتلادیا ہے ۔

مسلم ممالک کے اقتدار پر قابض طبقہ کے خلاف اسلام پسندوں کا اٹھ کھڑا ہونا اور بزور طاقت ان بزدلوں اور نکموں کو اقتدار سے باہر کرنا کتنا ضروری ہے ؟ اس جنگ نے مذکورہ ضرورت کے حقیقت ہونے پر بھی مہر ثبت کردی ہے ۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ عالم اسلام میں دو حکومتیں ایسی ہیں جو اسلامی انقلاب کے نتیجے میں وجود میں آئی ہیں ایران اور افغانستان ، حماس اور اسرائیل جنگ میں ایران اگرچہ براہِ راست شامل نہیں ہے مگر خطے میں پھیلی ہوئی اس کی پراکسیز مکمل طور پر شریکِ جنگ ہے اور اسرائیل پر کامیاب حملے بھی کر رہی ہیں

بالفرض اگر ایران میں شہنشاہیت یا سیکولر طاقتیں ہوتی تو وہ ان تمام ”پراکسیز“ کو دہشت گرد تنظیم کہہ کر کالعدم قرار دے دیتی جیسا کہ سعودی عرب مصر اور پاکستان وغیرہ مسلم ممالک نے اخوان المسلمین اور القاعدہ وغیرہ کے ساتھ کیا ہے ۔

ٹھوس اسلامی نظریات کے تحت اٹھنے والی دوسری طاقت جس کا تعلق أہل سنت سے ہے وہ ”تحریک طالبان افغانستان “ ہے ، جس نے اللہ تعالیٰ کی مدد سے” شرک جدید “ کے ٹیکنالوجی والے جھوٹے خدا کو شکست دی ہے ، افغانستان کی طالبان حکومت ایک نوزائیدہ حکومت ہے ابھی امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو پچھاڑ کر بیٹھی ہے مزید برآں افغانستان چالیس سال سے مسلسل حالت جنگ میں تھا ایسی صورت میں طالبان حکومت سے اسرائیل کے خلاف کسی ”اقدامی پیش رفت “کی امید رکھنا بجائے خود خلاف عقل بھی ہے اور طالبان پر زیادتی بھی 

مگر اس سب کے باوجود طالبان حکومت نے نظریاتی سطح پر فلسطین کاز کے ساتھ بڑھ چڑھ کر اظہار یکجہتی کی ہے ، غزہ پٹی کے بارے میں او آئی سی کے اجلاس (منعقدہ 12/ نومبر 2023 بروز اتوار) میں شرکت کرنے کے لئے ارسال کردہ دعوت نامہ کے جواب میں جو بات طالبان حکومت نے کہی ہے شاید پاکستان اور ترکیے سمیت کوئی بھی مسلم حکومت قیامت تک نہیں کہہ سکتی 

طالبان نے او آئی سی کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ اقدامی کاروائیوں کے لیے افواج کہاں جمع کرنی ہیں ، اس کے علاوہ میٹنگوں کا دور ایک بے فائدہ عمل ہے جس میں شرکت سے ہم معافی چاہتے ہیں ۔

مسلم ممالک کے اقتدار پر قابض طبقہ کے بارے میں اسلام پسندوں کا کہناہے کہ یہ تمام کے تمام ”امریکہ کے غلام“ ہیں ، اسرائیل حماس جنگ میں مسلم ممالک کے سربراہان کی بے وزن اپیلیں اور بے فائدہ ”میٹنگوں پے میٹنگ“ کرنے کا رویہ بتلاتا ہے کہ اسلام پسندوں کے موقف میں دم ہے ۔

ایران اور افغانستان نے فلسطین کے تعلق سے جس طرح کا ٹھوس موقف اختیار کیا ہؤا ہے ایسا بے لاگ موقف شاید دیگر مسلم ممالک کبھی بھی اختیار نہیں کرسکتے کیوں کہ یہ سب دو کشتیوں کے سوار ہیں جنکو منافق بھی کہتے ہیں ، یہ سربراہان مملکت اللہ تعالیٰ سے زیادہ امریکہ سے ڈرتے ہیں اور قومی مفاد سے زیادہ خاندانی مفاد کی پرواہ کرتے ہیں ۔

مولانا وحیدالدین خان صاحب مرحوم بڑے ناراض ہوتے تھے جب مسلم سربراہان مملکت کو ”امریکہ کا غلام “ یا ”منافق“ کہا جاتا تھا یا عالم اسلام میں ”قیامِ حکومت الہیہ “ کی بات کی جاتی تھی 

در اصل یہ چیزیں مولانا مرحوم کے نزدیک بے بنیاد ”خیالی امن کی چڑیا “ کے لیے اور اسلام کی نیک نامی کے لیے خطرناک تھیں ۔ مگر حماس اسرائیل جنگ نے ثابت کردیا کہ اسلام پسند حضرات ”مسلم سربراہان مملکت “کے بارے میں جو کچھ بھی کہتے اور لکھتے تھے

وہ بالکل صحیح تھا اور جو مسلح گروپ مسلمانوں کی گردنوں پر مسلط ان طاقتوں کے خلاف کاروائیاں کرتے ہیں وہ جائز کاروائیاں تھیں ناکہ بغاوت یا دہشتگردی ، اخوان المسلمون کے ساتھ سعودی عرب اور مصر نے جو رویہ اختیار کیا اور جس جائز حکومت کو 2013 میں گرایا گیا وہ واضح طور پر امریکہ اور اسرائیل کے اشارے پر تھا ۔

قارئین کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر مصر کے اندر اخوان المسلمون اقتدار میں ہوتی تو یقینی طور پر آج مصر کی سرزمین بھی اسرائیل پر آگ برساتی اور شاید اب تک فیصلہ بھی ہوچکا ہوتا 

مگر افسوس نادان مسلم سربراہان مملکت ہیں جو نکمے ہیں جنہوں نے ایران اور تحریک طالبان افغانستان کی طرح جنگی تیاریاں نہیں کی ، مسلم سربراہان مملکت بزدل ہیں جو قربانیاں دینا نہیں جانتے

جن کو آج ان کی عوام بھی آنکھیں دکھا رہی ہیں امریکہ بھی منہ پھیرے ہوئے ہے اور کوئی ان کی اپیلیں سننے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک عرب ممالک میں ٹھوس اسلامی نظریات کے تحت مکمل انقلاب نہیں آئیگا اور اقتدار پر قابض طبقہ موت کی آغوش میں یا جیلوں میں نہیں ہوگا اس وقت تک کچھ نہیں ہوسکتا ، امن بھی نہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *