یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے !
اردو زباں کے ایک بہت ہی مشہور ہندوستانی شاعر جنہیں ہم راحتؔ اندوری کے نام سے جانتے ہیں ۔ان کی غزل کا ایک شعر ہے
’’ لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں …
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے !‘‘
یہ بداہۃ دیکھنے یا سننے سے مطلقا مزاحیہ شعر لگتا ہے مگر اس کی حقیقت کچھ اور ہے ۔چونکہ شاعر کہتے ہی اسے ہیں جس کے کلام میں ہزاوں مراد جائز ہوں مگر اس کلام کی حقیقت کی واقفیت صرف شاعر اور چند دانا حضرات کو ہو ۔بہر حال شعر عرض کرنے کا مقصدیہ نہیں کہ اس کی تشریح کی جائے بلکہ دل میں چند ایسی باتیں رونما ہورہی ہیں جن پر ہر ایک انسان کا بلا تفریق مذہب و ملت مطلع ہونا بہت ضروری ہے ۔
کیوں کہ شاید میری ان تکالیف و مصائب کو سن کرآدمیت میں انسانیت کا وجود ہونا میسر ہو جائے اور کوئی حل نکل سکے ۔ہمیشہ کسی سرکار کو کوستے رہنا یا برا بھلا کہنے سے کبھی بھی اس سرکار کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ اس سے صرف اور صرف شکوہ گلہ کرنے والوں کا وقت بربادہوتا ہے اور ان کی زبان بے جا گندی ہوتی ہے اور فائدے کے حیثیت سے کچھ بھی محصول نہیں ہوتا ہے ۔
آج ہمارے ملک کی حالت ہے اور کس طرح دن بدن خراب ہوتی ہی جارہی ہے اس سے ہر کوئی واقف ہے۔کبھی کسی مسلمان کو بے جا قتل کر دیا جاتا ہے تو کبھی کسی دلت کے جینے کے حق کو غلط قرار دیتے ہوئے اس کی زندگی چھین لی جاتی ہے ۔
تعجب کی بات تویہ ہے کہ یہ پہلے بھی ہوتا تھا مگر اس کا وجود نا در تھا مگر آج کے حالات با لکل مختلف ہے اب یہ سارے انسانیت کو شرمسار کر دینے والی حرکتیں کھلے عام وارد ہو رہی ہیں مگر کوئی اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت بھی نہیں کر رہا کیوں کہ اسے بھی اپنی جان کی پرواہ ہے ۔ایک سیدھی سی بات ہے کہ ’’ظلم کو بے جا سہتے رہنا بھی ظلم ہے
‘‘یعنی اگر ہم پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیںکہ ہم خاموشی سے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے اس بات کے منتظر رہیں کہ شاید آنے والے دنوں میں سب کچھ صحیح ہو جائے گا بلکہ ہمیں اس کے خلاف حتی الامکان محاذ آرائی کرنی ہوگی تاکہ مکمل نہ سہی تو تھوڑی بہت آسانی تو میسر ہو سکے ۔اب اگر ہم اتنا بھی نہیں کر رہے تو ہم میں اور جو زندہ نہیں ہیں ان میں کوئی خاص فرق نہیں ہوگا اور ہم مردہ قرار دے دئے جائیں گے ۔
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
آئے دن کہیں نہ کہیں سے کوئی دل دہلادینے والی خبریں ہم تک موصول ہوتی ہی رہتی ہیں ۔ہر دن ہم اخبار یہ سوچ کر پڑھتے ہیں کہ شاید کوئی اچھی خبر ملے گی مگر اکثر وبیشتر ہماری قیاس آرائیاں غلط ہی ثابت ہو تی ہیں جن کی وجہ سے اب اخبار سے بھی قطع تعلق کرنے کا دل کرنے لگا ہے ۔دوسروں کی بات تو دور کی ہے میں ہر اکثر دنوں میں جب کسی اردو اخبار میں کوئی مقالہ لکھ کر شائع ہونے کی امید لیکر اخبار دیکھتاہوں تو دل دہل کے رہ جاتا ہے۔
اکثر خبروں کی سرخیاں کچھ اس طرح ہوتی ہیں ’’شرپسندوں کی ایک گروہ نے فلاں مسجد پر حملہ کر دیا جس میں چند مسلمان جاںبحق ہوئے…فلاں علاقے میں ایک مسلمان کو فلاں نے مار دیا …
فلاں شخص نے مذہب کے نام پر قبل کیا اور وہیں اس کی لاش کو جلا کر خاستر کر دیا …فلاں شخص کو گورکشکو کے گروہ نے شبہ میں مار ڈالا …فلاں مقام پر ایک مزار پر شر پسندوں حملہ کیا جس کے بعد ماحول گر م ہو گیا ‘‘بس یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد اتنا ہی برا لگتا ہے جتنا کہ کس اپنے کے اس دنیا چھوڑ کر جانے سے ہوتا ہے اور مقالے کی اشاعت تو وہیں دھرے کی دھری رہ جاتی ہے اور خوشی غم میں بدل جاتی ہے ۔
ان سارے واقعات کو دیکھنے اور سننے کے بعداکثر خیال آتا ہے کہ آخر یہ انسان آخر کب تک یوں ہی ایک دوسرے کی جانوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہیں گے ؟کیا ان کے سینوں میں دل کی جگہ کوئی پتھر نما چیز نصب ہے جس کی وجہ سے ان کو احساس نہیں ہوتا ؟کیا ان کے گھر میں کوئی ماں باپ یا بھائی بہن ہیں ؟کیا انہیں مرنے سے ڈر نہیں لگتا ؟کیا انہیں اس بات کا ڈر نہیں ہوتا کہ کل کو کہیں ان کے ساتھ بھی ایسا کچھ نہ ہوجائے ؟
کیا انہیںاس کام کے معاوضے میں کوئی اتنی بھاری رقم دے دیتا ہے جس کے مقابلے میں انہیں انسان کی جان سستی اور کم لگتی ہے ؟
کیا انہیں آنے والے وقت کا اندازہ نہیں ہوتا ہے ؟کیا انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ کہیں مستقبل میں انسانوں ان کی نسلوں کو اس سے کوئی نقصان ہوگا ؟اس طرح کے بے شمار سوالات دماغ کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں مگر ان کے جواب آج بھی مطلوب ہیں ۔
مسلمانوں کو بے جا ستا کر انہیں خوشی ملتی ہے ،کسی مسلمان کے مر جانے یا قتل ہو جانے سے انہیں مسرت وشادمانی کا احساس ہوتا ہے مگر کیوں؟
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ سب سے پہلے آپ یہ جان لیجئے ایسا ہر غیر مسلم نہیں کرتا بلکہ ایسے گھٹیا کام کرنے کے لئے با قاعدہ جماعتوں کی اشاعت کی گئی ہے اوراس میں ایسے لوگوں کو رکنیت حاصل ہے جو مسلمان اوراسلام کے سخت مخالف ہیں ۔
ایسے لوگ جن کا نعرہ ہی یہ ہوتا ’’اب تو ہمیں ہندوستان سے مسلمانوں کو ختم کرنا خواہ اس کے لئے کتنی بھی مصیبتوں کا سامنا کر نا پڑے ‘‘اب جب ایسے لوگ ہمارے سما ج میں ہمارے بیچ رہتے ہیں تو ہمیں ڈرتو لگے کہ آج نہیں تو کل شاید ہماری باری نہ آجائے اوریہ خوف وڈر بجا ہے ۔
آج بھی ہم پر جب اتنے ظلم ڈھائے جارہے ہیں ہم میں سے چند لوگوں کو اس بات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑ رہا ہے کیونکہ ان کو اس بات کا گمان ہے کہ یہ سب جو بھی واقعات وحادثات پیش آرہے ہیں یہ ان کے ساتھ تھوڑی نہ ہورہے ہیں اور انکا یہی زعم انہیں ایک دن ڈوبو دے گا مگر شاید انہیں اس بات کا علم نہیں …ان بے حس حضرات سے میں بس اتنا کہنا چاہوگا کہ ’’یہ دو تکلیف اب ہماری ہے …
دیکھ لو کل تمہاری باری ہے ‘‘یعنی جب ایک بستی میں آگ لگتی ہے تو وہ دھیرے دھیرے ہی سہی پوری بستی کو خاستر کر دیتی ہے اگر اسے نہ بجھایا جائے تو لیکن اگر اسے وقت رہتے ہی بجھا دیا جائے تو تب تک جتنے لوگوں کا نقصان ہوا تھا بس اتنے ہی کا ہوگا ورنہ تو سبھی کو اس کاخمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ چند سالوں تک ہمیں صرف مسلمانوں کے خلاف ہی یہ سارے حادثات دیکھنے اور سننے کو مل رہے تھے مگر آ ج کے حالات الگ ہیں ۔
جب ہم مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو اپنوں کو خیر احساس ہوتا ہے مگر جن کے اوپر یہ سب نہیں بیت رہی ہے وہ خوش ہیں اور انہیں اس بات کی غلط فہمی کے یہ زیادیاں یہ ظلم صرف اور صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی کیاجائے گا ۔
کیوں کہ آج ہم خود ہی دیکھ سکتے ہیں کہ ہندوستان کے کونے کونے سے دلتوں کے خلاف بھی حادثات کی خبریں ہر کسی تک موصول ہوتی رہتی ہیں جو اس بات کی کھلی دلیل ہے ۔
یاد رکھیے اگر آج میری باری ہے تو کل تمہاری ہے ۔بستی میںآگ لگنے سے ساری بستی خاخستر ہو جاتی ہے لیکن اگر کوئی یہ سوچے کہ میری گھر میں آگ تھوڑی لگی ہے تو یہ صرف اور صرف اس کی حماقت ہے جس سے اسے باز آجانا ہی بہترطریقہ ہے ۔
بالآخر یہ کہ یہ مسلمل پھیل رہی زیادتیوں کے خلاف جتنی جلدی ہو سکے سر بلند کر لینا ہی بہتر ہے کیونہ بے جا ظلم سہنا ہی ظلم ہے ۔ہم سب کو خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان ،سکھ ہو یاعیسائی ،اور جین ہو یا کوئی دیگر مذاہب کا ماننے والا ہو سب کو ایک جٹ ہو کر ظلم کا مقابلہ کرنا چاہئے نہ کہ یہ سوچنا چاہیے کہ’’ مجھ پر نہیںگزر رہی ہے تو میں کیوں کچھ بولو؟
جس پر گزرے وہ جانے ‘‘کیوں کہ اگر ہم یوں ہی خاموشی کے دامن گیر رہے تو اس کاخمیازہ ہمیں توبھگتنا ہی پڑیگا اور ساتھ ہی ساتھ ہماری آنے والی نہ جانے کتنی نسلوں کو بھی اس کا نقصان بر داشت کرنا ہوگا جس کے ذمہ دار صرف اور صرف ہم لوگ ہی ہوں گے ۔
سیف علی شاہ عدمؔ
متعلم جامعہ دارالہدی اسلامیہ ،کیرل
Pingback: تعلیم لڑکیو ں کا بھی حق ہے مگر ⋆ سیف علی شاہ عدمؔ